سب کچھ سبوتاژہوگیاہے،کیسے
امن مذاکرات ..؟،یہ منہ اور مسُورکی دال،ایک اور ڈرون حملہ ..!
مان لو چوہدری جی .. ہماراتمہارااور سب کا دُشمن امریکا ہے بس امریکا، تو
اَب امریکی تعلقات پر نظرثانی
ڈرون حملوں کے معاملے میں پاکستان کے بار بار احتجاجوں اور منع کرنے کے
باوجود بھی امریکا نے پاکستان کی ایک نہ سُنی، اور تُھو تُھو...!آج
امریکانے جس طرح ڈرون حملہ کرکے تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود
اور اِن کے پانچ ساتھیوں کونشانہ بنانے بعد پاکستان کے امن عمل کابیٹراغرق
کردیاہے ، اَب اِس سے یہ اندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں رہاہے کہ آج ہماری
سلامتی اور خودمختاری کا اصل دشمن امریکاہے اور اَب اِس ساری صُورت حال میں
ہمارے سرکاری و نجی ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر پاکستان میں امریکی امن کی
خواہشات سے متعلق بک بک کرنے اور چیخ چیخ کر یہ تاثرپیداکرنے والوں (
پاکستانی حکمرانوں ، سیاستدانوں ، افسرشاہی اور اینکرپرسنز سر کو بھی یہ
چاہئے کے)یہ بھی اپنے منہ بندکرلیں جو کہ ٹی وی کے پروگراموں اور اخبارات
میں بیانات دغ کر عوامی سطح پر یہ تاثردینے کی کوششیں کرتے نہیں تھکتے ہیں
کہ”موجودہ حکومت کے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکراتی امن عمل میں
امریکابھی طالبان سے مذاکرات کے عمل میں حصہ دار ہے یا حکومت کے اِس امن
عمل میں اپنا حصہ شامل کرنے کا شدت سے خواہشمندہے“ جبکہ آج یہ سب نے دیکھ
لیاہے کہ پاکستان کے امن عمل کو ڈرون حملے سے تباہ کرکے امریکانے اِس کا
ثبوت دے دیاہے کہ امریکادومنہ والاوہ سانپ ہے جو باری باری اپنے دونوں ہی
منہ سے پاکستان کو ڈستارہتاہے اور آج بھی اِس نے ایساہی کردیا ہے جو یہ
اکثر بار ہمارے ساتھ کرتارہاہے۔
آج امریکاکے اِس گھناؤنے عمل سے یقیناسب کچھ سبوتاژہوگیاہے، اوراِس پراَب
تو ہمارے امریکی پِٹھو حکمرانوں و سیاستدانوں کو اپنی امریکی دوستی میں بند
آنکھیں کھول لینی چاہئیں، اوراَب اِنہیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی
چاہئے کہ ہماراتمہارااور ہم سب کا سب سے بڑادُشمن بس امریکا ہے..امریکا..!
جی وہ امریکاجو اپنے مکروہ چہرے کے ساتھ دنیا میں فسادات برپاکرکے خوش
ہوتاہے، وہ امریکاجس کی دوستی بھی دُشمنی سے خالی نہیں ہوتی ہے..اوروہ
امریکا جس کی دُشمنی تو بس دُشمنی ہی ہے۔
آج کسی کو اِس سے انکار نہیں ہوکہ امریکانے یہ جان لیاہے کہ ہم (یہ منہ اور
مسورکی دال جیسے) لوگوں کو کس طرح حالتِ ژولیدگی (حالتِ پریشانی )میں
رکھاجائے اورہمیں اِس سے باہر نہ نکلنے دیاجائے،توآج بھلا امریکیوں کے
نزدیک یہ کیسے ممکن ہوسکتاتھا ...؟کہ گزشتہ دِنوں چارہ روزہ امریکی دورے پر
جانے والے ہمارے حکمران امریکامیں زعفرانی چاول تو اُڑائیں اور وہاںبکرے کے
گوشت بھی کھائیں اور بھنے بیٹروں اور کدوکے سوپ کے مزے بھی لوٹیں،مگراتنی
امریکی تواضع ہونے کے بعد بھی ہم امریکی اہداف حاصل ہونے سے پہلے ہی خود سے
کچھ کرنے کے لئے چلے جائیں، یہ امریکیوں کو کیسے گوارہ ہوسکتاہے اور وہ بھی
ٹی ٹی پی والوں ( اِس کی نظر میں اِس کے سب سے بڑے دُشمنوں )سے پُرامن
مذاکرات کرنے کے لئے اوریہ بھی کہ اِس سے اِس معاملے میں کوئی صلہ مشورہ
بھی نہ کریں بلکہ اِسے صرف انفارم(مطلع )کریں ،تو سوچو یہ ایساکیسے..؟اور
کیوں ہونے دیتا...؟کہ اِس کے ٹکروں اور امدادوں پر پلنے والے ہم پاکستانی
لوگ اپنے اور اپنے خطے کے لئے ایساکچھ بہترکریں جس سے ہمارے یہاں امن
وسلامتی اور استحکام پیداہو، ہماری اِس سوچ اور منصوبوں کو ہی سبوتاژ کرنے
کے لئے تو اِس نے وہ کچھ کردیاجویہ ہمارے ساتھ ماضی میں بھی ظاہروباطنی
اندازسے کرتاآیاہے یعنی کہ پاکستان کے اِس دوست نمادشمن نے پھر وہی کیا جو
اُسے کرناچاہئے ..؟آج مریکا نے پھر ایساہی کیاہے جیساکہ ہم اپنی زندگی میں
کبھی نہ کبھی یا اکثرکسی فقیراور کم ظرفوں کے ساتھ کیاکرتے ہیں،یقیناآج
امریکاہمیں اپنی نظر میں فقیر یا کم ظرفوں جتنی ہی اہمیت دیتاہے اور یہی
جان کر یہ اکثر ہماری اُوقات سے بڑھ کر کئے جانے والے ہمارے مطالبوں اور
ہمارے بنائے جانے والے منصوبوں کو اِسی طرح سے سبوتاژکردیتاہے یا بھارت
جیسے اپنے کسی اورحواری مُلک کی مددسے ستیاناس کراکر ہماری خوشیوں کے رنگوں
میں بھنگ ڈال دیتاہے جیسااِس نے پچھلے دِنوں تحریک طالبان پاکستان کے
سربراہ حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں نشانہ بناکر پاکستان کی پُرامن
کوششوں کو سبوتاژکیاہے۔
جبکہ آج امریکا اِس پرکتناخوش ہورہاہوگاکہ اِس نے پاکستان کے تحریک طالبان
کے ساتھ پُرامن مذاکراتی عمل کو جاری ہونے سے پہلے ہی اپنے ایک ڈرون حملے
سے اِسے ایساسبوتاژکردیاہے کہ اِس کے بعد تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ
محسود اور اِن کے پانچ ساتھیوں کی ہلاکت کے بعد طالبان کا احتجاجاََ حکومتِ
پاکستان کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات معطل کرنے کے اعلان سے پاکستان کا
پُرامن مذاکرات کا عمل محض ایک خواب بن کررہ گیاہے۔
اوراِسی طرح ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب تک تحریک طالبان پاکستان والوں کو
اِس بات کا احساس نہ ہواتھاکہ حکومتِ پاکستان اِن سے مذاکرات کے لئے کتنی
مخلص ہے تو اِنہوں نے حکومتی مذاکراتی عمل کا مثبت جواب نہ دیامگرجب
پاکستانی علماکرام کی ایک مخلصانہ اپیل پر تحریک طالبان پاکستان کی قیادت
کو احساس ہوااورجب اِنہیں اِس کا یقین ہوگیاکہ اَب واقعی کسی مثبت نقطے پر
پہنچنے کے لئے اور سرزمینِ پاکستان میں قیام امن اور اِسے امریکی تسلط سے
نجات دلانی ہے تو حکومتِ پاکستان کے ساتھ پُرامن مذاکرات ہی اشد ضروری ہیں
تو اِنہوں نے بھی حکومت سے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے کے لئے غیرمشروط
مطالبات کے ساتھ امن عمل کی حامی بھرلی..اور امن عمل کو آگے بڑھانے کے لئے
حکومت کی جانب ہاتھ بڑھایا،اور حکومت نے بھی اِس کا مثبت جواب دینے کے لئے
پیش قدمی شروع کردی، اور اِس سلسلے میں پہلے حکومت نے ہفتہ 2نومبر2013کی
صبح مذاکرات کی دعوت دینے کے لئے شمالی وزیرستان جانے کے لئے اپنی3 رکنی
ثالثی ٹیم بھی تشکیل دی تھی جواَب یکم نومبر2013کو امریکی ڈرون حملے میں
تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد شمالی وزیرستان
جانے سے روک دی گئی ہے اور یوںحکومت کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ فی
الحال مذاکراتی عمل کو دھچکالگاہے،
مگراَب بھی اِس منظراور پس منظر میں وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کا
اپنی پریس کانفرنس میں یہ کہنا قوم کو انتہائی مضحکہ خیزلگتاہے کہ”
امریکاکے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی جائے گی“ اِن کا کہناہے کہ امریکی ڈرون
حملے سے حکیم اللہ محسود کا قتل پاکستان کی امن کوششوں کا قتل ہے“اِس پر
راقم الحرف وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار سے بس یہ کہنا چاہتاہے کہ ”ارے
نثارجی صاحب ..تعجب ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکاہماری اورتمہاری امن
کوششوں کا سب سے بڑا دُشمن ہے اور آج بھی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکاکے
ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی جائے گی ..“ ذراسُنیئے جناب آپ کی یہ بات قوم کو
توایک لطیفہ لگتی ہے ارے جناب ..!اَب سوچنے یا نظرثانی کرنے کی نہ توکوئی
ضرورت ہے اور نہ ہی اَب اِس کا کوئی فائدہ ہوگا،میراآپ کو بس ایک یہی مشورہ
ہے کہ آج اور ابھی آپ بھی تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ عمران خان کی طرح
ہمت پکڑیں اور یہ کہہ دیں ”امریکا نے امن عمل کو سبوتاژکیاہے ، ہماری حکومت
جاتی ہے توجائے مگرنیٹوسپلائی بندکرکے دکھائیں گے“ اور چوہدری جی..!آپ
عمران خان کے اِس کہے میں بس اتنااضافہ کرتے ہوئے یہ کہہ دیں کہ ” اَب
امریکاسے دوستی کی آڑمیں دھوکہ کھاکھاکر ہماری برداشت کی حدہوگئی ہے اَب
اگر ہماری سرزمین پرامریکی ڈرون نظرآیاتو ہم ڈرون گراکردِکھائیں گے“ تو پھر
آپ کی ہروہ خواہش ضرورپوری ہوسکتی ہے جو آپ چاہتے ہیں یعنی یہ کہ ” حملے کے
باوجو طالبان سے دمذاکرات کی کوششیں جاری رہیں گیں، طالبان بھی صبرسے کام
لیں گے اور اِس طرح پاکستان میں کوئی بھی امریکی پالیسی کامیاب نہیںہوگی،
قوم بھی ہرمشکل وقت میں برداشت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے صبرسے کام لے گی اور
امن کا راستہ بھی کُھلارہے گا۔
بہرکیف ...!موجودہ حالات میں مُلک کو جن گھمبیرچیلنجز کا سامناہے اِس پر
راقم الحروف کی اللہ رب عزت سے ایک یہی دعاہے اتناسب کچھ ہونے کے باوجود
بھی حکومت اور ٹی ٹی دونوں جانب سے نرم گوشہ رکھاجائے اور مذاکرات کے
دروازے ہرگزہرگزبندنہ کئے جائیں کیوںکہ اِس ہی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور
یہی مذاکراتی عمل ہی ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاسکتاہے اور یہ ہی سرِ زمینِ
پاکستان سے امریکی تسلط کے خاتمے کے لئے کارگرثابت ہوسکتاہے، توآج اِیسے
میںصرف ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت امریکی آلہ کاربننے سے احتیاط برتے
اوتحریک رطالبان پاکستان والے بھی اپنے سربراہ حکیم اللہ محسود اور پانچ
دیگرساتھیوں کی ہلاکت پر جذبات میں کوئی ایسافیصلہ نہ کریں جس سے اِن کا
کردار مزیدمشکوک ہوجائے اِنہیں چاہئے کہ یہ امریکی سازش کو سمجھتے ہوئے
حکومتِ پاکستان کے ساتھ مخلص ہوکرمذاکراتی عمل کو جاری رکھنے میں اپنی پیش
رفت جاری رکھیں اور یہ ثابت کردیں کہ یہ بھی سرزمینِ پاکستان کے ساتھ مخلص
ہیں اور اِس کے استحکام اور سلامتی کے عظیم خوہاں ہیں۔ |