شفقت تنویر مرزا:ایک روشن دماغ تھا نہ رہا

پاکستان کے ممتا ز دانش ور ،صحافی ،انسانی حقوق کے علم بردار ،ادیب ،محقق، نقاد اورحریت فکر کے مجاہد شفقت تنویر مرزا ، 20 نومبر 2012کو دائمی مفارقت دے گئے ۔انھیں چند روز قبل لاہور کے ایک ہسپتال میں لایا گیا تھا ،انھیں کینسر کا عارضہ لاحق تھا ۔1932میں وزیر آباد (پنجاب ۔پاکستان )میں جنم لینے والے اس یگانہءروزگار ادیب نے اپنی تخلیقی کامرانیوں سے پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی ۔انھوںنے وطن ا ور اہل وطن کے ساتھ اپنی والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کی بدولت عظیم مقام حاصل کیا۔ان کی وفات پاکستانی ادبیات بالخصوص پنجابی ادب کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔ان کی وفات کی خبر سنتے ہی ہر شعبہ ءزندگی کے لوگوں نے گہرے دکھ ،دلی رنج اور صدمے کا اظہار کیا ۔ڈیفنس لاہور کے شہر خاموشاں کی زمین نے علم و ادب کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ان کے پس ماندگان میں ایک بیوہ اور ایک بیٹی شامل ہیں ۔پاکستان کے طول و عرض سے آئے ہوئے ان کے ہزاروں مداحوں نے جب مٹی میں اس شمع فروزاں کو رکھا تو فرط غم سے نڈھال تھے ۔سب کی آنکھیں اشک بار تھیں اور تقدیر کے ستم سہنے کے بعد کچھ کہنے سے قاصر تھے ۔زار رونا چشم کا سب دیکھنے پر مجبور تھے ۔موت سے کس کو رستگاری ہے ۔سوزن تدبیر سے تقدیرکے چاک کون رفو کر سکتا ہے ۔انسانی زندگی اپنی اصلیت کے اعتبار سے ریگ ساحل پر لکھی ایک ایسی تحریر کے مانند ہے جسے سیل زماں کی تند و تیز موجیں پلک جھپکتے میں مٹا دیتی ہیں ۔ہماری محفل کے کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے ان کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے

شفقت تنویر مرزا کیا گئے کہ فروغ گلشن و صوت ہزار کے موسم کی آمد ہی خیال و خواب بن گئی ،حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہ ءشبیر ؓکو اپنانے والاحریت فکر کا مجاہد زینہ ءہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا اپنا مطمح نظر بنانے ولا تخلیق کار ہم سے روٹھ گیا ۔وہ شعلہ ءجوالا تہہ خاک چلا گیا جس کے دبنگ لہجے سے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا ۔بنیادی انسانی حقوق ،امن ،سلامتی ،اخوت ،ملی وقار اور قومی یک جہتی کا عظیم علم بردار رخصت ہو گیا ۔نواہائے دل کشا کا محرم را ز اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا ۔ادب ،صحافت اور فنون لطیفہ کا ہنستا بولتا چمن موت کے بے رحم ہاتھو ں مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا ۔وہ مستعد ، زیرک ،فعال اور جری تخلیق کار جس کی زندگی رمز لا تخف کی عملی تصویر تھی اب ماضی کی یاد بن گئی ہے ۔ایک بے خوف صدا اجل کے ہاتھوں جان لیوا سناٹوں کی زد میںآگئی ۔قحط ارجال کے مو جودہ زمانے میں ایسے نابغہ ءروزگار ادیب خال خال پیدا ہوتے ہیں۔شفقت تنویر مرزا کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا ۔یہ دنیائے دنی ایک نقش فانی ہی تو ہے اور یہ تمام روداد جہاں ایک سراب اور وہم و گماں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ضیا جالندھری نے کہا تھا :
پر زمانہ تو پرواز نور سے بھی ہے تیز
کہاں ہے کون تھا جس نے ابھی کہا تھاکہ میں ہوں

شفقت تنویر مرزا نے ابتدائی تعلیم وزیر آباد اور بہاول نگر سے مکمل کی ۔اس کے بعد وہ گورنمنٹ کالج اٹک پہنچے اور اس ممتاز درس گاہ سے گریجویشن کرنے کے بعد گارڈن کالج راول پنڈی سے پوسٹ گریجویشن کیا۔اپنی عملی زندگی کا آغاز انھوں نے ر یڈیو پاکستان راول پنڈی سے کیا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ روزنامہ تعمیر راول پنڈی سے بھی وابستہ رہے ۔یہ 1950کی بات ہے جب انھوں نے روزنامہ ہلال ،راول پنڈی میں بھی خدمات انجام دیں ۔راول پنڈی میں ان کا قیام دو برس کے عر صے پر محیط ہے ۔ ایوب خان کے عہد اقتدار میں شفقت تنویر مرزا کوریڈیو کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ۔جلد ہی وہ لاہور منتقل ہو گئے اس عرصے میں انھوں نے سول اینڈ ملٹری گزٹ میں کام کیا اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والے اخبار روزنامہ امروز میں خدمات انجام دیں ۔ 1971 میں جنرل یحییٰ خان نے انھیں امروز سے فارغ کر دیا ۔1970میں انھوں نے محمدحنیف رامے اور منو بھائی سے مل کر روزنامہ مساوات کا آغاز کیا ۔ 1983میں وہ پھر امروز سے وابستہ ہوگئے ۔کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاالحق نے انھیں امروز سے الگ کر دیا ۔امروز کی بندش تک وہ اس کے مدیر رہے ۔ان کی ادارت میں اس اخبار نے علم و داب کے فروغ اور عوام میں مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دیںوہ تاریخ صحافت کا ایک درخشاں باب ہیں۔امروز کے ادبی صفحات میں پنجابی ادب کے لیے الگ صفحہ مخصوص کیا گیا ۔کچھ عرصہ ممتاز ادیب اظہر جاوید امروز کے پنجابی صفحے کے نگران رہے ۔ پنجابی ادب ک کے فروغ کے لیے ان کی یہ مساعی رنگ لائیں اور جلد ہی پنجابی ادب میں ہر صنف ادب کی تخلیق میں نمایاں پیش رفت ہوئی ۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں شفقت تنویر مرزا کو آمریت کے خلاف لکھنے کی وجہ سے قید و بند کی صعو بتیں بھی بر داشت کرنا پڑیں اور وہ کراچی ،لاہور اور بہاول پور کے زندانوں میں اسیر رہے ۔جنرل ضیا الحق کے عہد حکومت میں وہ ویو پوائنٹ (View Point)میں خدمات انجام دیتے رہے ۔شفقت تنویرمرز سلطانیءجمہور کے زبردست حامی تھے ۔وہ سمجھتے تھے کہ آمریت اور جبر کے ماحول میں قومی وقار کو شدید ضعف پہنچتا ہے ۔جبرکے سامنے سپر انداز ہونا ان کے مسلک کے خلاف تھا ۔انھوں نے ہر دور میں آمریت کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔جنرل ضیا الحق کے دور میں انھوں نے نثارعثمانی کے مشورے سے پنجاب یونین آف جر نلسٹس کے صدر کی حیثیت سے اہم صحافتی ذمہ داریا ںسنبھالیں ۔اس کے بعد ان کو نہایت کٹھن حالت اور کڑی آزمائشوں کا سامان کرنا پڑا ۔اس دور میں جنر ل ضیا الحق کی حکومت نے شفقت تنویر مرزا کی معاشی ناکہ بندی کی اور فوجی حکومت کے دباﺅ کی وجہ سے کوئی اخبار انھیں ملازمت دینے پر رضامند نہ تھا ۔اس دور میں جب مارشل لا پوری قوت سے نا فذ تھا جنرل ضیا الحق نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو متنبہ کرتے ہوئے انھیں فوجی حکومت پر تنقید سے باز رہنے کو کہا اور مارشل لا کے خلاف لکھنے والے صحافیوں کے بارے میں اپنے عزائم سے انھیں آگا ہ کرتے ہوئے کہا :
”میںآپ کو وارننگ دیتا ہوں کہ ایسے تمام اخبارات پانچ سال کے لیے بند کر دوں گا اور کوئی بھی ایسی حیثیت میں نہیں ہو گا کہ وہ میرے فیصلے کے خلا ف آواز اٹھا سکے ۔اگر صحافیوں نے جلوس نکالنے اور میٹنگ کرنے کی کوشش کی تو میں سب کو جیل بھجوا دوں گا ۔“(1)

اس زمانے میںصحافیوں کو بڑے صبر آزما دور سے گزرنا پڑا ۔روزنامہ ”مساوات“ اور ” صداقت “پر پا بندی لگ گئی ۔کوئٹہ سے شائع ہونے والے اخبار ”اعتماد “ اور ”قاصد “کو شائع کرنے سے منع کر دیا گیا ۔حکومت کی طرف سے یہ حکم جاری کیا گیا کہ تمام اخبارات و جرائد جو مواد شائع کرنا چاہیں اور اشاعت سے قبل سنسر کے لیے متعلقہ حکام کے سامنے پیش کریں ۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی کے ساتھ شفقت تنویرمرزا کے بہت قریبی تعلقات تھے ۔احمد حسن قلعداری اور سمیع اللہ قریشی کے ساتھ ان کے تعلقات عمر بھر بر قرار رہے ۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی کہا کرتے تھے کہ شفقت تنویر مرز ااس دور کو یاد کرتے تو ان کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں اور وہ نواب زادہ نصراللہ خان کا یہ شعر ضرور پڑھتے جو انھوں نے 1984میں کہا تھا :
جسے سمجھا چمن والوں نے اپنا پاسباں برسوں
اسی ظالم نے لوٹا ہے سکون قلب و جاں برسوں

اپنی عملی زندگی میں شفقت تنویر مرزا نے کبھی کسی مصلحت کی پروا نہ کی ۔حق گوئی اور بے باکی ہمیشہ ان کا شعار رہا ۔جابر سلطان کے سامنے کلمہءحق کہنا ان کی فطرت تھی ۔وہ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے سخت خلاف تھے ۔ مقتدر حلقوں کے جبر پر ان کی تنقیدی رائے کی وجہ سے انھیں متعدد بار مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے خندہ پیشانی سے تمام تکالیف برداشت کیں اور کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائے ۔لاہور پریس کلب کی لٹریری سوسائٹی کے سر پرست کی حیثیت سے انھوں نے اس بات پر توجہ دی کہ تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حریت فکر کا علم بلند رکھیں ۔ان کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہوائے جور وستم میں بھی رخ وفا بجھنے نہ پائے ۔ہزار خوف میں بھی ایک جری تخلیق کار کی زبان اس کے دل کا ساتھ دے اوروہ پرورش لوح و قلم میںمصروف رہے جو کچھ اس کے دل پر گزرتی ہے وہ بلا کسی خوف و خطر کے صفحہ ءقرطاس پر منتقل کر دے ۔ایک بہادر تخلیق کار جبر کے ماحول میں اپنے لہو سے ہولی کھیل کر عوامی شعور و آگہی کو مثبت انداز میں مہمیز کرتا ہے ۔آزمائش کی اس گھڑی میں اسے دکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ بھی اپنے سر پر جھیلنے پڑیں تو وہ یاس و ہراس کا شکار نہیں ہوتا ۔شفقت تنویرمرزا نے اردو اور انگریزی زبان میں اپنے اخباری کالموں کے ذریعے رائے عامہ کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ان کے اسلوب میں تعمیری انداز فکر قاری کو متوجہ کرتا ہے ۔انھو ں نے وہ زمانہ دیکھا جب غیر جمہوری قوتوں نے آزادیءاظہارکی راہیں مسدود کر دی تھی ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ آزادیءفکر کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں اور لب اظہار پر تالے لگا دئیے جائیں ۔شفقت تنویر مرزا کو اس بات کا قلق تھا کہ موجودہ دور میں ظالم و سفاک موذی و مکار استحصالی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے باعث ہلاکت آفرینیوں میں بے پنا ہ اضافہ ہو گیا ہے ۔معاشرتی زندگی میں فرد کی عدم شناخت اور بے چہرگی نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔ہوس نے نوع انساں کو انتشاراور پراگندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔وہ بے لوث محبت ،ایثار ،خلوص اور دردمند ی کے ذریعے معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کے آرزومند تھے ۔وہ ایک دیو پیکر تخلیق کار تھے ۔انھوں نے ہر صنف ادب میںاپنے اشہب قلم کی جو لانیاں دکھائیں۔حرف صداقت لکھنا ان کا مطمح نظر رہا ۔ان کی انسان دوستی کا ایک عالم معترف تھا۔دکھی انسانیت کے ساتھ انھوں نے جو پیمان وفا باندھا تما م عمر اسے حرز جاں بنایا ۔وہ ایسے تمام مسائل پر کھل کر لکھتے جن کا تعلق انسانیت سے ہوتا تھا ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ وہ جن موضوعات پر لکھتے تھے ان کا تعلق کسی ایک خطے ،قوم یا ملت سے نہ تھا بلکہ وہ اس عالم آب و گل کی تما م انسانیت کے حوالے سے سوچتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افکارمیں جلوہ گر عالمی تناظر قابل توجہ بن جاتا ہے ۔ان کے ہاں تخلیقی اظہار پوری قوت اورشدت سے جلوہ گر ہے جس کا مسحور کن کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔ان کا اسلوب ان کی ذات ہے اور ان کی ذات کے تمام اوصاف ان کے اسلوب میں سمٹ آئے ہیں ۔

شفقت تنویرمرزا نے پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے جو تاریخی کام کیا وہ ان کو شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں ا ہم مقام عطا کرتا ہے ۔وہ پنجابی کلاسیکی شاعری کے شیدائی تھے ۔ان کا خیال تھا کہ عالمی کلاسیک اور پنجابی کلاسیکی شاعری کا عمیق مطالعہ اور پنجابی کلاسیکی شاعری کا دنیا کی بڑی زبانوں میں ترجمہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔روزنامہ ڈان (Dawn)کے مدیر کی حیثیت سے انھوں نے پنجابی کلاسیکی شعرا کے کلام کے بارے میں انگریزی داں طبقے کو آگاہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔انھوں نے غیر رسمی اور بالکل تازہ اور نادر اسلوب کوبروئے کار لاتے ہوئے پنجابی کلاسیکی شاعری کے فکری اور فنی محاسن پر روشنی ڈالی ۔ان کی تحریروں میں جذبات ،احساسات ،اظہار اور ابلاغ کا جو منفرد اور اچھوتا انداز ہے وہ ان کو اپنے معاصر تخلیق کاروں میں اہم مقام عطا کرتا ہے ۔ان کی باتیں دل سے نکلتی ہیں اور دل کی گہرائیوں میںاترتی چلی جاتی ہیں۔انھوں نے شہرہ ءآفاق پنجابی کلاسیکی شاعر شاہ حسین کی جو سوانح عمری لکھی ہے وہ اب ایک اہم بنیادی ماخذ اور مستند حوالہ جاتی حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔ان کی تصانیف سے پاکستانی ادبیات بالخصوص پنجابی ادب کی ثروت میں قابل قدر اضافہ ہوا ۔ان کے بار احسان سے ادب کے طلبا کی گردان ہمیشہ خم رہے گی ۔ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
(1)ادب راہیں پنجاب دی تاریخ ،(2)تحریک آزادی وچ پنجاب د احصہ ،(3)شاہ حسین : سوانح عمری ،(4)Resistance themes in Punjabi literature(5)آکھیا سچل سر مست نے ،(6)بوہا کوئی نا،(7)لہو سہاگ ،(8)آزادی مگروں پنجابی ادب ،(9)پنجابی ادب

پنجاب کے سماجی ،معاشرتی اور علمی و تاریخی پس منظر کے بارے میں پچاس اقساط پر مشتمل انھوں نے ”لوک ریت “کے عنوان سے جو سیریل لکھا وہ ان کی علمی فضیلت اور عمیق مطالعے کا مظہر ہے ۔وطن اور اہل وطن کی محبت ان کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی ۔ وطن کی یہ محبت ان کے جسم اور روح سے عبارت تھی ۔شفقت تنویرمرزا کی قومی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں 2006میں تمغہ ءحسن کارکردگی سے نوازا ۔
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

اپنے دور کے حالات ،واقعات ،معاشرت زندگی کے جملہ ارتعاشات کو جس بے باکی کے ساتھ شفقت تنویرمرزا نے پیش کیاوہ ہر عہد میں فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہو گا ۔زندگی کی اہمیت اور انسانیت کی عظمت کے بارے میں ان کا اجتماعی شعور قاری کو ایک جہان تازہ کی سیر کراتا ہے ۔معاشرتی زندگی ہو یا سماجی اقدار و روایات ،عالمی واقعا ت ہوں یا ملی مسائل ،قومی سیاست ہو یا بین الاقومی سیاست ،پاکستانی ادبیات ہوں یا عالمی ادبیات کوئی بھی موضوع ان کی بلند پروازی سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔ان کی دور بین نگاہ تمام جزئیات تک رسائی رکھتی ہے ۔پاکستانی ادبیات میں جن اقدار و روایات کو گزشتہ نصف صدی میں استحکام نصیب ہوا ہے ان میں صداقت نگاری کو کلید ی مقام حاصل ہے ۔شفقت تنویر مرزا نے معاشرتی زندگی میں انفرادی اور اجتماعی نوعیت کے مسائل کے بارے میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جو طرز فغاں اپنائی وہ ہر عہد میں دلوں کو ایک ولوہءتازہ عطا کرتی رہے گی ۔ایک بزرگ صحافی کی حیثیت سے انھوں نے زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ کے لیے جو لائحہ عمل تجویز کیا وہ آنے والی نسلوںکے لیے لائق تقلیدرہے گا ۔قلزم ہستی کی اتھاہ گہرائیوں کی غواصی سے صداقتوںکے بیش قیمت گوہر تلاش کرنے والے اس ہفت اختر شخصیت کی خدمات کو تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھا جائے گا ۔انھوں نے اپنے قارئین کو مانوس حقائق اور مسلمہ صداقتوں کے بار ے میں حقیقی شعور سے متمتع کیا اور اپنے عہد کے قاری کے جذبات واحساسات کو پر شکوہ ،دلکش اور پروقار صورت میں منصہءشہود پر لانے کی سعی کی ۔وہ چاہتے تھے کہ انسانیت کے مسائل کے بارے میں ایک اجتماعی انداز فکر کوبروئے کار لایا جائے اس طرح ہر علاقے کی تہذیب و ثقافت ،ادب اور کلچر کو نمو پذیر ہونے کے مواقع نصیب ہوں ۔ان کی وفات سے مقامی پنجابی تہذیب وثقافت کے ارتقا کو شدید ضعف پہنچنے کا اندیشہ ہے پنجابی زبان و ادب کا ایسا نباض اب کہاں ملے گا۔زمانہ حال اور ماضی کے بارے میں ان کے تجزیات ہمیشہ مشعل راہ رہیں گے انھوں نے صحافت اور ادب کے وسیلے سے زندگی کی نئی معنویت کاسراغ لگایااور قارئین ادب کو زندگی کی حقیقی معنویت کے شعور و ادراک سے مالا مال کر دیا ۔ان کی تحریریں فکر و نظر کے دھارے بدلنے پر قادر ہیں ۔ان کی وفات ایک بہت بڑاسانحہ ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات کو شدت سے محسوس کیا جائے گا ۔ پنجابی ادب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کا عدم اعتراف نہ صرف تاریخی صداقتوں کا انحراف ہے بلکہ اسے نا شکری پر محمول کیا جائے گا ۔جو زندہ رہا وہ اس صور ت حال کو دیکھے گا اور ان کی رحلت پر خون کے آنسو بہائے گا :سیماب اکبر آبادی نے کہا تھا :
دیکھتے ہی دیکھتے دنیاسے میں اٹھ جاﺅں گا
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے

جھنگ کے ادیبوں کے ساتھ شفقت تنویر مرزا کے قریبی تعلقات تھے ۔وہ جھنگ میںعلم و ادب کی روایت کوقدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔حضرت سلطان باہو سے انھیں بہت عقیدت تھے جھنگ کی لوک داستانوں میں انھیں ہیر، رانجھا اور مرزا ، صاحبا ںسے دلچسپی تھے ۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی ،محمد حیات خان سیال ،الحاج سید غلام بھیک نیرنگ ،سید مظر علی ظفر ،سید جعفر طاہر ،کبیر انور جعفری ،محمد خان نول ،نور احمد ثاقب ،سجاد بخاری ،معین تابش ،خیر الدین انصاری ،محمد شیر افضل جعفری ،مجید امجد ،امیر اختر بھٹی اور رام ریاض کے ساتھ ان کے قریب تعلقات عمر بھر بر قرار رہے ۔ان کی وفات پر شفقت تنویرمرزا نے سوگوار خاندانوں سے تعزیت کی ۔رام ریاض اور محمد شیر افضل جعفری کی وفات پر وہ خود یہاں پہنچے اور اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا۔

شفقت تنویر مرز انے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیاکہ تخلیق ادب ایک فطری نظام کے تابع عمل ہے اس کے سوتے کبھی خشک نہیں ہو سکتے ۔یہ ادب ہی ہے جو اپنے معجز نما اثر سے جذبات اور احساسات کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے ۔اس لیے ادب کے وسیلے سے تخیل کی جو لانیا ںدکھانے کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا ۔ان کی تحریریںحریت فکر کی آئینہ دار ہیں ۔انھوں نے قومی کلچر کے فروغ کے لیے قومی اتحاد اور یک جہتی کی ضرورت پر زور دیا۔وہ ہر قسم کی عصبیت کے خلاف تھے ۔شفقت تنویر مرزا نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی سعی کی ۔ان کی دلی تمنا تھی کہ آزادیءاظہار کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی پروا کیے بغیر حقائق کی گرہ کشائی کا سلسلہ جاری رکھاجائے۔جبر کے ماحول میں تو طیور بھی حبس سے گھبر ا کر اپنے آشیانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتے ہیں۔ اس جان لیوا کیفیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے انھوں نے یہ اپنا نصب العین بنا رکھا تھا کہ روشنیوں کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہونے والی قوتوں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا جائے۔آزادی ءاظہار کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے ۔فسطائی جبر کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہر لمحہ قربانی کے لیے تیاررہنا چاہیے۔پنجابی کلاسیکی شاعری کے حوالے سے انھوں نے یہ واضح کیا کہ اس کا تنوع اور ہمہ گیری فکر و نظر کو نئے آفاق سے آشنا کرنے کا موثر ترین وسیلہ ہے ۔وہ تقلید کے بجائے افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی پر زور دیتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ جب تک ہم اپنی ارضی وثقافتی پہچان پید ا نہیں کر لیتے اس وقت تک ہم اقوام عالم کی صف میں بلند مقام حاصل نہیں کر سکتے ۔ان کی تحریروں کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ فرد کی حیثیت تنہا کچھ بھی نہیں ۔ملت کے ساتھ ر بط ،ار ضی و ثقافتی اقدار و روایات سے وابستگی اور اپنے اسلاف کی علمی میراث سے کامل آگہی ہی وہ معائر ہیں جو کسی بھی تخلیق کار کواوج کمال تک لے جانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر پنجابی زبان کے شیدائی اپنی تہذیب ،ثقافت اور اقدار وروایات کی مشعل تھا م کر آگے بڑھیںتو پوری دنیا میں ان کی دھاک بیٹھ جائے گی ۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ بلھے شاہ ،شاہ حسین ،میاں محمد بخش ،سلطان باہو ،وارث شاہ کی زبان اور ادبی کام عالمی کلاسیک سے کسی طرح کم نہیں ۔اپنی ادبی میراث سے قلبی وابستگی رکھنے والے اس عظیم تخلیق کار نے پاکستانی ادب ۔تہذیب اور ثقافت کے فروغ کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی ۔
پھیلی ہیں فضاﺅں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی

مآخذ
(1)ستار طاہر :مارشل لا کا وائٹ پیپر ،کلاسیک ،لاہور ،بار اول اگست 1987،صفحہ 194۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 680000 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.