جماعت اسلامی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اتحاد

محب وطن حلقوں کے لیے یہ خبر کسی خوشخبری سے کم نہیں ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اور منظم دینی و سیاسی تنظیم جماعت اسلامی اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پارٹی تحریک تحفظ پاکستان کے درمیان :انتخابی اتحاد : ہو گیا ہے جسے :نظریاتی اتحاد : قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نہ صرف پاکستان بلکہ امت مسلمہ پر بھی احسان ہے کہ انہوں نے نامساعد حالات اور رکاوٹوں کے باوجود پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور امت مسلمہ کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا یہ کارنامہ ہی اتنا بڑا اور اہم ہے کہ اگر وہ عمر کے اس حصے میں اب کوئی سر گرمی نہ بھی کریں تولوگوں کو ان سے کوئی گلہ نہیں ہو سکتا۔تاہم وہ گذشتہ کئی سالوں سے اخبارات میں اپنے کالموں اور مضامین کے ذریعے اور مختلف اوقات میں میڈیا کو دیئے گئے انٹرویوز میں قومی مسائل پر اپنے دکھ اور درد کا اظہار کرتے رہتے ہیںاور وطن عزیز کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے حکمرانوں کو :مفت مشورے : بھی دیتے رہتے ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں ملک اور قوم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور وہ اس پیرانہ سالی کے باوجود آگے بڑھ کر اپنی سوچ اور فکر کو عملی شکل میں ڈھالنے کے لیے بےتاب ہیں۔اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اچھے اور محب وطن لوگوں کو اکھٹا کرکے مصائب و مشکلات میں گھری ہوئی اپنی پاکستانی قوم کو ترقی و خوشحالی اور امن وسلامتی کی شاہراہ پر چلانا چاہتے ہیں۔

ان کے خیالات اور جذبات قابل قدر ہی نہیں بلکہ لائق تحسین ہیں ۔تاہم کچھ زمینی حقائق ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہیں پیش نظر رکھناضروری ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک محب وطن ایٹمی سائنسدان ہونے کے ناطے اور پھر پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے حوالے سے پوری قوم کے لیے بے حدقابل احترام شخصیت ہیں۔تمام دینی و سیاسی جماعتوں ٬ تنظیموں ٬میڈیا ٬سول سوسائٹی ٬علماء٬ وکلاء٬ مزدوروں ٬ تاجروں ٬ طالبعلموں غرضیکہ ہر شعبہ زندگی کے افراد میں ان کے چاہنے والے موجود ہیں۔جب وہ ایک سیاستدان کی حیثیت سے سر گرم عمل ہوں گے تو پھر ان کی پالیسیوں کے کچھ ناقد بھی سامنے آجائیں گے ۔ ان کی مختلف پالیسیوں کو وقتا فوقتا ہدف تنقید بھی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔اسی طرح مختلف حالات و واقعات اور ایشوز کے تناظر میں وہ خود بھی دوسرے سیاستدانوں کے بارے میں اظہار خیال کریں گے۔تو اس صورتحال میں ان کی وہ غیر متنازعہ ٬ محسن اور ہیرو والی شخصیت نہ صرف دھندلا جائے گی بلکہ داغدار بھی ہوتی ہوئی نظر آئے گی ۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست ایک نہایت ہی بے رحم اور سفاک طرز عمل کا نام ہے اور اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔سیاستدان نہ صرف ایک دوسرے کا بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے مخالفین کے باپ داد ااوران کی نسلوں کا بھی کچا چٹھا نکال کر رکھ دیتے ہیں۔اس میدان میں بہت کچھ سننا اور برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بقول شاعر۔
یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے ساتھ جو ٹیم لی ہے ان میں زیادہ تر لوگ غیر معروف اور غیر سیاسی ہیں البتہ چوہدری خورشید زمان کا قدرے سیاسی پس منظر ہے ۔نہ معلوم موصوف کی کو ن سی صلاحیت اورخاصیت سے متاثر ہو کر ڈاکٹر خان نے ان کو سیکرٹری جنرل جیسے بڑے عہدے کے لیے چن لیا ہے۔چوہدری خورشید زمان کا تعلق گوجرخان سے ہے اور ان کے بڑے بھائی چوہدری محمد ریاض ٬ میاں محمد نواز شریف کے حلقہ ارادت سے تعلق رکھتے ہیں۔ماضی میںصوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔ایک مرتبہ قومی اورصوبائی دونوں نشستوں سے کامیاب ہوئے تھے تو قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی تھی ۔ضمنی الیکشن میں ان کے چھوٹے بھائی چوہدری خورشید زمان منتخب ہوئے تھے اور نواز شریف کی آخری کابینہ میں وفاقی وزیر مملکت برائے دفاع تھے۔بعد ازاں میاں نواز شریف ٬ جنرل پرویزمشرف کے ساتھ معاہدہ کرکے سعودی عرب سدھار گئے تھے اور چوہدری محمد ریاض مشہور گندم سکینڈل میں مفرور بھی رہے۔اس دوران چوہدری خورشید زمان مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو کر جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں وزیراعظم ظفراللہ جمالی کی کابینہ میںان کے سیاسی مشیر کے عہدے پر بھی براجمان رہے ہیں۔اس طرح تحریک تحفظ پاکستان ان کی تیسری پارٹی ہے۔

جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے ٬ وہ اپنی دینی فکر ٬ سیاسی سوچ اور انتخابی لائحہ عمل کے حوالے سے ایک جداگانہ حیثیت اورواضع شناخت رکھتی ہے۔ آپ اس کی مختلف پالیسیوں اور سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے اختلاف کر سکتے ہیں ٬ تاہم اس کے اسلام اور ملک وقوم کے ساتھ تعلق اور کمٹمنٹ پر دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ماضی میں جماعت اسلامی کے افراد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ سینٹ کے بھی ممبرمنتخب ہوتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزارتوں میں بھی جماعت اسلامی کے لوگ رہ چکے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر کے میئر بھی رہے ہیں۔ مگر ان کے مخالفین بھی ان کے کردار کے حوالے سے انگلی نہیں اٹھا سکتے۔امانت اور دیانت ان کی پہچان رہی ہے۔یہی وہ اجلا پن اور صاف ستھرا کردار ہے کہ جو جمات اسلامی کو دیگر سیاسی جماعتوں سے ممتاز کرتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن سے پاک اگر کوئی جماعت ہے تو وہ صرف اور صرف جماعت اسلامی ہی ہے۔ اور اس سے بھی آگے کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہی ملک کی وہ واحد دینی وسیاسی تنظیم ہے کہ جس کے باقاعدگی کے ساتھ ہر سطح کے انتخابات منعقد کیے جاتے ہیںاور اس جماعت کی سب سے بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں حقیقی جمہوریت ہے اور کوئی موروثی سلسلہ بالکل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ پہلو بھی خوش آئند ہے کہ اس جماعت میں کوئی بڑا جاگیردار یا سرمایہ دار نہیں ہے کہ جو اس کی پالیسیوں پر حاوی ہو جائے یا پوری جماعت کو ہی اپنے مقاصد کے لیے ہائی جیک کر لے۔اس کی تمام لیڈرشپ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔جماعتی عہدیداروں سے لیکر انتخابی امیدواروں تک سارے ہی لوگ گلی محلے اور عام معاشرے سے ہی لیے جاتے ہیں۔

جماعت اسلامی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان میں ایک قدر مشرک ضرور ہے کہ دونوں کی حب الوطنی پر کو ئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ امانت ودیانت اور صاف ستھرے کردار کے مالک ہیں۔گویا دوسرے لفظوں میں ایک اکیلا اور دو مل کر گیارہ بننے کی صلاحیت و قابلیت بھی رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خا ن کے خیالات بہت سارے قومی اور بین الاقوامی ایشوز پرملتے جلتے ہیں۔اس طرح ان کے اتحاد کو فطری بھی کہا جا سکتا ہے ۔اتحاد کے سلسلے میں پہل جماعت اسلامی نے کی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو منصورہ بلا کر ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔جوابی تقریب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے اعزاز میں ترتیب دی۔تازہ اطلاعات ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں مختلف دینی اور سیاسی جماعتوں کا ایک انتخابی اتحاد بنانے کے لیے بھی بات چیت چل رہی ہے اور ہوم ورک کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے ۔اب میدان سجے گا اور انتخابی مہم پورے ملک میں جوش وخرو ش اور گہماگہمی کے ساتھ آگے چلے گی تو عوام کی سمجھ میں کوئی بات آئے گی تو پھر ہی وہ کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ابھی تک تو اعلانات اوردعوے ہی ہیں ۔حکومت ہو یا اپوزیشن ٬ میڈیا ہو یا سول سوسائٹی ٬ سپریم کورٹ ہو یا پاک آرمی سب ہی وطن عزیز کو لاحق تمام امراض اور پیچیدہ و پوشیدہ مسائل کا حل اور واحد نسخہ کیمیا انتخابات کو ہی قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان نامی مریض کو لاحق جملہ بیماریوں کے لیے تمام سرجن اور میڈیکل بورڈ سر جوڑ کر بیٹھنے اورطویل مشاورت کے بعد اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب اس مریض کی جان بچانے اور اسے زندگی کی شاہراہ پر رواں دواں کرنے کے لیے انتخابات نامی بڑے آپریشن کے مرحلے سے گزرنا ہی ہو گا۔
ّ یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جا نا ہے

انتخابات کے حوالے سے ابھی تک جہاں بہت سارے تحفظات اور شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں ٬ وہیں ان سے بہت ساری امیدیں بھی وابستہ کی جا رہی ہیں۔ انتخابات جہاں سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کے لیے ایک سخت امتحان کا درجہ رکھتے ہیں ٬ وہیں یہ عوام کے لیے بھی ایک آزمائش اور امتحان ثابت ہوتے ہیں۔ قرآن پاک کے حکم کے مطابق امانت اس کے اہل کے سپردکی جائے۔یقینا ووٹ بھی ایک امانت اور گواہی ہے۔ ہر طرح کے تعصبات اوردباﺅ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے حلقہ میں دیانتدار اور اہل امیدواروں کو ہی ووٹ دیجئے۔ اس سے آپ کا ضمیر بھی مطمئن ہوگا اور کل آ پ اللہ کے ہاں بھی سرخرو ہو سکیں گے۔ ایک آدمی اسمبلی میں جا کر جو بھی غلط کام کرے گا یا قانون سازی میں حصہ لے گا ٬تو وہ آپ کے کھاتے میں بھی جائے گی۔ اس کا وبال آپ کو بھی کسی نہ کسی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔اس کے برعکس اگر آپ کا نمائندہ اسمبلی میں جا کر عوامی مفاد میں اور ملک وقوم کی بھلائی کے لیے جو بھی کام کرے گا یا کسی قانون سازی میں حصہ لے گا تو وہ آپ کے لیے خوشی و مسرت کا باعث ہوگا۔آپ فخریہ اپنے حلقے کے رکن کی کارکردگی عوام کے سامنے بیان کریں گے۔دوسری صورت میں آپ منہ چھپاتے پھریں گے اور پانچ سال تک پچھتاتے ہی رہیں گے۔کل کے پچھتاوے سے بچنے کے لیے آج درست فیصلہ کیجئے۔ اچھی شہرت اور صاف ستھرے کردار کے امیدوار کو ہی ووٹ دیجئے۔آپ کا ایک ووٹ بھی بہت قیمتی اور فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔اپنے ووٹ کی طاقت ٬ اہمیت اور وزن کا خیال رکھتے ہوئے اس کا صحیح استعمال کیجئے۔آپ کے ایک ووٹ سے تبدیلی آسکتی ہے۔ ووٹ تبدیلی ٬ خوشحالی اور ترقی کے لیے دیجئے۔
Malik Muhammad Azam
About the Author: Malik Muhammad Azam Read More Articles by Malik Muhammad Azam: 48 Articles with 47152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.