جس کی لاٹھی

ایک محاورہ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس اب ان بھینسوں میں بھی کئی قسم کی بھینسیں ہیں ایک وہ جوبچے پیدا کرتی ہیں اور دودھ دیتی ہیں دوسری وہ جو کھیتوں میں ہل وغیرہ چلانے اور رہڑے وغیرہ کو کھینچنے کے کام آتی ہیں اور تیسری قسم کی وہ بھینسیں ہیں جو اوپر والے دونوں کام نہیں کرسکتی وہ پھر ہمارے قصائیوں کے کام آتی ہے جسے وہ ذبح کرکے اسکا گوشت حاصل کرنے کے بعد اسکی کھال جوتیاں بنانے والوں کو فروخت کردیتے ہیں ان بھینسوں میں سے پہلی اور آخری قسم کی فائدہ مند ہوتی ہیں جبکہ درمیان والی قسم کے لیے ہی لاٹھی والا محاورہ استعمال ہوا تھاکیونکہ جس کے ہاتھ میں ڈنڈہ ہوگا وہ اسکے ہانک کر جہاں مرضی لے جائے گا چاہے تو کسی کے ہرے بھرے کھیت برباد کرڈالے چاہے تو سامان سمیت غائب ہوجائے بلکل ہماری پولیس کو بھی اجکل جرائم پیشہ افراد نے بھینس ہی بنایا ہوا ہے جس کے ہاتھ میں پیسے ،اختیارات یا اقتدار کا ڈنڈہ ہوتا ہے وہ اسے اپنی مرضی سے ہانک کر لے جاتا ہے جبکہ ہمار ے سیاستدانبھی کسی سے کم نہیں وہ جب بھی عوام کو بیوقوف بنانا چاہتے ہےں تو صرف ایک ہی نعرہ لگا تے ہےں کہ ہم اقتدار میں آکر تھانہ کچہری کی سیاست ختم کردیں گے مگر برسراقتدار آکر وہی تھانہ کے زریعے اپنی سیاسی دوکانداری چمکاتے ہیں پھر انہی سیاستدانوں کی وجہ سے ہر محکمہ کرپٹ اور خراب ہوچکا ہے اچھے اور برے افراد ہر محکمہ میں موجود ہیں مگر عوامی شکایات پڑھ پڑھ کر اور ایک عام آدمی کے ساتھ پولیس کے انسانیت سوز رویے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اب اس محکمہ میں اچھے انسان کم رہ گئے ہیں اور خون خوار بھڑیے زیادہ ہیں جو اپنے ہی بھائیوں کا خون پیتے ہیں گذشتہ روز مختلف ٹیلی ویژن پر چلنے والی ایک دل دہلا دینے والی سٹوری نے ہر محب وطن پاکستانی کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہمارے ٹیکسوں پر پلنے والے ان وحشی درندوں نے اپنی حوالات میں باپ بیٹے کو ایک دوسرے کے سامنے آخر کیوں ننگا کردیا خبر کے مطابق تھانہ صدر دیپالپور(اوکاڑہ) کی حوالات میں بند ایک شخص جمشید اور اسکے بیٹے زبیر کو مقدمہ کے مدعی و پولیس انسپکٹر مشتاق نے شناخت کرنے کے نام پر برہنہ کیا دونوں کو مرغا بنایا اور باپ بیٹے کو ایک دوسرے سے بدفعلی پر مجبور کیا۔

اگر دیکھا جائے تو ہماری پولیس ایسے ہی اتنی مشہور نہیں کہ یہ تو مردوں سے اقرار جرم کروالیتی ہے زندہ انسان تو انکے آگے کوئی چیز ہی نہیں ہے وہ تو جیسے ہی پولیس کے ہتھے چڑھتا ہے تو وہ پورے علاقہ میں ہونے والی وارداتوں کا اعتراف کرلیتا ہے اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ پولیس ملازمین کو صرف اپنے سے اوپر افسر کا ڈر ہوتا ہے اسکے علاوہ اسے کسی کی پراہ نہیںہوتی اور اکثر اوپر والے ہی انہیں وحشیانہ تشدد کی اجازت دیتے ہیں جس کے بعد ملزم کے ساتھ وہ انسانیت سوز ظلم کیے جاتے ہیں کہ وہ ہر طرح کی وارداتیں تسلیم کرنے کو تیار ہوجاتا ہے اس وقت پنجاب پولیس میں بھرتی سے لیکر تعیناتی تک سب کچھ سفارش یا رشوت کے زور پر ہورہا ہے ایک تھانہ میں ایس ایچ او تعینات ہونے کے لیے کسی بہت بڑی سفارش کی ضروت ہوتی ہے یا پھر تعینات ہونے والا ایس ایچ او مال کھلانا جانتا ہو اور کمانا بھی ایس یچ او لگنا تو بہت بڑی بات ہے تھانوں میں محرر اورنائب محررتعیناتی کی کروانابھی کوئی معمولی کام نہیں اور جسکی جتنی بڑی سفارش ہوگی وہ اتنی ہی زیادہ لوٹ مار کرنے کا ماہر ہوگا یہی وجہ ہے کہ آجتک پاکستان میں جوا، چوری ،ڈکیتی،منشیات فروشی،عصمت فروشی جیسے گھناﺅنے کام ختم نہیںہوسکے بلکہ ایسے مکروہ کاموں کے کرنے والوں اور انکی سرپرستی کرنے والوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہی ہورہا ہے کیونکہ پولیس کی اصل آمدن تو انہی سے ہورہی ہے اگر بدقسمتی سے کوئی غریب اور مجبور شخص پولیس کے ہاتھ لگ گیا تو پھر اسکے ساتھ ایسے ایسے انسانیت سوز ظلم کیے جاتے ہیں کہ وہ بیچارہ آدھی درجن سے زائد وارداتیں اپنے کھاتہ میں ڈلوا کر باقی کی عمر جیل میں گذار لیتا ہے ہماری پولیس کے جوان پیسے کی خاطر ہر وہ کام کرجاتے ہیں جسے سوچ کرہی ایک شریف شہری ندامت سے سر جھکا لیتا ہے ابھی پچھلے دنوں کراچی پولیس کا ایک اہلکار کسی گروہ کے ساتھ ملکر لڑکیوں کو اغوا کرکے آگے فروخت کرتا ہوا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اسی طرح کے سینکڑوں واقعات سے پولیس کی تاریخ بھری پڑی ہے جبکہ افسران اپنے بنکر نما ٹھنڈے دفتروں سے باہر نہیں نکلتے ایک عام آدمی کی ان تک رسائی نہیں ہوپاتی شہری علاقوں کے پولیس اسٹیشن میڈیا کے ڈر سے کچھ نہ کچھ کام کررہی رہے ہیں مگر ہمارے دیہاتی علاقوں کے تھانے کمائی کی مشینیں بنی ہوئی ہیں اور وہاں کے ملازم لوٹ مار میں مصروف ہیں ابھی حال ہی میں دیپالپور میں باپ پیٹے کے ساتھ رونما ہونے والا واقعہ بھی ایک دم نہیں ہوا بلکہ اس طرح کے مظالم کرکرکے ہماری پولیس کے جوانوں کے ڈر اترے ہوئے ہیں کیونکہ پولیس والوں کے پاس ایک جواز ہوتا ہے کہ ایسا کرلوورنہ مقابلہ میں پار کردیں گے اور جان کسی پیاری نہیں ہوتی بس اسی کو بچانے کے لیے انسان حد سے گری ہوئی حرکتیں بھی کرگذرتا ہے ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس ملازمین کے ضمیر مرچکے ہیں اور یہ اپنے مردہ جسموں کو لیے گھوم رہے ہیں کبھی کسی تھانہ میں تو کبھی کسی لائن میں اور جب کبھی انہیں کسی غریب کا کاندھا مل جائے تو پھربڑی بڑی توندوں والے اپنا پورا وزن اس پر ڈال دیتے۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 803 Articles with 532047 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.