ملک میں پارلیمان پر (13/12) اور ممبئی پر
(26/11) حملوں کی خاص اہمیت دہشت گردی کے حوالے سے ہے لیکن عشرت جہاں کے
کیس میں مرکزی وزارت داخلہ انڈر سکریٹری (سابق )آر وی ایس منی کے اس بیان
نے کہ یہ حملے حکومت نے اپنے ذرائع سے کروائے تھے۔ ان حملوں کی نہ صرف
اہمیت بلکہ نوعیت ہی بدل دی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے تعلق سے حکومت کی
حکمت عملی کا نہ صرف مکھوٹا اترگیا ہے بلکہ انسداد دہشت گردی کا پیراہن چاک
ہوگیا ہے۔ بی جے پی کی این ڈی اے حکومت نے اور کانگریس کی یو پی اے حکومت
نے دہشت گردی کے انسداد کے لئے سخت قانون بنانے کے لئے یہ مذموم حرکت
کروائی ۔ اس طرح پہلی بات یہی ہوئی کہ بی جے پی اور کانگریس ایک ہی سکہ کے
دو رخ ہیں۔ اور مسلمانوں سے تعصب برتنے ان کو بلا وجہ ہدف بنانے کے لئے
مرکزی وزارت داخلہ اب بھی ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کی حکمت عملی
پر عمل پیرا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ کہ قوی ذرائع ابلاغ نے اتنے اہم واقعہ
کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی ہے اور مسلم قیادت، اخبارات اور دانشوروں نے
جرأت مندی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ بہ حیثیت مجموعی ہم پر مرعوبیت ڈر اور
خوف طاری ہے۔ جمہوری انداز میں حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی
جرأت اور پرامن لیکن موثر احتجاج ہم نہیں کرسکتے ہیں۔
ملک کی تقسیم ایک سازش تھی جو کانگریسی قیادت نے کی تھی اور پاکستان بنانے
کا الزام مسلمان پر آیا۔ مولانا آزاد مرحوم نے اپنی جامع مسجد والی مشہور
زمانہ تقریر میں بھی پاکستان بنائے جانے کی اصل حقیقت نہ کہہ کر مسلمانوں
پر ہی الزام تراشی کی تھی اگر وہ ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کرکے ثابت کردیتے
کہ پاکستان مسلمانوں نے نہیں بنایا تو پاکستان بنانے کے جرم بے گناہی کی
سزا آج تک ہم نہ پاتے! پاکستان بنانے کے جرم بے گناہی نے ملک بھر کے
مسلمانوں بے حوصلہ، مرعوب اور خوف زادہ نہیں ہرتے اور ان نقصانات سے دوچار
نہ ہوتے جو ا ن کو پہنچائے گئے اور مسلمان کے دو ہی استھان، قبرستان یا
پاکستان نہ سنتے۔ آزادی کے چند سال بعد 1950ء کی دہائی کے نصف او ل میں
مسلمان مذہنی علامت و اغراض کے لئے نصب کئے جانے والے سبز پرچم کو لگاتے
ہوئے ڈرتے تھے کہ ہر سبز پرچم کو پاکستان کا جھنڈا گردان کر فساد برپا کیا
جاتا ۔ فسادات کا ایک اور بہانہ مذہبی جلوس بھی تھے۔ ہندو جلوس ہوتا تو
مسلمانوں پر جلوس پر حملے کا الزام عائد ہوتا اور اگر مسلمانوں کا جلوس
ہوتا تو جلوسیوں پر مندروں، دکانوں اور گھروں پر حملے کا الزام لگتا یہ
سلسلہ سالوں جاری رہا۔
21ویں صدی میں مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کے لئے دہشت گردی کا بہانہ امریکہ
سے ہندوستان درآمد کیا گیا۔
دراصل امریکہ، مغربی دنیا، صیہونی تحریک اور اسرائیل مسلمانوں کے اس جذبہ
جہاد سے جو بوسنیا ہر زی گوینا ، افغانستان، چیچنیا اور فلسطین میں حریت
پسندوں نے دکھایا تھا اور غیر مسلموں میں قبولیت اسلام کے رجحان سے پریشان
تھے۔ اسلام کی حقانیت کی مقبولیت اور اس جذبہ شجاعت کے آگے جو خالد ؓ و
حیدرؓ کے افسانوں میں ملتا ہے۔ وہ مجبور نظر آتے تھے اسی لئے اسلام دشمنوں
نے 9/11کا ڈرامہ رچایا ۔ مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھنساکر ان کو
ہر طرح پریشان کیا گیا اور مسلم حکمراں امریکہ کی دھمکیوں سے مزید مرعوب (مرعوب
تو وہ عرصے سے تھے) امریکہ کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہنے لگے۔ اسامہ بن
لادن شہید، صدام حسین شہید، القاعدہ، افغانستان اور عراق کے بارے میں
امریکہ کے ہر فرمان پر سرجھکادئیے گئے اس طرح امریکہ عالم اسلام پر جاری
ہوگیا۔
ہندوستان نے جب یہ دیکھا کہ عالم اسلام کو امریکہ نے اس پر دہشت گردی کا
الزام لگاکر زیر کرلیا تو یہ حربہ ہندوستانی مسلمانوں پر بھی آزمایا گیا۔
جیسا کہ آر وی ایس منی نے کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے لئے سخت قانون
بنانے کے لئے یہ ڈرامے کئے گئے اور مسلمان دہشت گرد اقرار دئے گئے۔ اڈوانی
نے کہا کہ سارے مسلمان دہشت گرد نہ سہی لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں۔ غرض
کہ صورتِ حال یہ ہوئی کہ جہاں کچھ دہشت گردی ہوئی اس کا الزام کسی مسلمان
پر لگا۔ دہشت گردوں کی جیبوں سے ان کے نام پتے اور فون نمبر نیز کھانے کی
پاکستانی چیزیں برآمد ہوئیں ایک طرف میڈیا اس کو عدالت عظمیٰ کا آخری فیصلہ
مان پولیس کی من گھڑت جھوٹی قیاس آرائیوں کی تشہیر کرتا رہا اور مسلمانوں
کی سیاسی، مذہبی قیادت، صحافیوں اور دانشوروں نے تدبر اور فراست کو بالائے
طاق رکھ کر فریاد کی اسلام دہشت گرد نہیں سکھاتا ہے ۔ مسلمان دہت گرد نہیں
ہوسکتا ہے یہ گویا باالراست ا قرار تھا کہ مبینہ ملزم تو دہشت گرد ہے لیکن
ان نے اسلامی تعلیم کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہشت گردی
کے معاملے کا پورا تجزیہ کیا جاتا ہر معاملہ میں خواہ وہ پارلیمان پر حملہ
ہو اکثر دھام مندر کا معامہ ہوکئی قابل گرفت تھے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ
ہماری مذہبی وسیاسی قیادت اگر ڈت جاتی کہ جلد از ثبوت فراہم کرکے گرفتار
شدہ مسلمانوں پر فاسٹ ٹریک عدالت میں مقدمہ چلاؤ ۔ ماہرین قانون کا ایک
گروپ بنایا جاتا جو ملزموں کی پیروی کرتا تو ہم پر ظلم کرنے والے محتاط
ہوجاتے۔ لیکن ہمارے ڈر اور خوف نے ہم سے کچھ نہ کروایا ہم جلسے، جلوس اور
ریالیاں کرکے اسلام کو دہشت گردی سے دور بتانے کی سعی کرتے رہے اور مسلمان
نوجوان بلا مقدمہ چلائے سالوں جیل میں سڑتے رہے یہاں تک کہ حکومت نے اپنی
ضرورت کے لحاظ سے 26/11بھی کروادیا ہم جیسے صحافی 26/11پر سوالات اٹھاتے
رہے۔ 26/11 کے قابل گرفت پہلو سامنے آئے لیکن مہاراشٹرا اسمبلی اور
پارلیمان میں کسی نے یہ تک نہ پوچھا کہ تاج محل جیسے ہوٹل یا پارلیمان ہاؤز
میں خطرناک دہشت گرد (بہ مع جدید اسلحہ کی کثیر مقدار کے) داخل کیسے ہوئے؟
افضل گرو شہید کی موت پر نہ اروندھتی رائے نے کتاب لکھ دی اور ہماری قیادت
خاموش رہی۔ اسی وجہ سے آنجہانی گجرال جیسے مانے ہوئے سیکولر نے بھی بی بی
سی کے نمائندے کو پارلیمان پر حملے کے ناقابل فہم پہلووں پر سوالات کرنے سے
منع کرکے بی جے پی کی مرکزی حکومت کے لہجہ میں گفتگو کی تھی۔ دہشت گردی کے
معاملے میں حکومت کی ہر بات سچ مانی جاتی ہے۔
مسلم رہنماؤں کی فکر و احساسات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ
پارلیمان پر حملے کے بارے میں مسلمان قائدین کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے
ہنس راج بھاردواج (سابق وزیر قانون) نے کہا تھا وہ ایک ڈرامہ تھا لیکن مسلم
قائدین میں اتنی ہمت و حوصلہ نہ تھا کہ وہ اس مسئلہ پر توجہ دیتے اور بات
آگے بڑھاتے جس معاملے میں پاکستان کا نام آئے وہاں مسلمان کی بولتی (خود بہ
خود پاکستان کے حامی ہونے کے الزام لگائے جانے کے ڈرسے) بند ہوجاتی ہے۔
دستور کی عطا کردہ آزادی اظہار کا اطلاق ہماری خارجہ پالیسی پر کرنا حوصلے
کی بات ہے۔
مرکزی وزارت داخلہ کے انڈر سکریٹری آر دی ایس منی (جو فی الحال شہری ترقیات
کی وزارت میں ہیں) کے اس بیان پر جو انہوں نے عدالت میں حلف نامہ کی صورت
میں دیا ہے کہ پارلیمان اور26/11کے حملو ں کا مقصد سخت قانون بنانا تھا اور
اسی کے نتیجہ میں پوٹا این ڈی اے دور اور یو پی اے دور میں یو اے پی اے
وجود میں آئے۔ آر وی ایس منی نے یہ بیان سینئر پولیس آفیسر ستیش ورما کے
حوالے سے عشرت جہاں کیس میں یہ دیا گیا تاحال مرکزی وزارت داخلہ اور ستیش
کا کوئی بیان یا ردعمل اس تعلق سے نہیں آیا ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ معاملہ
شائد تردید و وضاحت کے لائق نہیں ہے نیز شائد اسی لئے آئی بی ستیش ورما کے
بیان پر چراغ پا ہوکر سی بی آئی سے ناراض ہے۔ اس بات کے تناظر میں سپریم
کورٹ کا یہ موقف کہ اجتماعی ضمیر کی تسلی کے لئے (الزام ثابت نہ ہونے کے
باوجود) افضل گرو کو سزائے موت دینا ضروری ہے۔ خود عدالت عظمیٰ کے لئے قابل
غور ہے! آر وی ایس منی کے انکشاف کی مزید تفصیلات 14جولائی کے ٹائمز آف
انڈیا میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
عشرت جہاں اور دوسرے مقدمات کے علاوہ دہشت گردی کے واقعات ان کا پس منظر
اور مابعد منظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی صورت حال ویسی
نہیں ہے جیسی بتائی جاتی ہے اسی سلسلے میں ہیمنت کرکرے کے انکشافات اور ان
کی پر اسرار ہلاکت نے اس مسئلہ کو حساس کی جگہ مشکوک بنادیا ہے۔ امریکہ
مسلم ملکوں کو جس طرح اپنے ڈراموں اور القاعدہ سے ڈراتا ہے (ان کو تباہ
کررہا ہے)۔ اسی طرح ہمارے ملک میں مسلمانوں کو ڈرایا ہی نہیں گیا بلکہ ان
پر مظالم ہورہے ہیں۔
اسی طرح انڈین مجاہدین کی مجوزہ سرگرمیاں ہی نہیں بلکہ اس کے وجود کی حقیقت
اور مبینہ دہشت گردوں کے پاکستان سے روابط کے بارے میں سرکاری موقف کو آنکھ
بند کرکے تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اہم امور کو قومی سلامتی سے
جوڑ کر یا حساس بتاکر پوشیدہ رکھا جانا چاہئے۔
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ان مسائل پر مزید خاموشی انتہائی خطرناک ثابت
ہوگی۔ اس لئے کچھ کرنا ضروری ہے اور کچھ بھی کرنے کے لئے دو راستے ہمارے
آگے ہیں۔ ایک تو سیاسی ہے اور دوسرا قانونی ۔ دونوں ہی ہم کو اختیا ر کرنا
ہوں گے۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ 26/11کے بعد ہیمنت کرکرے کی ہلاکت کے بعد
جب مہاراشٹرا کے سینئر کانگریسی قائد عبدالرحمن انتولے نے اس مسئلہ کو
اٹھایا تھا تو ایک طرح سے ان کی سرزنش کی گئی تھی۔ میڈیا بھی ان کے پیچھے
پڑ گیا تھا حالانکہ کرکرے کی ہلاکت کا معاملہ مشکوک ترین ہے۔ انتخابات کے
پیش نظر مسلمان ارکان پارلیمان کو اس تعلق سے حکومت پر وضاحت کرنے کے لئے
شدید دباؤ ڈالنا چاہئے۔ مسلمان ارکان کو یہ سخت مگر ناگوار موقف اختیار
کرنا ہوگا کہ وہ پہلے مسلمان پھر کسی سیاسی پارٹی کے رکن ہیں۔ 2014ء کے
انتخابات کی قربت کے پیش نظر حکومت زیادہ اڑی نہیں کرسکتی ہے۔
پارلیمان کچھ بھی کرے نہ کرے یہ معاملہ بلاشبہ مفاد عامہ سے تعلق رکھتا ہے
اور دہشت گردی کے بہانے مسلمانوں پر مظالم کرنے کی اجازت کوئی قانون نہیں
دیتا ہے۔ مگر مظالم جاری ہیں اس لئے ممتاز ماہرین قانون کی خدمات حاصل کرنا
ضروری ہے۔ ماہرین قانون کا حصول کثیر اخراجات کا متقاضی ہے حب مطالبہ
معاوضہ یا فیس دی جائے تو بی جے پی کے رام جیٹھ ملانی بھی اس کام سے انکار
نہ کریں گے۔ سرمایہ کی فراہمی مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ حکومت کی
جانب سے دہشت گردی کا اہتمام کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے جس کو مسلمان سیاسی
قائدین، مذہبی قائدین، علماء ، دانشور اور صحافت اس کو نظر انداز کرے۔
انتخابات سے قریب اس اہم مسئلہ کو اپنے حق میں استعمال کرنا (کیش
Cashکرنا)زیادہ مشکل بھی نہیں ہے۔ اگر ہم نے یہ موقع ضائع کردیا تو یہ معنی
جائے گا کہ مسلمان ڈرپوک اور بے حوصلہ ہیں۔ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا سلوک
کیا جاسکتا ہے۔ اس غلط تاژ کو ختم کرنے کے لئے حوصلے، ہمت اور جرأت سے کام
لینا ہوگا۔
ہمت کے چراغوں سے روشن ہر راہ گذر ہوجاتی ہے
ہر عزم نگاہِ راہ رواں سامانِ سفر ہوجاتی ہے |