پرویز مشرف۔۔۔مکافات عمل کا شکار

جنرل (ر) پرویز مشرف نہ جانے کیا کیا سوچ کر پاکستان آئے تھے۔ایسا لگتا ہے کہ کچھ توانہوں نے خود ہی خواب دیکھے تھے اور کچھ ان کو دکھائے گئے تھے۔ان کی پارٹی کی ایک محترمہ ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہہ رہی تھیں کہ پاکستان کے اسی فیصد لوگ جنرل پرویز مشرف کے حامی ہیں۔اس پر اینکر پرسن نے سوال کیا کہ وہ لوگ کہاں ہیں ٬نظر نہیں آتے۔کراچی میں استقبال کا حال تو سب نے دیکھ لیا ہے ؟۔تو محترمہ کا کہنا تھا کہ خاموش اکثریت پرویز مشرف کے ساتھ ہے۔وقت آنے پر سامنے آجائیں گے۔سوال یہ ہے کہ وہ وقت کب آئے گا ؟۔اس وقت پرویز مشرف اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ابھی تو اسلام آباد اور راولپنڈی کی عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔جب وہ کبھی کراچی اور کبھی کوئٹہ جائیں گے ٬ تو آٹے دال کا بھاﺅ معلوم ہو جائے گا۔سامنے کی بات ہے کہ جنرل (ر ) پرویز مشرف عوامی تائید وحمایت سے محروم ہیں۔راولپنڈی اور اسلام آباد ہی نہیں بلکہ ملک کے کسی بھی شہر میں سابق آرمی چیف اور صدر پاکستان کے حق میںکوئی احتجا ج ٬جلسہ اور جلوس دیکھنے میں نہیں آیا۔وہ تو اقتدار کے دنوں میں کچھ خوشامدی اور چاپلوس قسم کے لوگ تھے جو ان کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے تھے۔ایسے افراد ہر دور میں اور ہر حکمران کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔مسلم لیگ (ق) کے اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے تو خوشامد میں اندھا ہو کر اعلان کیا تھا کہ ہم جنرل (ر) پرویز مشرف کو وردی میں دس بار صدر منتخب کروائیں گے۔آج چوہدری برادران جنرل(ر) پرویز مشرف کے سائے سے بھی بھاگ رہے ہیں۔البتہ بڑے چوہدری صاحب یعنی چوہدری شجاعت حسین نے اپنے سدا بہار فارمولے کا ایک بار پھر ذکر ضرور کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے معاملات پر بھی مٹی پاﺅ فارمولے کے تحت ہی کاروائی عمل میں لائی جائے۔ورنہ ایک پنڈوڑہ باکس کھل جائے گااور بہت سارے حسینوں کے اس میں نام آجائیں گے۔اس پر سوائے افسوس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
گر ہمیں مکتب و ملا باشد
کار طفلان تمام خواہد شود

پرویز مشرف نے جب سے پاک سرزمین پر قدم رکھا ہے ٬ اس کی حیرانی اور پریشانی میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔اس کو پہلا دھچکا کراچی ائر پورٹ پر لگا کہ جب اس کی توقعات سے کہیں کم لوگ استقبال کے لیے آئے تھے۔دوسرا دھچکااس وقت لگا کہ جب چاروں مقامات سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے کاغذات نمائندگی ایک ایک کر کے مسترد ہوتے چلے گئے اور بعد ازاں ان کی نظر ثانی کی تمام اپیلیں بھی خارج کر دی گئیں۔ پاکستان آمد کے بعد ہمارے سابق کمانڈو صدر نے کراچی ہائی کورٹ سے عبوری ضمانتیں بھی کروا لی تھیں۔تاہم ججز معطلی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی عبوری ضمانت منسوخ کرتے ہوئے موصوف کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ :میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں : کا ورد کرنے والا پرویز مشرف اخباری اطلاعات کے مطابق اس وقت کمرہ عدالت میں پسینے میں شرابور تھا۔سابق صدر اور آرمی چیف نے عدالتی احکامات کے آگے سرنگوں ہونے کی بجائے وہاں سے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔کمانڈو پرویز مشرف کا عدالت سے یہ فرار نہ صرف یہ کہ ملکی بلکہ عالمی میڈیا کی بریکنگ نیوز کا بھی موضوع بن گیا۔اس سے عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔اس کے بعد موصوف کی پریشانیوں اور حیرانیوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔اب پرویز مشرف ہے اور عدالتیں۔ہائے رے قسمت ماضی کے ایک طاقتور اور خود مختار حکمران کو یہ دن بھی دیکھنے تھے۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔ !! فااعتبروا یا اولی الابصار

جنرل (ر) پرویز مشرف پر آئین کو دو بار توڑنے کے سلسلے میں اعلی عدلیہ میںغداری کا مقدمہ چل رہا ہے۔اس کے علاوہ متعدد اور بھی سنگین نوعیت کے مقدمات کا پرویز مشرف کو سامنا کرنا پڑے گا۔گویا اب مشرف کا مستقبل عدالتوں کے رحم وکرم پر ہے۔موجودہ نگران حکومت نے تو اپنے مینڈیٹ کے حوالے سے پرویز مشرف پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے سے معذرت کر دی ہے۔ تاہم اس حوالے سے ایسا لگتا ہے کہ انتخابات کے بعد بننے والی حکومت ہی کو ئی واضح قدم اٹھانے اور فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔ پرویز مشرف کے وکلا ءاحمد رضا قصوری اور محمد ابراہیم ستی میں بھی کوئی ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔ماضی میں پرویز مشرف کے پرجوش حامی بیرسٹر سیف ان دنوں بیرون ملک ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ میں نے جنرل(ر) پرویز مشرف کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا تھا ٬ مگر افسوس کہ انہوں نے میرے مشورہ کو قبول نہیں کیا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے وکلاءان (پرویز مشرف ) کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پرویز مشرف کے وکلاءہی ان کا سیاسی کیس بھی لڑ رہے ہیں۔اگر چہ ڈاکٹر امجد بھی سیاسی محاذپرمورچہ زن ہیں ٬ مگر شاید ابھی وہ سیاسی طور پر ناتجربہ کار ہیں۔جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی اور بھاگ دوڑ بہت ہی محدود اور لا حاصل ہی لگتی ہے ۔افسوس کی پرویز مشرف کو ملکی سطح کا کوئی بھی سیاسی لیڈر اپنی سپورٹ اور عوام میں ان کا مقدمہ لے کر جانے والا فرد میسر نہیں ہے۔ان کے گرد جو محدودے چند افراد پائے جاتے ہیں۔ وہ سیاسی میدان اور عوامی مزاج کے آدمی ہی نہیں ہیں۔خوش قسمتی یا بد قسمتی سے یہی صفات اورخصوصیات جنرل (ر) پرویز مشرف میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کوئی سیاسی پنڈت اور نجومی بھی پرویز مشرف کے مستقبل کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پیش گوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ (1 ) کیا پرویز مشرف کو باہر جانے کے لیے محفوظ راستہ دے دیاجائے گا؟۔(2 )کیا موصوف کو عبرت کا نمونہ بنادیا جائے گا؟۔(3 )کیا سابق کمانڈو صدر کو تھانوں اور عدالتوں کے چکر لگوا لگوا کر بے عزت اور بے توقیر کرنے کا پروگرام طے کیا گیا ہے؟۔ہیرو یا زیرو ٬اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا۔کچھ لوگ ضامنوں کا ذکر بھی بار بار کرتے ہیں۔اگر اس میں کچھ صداقت ہے ۔ تو کیا یہ ہمارے ملکی معاملات میں کھلی مداخلت نہیں ہے؟۔ کیا فرماتے ہیں؟۔مفتیان قانون اور ماہرین امور سیاست بیچ ان مسائل کے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔وطن عزیز کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ یہاں کیسی کیسی انہونیاں ہوتی رہی ہیں شاید ایک اور بھی ہماری تاریخ کا حصہ بننے جا رہی ہے۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔!!
Malik Azam
About the Author: Malik Azam Read More Articles by Malik Azam: 48 Articles with 52013 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.