اجمل خٹک کی تیسری برسی

مغل شہنشاہ اکبر کے بنائے ہوئے قلعے کے سامنے جب دریائے سندھ اور دریائے کابل کا پانی چھلانگیں لگاتا ہوا سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتا ہے ۔تو جھرنو کی طرح دھیمے اور سریلی آواز میں ایک موسیقی پیدا ہوتی ہے۔اس مدہم موسیقی کو دریا کے کنارے کھڑے گڈریا کی سریلی اورر سیلی بانسری پر نغمہ پوری فضا کو مسحور کن بنا دیتا ہے۔مغلوں کے قلعے کے سامنے دریا کے اس پار پانی کے جھرنوں سے ایک نغمے کی صدا سن کر خوشحال خٹک کی روح رقص کرتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔جو مغلوں کو للکاررہی ہے۔لیکن نہ مغل باقی ہیں۔نہ اُن کے جاہ وحشمت جاہ وجلال ۔ البتہ قلعے کی شکل میں اُن کے آثار ضرور نظر آرہے ہیں۔کئی صدیوں کے بعدخوشحال خان خٹک کے قبیلے سے ایک دفعہ پھر اجمل خٹک کی شکل میں ایک صدا بلند ہوتی ہے۔جو ہر جبر و استبداد کے خلاف چٹان بن کر کھڑ ا ہو جاتا ہے ۔اجمل خٹک بھی پہاڑ کی طرح محکم اور ہر موسم میں باد وباراں اور طوفانوں میں اپناستار پر نغمہ سرائی کرتے رہے۔اُنہوں نے بھی تمام آمروں سے ٹکر لی ۔حتٰی کہ جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔لیکن اُصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔اپنے مقام سے نہ ہٹے ۔اپنے اُصولوں پر سختی سے کاربند رہے ۔سمجھوتے کے تحت دُنیا کی ہر نعمت اور آسائش کو قبول نہیں کیا۔ساری زندگی اُصولوں کی پاسداری کرتے رہے۔یہی اُ سکی زندگی کا اثاثہ ہے۔کہ اُس نے سچ ، اُصول کو ہمیشہ بلند رکھا۔اجمل خٹک نے ظلم اور استبداد کے خلاف جو رویہ اختیار کیا۔وہ اُس کے لفظوں میں کچھ اس طرح ہے ۔
چہ نشہ د استبداد لری پہ سر کی
مالا یو دے کہ مغل دے کہ افغان

جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے ۔کہ اجمل خٹک ہر ظالم ،ظلم اور استعماریت کے خلاف تھا۔اس سے قطع نظر کہ اُس کا تعلق جس قوم ، قبیلے اور خطے سے ہو۔وہ یہ برملا کہتا ہے۔کہ استبدادی قوتیں ،جبر و ظلم کی قوتیں جو بھی ہوں۔ وہ اُس کا مخالف ہے۔اُس کے اشعار نے پشتونوں کے سوئے ہوئے جذبوں کواُبھارا۔

یہ دریائے سند ھ کے کنارے اور گردوپیش کے پہاڑوں میں مکینوں کی خاصیت ہے ۔کہ جیسے پانی چٹانوں سے ٹکراتا ہے ۔تو چٹانیں پوری قوت سے مزاحمت کرتے ہوئے پانی کا مقابلہ تھپیڑوں سے کرتے ہیں۔چاہے پانی اٹھکیلیاں کرتے ہوئے بغلگیر ہونے کو تیار ہوتے ہیں۔لیکن پھر بھی ٹکرانے کی آواز دور دور تک سنی جاتی ہے۔چٹانوں اور پانی کے ملاپ سے جو نغمہ اُبھر تا ہے ۔اُس میں پتھریلے سنگلاخ چٹانوں کا شور زیادہ اور گد گدیاں کم ہوتی ہیں۔اس مسحورکن ماحول میں شاعر اور ادیب خاموش نہیں رہ سکتے۔ دریائے سندھ کے سنگم کے قریب بسنے والوں قلمکاروں نے جب یہ نغمے سنے تو وہ بھی گنگناتے ہوئے نامور شاعر ، ادیب اور سیاستدان اجمل خٹک کی تیسری برسی کے سلسلے میں اکٹھے ہوئے ۔ اجمل خٹک ادبی جرگہ خیر آباد نے ایک تقریب کا اہتمام کیا ۔جس میں علاقہ کے جملہ شعراء اور اُدباء کو مدعو کیا گیا۔ اجمل خٹک (مرحوم) کی شاعر اور اُن کی ادبی کاوشوں پر سیر حاصل تبصرے کئے۔اجمل خٹک کو نثر ونظم میں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔اجمل خٹک کے فن پر ہارون الرشید خٹک کی لکھی ہوئی کتابوں کی رونمائی کی تقریب بدست مسعود عباس خٹک کی گئی۔

اجمل خٹک نے سیاسی زندگی کا آغاز 1942 میں ’’ ہندوستان چھوڑدو ‘‘ کے تحریک سے کیا۔نویں جماعت کی طالب علم کی حیثیت سے پہلی دفعہ سیاسی کارکن ہونے کی حیثیت اُس کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے گئے۔سیاست میں عملی طور پر قدم رکھنے کے بعد اس پُر خار وادی میں کئی دفعہ سلاخوں کے پیچھے اور کئی دفعہ سیاست میں اعلیٰ ترین اعزازات سے نواز گیا۔اجمل خٹک کا صحافت سے گہرا تعلق رہا ہے ۔صوبہ سرحد کے بانی ایڈیٹروں میں اُن کاشمار ہوتا ہے۔1956 میں روزنامہ ’’ انجام ‘‘ کی ادارت سے منسلک ہوئے ۔یہی انجام اخبار بعد میں نیشنل پریس ٹرسٹ نے خرید لیا۔اور’’ مشرق ‘‘کے نام سے شائع ہوتا رہاہے۔اجمل خٹک نے روز نامہ ’’ بانگ حر م ‘‘ اور روز نامہ’’ شہباز‘‘ پشتو صفحات کے ایڈیٹر ہو نے کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔1948 سے 1953 تک ریڈیو پاکستان سے منسلک رہے ۔14 اگست 1947 کو ریڈیو پاکستان سے پہلی پشتو نظم نشر کرنے کا اعزاز بھی اجمل خٹک کو حاصل ہے۔ ڈرامے اور افسانے لکھنے میں گو کہ اجمل خٹک کی چند یادیں ہیں ۔ لیکن اس میدان میں اُنہوں نے زیادہ طبع آزمائی نہیں کی ہے۔اجمل خٹک کا ادبی سفر ایک طویل عرصے پر محیط ہے۔1933 میں پشتو ادبی جرگہ نوشہرہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس انجمن نے ادبی تقاریب کا اہتمام کرکے ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔اجمل خٹک نے 13 سال کی عمر میں 1936 میں خوشحال خان خٹک کے مزار پر اپنے اشعار سنائے ۔1943 میں بزم اکوڑہ خٹک اور پشتو ادبی ٹولنے تہکال کے قیام کو ممکن بنایا۔پشاور سے قربت کی وجہ سے تہکال کی اس ادبی انجمن نے پشتو ادب کے چیدہ چیدہ شعراء ادباء بشمول حمزہ شینواری نے یادگار مشاعروں کا انعقاد کیا۔

ایک شاعر کی حیثیت سے ترقی پسند اور مزاحمتی شاعری کے سرخیل بن گئے۔فارغ بخاری اور رضاہمدانی اور دیگر ترقی پسند مصنفین کے ساتھ مل کر پشاور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی۔پشاور سے ادبی مجلے ’’ سنگ میل ‘‘ کے بورڈ میں شامل رہے ۔انجمن ترقی پسند مصنفین میں اُس دور کے نامور اور ممتاز شاعر ادیب بشمول احمد فراز ،ن م راشد ، محسن احسان ، رضاہمدانی ، فارغ بخاری ، احمد ندیم قاسمی شریک ہوتے تھے۔اجمل خٹک نے اپنی شاعری میں جمالیاتی حسن پربھی طبع آزمائی کی ہے۔اولسی ادبی جرگہ مردان ، پشتو ادبی جرگہ مردان ، اولسی ادبی ٹولنہ مردان جیسے ادبی انجمنوں میں اجمل خٹک روح رواں کے طور پر ان اداروں کی سرپرستی کر تے رہے۔

اجمل خٹک کی ادبی کاوشوں پر لاتعداد ادیبوں ، شاعروں نے تبصرے کئے ہیں۔دستیاب ذرائع کے مطابق انکی تعداد 130 سے زیادہ بتائی جاتی ہے ۔جس میں پاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک کے بھی کئی دانشور ، محقق ، شاعر اور ادیب شامل ہیں۔فن کے حوالے سے اجمل خٹک ایسے فنکا رہیں۔جنہوں نے استعمار کے خلاف جنگ میں تلوار کی بجائے قلم کا سہارا لیا۔قلم کی زبان سے دُشمن کو بھی گھائل کرنے کی کوشش کی ۔اور اپنے گوگل کوبھی ۔

اجمل خٹک کی فن اور شاعری کے ساتھ ساتھ ایک سنیٹر ، پارلیمنٹرین کی حیثیت سے بھی اُن کے کردار کو اُن کے ہم عصر پارلیمنٹرین نے بے حد سراہا ہے ۔اُس کا زندہ ثبوت یہ ہے ۔کہ اجمل خٹک کے وفات کے بعد قومی اسمبلی میں جب اجمل خٹک کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔تو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈیڑ ھ گھنٹے تک جاری رہا۔اُس کے بعد اجلاس کو اگلے دن تک ملتوی کردیا گیا۔ یہ اجلاس ملتوی کرنے کی روایت صرف اُن ممبران کیلئے ہے ۔جو وفات کے وقت قومی اسمبلی کے ممبر ہو۔یہ شرف صرف اجمل خٹک کو حاصل ہے ۔کہ سابق ممبر کی حیثیت سے بھی اُن کی وفات پر اسمبلی کی کاروائی اگلے دن کیلئے ملتوی کی گئی ۔جو پارلیمنٹرین کی نگاہ میں اجمل خٹک کی عظمت اور عزت کا بین ثبوت ہے۔

اجمل خٹک ایک خودار انسان تھے۔اپنی خودداری پر کبھی بھی کسی قسم کی آنچ آنے نہیں دی ۔اور اپنے دامن کو بد عنوانی کے بدنما داغ دھبوں سے محفوظ رکھا۔عہد حاضر میں اس قسم کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔یہی وہ اوصاف اور اعلیٰ اقدا ر ہیں ۔جس کی بناء پر اجمل خٹک کا نام تاریخ میں بڑے احترام کے ساتھ تحریر کیا جائیگا۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 24972 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.