گرتے لاشے اٹھتے جنازے یرغمال
شہر مگر قاتل آزاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گذشتہ ماہ عدالت عظمیٰ میں”کراچی امن وامان مقدمے “کی سماعت کے دوران پیش
آنے والا وہ منظر ناقابل یقین اور حیرت انگیز تھا،جب جسٹس سرمد جلال عثمانی
نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ آج مرنے والوں کی تعداد کیا ہے؟جواب
میں ایڈوکیٹ جنرل نے فرمایا،جناب آج کا اسکور چھ ہے،جس پر جسٹس سرمد جلال
عثمانی کا کہنا تھا کہ کیا لوگوں کا مرنا میچ اسکورنگ ہے، کیا یہاں چوکے
چھکے لگ رہے ہیں؟قارئین محترم ! جسٹس سرمد جلال عثمانی اور ایڈوکیٹ جنرل
سندھ کے درمیان پیش آنے والا یہ مکالمہ ہے ہمارے ارباب اقتدار اور اُن کے
حواریوں کی بے حسی،لاتعلقی اور شکاوت کلبی کا آئینہ دار ہے،کراچی میں بے
گناہ لوگ مارے جارہے ہیں،روزانہ دس سے بیس افراد کا قتل معمول بن چکا
ہے،نامعلوم قاتل شہر میں دندناتے پھررہے ہیں،کوئی انہیں روکنے والا
نہیں،شہر یرغمال مگر قاتل درندے آزاد،میرا عروس البلاد اجڑ رہا ہے مگر
حکمران گونگے بہرے اور اندھے تماشائی بنے ہوئے ہیں اور حکومتی نمائندے بے
گناہ افراد کے قتل کو کسی میچ اسکور کی طرح بیان کررہے ہیں،یہ میرے شہر میں
بدامنی اور قتل وغارت گری کا وہ نوحہ ہے،جسے لکھتے لکھتے عرصہ بیت گیا،
زبانیں تھک گئیں ،ذہن ماؤف ہوگئے،لیکن نہ قاتلوں کے ہاتھ تھکے اور نہ خون
سے رنگین شہر کے درودیوار خشک ہوئے،ہر روز میرے شہر کی زمین انسانی خون سے
رنگین ہوتی ہے،بچے یتیم ہوتے ہیں، سہاگنیں بیوہ ہوجاتی ہیں اور بوڑھے ماں
باپ اپنے مستقبل کے سہاروں سے محروم ہوجاتے ہیں،لیکن حاکم وقت فرمارہے ہیں
کراچی میں حکومت ناکام نہیں ہوئی ۔
دعوے ہیں کہ رکتے ہی نہیں،ارباب اقتدار جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں مگر شرمندہ
نہیں ہوتے،ہمیں اٹھتے بیٹھتے اُس آہنی ہاتھ کا سبق پڑھاجاتا ہے جو کہیں نظر
نہیں آتا،روزانہ نت نئے جواز تراشے جاتے ہیں،کبھی طالبان کوذمہ دار ٹھہرایا
جاتا ہے تو کبھی کسی مافیا اور کسی گروہ کو،مگر ذمہ داروں کو روکنا،پکڑنا
اور کیفر کردار تک پہنچانے میں مجبورو بے بس نظر آتے ہیں،طرفہ تماشا یہ کہ
کہا جاتا ہے حالات خراب ضرور ہیں مگر ایسے بھی نہیں جیسا میڈیا پیش کررہا
ہے،یقینا یہ ڈھٹائی اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ شہر میں ہرطرف خوف و ہراس
کا عالم ہے، کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں،صرف ماہ نومبر کے 10 دنوں
میں 100 سے زائد افراد قتل ہوچکے ہیں،ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق کراچی میں
بدامنی کے خاتمے کیلئے جامع احکامات پر مبنی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے
باوجود اکتوبر2011 سے 10نومبر 2012 تک شہر میں 2250 افراد دہشت گردی کا
نشانہ بن کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے،جبکہ2012 کے آغاز سے اب تک سیاسی
کارکنوں سمیت 1800سے زائد انسانوں کا خون بہایا جا چکا ہے،یہ وہ اعدادوشمار
ہیں جن کا مختلف پولیس اسٹیشنوں میں باقاعدہ اندراج کیا گیا ہے لیکن شہریوں
کا کہنا ہے کہ مارے جانے والوں کی اصل تعداد اِس سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔
دوسری طرف مرنے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کے لواحقین قانون نافذ
کرنے والے اداروں سے انصاف کی توقع ختم ہونے کے باعث اُن سے رجوع ہی نہیں
کرتے،بہت سے لوگ لاپتہ ہیں جن کے زندہ ہونے کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں،آپ کو
یاد ہوگا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ شہر میں تمام
غیرقانونی اسلحہ ضبط کیا جائے،پولیس کو سیاسی اثر سے پاک کیا
جائے،لینڈمافیا کے خلاف کارروائی کیلئے قانون سازی کی جائے،اسلحہ لائسنس
نادرا کے ذریعے جاری کئے جائیں اور شہر کے مختلف علاقوں سے نوگوایریاز ختم
کئے جائیں،مگربدقسمتی سے اِن احکامات پر کلی تو کیا جزوی عملدرآمد بھی نہیں
ہوا،جس کی وجہ سے دوکروڑ نفوس پر مشتمل گنجان آباد میرا عروس البلاد ایک
عرصہ سے بدترین سیاسی،لسانی،نسلی اورفرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ بنا
ہوا ہے،روزانہ درجنوں افراد ناحق قتل ہورہے ہیں، کروڑوں روپے کی قیمتی
املاک کا نقصان اس کے علاوہ ہے،مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک کے اس سب سے
بڑے اور غریب پرور شہر میں حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آتی،ٹارگٹ کلرز، بھتہ
خور اور فرقہ پرست بلاروک ٹوک دندناتے پھرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں آگ اور
خون کا بازار گرم کرتے ہیں اور ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے ان کا کوئی وجود
ہی نہیں تھا،پورا شہر پیشہ ور قاتلوں کے رحم و کرم پرہے،مگر اس صورت حال کی
ذمہ داری حکومت قبول کر رہی ہے نہ سیاسی پارٹیاں اورنہ ہی سکیورٹی ایجنسیاں
اور قانون نافذ کرنے والے ادارے،یہ اُس شہر کا حال ہے جہاں تین سرکردہ
پارٹیوں اور اُن کے شراکت داروں کی حکومت ہے،مگر ہر روز لاشے گرتے ہیں،نوحے
گونجتے ہیں اور جنازے اٹھتے ہیں،بھتہ خوری،اغواءبرائے تاوان،ٹارگیٹ کلنگ
اور جلاؤگھیراؤ جہاں کلچر بنادیا گیا ہے،گینگ وار نے شہر کا امن و چین غارت
کررکھا ہے،اب تو تخریبی عناصر کے حوصلے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ پولیس اور
رینجرز کی چوکیوں اور گشت پرمامور اہلکاروں کے علاوہ حساس تنصیبات کو بھی
حملوں کا نشانہ بنا ریا جارہا ہے ۔
گذشتہ دنوں اس صورتحال پر صدر مملکت نے وزیراعلیٰ سندھ سے فون پر برہمی کا
اظہار کیا،وزیراعلیٰ پولیس افسران پر برہم ہوئے اور آئی جی سندھ نے تین ڈی
آئی جیز پر اپنا غصہ نکالا،مگر حالات جوں کے توں ہی رہے، عجب معاملہ ہے کہ
صدر مملکت،وزیراعظم،وزیر داخلہ،صوبائی گورنر اور وزیراعلیٰ وقتاً فوقتاً
امن و امان کو معمول پر لانے کے لئے ہدایات تو جاری کرتے ہیں،مگر حکومتی
اقدامات کے مثبت نتائج نظر برآمد نہیں ہوتے، حال یہ ہے کہ پہلے شہر کے
مخصوص علاقوں میں مار دھاڑ ہوتی تھی مگر اب پورا شہر قتل و غارت گری کی
لپیٹ میں ہے،وارداتوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے،جتنے لوگ پکڑے جاتے
ہیں،اُن سے زیادہ نئے میدان میں آجاتے ہیں،آج تک شاید ہی کسی مجرم کوکوئی
سزا ملی ہو،صوبائی وزیر اطلاعات اِس کی وجہ یہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
عدالتیں ملزموں کو رہا کر دیتی ہیں،جبکہ عدالتوں اور قانون کے شعبے سے تعلق
رکھنے والے حلقوں کی جانب سے بار بار اس اَمر کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے کہ
تفتیشی شعبے کو زیادہ سرگرم،مستعد اور موثر ہونا چاہئے، کیونکہ جب تک
مقدمات ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ عدالتوں میں نہیں جائیں گے ،موجودہ
قوانین کے تحت ملزموں کو سزا ملنے کے امکانات معدوم ہی رہیں گے ۔
ہمارا ماننا ہے کہ جب تک مجرموں کو ایک آنکھ سے دیکھا نہیں جائے گا،جب تک
سزا پر عملدآمد نہیں ہوگا،مجرموں کی پیرول پر رہائی بند نہیں ہوگی اور جب
تک قانون شہادت میں ترمیم اور گواہوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جائے گا،حالات
کے سدھار کی صورت نہیں نکلے گی،یہ اَمر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کراچی کے
عوام کی جان و مال سے کھیلنے والے کون ہیں،یہ بات بھی مخفی نہیں کہ اِن
جرائم پیشہ افراد کی ڈوریں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں کون ان کی سرپرستی کرتے
ہیں،مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ پکڑنے والے خود اُن پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے
ہیں،یہی وہ عوامل ہیں جس نے اِس عروس البلاد کو اجاڑ نا شروع
کردیاہے،میرارنگ و روشینیوں کا شہر،شہروں کی دلہن ایک بیوہ کی سونی کلائی
بنتا جارہا ہے،لہٰذاضرورت اِس اَمر کی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت،سکیورٹی
ایجنسیاں،تمام سیاسی پارٹیاں،دینی تنظیمیں اور علمائے کرام کراچی میں قیام
امن کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں اور شہر کو قتل وغارت کے عفریت سے
بچائیں،ہم ارباب اقتدار اور ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سے اپیل
کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے بدامنی پر قابو
پانے کیلئے ایک ایسا مشترکہ اور متفقہ لائحہ عمل مرتب کریں جس کو بلاتفریق
پوری قوت سے عملی جامہ پہنایا جاسکے،ویسے بھی خطے میں جاری عالمی آویزشوں
کے تناظر میں کوئی بھی محب وطن لمحہ بھر کیلئے اپنے گھر کی فکر سے لاتعلق
نہیں رہ سکتا،آج پاکستان کے 19 کروڑ عوام اپنے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کی
طرف دیکھ رہے ہیں اور اُن سے فوری،موثر اور ایسے درست اقدامات کے متمنی ہیں
جس کے نتیجے میں ملک کا معاشی مرکز ایک بار پھر سے امن کا گہوارہ بن
جائے،یاد رکھیں کراچی میں امن و سکون ایک شہرکے لوگوں کا نہیں بلکہ پوری
قوم کا مسئلہ ہے اور اِس کے سودوزیاں میں ملک کے ہرصوبے، ہرعلاقے اور ہر
قوم کے لوگ برابر کے شریک ہیں،لہٰذا حکومت سمیت سب کی ذمہ داری ہے کہ اس
شہر کو مزید تباہی و بربادی سے بچائیں ۔ |