میدان ہمیشہ سجتے ہی رہتے ہیں

میدان ہمیشہ سجتے ہی رہتے ہیں، پاکستان میں تو بس بہانا ہی چاہئے، جب بھی کوئی موقعہ ہو، امریکہ اور طالبان میں بہت سی قدر مشترک میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دونوں نے پاکستان کو بے تحاشا شہید دئیے ہیں، اس قدر شہید تو انڈیا نے بھی نہیں دئیے ہوں گے، خیر شہداء کارساز کی یاد میں منائے گئے دن میں بلاول بھٹو زرداری نے کمال رنگ جما دیا، آخر کو پاکستان میں سیاست کا میدان سجتا ہی ان ہستیوں کے لئے ہے، ان ہستیوں کے لئے جن کے آبا و اجداد ملک کے لئے قربانیاں دے کر گئے، مرکز یہی لوگ ہیں ، حکومت کا، بادشاہی کا اگر کوئی حقدار ہے تو یہی عظیم ہستیاں ہیں، یہ پاکستان کے سب سے اعلی درجے کے ذہین اور فطین لوگ ہیں چاہے وہ بلاول ہوں یا حمزہ شہباز شریف، خیر بلاول کی تقریر سن کر مزا آ گیا، خون میں گرمی کی لہر دوڑ گئی، وہ خون جو نچوڑ لیا گیا تھا، جس کے چند قطرے جسد خاکی میں موجود تو تھے، وہ خون جو ان کے والد محترم نے ہماری رگوں سے نکال لیا تھا، اب دوبارہ پاکستان کی خیر خواہی، اس کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی امید جگا کر جسم میں کچھ جان باقی ہونے کا احساس دلایا ہے، جس قدر مخالفت اس تقریر کی ہوئی، اس قدر تو ڈرون حملوں کی بھی نہیں کی گئی، ہر سیاسی پارٹی کے نمائندوں کی طرف سے چند خوبصورت جملے ادا کئے گئے، تقریر کا متن بھی ہمارے اس مضمون کی طرح بے تکا اور غیر اہم تھا، شہیدوں کے لواحقین کو نا ہی اس کی ضرورت تھی، اور نا ہو عوام کو، البتہ جیالوں کے لئے تفریح کا کافی سامان موجود تھا،صاحب فراست لوگ فرماتے ہیں کہ ٢٠١٨ کے الیکشن کی تیاری تھی، ویسے حکمران جتنی محنت الیکشن کی تیاری میں کرتے ہیں اگر اس قدر الیکشن کے بعد حکومت چلانے میں کر لیں تو شائد ملک کا کچھ بھلا ہو جائے۔ ،ابھی تو انتخابات بھی بہت دور ہیں، ویسے دیکھا جائے تو عموما دور دکھنے والی چیزیں در حقیقت دور نہیں ہوتی،ابھی کل کی ہی بات ہے ایسا لگتا تھا کہ میاں صاحب ملک کی تقدیر بدل دیں گے،ایک مارا ماری کا ماحول تھا، زرداری دنیا کا کرپٹ ترین انسان قرار پایا تھا، قوم نے بھی سوچا کہ چلو اب ایمانداریاں، کفایت شعاریاں ہوا کریں گی، ہماری بے روزگاری، بھوک افلاس، لوٹ مار میں کمی آ جائے گی، گھر کے ١٠ بے روزگاروں میں سے کم از کم ٢ تو بر سر روزگار ہوں گے، ١٠٠ روپے کمائیں گے تو ١٠ حکومت کو بھی دیں گے، کہ آخر غریب ہی کسی کی غربت کو سمجھ سکتا ہے، مگر یہ کیا ہوا، انتہائی پروفیشنل شخص، ایک تجربہ کار ٹیم نے ہمارے ساتھ ہاتھ کر دیئے،جیب میں دالنے کی بجائے مزید نکال لئے۔ ابھی کل ہی ان کی تقاریر بالکل ایسے ہی ہوتی تھیں جیسے بلاول نے اب کی ہے، یہ بھی چھوٹے میاں کی طرح تقریر کر رہے تھے، سنتے تھے کہ چھوٹے میاں بھٹو صاحب کو کاپی کرتے ہیں، اب زرداری کے چھوٹے بھٹو بھی ویسے ہی تقاریر سے محظوظ کرنے لگے ہیں، عوام کا تو ذکر نا ہی کیا جائے تو اچھا ہے، کیونکہ عوام نے ہر کسی کے لئے نعرہ فلاں، جئے فلاں کے نعرے لگانے ہوتے ہیں، عوام کو ناچنے کا بہانہ چاہئے، چاہے تیر کے لئے ہو، شیر کے لئے، اب تو بلے کے لئے بھی، پہلے خوشی سے ناچنا اور پھر ان کا نچانا، دنیا میں سب لوگ ناچتے ہیں سوائے مولویوں کے، مولویوں نے عوام کو خوب نچایا ہے، ویسے یہ کہنا بھی زیادتی ہوگی، صرف انہوں نے ہی نہیں، جس کا جتنا جتنا بس چلا، اسی نے اتنا اتنا ہی نچایا، امریکہ بہادر کو گناوڈن نے نچایا ہے، ساری دنیا مفرور ہو کر امریکہ جاتی ہے، وہ مفرور ہو کر امریکہ سے نکل گیا، پتہ نہیں کیا پڑی تھی اس کو یہ سب کرنے کی، جو انکشافات اس نے کئے ہیں اس قدر تو دنیا کے بچے بچے کو معلوم ہیں، ہماری ملالہ تو اس سے بھی زیادہ جانتی ہے، اسے یقین ہے کہ جن کے آگے وہ گزارش کر رہی ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کے لئے کچھ کریں، وہ یقینا ہمارے خیر خواہ ہی ہوں گے، وہ چاہتی ہے کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرے، علم کے متلاشی ہمیشہ امریکہ ہی جاتے ہیں، جو وہاں نہیں جا پاتے انہیں علم ڈرون کی صورت میں ڈھونڈتا ہوا فاٹا اور سوات کی گلیوں میں آ جاتا ہے، ورنہ طالبان تو ہیں ہی، ان کا تو نام بھی طالب علم سے منسلک ہے۔ خیر ملالہ کو علم کی وجہ سے یہ شہرت نہیں ملی، اور نا ہی وہ کوئی ایسی مفکر ہے کی کتاب ہی لکھ سکے، ہم سے تو ایک مضمون نہیں لکھا جاتا کہ جان پر ہی بن آتی ہے، البتہ اگر طالبان نے کسی کو فائدہ پہنچایا ہے تو وہ ملالہ ہے، طالبان سے مذاکرات کب ہوں گے، کیا لائحہ عمل ہوگا، آخر کس لئے مذاکرات ہوں، اس لئے کہ ان سے پوچھا جا سکے کہ آخر بات ہے کیا، کیا صرف ڈرون حملے ہی مسئلہ ہیں یا کچھ اور بھی ہے, ہزاروں بے گناہ لوگوں کی شہاددت کے بعد آخر حل یہ ہی ہوا کرتا ہے، میز پر بیٹھ کر کوفی کے گرما گرم سپ لگا کر قوم کی قسمت کا فیصلہ، کیا ڈرون حملوں سے صرف ٤٠٠ حلاکتیں ہوئی ہیں، کیا کوئی اس پر واویلہ مچانے والا نہیں کہ خدا کا خوف کرو، ویسے تو پاکستان حکومت کو خود بھی کوئی اندازہ نہیں ہوگا.
John Almeida
About the Author: John Almeida Read More Articles by John Almeida: 4 Articles with 3038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.