لوڈشیڈنگ کا تسلسل ٗ آئی ایم ایف کی شرائط اور کالاباغ ڈیم

تحریر : محمد اسلم لودھی

کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ 322 ارب روپے ادا کرنے کے باوجود بجلی کی لوڈشیڈنگ کاعذاب پہلے کی طرح قیامت ڈھا رہا ہے اور لوگ گرمی کی شدت اور دم گھٹنے سے مر رہے ہیں اگر ادائیگی کے باوجودلوڈشیڈنگ ہونی تھی تو پیسے دینے کا کیا جواز تھا اس پر بھی کہاجارہا ہے کہ ماہ رمضان میں صرف سحر اور افطار کے وقت لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی ۔شواہد کے مطابق پاکستان میں بجلی کی پیداوار 21 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ بجلی کی طلب 18 ہزار میگاواٹ ہے۔ ادائیگی کے باوجود تمام یونٹوں کو کیوں چالو نہیں کیاجارہا کیا حکومت روزوں میں عوام کو گرمی میں پگھلا کر ان کی بددعائیں لینا چاہتی ہے ۔ حکمرانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ بھوکے پیٹ ٗ پیاسے ہونٹ ٗ جسم پسینے سے شرابور اور روزے کی حالت میں مانگی ہوئی بدعا رد نہیں ہوتی۔ اس لمحے آئی پی پیز کو ادائیگی کے حوالے سے ٹرانسپرنسی کا اعتراض بالکل درست دکھائی دیتا ہے کہ یہ کمپنیاں گزشتہ 10 سال میں ایک ہزار روپے اضافی وصول کرچکی ہیں آڈٹ کروانے کے بعدانہیں ادائیگی کرنی چاہیئے تھی بہرکیف حکومت کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا تاکہ قومی دولت ضائع ہونے سے بچائی جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہ رمضان میں پورے ملک کو بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے مبرا ہونابھی بہت ضروری ہے اسی میں حکمرانوں کی بہتری ہے ۔اس لمحے جبکہ بجلی کا بحران قومی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے سندھ کے مٹھی بھر قوم پرستوں کے ڈر سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے حکومت کوئی پیش رفت نہیں کررہی جبکہ لاہور ہائی کورٹ کالاباغ ڈیم کو قومی مفاد میں قرار دے کر تعمیر کا فیصلہ دے چکی ہے۔اس ضمن میں یہی کہوں گاکہ حکمرانوں کوسنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے پہلے رائے عامہ ہموار کرنی چاہیئے اور اس مقصد کے لیے بروشر شائع کیے جائیں اخبارات میں ڈیم کے فائدے اشتہار کی صورت میں شائع کیے جائیں ٗ ٹی وی مذاکرے منعقد کروائے جائیں پھر ملک گیر سطح پر ریفرنڈم کروا کر عوام سے رائے لینی چاہیئے ۔عوام سے صرف دو سوال پوچھے جائیں کیا انہیں سستی بجلی چاہیئے یا نہیں ۔ کیا کاشتکاروں کو فصلوں کی کاشت کے لیے وافر پانی چاہیے کہ نہیں۔ ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت جو فیصلہ کرے اس پرعمل ہونا چاہیئے ۔افسوس کا مقام ہے کہ چند مفاد پرستوں نے ملک دشمن عناصر کے ایما پراس اہم ترین منصوبے کی مخالفت کا ادھار کھا رکھا ہے اور حکومتی نااہلی کی بنا پر کروڑوں معکب فٹ پانی ہر سال سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتاہے ایک زرعی ملک کے لیے یہ بہت بڑا نقصان ہے۔حکومت کو غیر ملکی قرضے اتارنے کے لیے پانچ ارب ڈالر کی ضرورت ہے حکومت اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو یہ رقم بیرون ملک پاکستانیوں سے مل سکتی ہے لیکن وہ آئی ایم ایف کی سخت ترین قبول کرکے عوام کو مزید ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبانا چاہتی ہے ۔سوئز لینڈ کے بنکوں میں پاکستانیوں کے جو 200 ارب ڈالر جمع ہیں ان کو وطن واپس لانے کے لیے حکومت کی سست روی معنی خیز ہے ۔ اگر کوشش کی جائے تو یہاں بھی بھاری رقوم ملنے کی توقع ہے ۔ یہ کام حلف اٹھانے کے ساتھ ہی اگر شروع کردیاجاتا تو آج آئی ایم ایف سے بھیک نہ مانگنی پڑتی ۔ پاکستان کی پچاس سرکاری اور نیم سرکاری کارپوریشنوں اور اداروں میں کھربوں روپے کی کرپشن ہورہی ہے اور بیشتر کے مقدمات عدالت عظمی میں زیر سماعت ہیں لیکن نیب کا چیرمین مقرر نہ کرکے حکومت جان بوجھ کر کرپشن کو تحفظ فراہم کر رہی ہے اس پر یہ خبر اور بھی تکلیف دہ ہے کہ میاں نوازشریف خصوصی عدالت کے اس جج رحمت جعفری کو چیرمین نیب بنانا چاہتے ہیں جس نے انہیں سزائے موت کی بجائے عمر قید سزا سنائی تھی افسوس کہ اقربا پروری ٗ پسند و ناپسند کے جو کام پیپلز پارٹی کرچکی ہے وہی کام نواز شریف کرکے اپنی عزت کو بھی نیلام کرنا چاہتے ہیں ابتدا میں خبر آئی تھی کہ حکومت جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے یا بھگوان داس کو چیرمین نیب بنانے کے بارے میں سوچ رہی ہے اگر ان میں سے کسی ایک کا تقرر ہوجاتا تو ہر شخص حکومتی فیصلے کی توثیق کرتا۔افسوس کہ ابھی تک حکومت کوئی واضح حکمت عملی وضع نہیں کرسکی اور ہرجگہ اور ہر مسئلے میں گو مگو کا شکار دکھائی دیتی ہے ۔بجٹ میں ٹیکسوں کا ایٹم بم عوام پر گرا کر انہیں غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کے بعد اب کہا جارہا ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے مجسٹریٹ کی قیادت میں کمیٹیاں قائم کی جارہی ہیں ایک عام شخص بھی جانتا ہے کہ مہنگائی کاتعلق پٹرول ٗ بجلی اور ڈالر ریٹ سے منسلک ہے حکومت 68 روپے فی لیٹر پٹرول سے خرید کر عوام کو 104 روپے فی لیٹر فروخت کررہی ہے جبکہ یہی عالم بجلی پر بے تحاشا ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کا ہے اگر حکومت واقعی عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا چاہتی ہے تو پٹرول درآمدی قیمت پر اور بجلی چھ روپے فی یونٹ فراہم کرے تومجسٹریٹ کے بغیر ہی مہنگائی نیچے آسکتی ہے۔ عوام کو بیوقوف بناتے بناتے پیپلز پارٹی والے رخصت ہوچکے ہیں اب وہی دھوکہ بازیاں موجودہ حکمران کررہے ہیں۔پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں صبح کچھ اور ہوتی ہیں اور شام کو کچھ اور ۔جس کا جتنا جی چاہتا ہے وہ جی بھر کے لوٹ رہا ہے ۔ اسی بدانتظامی نے عوام کو خودکشیوں پر مجبور کردیاہے ۔ یہاں دو وقت کی روٹی کھانا بھی محال ہوچکا ہے بے روزگاری گھر گھر جنازے اٹھارہی ہے ٗ مہنگائی اتنی ہو چکی ہے کہ ہر شخص دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے جبکہ 80 فیصد لوگ پانچ سے دس ہزار روپے ماہانہ بھی نہیں کماتے ۔ کیا اتنے کم پیسوں میں گھر کے اخراجات پورے ہوسکتے ہیں ۔منشور میں 15 ہزار کا وعدہ کرکے مکر جانا کہاں کا انصاف ہے ۔ نوازشریف کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ اگر ماہ رمضان میں بجلی اور گیس کو لوڈشیڈنگ کو ختم نہ کیا تو متوقع بلدیاتی الیکشن میں لوگ عمران کاساتھ دینے پر مجبور ہوں گے ۔افسوس کہ وہ کام جو سب سے پہلے کرنا چاہیئے تھا ادائیگی کے باوجود اسے پورا نہیں کیاجارہا ایک ایسے شخص کو وزیر بجلی بنادیاگیا ہے جو بے حد کینفوژ ہے ۔ تین سو مربع کلومیٹر چولستان پر لاکھوں میگا واٹ سولر بجلی پیداہوسکتی ہے ٗ پانچ سو کلومیٹر طویل سمندری ساحل اور چھ سو کلومیٹر طویل موٹر وے کے اردگرد ہوا سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ایٹمی بجلی گھر بھی موثر ہیں ان کو چھوڑ کر کبھی گوبر سے تو کبھی کوڑے سے بجلی بنانے کے حکومتی پروگرام ترتیب دیئے جارہے ہیں جو سوائے فنڈ اور وقت کے ضیاع کے کچھ نہیں ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ خود سستی بجلی کے یونٹ لگانے اور انہیں چلانے کی بجائے پرائیویٹ شعبے کو آگے آنے دے کیونکہ مرکزی اور صوبائی انتظامی ادارے اس قابل نہیں ہیں کہ وہ یہ کام کرسکیں۔وہ بجلی گھروں کو کس طرح بنائیں اور چلائیں گے۔خدارا اس قوم پر رحم کھاتے ہوئے تھرکول ٗ سولر انرجی ٗ وائنڈ انرجی اور ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر کا فیصلہ کرتے ہوئے کم سے کم ریٹس مقرر کرکے پرائیویٹ شعبوں کے سپر د کردیں اور انہیں ہر قسم کی سہولتیں فراہم کریں شاید اس طرح یہ ملک بجلی کے بحران سے نجات حاصل کرسکے ۔مزید برآں سوئزر لینڈ سمیت دیگر ملکوں میں پاکستانیوں کے جو 200 ارب ڈالر جمع ہیں انہیں واپس لانے کے لیے تیز ترین کاروائی شروع کی جائے آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے کی بجائے بیرون ملک پاکستانیوں سے رجوع کیا جائے جو کبھی مایوس نہیں کریں گے ان کے ساتھ ساتھ طالبان سے مذاکرات کرکے ملک میں امن قائم کرنے کی جستجو کی جائے کیونکہ جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہوتی کوئی بھی منصوبہ پایہ تکمیل کونہیں پہنچ سکتا ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 115137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.