تمامِ عالَم مست۔۔۔۔۔۔چودھری طاہر عبید تاجؔ
علم وعقل -عشق و جنوں
برگِ درختانِ سبز، در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفتریست ز معرفت کردگار ۔۔۔(سعدیؒ )
اے خدا! میں اس بے سوزوگداز زندگی سے عاجز آگیا ہوں۔ یا تو مجھے وہ آنکھ
عطا کر جو تجھے دیکھ سکے یا پھر اس ’’جانِ بے دیدار‘‘ کو مجھ سے واپس لے لے۔
تو نے مجھے عقل دی ہے، تو عشق (جنون) کی دولت بھی عطا فرما تاکہ میں مقصدِ
حیات میں کامیاب ہو سکوں۔
اقبالؒ ، علم اور عشق کا مختصر موازنہ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ علم کا مقام
ذہن یا سوچ وچار ہے لیکن عشق کا مقام قلب ہے ، جو ہمیشہ بیدار رہتا ہے۔
’’قلب لانیام‘‘ وہ قلب جو کبھی نہ سوئے اس لئے اقبالؒ دل کی بیداری کی طرف
اشارہ کرتے ہیں ۔ کیونکہ جب عاشق ’’ واذکرواللہ کثیراً‘‘ پر عمل کرتا ہے تو
ذکرِ الٰہی کی برکت بلکہ تاثیر سے اس کا دل جاری ہو جاتا ہے یعنی خواہ وہ
کسی حال میں ہو، اس کا دل ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتا ہے۔ اس کو صوفیاء اپنی
اصطلاح میں ’’دل کا جاری ہو جانا‘‘ کہتے ہیں اور اقبالؒ اس کو دل کے زندہ
ہوجانے سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں:-
دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
اسی دلِ زندہ کو قلبِ لانیام بھی کہتے ہیں یعنی عاشق کا دل ہر وقت ذکر میں
مشغول رہتا ہے، سوتے میں بھی ، جاگتے میں بھی۔ ذکر سے مراد یاد بھی ہے اور
توجہ بھی، لگن، رابطہ اور دھیان بھی۔ ادنیٰ درجہ میں اس کا تجربہ عشقِ
مجازی میں بھی ہو سکتا ہے۔ جب کسی کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو وہ شخص
خواہ میز کرسی لگائے پڑھ رہا ہو یا لکھ رہا ہو یا دفتر میں فائلوں میں سر
کھپا رہا ہو یا دکان پر سودا پیچ رہا ہویا سڑک پر کنکر کوٹ رہا ہو یا کلاس
میں لیکچر دے رہا ہو، غرضیکہ کسی حال میں بھی کیوں نہ ہو، دھیان اس کا اپنی
محبوبہ کی طرف ہوتا ہے۔ بظاہر وہ کسی کام میں مشغول نظر آتا ہے مگر اس کا
دل اسی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ بس اسی کو ذکر کہتے ہیں۔
حضور ﷺ کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ آپؐ کے غلاموں کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے
یہ حقیقت واضع ہو سکتی ہے کہ وہ ہر حال میں ’’دل بیار و دست بکار‘‘ کے اصول
پر عامل رہتے تھے اور اسی لئے وہ اطمینانِ قلب کی دولت سے مالا مال تھے۔
جب تک علم (عقل) عشق سے روشنی اور ہدایت حاصل نہ کرے اس وقت تک اس کی حیثیت
’’تماشہ خانۂ افکار‘‘ سے زائد نہیں ہوتی۔ جب تک علم (عقل) عشق کے تابع نہ
ہو اس وقت تک اس میں انسان کو فائدہ پہنچانے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ اور
یہ تماشہ خانہ گویا ’سحرسامری‘ ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں ہے، محض فریب نظر
ہوتا ہے، جس سے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب تک علم (عقل)
کو روح القدس (عشقِ الٰہی ) کی تائید نہ ہو، اس کی حیثیت افسونگری سے زیادہ
نہیں ہے۔
اقبالؒ نے علم(عقل) کو ہمیشہ ’تماشہ خانۂ افکار‘ یا ’بتکدۂ تصورات‘ سے
تعبیر کیا ہے۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں، بتکدۂ تصورات
تماشہ خانۂ افکار یا بتکدۂ تصورات سے اقبالؒ کا دراصل مطلب یہ ہے کہ محض
عقل، انسان کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتی۔ اس کی حالت یہ ہے کہ مثلاً
آج وہ ہستئ باری تعالیٰ پر ایک دلیل قائم کرتی ہے تو کل خود ہی اس کے ابطال
پر دلیل قائم کردے گی۔ یعنی جو دلیل آج ہم علم (عقل) کے دربار میں مقبول
ہے، کل وہی دلیل مردود ہو جائے گی۔ یا یوں کہیے کہ عقل، افکار و تصوراتِ
مختلفہ، متضادہ اور متعارضہ کا ایک تماشہ خانہ ہے جس میں ہر روز نئے نئے
تصورات جلوہ گر ہوتے رہتے ہیں اور تھوڑی دیر کیلئے جھلک دکھا کر اسی طرح
خارج ہو جاتے ہیں جس طرح ایکٹر تماشہ دکھا کر اسٹیج سے غائب ہو جاتے ہیں۔
علاوہ بریں عقل انسانی جو تصورات قائم کرتی ہے ان کی صحت پر اسے کبھی بھی
یقین نہیں ہوتا (کیونکہ ہو نہیں سکتا) اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل کا دارومدار
ان معلومات پر ہے جو بذریعہ خواسِ خمسہ حاصل ہوتی ہیں اور حواس کے متعلق ہر
شخص جانتا ہے کہ وہ غلطی کرتے رہتے ہیں۔ یعنی جو علم، حواس سے حاصل ہوتا ہے
وہ یقینی نہیں ہوتا اسلئے تصوراتِ ذہنی اور افکارعقلی بھی لائقِ اعتبار
نہیں ہیں۔
فرماتے ہیں کہ جب تک ’’تجلّی‘‘ یعنی عشق رہنمائی نہ کرے، کوئی عقلمند آدمی
محض اپنی عقل کے بل بوتے پر منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔ بلکہ وہ اپنے
خیالاتِ متضادہ کی کشمکش ہی میں مبتلا رہتا ہے اور انجام کار حیرانی اور
پریشانی کے صحرا میں ساری عمر بھٹکتا رہتا ہے۔ اکبر الہ آبادی نے اسی خیال
کو یوں ظاہر کیا ہے۔
عقل کو کچھ نہ ملاعلم میں حیرت کے سوا
دل کو بھایا نہ کوئی رنگِ محبت کے سوا
کہتے ہیں کہ تجلی کے بغیر یعنی عشقِ صادق کے بغیر انسانی زندگی مستقل عذاب
یا مصائب و آلام کا منبع بن جاتی ہے اور انسان بلاشبہ اطمینان، تسکین اور
راحتِ قلبی سے محروم ہو جاتا ہے۔ اقبالؒ نے اسکے لئے ’’رنجوری‘‘ کا لفظ
استعمال کیا ہے۔ رنجوری کے معنیٰ ہیں مرض یا بیماری۔ اور اس میں شک نہیں کہ
ہر وہ شخص جو عاشق نہیں ہے، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے مریض (رنجور) ہوتا
ہے۔ صرف عشق ہی میں یہ طاقت ہے کہ وہ روح کے تمام امراض کا ازالہ کر سکے۔
شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علّت ہائے ما۔۔۔۔۔۔ (رومیؒ )
تجلی کے بغیر زندگی تو سراسر دکھ ہے اور عقل مہجوری ہے یعنی منزلِ مقصود سے
دوری ہے ۔ یا حریم ناز(درِ جاناں ) سے جدائی ہے ۔ دیکھا جائے تو ہر عقلمند
آدمی مسلکِ جبر کی طرف مائل ہوتا ہے کیونکہ عقل اسے دلیلوں سے قائل کرتی ہے
کہ انسان مجبور ہے اور چونکہ مجبور ہے اسلئے اس سے باز پرس نہیں ہوگی۔
عاشق، برعکس ایں، اختیار کی طرف راغب ہوتا ہے یعنی وہ مسلک اختیار پر عامل
ہوتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اللہ کا نائب ہوں اسلئے اگر مجھ میں اختیار
نہ ہو تو نیابت کیسے کروں۔عشق کا تقاضا ہے کہ وہ عاشق کو معشوق کے رنگ میں
رنگنا شروع کر دیتا ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں اس کو جذب و انجذاب کہتے ہیں
یعنی عاشق، معشوق کو اپنے اندر جذب کرنا شروع کر دیتا ہے اور رفتہ رفتہ اس
میں اس کے خواص پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں جس طرح لوہا اگر کچھ عرصہ آگ میں
پڑا رہے (یعنی وہ اپنے کو آگ میں فنا کردے) تو لوہے میں آگ کے صفات جلوہ گر
ہو جاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ یہ دنیا جو کوہ و دشت و بحر و بر کا مرکب ہے، ہم اپنی غلطی کی
بناء پر اس سے ’نظر‘ کے طالب ہیں لیکن یہ مادّی دنیا ہمیں صرف ’خبر‘ دے
سکتی ہے۔ نظر تو کسی صاحبِ نظر کی صحبت سے حاصل ہو سکتی ہے۔
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھا ور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
عقل نہ خود حقیقت کو دیکھ سکتی ہے نہ ہمیں دکھا سکتی ہے۔ کیونکہ وہ ’نظر‘
سے محروم ہے۔ اس کا دارومدار تو خبر پر ہے، یعنی ان اطلاعات پر جو اس کو
حواسِ خمسہ سے حاصل ہوتی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خبر کی بدولت انسان جان سکتا
ہے، دیکھ نہیں سکتا۔ اسی لئے سلطان ابو سعید ابوالخیرؒ نے ابن سینا کی
گفتگو سن کر اپنے خدّام سے یہ فرمایا تھا ’’انچہ اومہ داند مامی بینم‘‘
بات صرف اتنی ہے کہ خبر میں ہمیشہ کذب (جھوٹ) کا احتمال رہتا ہے۔ نظر ،
یقین پیدا کردیتی ہے۔ اسی لئے اقبالؒ نے کہا کہ
علاجِ ضعفِ یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
اللہ ہمیں عشق کی دولت سے مالا مال فرمائے (آمین) |