پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں
شامل کرنے اور عوام کو بے روزگاری ،غربت اور جہالت سے بچانے کے لیے ضروری
ہے کہ پاکستان میں عوامی حکومت کی مدت تین سال کردی جائے جس سے نہ صرف آنے
والے حکمرانوں کو اندازہ ہوگا کہ ہم نے ہر کام تیزی سے کرنا ہے اگر اچھا
کیا تو دوبارہ منتخب ہو سکتے ہیں اگر کچھ نہ کیا تو پھر دوبارہ منتخب ہونا
ناممکن ہو گا اس سے نہ صرف ملک میں ترقی کی رفتار تیز ہو گی بلکہ جمہوریت
کو بھی فروغ ملے گا اور عوام بھی باشعور ہو جائے گی جبکہ حکومت کے پانچ سال
بہت لمبا عرصہ ہے اور عوام کو ان پانچ سالوں میں جس کرب سے گذرنا پڑتا ہے
وہ ناقابل بیان ہے محترمہ بینظیر بھٹو نے فرمایا تھا کہ جمہوریت بہترین
انتقام ہے جی ہاں بلکل ایسے ہی ہے جمہوریت بہترین انتقام ہے اور آج پاکستان
کی عوام نے بدلہ لے لیا وہی عوام جو گذشتہ کئی سالوں سے غربت ،مہنگائی ،بے
روزگاری ،لوڈ شیڈنگ اور پروٹوکول کلچر کی چکی میں پس رہی تھی جو ایک
درخواست دینے کے لیے کئی کئی گھنٹے دھوپ میں کھڑے ہو کر ان فرعونوں کا
انتظار کیا کرتے تھے جن کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ گرادی جاتی تھی اور
جن کے پروٹوکول میں گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگی ہوتی تھی جہاں پر ایک غریب
اور حق دار کو اپنا حق لینے میں ایک زندگی گذارنا پڑتی تھی جن کے دفتروں کے
باہر کئی کئی گھنٹے انتظار میں گذارنے والے بغیر ملاقات کے ہی واپس لوٹ آتے
تھے اور جس ملک میں ان حکمرانوں کی بدولت موت سستی اور قبر مہنگی بکتی
ہوایسے میں تبدیلی نہ آئے تو اور کیا ہوگا اب اگر عوام نے پیپلز پارٹی کے
اپنے ہی سلوگن جمہوریت بہترین انتقام ہے کے مصداق لوڈ شیڈنگ ،مہنگائی ،بے
روزگاری ،غربت میں بے تحاشا اضافہ سمیت میگا کرپشن سکینڈلز جیسے مسائل پر
اپنے ووٹ کے زریعے انقام لے لیاتو اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں وفاق کی
جماعت ہونے کی دعویدار پیپلز پارٹی عوام کی حقیقی خدمت نہ کرنے کے نتیجہ
میں قومی اسمبلی کی بہت کم نشستیں حاصل کرسکی پانچ سال تک مرکز میں
برسراقتدار رہنے والی اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے جمہوری حکومت کی مدت
پوری ہوتے ہی منظر سے غائب ہوئی کہ کہ پوری انتخابی مہم میں قومی سطح پر
کوئی ایک بڑا جلسہ نہ کرسکی حتی کہ نتائج آنے کے بعد بھی مرکزی قیادت کی
جانب سے ابھی تک جماعت کے لیے کوئی ایک بیان بھی سامنے نہیں آیاجس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی نتائج کا اندازہ تھا وفاق کی
نمائندگی کی دعوے دار پیپلز پارٹی جہاں ایک جانب عوام کے غیض و غضب کا
نشانہ بن کر سندھ اسمبلی کی اکثریتی جماعت تک محدود ہوگئی وہاں دوسری جانب
پارٹی کے بڑے بڑے اہم رہنماءاور دو سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ انکے
خاندان سے تعلق رکھنے والے کسی ایک بھی امیدوار کی کشتی پار نہ ہوسکی اس سے
ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں سیاسی شعور واقعتابڑھا ہے جو یقینی طور پر
جمہوریت کی مضبوطی اور ملک و قوم کے مفاد میں ہے پیپلز پارٹی کی عام
انتخابات میں پوزیشن باقی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی الارمنگ ہے کیونکہ جو
عوام پانچ سال تک ملکی تاریخ میں بدترین ،غربت ،مہنگائی ،بے روزگاری،بجلی ،گیس
کی لود شیڈنگ سمیت دیگر مسائل بھگتتی رہی ہو تو وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے ملک
و قوم کا مقدر تاریک کرنے والی پیپلز پارٹی کا احتساب کرسکتی ہے تو الیکشن
جیتنے والی جماعت ن لیگ کو بھی معاف نہیں کریگی لہذا اب نئی حکومتوں کو
عوامی مسائل حل کرنا ہونگے ایک ایسا واضح اور شفاف نظام رائج کرنا پڑے گا
جس سے سفارش اور رشوت کلچر کا خاتمہ ہو سکے اگر ایک سرکاری ہسپتال سے ایم
پی اے اور ایم این سمیت سرکاری ملازم کا علاج مفت ہو سکتا ہے تو وہی پر ایک
غریب مریض کا بھی علاج مفت کیا جائے نہ کہ اسے کسی ایم پی اے یا کسی اور کی
سفارش ڈھونڈنا پڑے تھانہ کچہری کی سیاست کو ختم کرکے حقیقی معنوں میں
ملازمین کو عوام کا خادم بنایا جائے اگر ایک عام آدمی ایک عام آدمی کے ووٹ
سے مقدس گائے بن سکتا ہے تو پھر وہ عام آدمی اتنا بے تقیر کیوںہوجاتا ہے کہ
الیکشن کے دنوں میں جس کی منتیں کی جاتی تھی الیکشن کے بعد وہی منتوں پر
کیوں آجاتا ہے ان سب حقیقتوں کا ادراک کرکے اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا ورنہ
عوام کے پاس متبادل تیسری طاقت بھی آچکی ہے جو اگلے انتخابات میں ن لیگ کا
بھی بوریا بستر گول کرسکتی ہے اس لیے ہماری رائے کے مطابق اب سب جماعتوں کو
ایک بار پھر متحد ہو کر اس بات کافیصلہ کرلینا چاہیے کہ حکومت کی مدت پانچ
سال کی بجائے تین سال کردی جائے جس سے ملکی ترقی کا پہیہ تیزی سے گھومے گا
اور عوام بھی خوشحالی کی طرف اپنا سفر شروع کردے گی- |