حضرت اقدس پیر سید محمد مظہر قیوم مشہدی

 ازقلم : ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالیؔ
سربراہ ادارہ صراط مستقیم انٹرنیشنل

جب سے اﷲ تعالیٰ نے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی فرشتوں پر فضیلت کا مدار علم پر رکھااسی وقت سے اہلِ علم کی عظمت کا جھنڈا لہرا رہا ہے اورجب سے رب ذو الجلال نے اپنی طرف سے تعلیم دینے اور حضرت آدم علیہ السلام کے تعلیم لینے کا تذکرہ کیا اس وقت سے رحمٰن کے ساتھ انسان کے بذریعہ علم و معرفت قرب کا تسلسل قائم ہے۔ اس روحانی سلسلہ کا عروج اَلْرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ (رحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا) میں ہے۔ سید العالمین حضرتِ محمدِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس امت کی سربلندی کا راز قرآن مجید کے علم اور اس پر عمل کو قرار دیا ہے ۔امتِ مسلمہ امّتِ علم و حکمت ہے ، اس نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب کو ہی محفوظ نہیں کیا بلکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہر ہر خطا ب کو بھی محفوظ کیا ہے، اِس امت نے قرآن و سنت کے الفاظ، مفاہیم ، اثرات اور کیفیات کی حفاظت کیلئے متعدد علوم و فنون اپنی ذہنی زر خیزی سے تیار کیے۔ حدیث، تفسیر ،تجوید،صرف و نحو ، فقہ ، اصولِ حدیث اور اصولِ فقہ کے شعبہ جات قائم کیے۔اسلامی تعلیمات کو بذریعہ اعمالِ صالحہ دل پر اثر انداز کرنے اور دل کی رونق اور روحانیت کو زندگی اور اسکے معمولات پر طاری کرنے کا شعبہ تصوف ہے،تصوف نفس کو گھٹیا اخلاق سے پاک کرنے اور عمدہ اخلاق کیساتھ مزیّن کرنے کا نام ہے،تصوف باطن کی صفائی ہے جو ظاہر پر رونق لاتی ہے ،تصوف انسان کو برُی خواہشات اور عادات سے نکال کر قدسی صفات بنانے کی تحریک ہے۔تصوف کو متوازی دین کہہ کر ڈی گریڈـــDegrade کرنے والے اور خلاف ِ شرع حرکات کو تصوف کا نام دیکر مس یوز Misuse کرنے والے دونوں طبقے ہی اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔اگر کوئی تصوف کی اسلئے مخالفت کرتا ہے کہ اسکی اصطلاحات کا ذکر قرآن وسنت کے الفاظ میں نہیں ہے تو پھر اصولِ حدیث کی تمام تر اصطلاحات بھی تو قرآن و سنت میں نہیں ہیں بلکہ محدثین نے خود تیار کی ہیں،اگر کوئی تصوف کے شعبے سے منسلک بعض لوگوں کی خلافِ شرع حرکات کی وجہ سے تصوف کا رد کرتا ہے تو وہ خلاف ِ شرع حرکات کا رد کرے مگر تصوف کا نہ کرے کیونکہ غیر شرعی حرکات اور تصوف کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ۔حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اﷲ تعالیٰ لکھتے ہیں
ْ؁؁اس صوفیا کی جماعت کے علوم احوال کے علوم ہیں اور احوال اعمال کے ثمرات ہیں جس نے اعمال کو صحیح طریقے سے ادا کیا ہو اور انکی ادائیگی کا حق ادا کیا ہو ا سے ہی علومِ احوال کے ثمرات ملتے ہیں اور اعمال کو اسی وقت صحیح طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے جب اعمال کو پہچانتا ہو اور ہر عمل کی کیفیت کو جانتا ہو۔جس سے بندہ اعمال کو پہچانے اور ہر عمل کی کیفیت کو جانے وہ نماز، روزہ اور باقی فرائض جیسے احکام شرعی کا علم ہے ،معاملات، نکاح و طلاق، بیع و شراء کا علم ہے اورہر وہ چیز جو اﷲ تعالیٰ نے اس پر واجب کی ہے اسکا علم ہے ۔جس زمانے میں کچھ حضرات کی طرف سے شریعت و طریقت کو دو جدا راستے اور دو متحارب قوتیں بتایا جا رہا ہو ،عامّۃ الناس کو مسجد و ں اور مدرسوں سے کوسوں دور کرنے کو اﷲ والوں کی لائن قرار دیا جا رہا ہو، کتّوں اور ریچھوں کی لڑائی اور میلوں ، ٹھیلوں کو اہل حق کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہو اس زمانے میں تصوف کے رول ماڈل کے طور پر حضرت اقدس پیر سید محمد مظہر قیوم مشہدی ایسے اہلِ تصوف کا تذکرہ ضروری ہے ۔آپ برصغیرکی عظیم روحانی شخصیت حافظ الحدیث حضرت پیرسید محمد جلال الدین شاہ رحمہ اﷲ تعالیٰ بانی مرکزی جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف (منڈی بہاؤالدین)کے گھر میں 1950؁ءکوبھکھی شریف میں پیداہوئے۔آپکی ولادت سے پہلے ہی آپکی خوشبوپھیل چکی تھی۔آپ نے نہایت ستھرے،پرنوراورروحانی ماحول میں پرورش پائی، حضرت حافظ الحدیث رحمہ اﷲ تعالیٰ کی آغوش علم وحکمت نے آپ کی نگہبانی کی اورآپ زندگانی کی سحرہی سے سعادت مندیوں کی منزل کی طرف رواں دواں ہوئے۔ آپ نے جا معہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف میں ماہراساتذہ کے پاس صرف ونحواورفارسی زبان وادب میں مہارت حاصل کی اس کے بعدتفسیروحدیث،فقہ،کلام،تصوف،اصول فقہ،اصو ل حدیث،میراث،معانی،منطق وفلسفہ کے علوم یگانہ روزگاراساتذہ سے پڑھے۔آپ نے فارغ التحصیل ہونے کے بعدجا معہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف میں۱۹۷۴؁ءسے۱۹۸۵؁ءتک تدریس کے فرائض سرانجام دیئے۔حضرت حافظ الحدیث رحمہ اﷲ تعالیٰ کی تربیت کااثرتھاکہ حضرت ثانی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے بیک وقت کئی محاذوں پرکام کیا۔جا معہ محمدیہ کے ناظمِ اعلی ہونے کے ساتھ دینی،ملی محاذوں پربھی بھرپورکردارکے ساتھ موجودرہے۔آپ نے تحریک ختم ِنبوت۱۹۷۴؁ءمیں رات دن طوفانی دورے کیے اورفتنہء مرزائیت کے خلاف موئثرکرداراداکیا۔آپ حسینی جذبوں کے امین تھے۔دین کوغالب کرنے کادرداوراحیاء اسلام کی تڑپ نے آپ کو طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ عطاکیاتھا۔آپ کالہجہ دھیماتھامگرنظریہ پرجوش تھا۔جب پاکستان میں سوشلزم کی سرخ آندھی چلنے لگی توقائداہلسنت مولاناشاہ احمدنورانی صدیقی رحمہ اﷲ تعالیٰ اورمجاہدملت مولانامحمدعبدالستارنیاز ی رحمہ اﷲ تعالیٰ کی قیادت میں آپ نے مجاہدانہ کرداراداکیا۔پاکستان کوانقلاب مصطفیﷺسے شادکام کرنے کیلئے قومی اتحادکے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیااوروقت کے طاغوت کاڈٹ کرمقابلہ کیا،سنت یوسفی اداکرتے ہوئے پس دیوارزنداں رہے مگر اس ملک میں سوشلزم کاراستہ روکنے کیلئے چٹان کاکرداراداکیا۔آپ نے تین ماہ تک مسلسل قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کیں مگرآپ کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ یہ حضرت حافظ الحدیث رحمہ اﷲ تعالیٰ کاعطاکردہ جذبہ تھاکہ آپ کے ساتھ اس جہادمیں آپ کے برادران حضرت پیرسیدمحمدمحفوظ شاہ مشہدی، حضرت پیرسید محمدعرفان شاہ مشہدی،مریدین اورفضلاء جامعہ نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔آپ کی طبیعت میں تنظیمی ذوق کافی حدتک موجود تھا،آپ جمیعت علمائے پاکستان اورجماعت اہلسنت کے باقاعدہ رکن رہے اورمختلف عہدوں پربھی فائزرہے۔آپ شریعت و طریقت کے باہمی ربط کے علمبردار، دین کے محافظ اور تصوف کی سچی روایات کے امین تھے،آپ فدائے ِمذہب ،محبِ مسلک اور نوائے ِمشرب تھے ۔آپ نفاست پسند ،سادہ مزاج ،صلح کوش ، ہمت شعار، معاملہ فہم ، روشن دماغ اور ایک ماہر منصوبہ ساز تھے۔ آپکیـ ــــــــــــــتکلف بر طرف انداز اور ٹھنڈی آواز نے نجانے کتنے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیاآپکے خیریت دریافت کرنیکے آہنگ نے کتنے لوگوں کو ہم آہنگ کرلیا۔آپکے دیکھنے میں اپنائیت، بولنے میں متانت اور تبسم میں ایک طلسم تھا جس سے بڑے بڑے عقلمند آپکے محبت مند بن گئے۔آ پ کے مزاج میں مٹھاس اورگفتگو میں ہمدردی کا احساس تھا۔آپ سے ایک مرتبہ ملاقات کرلینے والابرسوں محظوظ ہوتارہتاتھا۔آپ بولتے تھوڑا مگرتولتے زیادہ تھے تقریر تھوڑی مگرتدبیر زیادہ کرتے تھے۔آپ کی طبیعت میں سادگی بھی تھی اورسوز بھی تھا،وجاہت بھی تھی اوروقاربھی تھا،دانش بھی تھی اور دبدبہ بھی تھا،اﷲ تعالیٰ نے آپ کوحسن صورت بھی دیا حسن شہرت بھی ،حسن افکار بھی دیا اور حسن کرداربھی۔۱۹۸۵؁ءمیں جب حضرت حافظ الحدیث رحمہ اﷲ تعالیٰ کا وصال ہواتوآپ کودرگاہ مقدسہ بھکھی شریف کاسجادہ نشین مقررکیاگیا۔آپ نے بحیثیت سجادہ نشین گراں قدرخدمات سرانجام دیں۔آپ ایک متحرک مرشد اور ایک پراثرپیرطریقت تھے۔آپ نے بیماری کے باوجودشبانہ روزکوشش کی۔آپ نے متعددمدار س ا ورمراکزرشدوہدایت قائم کیے۔آپ نے ہزاروں مریدین کی اعتقادی اورعملی اصلاح کی۔آپ کی علم دوستی اورتصوف آشنائی نے دورس اثرات پیدا کیے۔آپ نصاب ِ تعلیم ، طریق ِ تعلیم اور نظام ِ تعلیم پر گہری نظر رکھتے تھے اور وقتاً فوقتاًاپنی قیمتی آراء سے نوازتے رہتے تھے ، مدارس کے انتظامی مسائل اور تعلیمی معاملات کے حل کیلئے خصوصی دلچسپی لیتے تھے ، آپ کے مزاج میں اگر چہ تسامح اور درگزر کا وصف نمایاں تھا مگر معیار ِ تعلیم کیلئے محاسبہ کو بھی ضروری سمجھتے تھے اور کوتاہی برتنے والوں کی سرزنش فرماتے، آپ تعلیمی میدانوں میں طلباء کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے ، اور انہیں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے تھے ، فارغ التحصیل علماء کرام کو علمی میدان میں اتارنے کیلئے انکی ذہن سازی کرتے تھے ، اور انتہائی غوروخوض سے انہیں موزوں اور مناسب جگہوں پر مامور فرماتے تھے ۔آپ سماج پرگہری نظررکھتے تھے اورسماجی معاملات کے لیے بھی کافی وقت دیتے تھے۔اس مقصدکیلئے آپ نے جلالیہ ویلفیرآرگنائزیشن کی بنیادرکھی اورفری ایمبولینس سروس شروع کی آپ نے مریدین کی تربیت اورماحول کو تصوف وفقہ کی برکات سے بہرہ ورکرنے کے لیے ماہنامہ جلالیہ کا اجراء کیاجوہرماہ باقاعدگی سے نکل رہا ہے، آپ نے انجمن جلالیہ رضویہ کو منظم کیااوراس کے پلیٹ فارم سے حلقہ ہائے ذکر،ختم خواجگان شریف اوردیگرمذہبی پروگراموں کے انعقاد کا سلسلہ شروع کروایا۔طریقت و شریعت کی یہ جامع شخصیت۲۰۰۹؁ء ۲۱ــ،اگست کو عین نماز جمعہ کے وقت جہان فانی سے رخصت ہوگئی۔بڑے بڑے پیران طریقت،شیوخ،اکابرین اور قائدین نے آپ کو خراج تحسین پیش کیا۔آپ کے صاحبزادگان حضرت پیر سیّد محمد نوید الحسن شاہ مشہدی ،حضرت پیر سیّد مسعود الحسن شاہ مشہدی اورحضرت پیر سیّد شبیہ الحسن شاہ مشہدی آپ کے مشن کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں ۔آپ کو حضرت حافظ الحدیث رحمہ اﷲ تعالیٰ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔آپ کاسالانہ عرس۲۱،اگست کو بھکھی شریف منڈی بہاؤالدین میں ہورہا ہے۔
S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 118469 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More