میڈیامیں بار بار دہرایا
جارہاہے ’’انقلاب انقلاب انقلاب‘‘،گویا کسی بھی قوم کے لیے آگے بڑھنے ،بحرانوں
سے نمٹنے ،ترقی کرنے اور استحکام کے راستے پر چلنے کے لیے پہلے ملک قوم کے
وجود کو خطرے میں ڈالا جائے ،پھر از سر نو تعمیر کیاجائے ،قوم کو متواتر یہ
سمجھا یا جارہا ہے، چونکہ سازشوں کی وجہ سے ہم تباہ حالی سے دوچار ہیں ،اس
لیے تحفظ پاکستان ،بچاؤ پاکستان کے تناظر میں انقلاب ضروری ہے۔
آج کے دور میں حکمراں وقائدین کی نا اہلیوں ،حماقتوں اور مجرمانہ غفلتوں کا
جواز فراہم کرنے کے لیے’’سازش ‘‘کی تھیوری سب سے آسان فارمولا ہے ، ،بلا
شبہ امریکہ ،اسرائیل اور بھارت ہمارے مفادات کو زک پہنچاتے رہے ہیں،ان سے
ہمیں بارہا نقصان پہنچا ہے، لیکن اسکا راستہ ،اسکا ذریعہ کس نے بنایا ؟کیا
وہ خود ہم نہیں ؟کیا وہ ہمارے لیڈر ،ہمارے رہنما نہیں ؟چاہے وہ سیاسی ہو ں
یا دانشور کہاجاتا ہے کہ اسلام کے خلاف ،پاکستان کے خلاف یہ سب طاقتیں کام
کر رہی ہے ،مگر ذرا اپنی بھی حرکتیں ملاحظہ ہو ں، گذشتہ سال ممتاز امریکی
جریدے ’’نیوز ویک‘‘میں ایک بڑے تجزیہ نگار کا مضمون چھپا ہے ،جس میں امریکہ
میں متعین پاکستانی سفیر حسین حقانی کی کتاب"PakistanBetween Mosque and
Military" سے اقتبا سا ت لئے گئے ہیں ،ہماری افواج اور انکا نظریہ پاکستان
سے تعلق اور پھر ان دونوں کی وجہ سے ہونے والے ’’ملک وقوم کو نقصانات ‘‘پر
جس طرح اظہار خیال کیا گیا ہے ،انکا اندازہ کوئی بھی ’’سفیر پاکستان ‘‘کی
کتاب سے لگا سکتاہے ،اس میں نیوز ویک کا سب سے دلچسپ یہ فقرہ بھی شامل ہے
’’پاکستانی سفیر آج خود اپنی ہی کتاب کا ایک کردار بن کر حقیقت کا روپ دھا
ر چکے ہے اور وہ خود اسی کے حق میں دلائل دے رہے ہیں ،جس کی وہ اس کتاب میں
مذمت کر چکے ہیں ۔‘‘ بتانا یہ ہے کہ ہم جو کچھ بو رہے ہیں وہی کاٹ رہے ہیں
،ضرورت ا س بات کی نہیں کہ ہم بونا ہی چھوڑ دیں، بلکہ ضروری بات یہ ہے کہ
ہم صحیح بیج بوئیں تاکہ جو فصل کا ٹیں وہ وہی ہو جس کی ہم آرزو کرتے ہیں
اور امید رکھتے ہیں ،ہاں،اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ’’انقلاب کی وجہ
سے ملک کاوجود خطرے میں پڑجانے کے بعد دوبارہ زندگی مل جائے گی ۔‘‘یہ مشورہ
انتہائی خطرناک ہے ۔تاریخ کچھ اور بتاتی ہے مسلمانوں کی تاریخ پر نظر ڈالی
جائے ،تو کئی مرتبہ اس کے بہت ہی تباہ کن نتائج سامنے آئے ہیں، آج جس مقام
پر مسلمان من حیث القوم کھڑے ہیں ،اس کی بڑی وجہ اس قسم کے خطرات کی پیش
بندی نہ کرنا اور خطرات میں گرنے کے بعد ان کا صحیح ادراک،تجزیہ اور مقابلہ
نہ کرنا رہا ہے ۔
سقوط غرناطہ ،جس کے بعد مسلمانوں کی اسپین میں آٹھ سو سالہ حکومت نہ صرف
ختم ہوگئی ،بلکہ یورپ سے (سوائے ترکی )مسلمانوں کا نام ونشان ہی مٹ گیا ،اس
تباہی سے پہلے اسپین میں مسلمانوں کی زبوں حالی کی جو وجوہ تھیں ،ان میں
انکی طوائف الملوکی، بے تدبیری ،کمزوریاں ،علم وہنر سے دوری ،انتظامی
فیصلوں میں حماقتیں ،قومی اتحاد کا پارہ پارہ ہونا اور سب سے بڑھ کر اپنے
ارد گرد منڈلاتے ہو ئے خطرات سے غفلت شامل ہے ۔
مؤرخین بتاتے ہیں کہ آس پاس کی عیسائی حکومتیں اسپین کی کمزور مسلم مملکت
کی بنیادی کمزوریوں کو بھانپ چکی تھیں ، اس پر وار کرنے کو تھیں ،آخر ایسی
صورت میں وہ سفارتی سیاسی اور فوجی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے ،جن سے تباہی
سے بچنا ممکن ہوتا؟ہمیں غرناطہ کے آخری سلطان کا وہ واقعہ یاد ہے، جب
غرناطہ کی شکست کے بعدابوعبداﷲ ایک پہاڑ کی چوٹی پر تھا ،وہ اپنے
شاندارماضی اور حالیہ شکست کو یا د کر کے رونے لگا ،پاس ہی کھڑی ماں نے
تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا :’’جس مملکت کو توبہادر مردوں کی طرح بچا نہ سکا ،اس
پر شکست کے بعدناتواں عورتوں کی طرح آنسو بہا نا بے کار ہے ۔‘‘بہادروں کی
طرح بچانے سے ان کی مراد یقینا وہ تمام اقدامات تھے ،جو ایسے حالات میں
اپنے ملک کو بچانے کے لیے قیادت اپنی دور اندیشی اور تدبر سے کرتی ہے،جو
فلسفی، دانشور اور تجزیہ نگار ’’انقلاب ‘‘کی تھیوری کو کامیابی کی ضمانت
بتاتے ہے ،کیا وہ نہیں جانتے کہ اسپین کی شکست مسلمانوں کے لیے کس اندوھناک
باب کی حیثیت رکھتی ہے ؟وہ غالباً ہمارے عالمگیر زوال کی پہلی کڑی تھی ۔اس
کے بعد سقوط بغداد لیجیے، خلافت عباسیہ بغداد تک محدود ہوچکی تھی، بلکہ اس
میں جو بھی مختلف گروپ اور فر قے تھے ،ان پر خلافت کی گرفت نہ ہونے کے
برابر تھی ،عدمِ شورائیت ،بحث مباحثہ ،فیصلے کی قوت کا فقدان،دنیا وی عیش
وعشرت ،نفاق ،مذہبی گروہ بندی ،غالبا شایدہی کوئی دینی اور دنیاوی نقاہت ہو
،جس سے خلافت کے آخری تاجدار کی حکومت بچی ہو ،اس پر مستزاد یہ کہ آس پاس
کی مسلم ریاستیں بالکل خود مختار ہو چکی تھیں، مسلم دنیا میں مکمل طوائف
الملوکی تھی ،ایسے میں چنگیزخان اور ہلاکوخان کے زیر قیادت تاتاری اٹھے اور
مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔
اسی طرح سقوط دہلی کی تاریخ ہے ،اورنگزیب کے بعد ہندوستان میں اس کے بیٹے
نااہل ثابت ہوئے ،دربار باہمی سازشوں کی آماجگا بن گئے ،صوبے آزاد وخود
مختار ریاستیں بن گئیں ،جو ہمہ وقت ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکا ر رہیں،
ہندوستان بھر میں کوئی متحدہ اتھارٹی نہ رہی ،کہیں مر ہٹے دندناتے پھر رہے
تھے ، تو کہیں سکھوں کا راج تھا ، مغل بادشاہ تاش اور شطرنج کا بادشاہ بن
کر رہ گیاتھا، جس سے ہر طاقتور حریف اپنی چال کے لیے استعمال کرتا ،لوگ حال
سے بے حال تھے ،ایسے میں اگر بیرونی طاقتوں نے اس سے آسان شکار گاہ سمجھا
تو قصور کس کا تھا ؟
نہ حکمرانوں کو اپنا ہوش ،نہ دانشوروں میں دانش وتدبر ،نہ وزیروں ،سفیروں
میں دور اندیشی ، چنانچہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا ، جو فطرت کا تاریخ میں
بار بار عمل دخل رہا ،انگریز آیا اور حکمراں ہوگیا ،مغل شہنشاہ صرف اشعار
کہنے کے لیے رنگون میں پناہ گزیں ہو گئے، جبکہ غالب وحالی ہماری زبوں حالی
پر روتے رہے ۔
سقوط ڈھاکہ جسے بمشکل 38سال ہو ئے ہیں ،امریکہ ،روس ،بھارت ،اسرائیل ،بر
طانیہ اور نہ جانے کس کس کو ہم اس المیے میں کر دار ثابت کر تے ہیں، لیکن
آخریہی بات فیصلہ کن ہو گی کہ مشرقی پاکستان کے بحران میں پاکستانی قیادت
اور عوام نے اس صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کیا ،جو اس خوفناک صورتحال سے نکلنے
کے لیے ضروری تھی ،ہم نے سقوط ڈھاکہ کے بعد اپنی تسلی کے لیے سیکڑوں جواز
فراہم کیے ’’ آج کا پاکستان زیادہ متحد ہے ‘‘ ،’’بنگلہ دیش اب بھی مسلمان
ملک ہے ‘‘،’’مسلمان ملکوں کی تعداد بر صغیر میں بڑھ گئی ‘‘،لیکن در حقیقت
سقوط مشرقی پاکستان ہماری شکست ورسوائی کی ایک انمٹ شہادت ہے ۔
اگر وجود کو خطرہ لا حق ہو جا ئے تو پھرکیا کیا جا ئے ؟یعنی پاکستان کو
موجودہ بحران سے کیسے نکالا جا ئے ؟بہت سے لکھنے والوں نے کئی مر تبہ جا
پان ،جرمنی ،فرانس اور چین وغیرہ کی مثالیں پیش کی ہیں ،ان میں سے تین مکمل
شکست سے ہمکنار ہو چکے تھے ،یعنی سقوط جا پان ،سقوط جرمنی اور سقوط فرانس
ہو چکا تھا ،لیکن اس کے بعد صرف دس سالوں میں یہ دوبارہ ایک طاقت بن کر
ابھر نے لگے اور تیس سالوں میں ایسی طاقتیں بن چکے تھے ،جن کی نہ صرف مثال
دنیادے رہی تھی بلکہ ان سے رہنمائی حاصل کر رہی تھی ۔
ہم امریکہ سے خوش نہیں ،نیٹو سے شکایات اپنی جگہ ،یورپ ہماری مدد اس طرح
نہیں کر رہا جس طرح ہم چا ہتے ہیں ،لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم صرف شکایات
ہی کر سکتے ہیں، یا اس پوزیشن میں ہیں جہاں اپنی با ت منوائی جا سکے ؟ہمیں
یقین ہے کہ اس کا جواب جاننے کے لیے کسی ’’تصور و تصدیق پر مشتمل منطق ‘‘کی
ضرورت نہیں ،ہماری صورتحال ہما رے ملک کا بچہ بچہ جا نتا ہے ،مصنوعی غیرت
وحمیت سے ہما را کام نہیں چل سکتا، بیکار کی انا ہمارے کسی کام کی نہیں ،ہاں
ٹھوس راہ عمل ہمارے بحران کا حل ہے ،لسانیت ، فرقہ واریت ،صوبائیت، دشمنیاں
، مخالفتیں ، سازشوں کے انکشافات ہمیں کیا دے گئے اور کیا دے رہے ہیں ،غور
کر نے کا وقت ہے، وقت ہے تو سر جھکاکے کام کر نے کا ،یعنی بابائے قوم کے
مطابق ’’کام کام اور صرف کام ‘‘،لیکن ہماری صورت حال یہ ہے ’’آرام آرام اور
صرف آرام ‘‘،ہم ہر چھو ٹی بڑی بات پرچھٹیاں مناتے ہیں ۔
اگر کراچی بند ہوا ،اربوں کا نقصان ہوا ،تو کیا غم ،ہمارے جذبات کی تسکین
تو ہو گئی ،ہم جیت گئے ،ہماری بات مان لی گئی ،اس نقصان کو پورا کر نے کے
لیے قوم کو کس کس کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑیں گے ،اس درد سر میں کون پڑے ،
قومی معا ملات میں سمجھوتے کی کیا ضرورت ،ہم تو وہی کریں گے جو ہمیشہ سے
ہماری عا دت ہے،توانائی کے لیے کسی اور سے بھیک مانگ لیں گے ،یہ ہے ہمارے
رویے ،کیا ا س انداز سے بحرانوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ؟۔
ایک اور بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے ،یہ انیسویں صدی سے پہلے کی دنیا نہیں ،ٹیکنالوجی
کی برق رفتاری انقلابی تبدیلیاں لے آئی ہیں ،اگر اٹھارویں صدی ’’ایج آف
ریزن ‘‘تو انیسویں صدی ’’ایج آف سائنس ‘‘بیسویں صدی ’’ایج آف ایٹم ‘‘تو آج
اکیسویں صدی ’’ایج آف انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ‘‘ہے ،گلوبل ولیج کے ہمہ
گیر اثرات نے سب کچھ بدل دیا ،نہ آپ کچھ چھپا سکتے ہیں ،نہ بڑھا چڑھاسکتے
ہیں ،لمحوں میں بات مشرق سے مغرب تک سفر کر لیتی ہے ،آج دنیا کی سیاست اور
سفارت، حد یہ ہے کہ فوجی قوت کے مظاہر اوردوردراز علاقوں پر تسلط کا انداز
یکسر تبدیل ہو چکا ہے ،جو محدودزمان ومکان کل تھے وہ آج نہیں ،ہمیں بھی اس
بدلے ہوئے دور سے مطابقت پیدا کر نا ہو گی ،انیسویں ،بیسویں اور اکیسویں
صدیاں در حقیقت اقتصادی تسلط کی صدیاں ہیں ،آج کی فوجیں بھی تجارت اور
مالیاتی حر بیں ہیں ،اسی لیے فوجوں کو بھی اسی قوت کے تا بع کر دیا گیا ہے
،آخرجیت یا فتح اقتصادیات کی ہو ئی ہے ،چین کی حالیہ مارکیٹنگ فتوحات یا جا
پان و امریکہ کی پیش قدمی اسی دا ئرے میں ہو ئی ہیں،سپر طا قت اور بڑی طاقت
بننے کے لیے ایٹم بم نہیں معاشی قوت چا ہیے ،سوویت یو نین ہزار ایٹم بم
رکھتے ہو ئے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ،جا پان بغیر ایٹم بم کے ’’دھماکوں‘‘ پر
دھماکے کر رہاہے ،بھارت ،چین ،برازیل ،جرمنی ، سب کی قوت کا رازِپنہاں ان
کی معا شی طا قت ہے ،کوئی ایسی ٹیکنیک ایجاد ہو ئی نہ کوئی ایسی تدبیر اور
مثال مو جود ہے ،کہ صرف وجود کو خطرے میں ڈال کر آگے بڑھا جا سکے ،ترقی کی
جا سکے ۔ترقی اور استحکا م کا تو ایک ہی راستہ ہے ،سب کچھ بھول کر سا رے
تنا زعا ت اور مسئلوں کو فرا موش کر کے ،ایک لگن کے سا تھ ملک وقوم کی
تعمیر وترقی کے لیے کام کیا جا ئے ،سر ما یہ حاصل کیاجا ئے ،ٹیکنا لوجی
حاصل کی جا ئے ،جدیدانتظامی طریقے اورما لیاتی داؤ پیج اپنا ئے جا ئیں ،آرام
اپنے اوپر حرام کر لیا جائے ،چھٹی کا نام ونشان اپنی ڈکشنریوں سے مٹادیا جا
ئے ۔ یہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ |