ہند - پاک تعلقات اور ہمارا میڈیا

ہندوستان اور پاکستان میں جب بھی قربتیں بڑھ کر تعلقات کے خوش گوار ہونے کی امید بندھتی ہے کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوجاتی ہے کہ سب کچھ ختم ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہی سب کچھ چند دن قبل ہوا۔ ماحول اس قدر گرم بلکہ جنگ زدہ تھا کہ جنگ کے علاوہ کوئی اور بات کرنے والے کو پتہ نہیں غدار یا ملک کے خلاف جنگ کرنے والا قرار دیا جاتا۔ پاکستان کی بات جانے دیں پاکستان کی حکومت کے بارے میں تو ہمارے یہاں شروع ہی سے مانا جاتا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی حکمرانی کا انحصار ہی ’’بھارت دشمنی‘‘ پر ہے لیکن اس بار صورت حال کچھ یوں رہی ہے کہ پاکستانی حکومت، فوج ، سیاستداں اور میڈیا اپنے داخلی مسائل، مشکلات اور امریکہ کی کٹھ پتلیوں (از قسم طاہر القادری) کے پیداکردہ بحرانوں اور کرپشن کے جرائم میں ملوث وزیر اعظم پاکستانی عدلیہ کے شکنجے میں کسے جانے سے بچنے کے لیے پریشان تھے اسی لیے ہندوستان کے ڈرانے، دھمکیوں اور جارحانہ انداز سے ہمارے سپاہیوں کے ساتھ اپنے بہیمانہ سلوک کے باجود زیادہ متاثر نہ تھے اور ہمارے الزامات کی تردید پر اکتفا کیا۔

ہمارے میڈیا اور خاص طور پر ٹی وی چیانلز کا رویہ ضرورت سے زیادہ جارحانہ تھا ( یہ ہمارا ہی خیال نہیں ہے بلکہ یہ بات عام طور پر تسلیم کی جارہی ہے ’’ہندو‘‘ اور بزنس لائین) میڈیا نے ماحول اس قدر گرم کردیا تھا کہ منموہن سنگھ کو کہناپڑا کہ ’’پاکستان کے ساتھ معمول کے رشتے ممکن نہیں ہیں‘‘ یہ مانا جارہا ہے کہ وزیر اعظم کو میڈیا، سیاستدانوں کے علاوہ غیر معمولی جارحانہ انداز اختیار کرنے والے فوجی کمانڈوروں کو مطمئن کرنے کے لیے وزیر اعظم کو ایسا بیان دینا پڑا۔ ہندوستانی میڈیا کی جارحانہ روش سے صاف ظاہر تھا کہ صحافیوں نے اس بات کو بھلادیا تھا یا اس امر پر غور ہی نہیں کیا تھا کہ ان کی ان باتوں سے اگر نیو کلیئر ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کا کیا حشر ہوگا؟ حد تو یہ ہے کہ ٹی وی سے ہی وابستہ ممتاز و معروف صحافی کرن تھاپر کو کہنا پڑا کہ ٹی وی چیانلز ہندوستان کو پاکستان کے خلاف جنگ کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی شہر کے مالک میڈیا کی ممتاز شخصیت ٹام چوسکی نے بھی ہندوستانی میڈیا کے رویہ پر سخت تنقید کی ہے۔

بے شک ہندوستانی فوجیوں کا قتل اور ان اکی نعشوں کی بے حرمتی ہر ہندوستانی کے لیے ناقابل برداشت ہے اس کی نہ صرف مذمت بلکہ اس پر احتجاج کرنا عزت نفس کا تقاضہ ہے لیکن یہ بات بہر حال ایسی نہیں ہے کہ میڈیا خون کے بدلے خون کا مطالبہ کرنے لگتا اور ٹی وی پر بہ کثرت ہونے والے مباحثوں میں وظیفہ یاب جنرل، سفارت کار اور سیاستداں پاکستان کے ساتھ جنگ کا مطالبہ کرتے کرتے مذاکرتی آداب و شائستگی کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف پاکستانی مہمانوں کا مذاق اڑاتا بلکہ امن و سلامتی اور گفتگو جاری رکھنے پر زور دینے والے سنجیدہ مزاج ہندوستانی دانشوروں (منی شنکر ایر جیسی فکر رکھنے والے) کو بھی ذلیل کرنے کی کوشش کرتا جس سے نہ صرف میڈیا بلکہ ملک بدنام ہوا۔ ٹی وی چیانلز کے یو ں تو ہندی و انگریزی کے تمام میزبانوں (اینکرس) نے خود کو ملک کا سب سے زیادہ وفادار اور محافظ بنالیا تھا لیکن ارنب گو سوامی نے نہ صرف جارحانہ بلکہ ناشائستہ رویہ اختیار کیا جس کی سب ہی نے مذمت کی نہ صرف پاکستان کے خلاف بلکہ مسلم دشمنی میں بھی اس قسم کا رویہ رکھنے والے ٹی وی کے میزبانوں کو ضوابط اخلاق کے تحت ٹی وی پر آنے کی ممانعت کی جانی چاہئے۔ ان ہی کی وجہ سے ہندوستان کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ ہندوستان پر جنگی جنون طاری ہے۔ حالانکہ حکومت ہند امن کی خواہاں ہے۔

ٹی وی کے برخلاف چند انگریزی اخبارات اور انگریزی میں لکھنے والے چند سیاسی تجزیہ نگاروں کا رویہ خاصہ معقول اور حقیقت افروز تھا خاص طور پر پروین سوامی (جو اسلامی دہشت گردی کی من گھڑت داستانیں قلم بند کرنے کے لیے بہت مشہور ہیں) نے 10جنوری کو روزنامہ ’’ہندو‘‘ میں اپنی خصوصی رپورٹ میں ہمارے سرکاری موقف سے برعکس موقف اختیار کیا ہے۔ جنگ بندی یا کنٹرل لائن (LOC) پر فائرنگ کا تبادلہ، ہلاکتیں ایک عام سی بات ہے لیکن دونوں فریق صبر و تحمل کا مظاہر نہ کریں تو یہ خطرناک تصادم میں بدل سکتا ہے۔ ممتاز کالم نویس پرفل بدوائی نے لکھا ہے کہ جنگ سے احتراز کرکے ایسی باتوں کی یکسوئی ضروری ہے ایک ایسے وقت جبکہ تمام مسائل (بہ شمول کشمیر سیاچن گلیشیئراور سرکریک) کو حل کرنے کے لئے ٹھوس پہل ہوئی ہے۔ تجارت اور ویزا قانون میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان ہندوستان کو تجارت میں انتہائی پسندیدہ ملک تسلیم کرنے پر راضی ہوگیا ہے توانائی کے اہم شعبہ میں ترقی و تعاون پر اتفاق ہوا ہے۔ ثقافتی امور میں تعاون پر اتفاق بھی ہوا ہے ۔ پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل اشفاق کیانی ہندوستان کو اپنے ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ نہیں مانتے ہیں۔ پرفل بدوائی کاخیال ہے کہ ان کامیابیوں کو ضائع نہیں ہونا چاہئے۔

جنگ بندی کے خلاف ورزی کے سال گزشتہ 77اور 2011ء میں 127واقعات ہوئے تھے۔ سرحدکی دونوں جانب سپاہیوں کا ایک دوسرے کو ہلاک کرنا بھی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ سال سری نگر سے 140کیلو میٹر دور پاکستان نے دو ہندوستانی سپاہیوں کے سر قلم کئے تھے جو اب میں ہندوستان نے بھی پانچ پاکستانی سپاہی ہلاک کرکے اس میں سے دو کا سر قلم کیا تھا۔ لیکن اس بار میڈیا نے جنگی جنون پیدا کرے معمول کے ان واقعات اور ہلاکتوں کی بات کہیں سے کہیں پہنچادی ۔

نروپما سبرامنین نے روزنامہ ’’ہندو‘‘ میں 17جنوری کو لکھا ہے کہ گزشتہ دس سال سے ’’خط قبضہ‘‘ (LOC) پر جنگ بندی قائم ہے اسے برقرار رکھنے کی کوشش کی جگہ قائد بی جے پی سشماسوراج نے ایک ہندوستانی کے بدلے دس پاکستانی سپاہیوں کے سرکامطالبہ کیا یا ہندوستان کے لیے دوسری ترجیحات کھلی ہونے کی بات سن کر ہندوستانی فوج کیسے خاموش رہ سکتی ہے؟ نروپما نے یہ بھی لکھا ہے کہ امن کی باتیں کرنے والے وزیر اعظم منموہن سنگھ بھی قائد حزب اختلاف سشما سوراج سے عوام کو خوش کرنے کے لیے مقابلے پر اترآئے اور پاکستان سے معمول کے مطابق تعلقات نہیں رکھے جاسکنے کی بات کرکے ’’ممبئی 26/11‘‘ کے بعد کہی جانے والی بات لفظ بہ لفظ کی دہردی۔ ہوائی افواج اور میدانی افواج کے سربراہوں کے بیانات بھی ماحول کو گرمانے کے لیے خاصے سخت تھے سب سے بڑھ کر ہاکی کھلاڑیوں اور دیگر آرٹسٹوں کو جس طرح واپس کیا گیا وہ ذرائع ابلاغ کے زبردست دباؤ اور ماحول کو جنگی اور جارحانہ بنانے کا نتیجہ تھے۔ یہی کیا کم تھا کہ سینئر شہریوں یا بزرگوں کو سرحد ویزا دئیے جانے کے بزم قانون پر عمل درآمد کا ملتوی کیا جانا بھی پسند نہیں کیا گیا۔ منی شنکر ایر نے اس پر شدید اعتراض کئی بار کیا۔ ہندوستان کے ان سلسلہ وار مختلف اور متعدد اقدامات نے پاکستانی کی بربریت کو پس پردہ کردیا اس کے برخلاف پاکستانی میڈیا کی توجہ اپنے سلگتے ہوئے داخلی حالات پر زیادہ ہے۔ اس وجہ سے ہمارے میڈیا کا رویہ اور نمایاں ہوگیا۔ ہندوستان کے اقدامات کی اگر ہمارا میڈیا اس قدر پذیرائی اور مدح سرائی نہ کرتا تو ان اقدامات کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ ہم ہی نہیں بیشتر کالم نویس حب الوطنی اور ملک سے وفاداری کے ضرورت سے زیادہ مظاہرے کے خلاف ہیں لیکن سنگھ پریوار کے اس فاشسٹ نظریہ سے کہ ہم کو ہر ایک پر برتری اور فوقیت حاصل ہے۔ ہم کو خاصہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہم نے 26/11کے بعد بھی یہی کچھ کیا تھا جو آج کررہے ہیں چند سال میں سب کچھ بھلاکر قربتوں کی راہ پر ہم ماقبل26/11کے مقابلے میں آج زیادہ آگے تھے لیکن ہم پھر وہیں آگئے! جہاں 26/11کو تھے۔

ہمارے میڈیا کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دو نیوکلیئر طاقتوں میں جنگ دونوں کی تباہی ہے یہ مشورہ کہ جاؤ پاکستان میں دہشت گردی کے اڈے تباہ کردو بظاہر یہ آسان بھی ہے ممکن بھی ہے لیکن پاکستان کے ردِعم کے تعلق سے کوئی پیش قیاسی ممکن نہیں ہے یہ ایسا نکتہ ہے جو نظر انداز کرنا ملک سے غداری کے مماثل ہے۔

بقول اٹل بہاری واجپائی ہم اپنے پڑوسی نہیں بدل سکتے ہیں اس لیے پڑوسی سے تعلقات خوش گوار رکھنے کا واحد راستہ مذاکرات ہے اور مذاکرات کا عمل دشمن کے آگے جھک جانے اور اس کو گلے لگانے کا نام نہیں ہے۔ فوج کے خلاف کامیابی حاصل کرنے سے زیادہ مشکل معیشت کومضبوط بنانا ہے ہم بلاشبہ پاکستان سے ہر جنگ جیت سکتے ہیں ہماری نیو کلیئر طاقت بھی زیادہ ہے لیکن جنگ کے نتیجہ میں ہماری معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں اس لیے ہونا یہ چاہئے کہ
’’گفتگو بند نہ ہو‘‘
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.