یہ خاموشی کہاں تک ۔۔؟

ہماری قوم کا شمار ”الحمدﷲ“ ان اقوام میں ہوتا ہے جن کے بارے میں دنیا کو یقین ہے کہ یہ قوم کتابیں پڑھنے کا شغف نہیں رکھتی۔ چند ایک مصنفین کو چھوڑ کر ہمارے ہاں کے اکثر مصنف فاقہ زدہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ کتابیں خود ہی لکھتے ہیں اور خود ہی چھاپ کر بانٹنے پر مجبور ہیں۔ اکثر والدین بچوں کو دوہزار کا پیزہ تو لے کر دے دیتے ہیں لیکن پانچ سو روپے کی کتابیں لے کر نہیں دیتے کہ جنہیں پڑھ کر نئی نسل اپنے ذہنوں کو منور کرے۔

گویا ہمارے ہاں جو کتابیں لکھی بھی جاتی ہیں وہ مالی منفعت اور موقع محل دیکھ کر لکھی جاتی ہیں۔ نوازشریف‘ بے نظیر اور پرویزمشرف کے ادوار میں اُن پر دھڑا دھڑ کتابیں لکھی گئیں جن کی نہ کوئی تاریخی حیثیت ہے اور نہ ادبی۔ گویا کتاب لکھنا شاید آسان اور اس کی مارکیٹنگ مشکل ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے کتاب لکھی تو کسی صحافی نے پوچھا آپ نے یہ کتاب صدر کے منصب سے ہٹنے کے بعد کیوں نہیں لکھی تو انہوں نے کہا کہ میں بے وقوف ہوں کہ عہدے سے ہٹنے کے بعد لکھتا اُس وقت یہ کتاب کس نے خریدنی تھی‘ ”ان دی لائن آف فائر“ بہر کیف بیسٹ سیلر بُکس میں شمار ہوئی۔

اب ایک اور کتاب آئی ہے جو لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے لکھی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں۔ انہوںنے کارگل کے حوالے سے بھارتی موقف کو تقویت دی ہے جو یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہاں کسی قسم کے کوئی مجاہدین جنگ نہیں کرتے رہے بلکہ پاک فوج لڑتی رہی ہے۔ گویا یہ سب کیا دھرا پاک فوج کا تھا۔ کچھ نیشنل سیکرٹس ہوتی ہیں۔ نجانے بڑے عہدوں پر رہنے والے لوگ اچانک ”پُھوتی خان“ بن کر ملک کا ستیا ناس کرنے پر کیوں تُل جاتے ہیں۔ پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر پہلے کون سی عزت ہے جو جنرل شاہد عزیز کے پیٹ میں ”سچائی“ کے مروڑ اٹھنے شروع ہوگئے۔ وہ بھی اُس وقت کہ جب لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ملک میں آئندہ الیکشن ہونے والے ہیں۔ امریکہ 2014 تک افغانستان سے فوجیں نکالنے والا ہے اور پاکستان اپنے لئے افغانستان میں کسی کردار کی تلاش میں ہے۔ پاک فوج افغان نیشنل آرمی کی تربیت کرے گی کے حوالے سے خبریں بھی گردش کررہی ہیں۔ بھارت پاکستانی سفارتکاروں کو انڈیا میں ہونے والی ادبی کانفرنس میں بھی شریک ہونے کا موقع فراہم نہیں کرتااور بھارت جب کبھی موقع ملتا ہے ممبئی حملہ کیس کو اچھال کر پاکستان کودنیا بھر میں ذلیل و رسوا کرنے سے نہیں چوکتا۔ ایسے حالات میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کو ”سچائی اور حقائق“ پر مبنی کتاب شائع کرکے نجانے کون سی قومی خدمت سرانجام دینا چاہ رہے تھے۔ شاہد عزیز کی کتاب کی صورت میں گویا بھارتی میڈیا کے ہاتھ ایک ”گیدڑ سنگھی“ آگئی ہے کہ وہ پروپیگنڈہ پر مبنی ”نان سٹاپ“ نشریات دکھا رہا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز یقیناً بہت قابل آدمی ہوں گے اسی لئے پاک فوج نے بھی اُن کا حق نہیں مارا اور انہیں اس اعلیٰ عہدے تک ترقی دی۔ بلکہ وہ کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ جب کارگل ہوا اُس وقت بھی انہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ جنرل مشرف نے غلط فیصلہ کیا۔ انہوںنے اس وقت خاموشی کیوں اختیار کی؟ پھر وہ پرموٹ ہو کر لیفٹیننٹ جنرل بنے‘ کور کمانڈر رہے‘ کور کمانڈر کانفرنسوں میں شرکت کرتے رہے لیکن ضمیر نہیں جاگا۔ چیئرمین نیب رہے اُس وقت بھی انہوںنے ضمیر کی آواز پر استعفیٰ نہیں دیا۔ بلکہ چپ سادھے رکھی۔ حتیٰ کہ وہ ریٹائر ہوگئے وہ بھی مکمل مراعات کے ساتھ۔ سرکاری گھر‘ پلاٹ‘ پینشن اور سینئر افسران کو دی جانے والی دیگر سہولیات وصول کیں۔ گویا پوسٹ ریٹائرمنٹ کا ایک ایک فائدہ اور ایک ایک پائی حاصل کرنے کے بعد بالآخر انہوں نے ڈٹ جانے کا فیصلہ کرلیا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز صرف کارگل کی حد تک ہی محدود نہیں رہے۔ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بھی ملک کی بقا کی جنگ تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ گویا ایسی جنگ جس میں کسی ملک کے چوکوں‘ مارکیٹوں‘ سکولوں‘ یونیورسٹیوں سمیت سیکورٹی حکام کے خلاف خود کش دھماکے ہو رہے ہوں وہ اس ملک کی جنگ نہیں ہے۔ انہوں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ مشرف سیاسی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے اس وقت کے ڈی جی ایم او جو میجر جنرل توقیرضیاء تھے کے تبدیل ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ اس بات پر حیرانی ہوتی ہے۔ کسی بھی فوج کے آرمی چیف کے لئے اپنے ڈی جی ایم او کو تبدیل کرنا بھلا کون سا مشکل ہے اُس کے لئے کسی بھی آرمی چیف کو سالوں انتظار کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ اس امر سے انہوں نے اپنی نااہلیت کو خود ہی تسلیم کر لیا ہے کہ وہ چونکہ کمزور ڈی جی ایم او تھے اور اُن کی موجودگی وہ سب کچھ بہت آسانی سے ہو گیا جو کسی نر آدمی کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تھا۔

گویا لیفٹیننٹ جنرل(ر) شاہد عزیز نے دورانِ سروس جو جو کیا یا جو جو ان سے ہوا وہ ”ٹھیک“ ہوا اُس کے لئے ان کی ہلکی سی معذرت یا ”معافی نامہ“ کافی ہے۔ اہم عہدوں پر فائز لوگوں کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے بارے میں بتانے کی شائد ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ ان کا ایک ایک لفط نپا تُلا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں اور افسروں کے پاس ملک کے بیش قیمت راز ہوتے ہیں وہ صرف کتاب کی 2 ہزار کاپیاں فروخت کرنے کے چکر میں اپنے اداروں کی روایات اور کلچر کی یوں دھجیاں نہیں بکھیرتے۔ذرا سوچیئے !!
Prof Afraz Ahmed
About the Author: Prof Afraz Ahmed Read More Articles by Prof Afraz Ahmed: 31 Articles with 21105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.