معافی شافی

پاکستان کا قیام دو قومی نظریہ کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا ۔جیسے علامہ اقبال کی خوابوں کی تعبیر تو کبھی سر سید احمد خان کی جانب سے رکھی جانے والی زبان کی تقسیم کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کی بنیاد قرار دیا گیا کسی نے پاکستان کی حمایت تو کسی نے مخالفت کی ، کسی نے پاکستان کو تسلیم کر لیاتو کسی نے پاکستان کے نظریات کی ہیت کو تبدیل کرتے ہوئے اپنے نظریات کا پاکستان قرار دینے کی کوشش کی ۔ پاکستان مسلم و غیر مسلم کے نظرئیے کی بنیاد پر بنا لیکن سقو ط ڈھاکہ نے دو قومی نظرئیے کو دریا ء بدر کردیا اور اب بنگلہ دیش پاکستان سے اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر پاکستان سے باضابطہ معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتا کہ بنگلہ دیش بھی تو قائد اعظم کی کوششوں سے بنا تھا تو پھر اس وقت کے بنگالیوں کا نظریہ دوقومی کہاں چلا گیا اور کیوں امت واحدہ کے نظریات پر لسانیت کا نظریہ حاوی ہوگیا ؟ ۔حکومت پاکستان کی سابقہ وزیر خارجہ کے اس بیان سے مکمل متفق ہوں کہ مشرقی پاکستان میں کی جانے والی زیادتیوں پر کہیں بار معافی مانگی جا چکی ہے اس لئے انھیں بار بار دوہرا نا مناسب نہیں ہے ۔ لیکن مغربی پاکستان کا ایک ایک فرد کوئی دو رائے نہیں رکھتا کہ بنگلہ دیش کا بننا سب سے بڑا المیہ ہے ۔ بھارت جس طرح اب بھی خوائش رکھتا ہے کہ اکھنڈ بھارت کا خواب دوبارہ شرمندہ تعبیر ہوجائے اسی طرح پاکستان میں بھی اکثریت یہی چاہتی ہے کہ بنگلہ دیش واپس پاکستان کا حصہ بن جائے ۔حکومت کی جانب سے معافی مانگنا ، ایک رسمی روایات ہے ۔ کبھی بلوچستان کے معاملے پر قوم سے معافی مانگتے ہیں تو کبھی اپنی بے بسی پر معافی مانگتے نظر آتے ہیں ۔ سلالہ پر معافی منگوانے کیلئے مملکت میں ہہجان خیزی وعروج پر پہنچا کر الٹا معافی منوانے کے بجائے اپنی غلطی کی معافی مانگ لیتے ہیں۔ اسکولوں کی حالت زار پر اربوں روپوں کی کرپشن پر معافی مانگ لیتے ہیں تو سپریم کورٹ کو گالیاں دینے کے بعد معافی مانگ لیتے ہیں ۔ مانگنے کی یہ عادت اس قدر پختہ ہوچکی ہے کہ افواج پاکستان پر ذو معنی ، تو کبھی حقانی ، تو کبھی ایبٹ آباد کمیشن پر معافی مانگ لیتے وقت بھی نہیں سوچتے کہ اس کا پوری دنیا میں کیا اثر ہوگا ۔ سرحدوں پر در اندازیوں پر معافی مانگنا ، کراچی میں قتل و غارت روکنے میں ناکامی پر معافی مانگنا ،بلوچوں کے ساتھ نا انصافی پر معافی مانگنا ۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کرکے واپس لینے پر معافی مانگنا ، ماضی کی غلطیوں پر معافی مانگنا ۔ اتنی معافی تو کوئی بھکاریوں کو بھیک دیتے وقت نہیں مانگتا کہ بھائی جاؤ ، معاف کرو ۔۔ جتنا ہمارے ارباب ِ اختیار معافیاں مانگتے نظر آتے ہیں۔ اب دوبارہ معافی ناموں کا سلسلہ کہ قوم کے اعتماد کو جس جس نے دھوکہ دیا وہ معافی مانگے ، ادارے ملوث نہیں ، قصور فرد واحد کا ہے وہ معافی مانگے یا اس پر الزام درست ہوجائے تو پھر معافی منگوائی جائے ، بعض الیکڑونک جرنلسٹ کی جانب سے عدلیہ کی کردار کشی کے آشکارہ ہونے پر اینکرز کی معافی ،میرے خدا ۔۔۔ یہ معافی نہیں ہوئی ریوڑیاں ہوگئیں کہ کتنی چاہیے جب بانٹ لو ، جتنی بانٹ لو ۔۔ قائد اعظم کے مزار پر جانے والے ، فاتحہ خوانی کرنے والے بھی معافی مانگتے ہونگے کہ بابا جی معاف کردینا آپ کا پاکستان نہیں بنا سکے ۔ تو بھائی چھوڑو ، یہ معافی شافی کی ڈرامہ بازی ، سب جانتے ہیں کہ ان معافیوں میں کون کتنا چھپا بیٹھا ہے ۔اور ان معافیوں کا مقصد کیا ہے ۔ قوم کو صرف یہ بتاؤ کہ اب پاکستان جیسا بھی ہے ۔ جتنا بھی بچا کچا ہے ، اس کا کیا ، کیا جائے ؟ ۔ دہشت گردوں کو قابو کر نہیں سکتے ، شدت پسندی روک نہیں سکتے ، لسانیت ختم کر نہیں سکتے ،فرقہ واریت کو آسیب بنا دیا ہے ، پاکستان میں نئی حکومت کا جشن کس بات کے لئے منایا جائے گا ۔ بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ اس دور میں ہے ، رشوت خوری میں نمبر اس دور میں ہے ، لسانی سیاست کو عروج حاصل ہے ، لاقانونیت کا عفریت اس جمہوری دور کا تحفۃ خاص ہے ۔ فرقہ واریت میں قتل عام اس جمہوریت کا دین ہے ۔ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کس نظرئیے پر رواں دواں ہے ۔ اثنا عشری ، آغا خانی(اسمعیلی شیعہ) ، بوہری (برہان الدین فرقہ) ، فاطمی فرقہ ، اہلست ، سنی ، دیوبندی ، اہل حدیث ،تبلغی جماعت ، دہریہ ، فرقہ اہل قرآن ، قادیانی ، احمدی ، لاہوری قادیانی اور جانے کتنے مسالک فرقے اور مذاہب ہیں جو پاکستان میں رہ رہے ہیں ۔ طالبان ہیں کہ خود بتیس گروپوں میں تقسیم ہیں ۔پتہ ہی نہیں چلتا کہ طالبان کا کونسا گروپ کیا کر رہا ہے ، کوئی بلوچوں پر سیاست کر رہا ہے ، کوئی پٹھانوں پر کوئی ، سرائیکوں پر تو کوئی ہزاروال پر ، جو بچ گیا تو کشمیر پر تو کسی کی سیاست گئی نہیں۔ پاکستان نہیں ہوا چوں چوں کا مربہ ہوگیا ، ہر دن پرانا راگ ، قائد اعظم یہ چاہتے تھے ، قائد اعظم وہ چاہتے تھےء پاکستان کا یہ مقصد نہیں تھا ، قاید اعظم کا فلاں مقصد تھا ، ہندوستان کی سرزمین کو تقسیم کرکے پاکستان بنا لیا تو بس کر جاؤ نا بھائی ، پاکستان کی سر زمین کو تقسیم کردیا پھر بھی سکون نہیں ملا ، سندھ میں سندھو دیش ، بلوچستان میں گریٹ بلوچستان ، خیبر پختونخوا میں آزاد پختونستان ،پنجاب میں تین صوبے تو کبھی سات صوبے ، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس سے عوام کو فائدہ کیا مل رہا ہے ؟ ۔ یہ جو آزمائے ہوئے چہرے ہیں جو کبھی للی وڈ کے ایکڑ بن جاتے ہیں تو کبھی ہالی وڈ کے ہدایت کار ، بھلا ان نحوست بھرے بار بار آزمائے ہوئے چہروں کو عوام کس بنیاد پر ، کس لئے اور کیوں اپنے آپ پر مسلط کرنے کے لئے بے تاب نظر آتی ہے ۔ کوئی مر جاتا ہے تو زندہ ، زندہ ہے ، کوئی امریکہ جاتا پے تو امریکی کی غلامی سے آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے کروڑوں روپے جھولی پھیلا کر امریکیوں سے مانگ کر پاکستان میں ڈرامہ بازی کرتا ہے کہ میرے ساتھ فلاں نے زیادتی کی ، حکومت نے معافی نہیں مانگی ، کوئی امریکہ کو اپنی لیڈر کے پھانسی کا ذمے دار سمجھتا ہے تو جب تک امریکہ بابا جی آشیر باد نہ دے س کے چرنوں سے اٹھتے ہی نہیں ، کو ئی برطانوی استعمار پر بابڑا کی قربانیوں کا ذکر کرتا ہے تو لاکھوں پختونوں کو پرائی جنگ میں جھونک کر اپنے رشتے داروں میں سیٹیں بانٹ کر ایوان صدر کے اعتکاف سے باہر نہیں نکلتا ۔ قاتل لیگ ، قابل لیگ بن جاتی ہے ، ہم خیال ، لازوال بن جاتے ہیں ۔ اقتدار کے لئے رشوت لینے والے الزامات دھرتے نظر آتے ہیں کوئی وفاق گرانے کے لئے پیسے دیتا ہے تو کوئی صوبائی حکومت گرانے کے لئے سرکاری اداروں کو استعمال کرتا ہے ۔ سرکاری ملازم ، سرکا ر کا ملازم ہوتا ہے ایسے جو حکم ملے گا وہی کرے گا ۔ ایک فوجی اپنے محاذ پر اس وقت تک ڈٹا رہتا ہے جب تک ایسے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کے احکامات نہیں دئیے جائیں ، وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتا ، ایک پولیس والا مظاہرین پر اس وقت تک گولی نہیں چلاتا جب تک اس کا افسر ایسے آرڈر نہیں دے ، کوئی اینکر ایسے سوالات نہیں پوچھتا جب تک چینل مالکان ان سے نہ کہے ، طوائف کو طوائف ہی کہا جاتا ہے ، ایسے ہم فنکارہ کہیں ، اداکارہ کہیں ، ثقافتی میراث کہیں ، جب طوائف ہے تو تو طوائف ہی ہے ۔ جسم بیچے یا ضمیر ، ڈھرلے سے بیبانگ دہل فروخت کرتی ہے۔خسرا ، ہجیڑا ہے ، قد وقامت چاہیے کتنا ہی جاذب نظر کیوں نہ ہو لیکن مردانگی نہیں ہے ۔لیکن ان سب باتوں میں پاکستان پہلے کیا تھا اب کیا ہے ۔ اور آئندہ کیا ہوگا ۔ کہ تین سوالوں کے جواب کون دے گا ۔ کسی نے کہا کہ بھائی ، اگر ریفرنڈم ہو اور اس میں دو سوال پوچھے جائیں۔۔ قائد اعظم کا پاکستان یا طالبان کا پاکستان ؟۔ دوسرے شخص نے آہستہ سے کہا کہ قائد اعظم اور طالبان دونوں کو ہی میں نہیں مانتا ، میں کیا جواب دوں کہ مجھے کون سا پاکستان کیا چاہے ۔ پوچھا کہ قائد اعظم کے پاکستان کو کیوں نہیں مانتے تو کہنے لگا کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد ختم ، نظریہ جناح ختم ۔ پھر میں نے پوچھا کہ طالبان کا کیوں نہیں مانتے ۔ تو کہا کہ بتیس گروپ ہیں ، کس کی مانوں ، کس کی نہیں ؟ پھر پوچھا پھر کس قسم کا پاکستان چاہیے ۔ تو اس نے جواب دیا کہ ۔ یہی تو وہ سوال ہے کہ پاکستانی ، موجودہ پاکستان کو کس قسم کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں ۔اب دوبارہ نئے پاکستان کی بات کی جا رہی ہے ، معافیاں مانگیں جا رہیں ہیں ، ختم کرو یہ معافی شافی کی ڈرامہ بازی !!!۔۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744292 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.