ہم عجب قوم ہیں،ہم بڑی جلدی سازشوں کے شکارہوجاتے ہیں
اورایک دوسرے کے خلاف غلط فہمیوں کی گٹھری ساتھ لیے پھرتے ہیں اوراس کی
بنیادپر بغیرتحقیق غیرتوغیراپنوں کے لیے بھی ایساطرزعمل اختیارکرتے ہیں
جوہمیں سیدھامنافرت اورعداوت تک پہنچادیتاہے ۔اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم
اپنے ذہن کی نہایت کم ترین سطح پرکھڑے ہوتے ہیں اورہمارے شعورکی وادی
بدترین قحط کا شکار ہوتی ہے اس لیے ہم منفی باتیں کرنے اورسننے کے عادی
بخارمیں مبتلاہوجاتے ہیں۔ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ شخصیت میں کتنی خوبیاں
ہیں اوراس کی ذات سے دین و ملت کوکیافائدہ پہنچ رہاہے بلکہ ہم تواس ٹوہ میں
رہتے ہیں کہ اس آدمی میں خرابیاں کتنی ہیں اوراسے کس طرح مجروح کیاجاسکتاہے
۔ہمارے شعورکی عدم بلوغت کی انتہایہ ہے کہ جزوی مسائل میں اختلافات کوایسی
شکل دے دیتے ہیں جیسے وہ کوئی اصولی معاملات ہوں اوران اختلافات سے دین کی
بنیادیں منہدم ہوئی جارہی ہوں۔اہل علم کی ایسی ایک نہیں درجنوں مثالیں ہیں
جوصرف اسی وجہ سے مطعون قراردیے جا رہے ہیں اوران کو بلاوجہ نزاعات کے
دائرے میں گھسیٹاجارہاہے ۔اس طرح کے رویے زندہ قوم کی علامت نہیں ہوتے ۔زندہ
قومیں بڑی شخصیات سے عشق کی حدتک لگاؤرکھتی ہیں اوران کے کارناموں
پرفخرکرتی ہیں اس لیے ہمیں اعتراف کرلیناچاہیے کہ ہم ’’مردہ‘‘قوم ہیں
جواپنے فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، عالموں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔ہمیں
اس حقیقت کابھی اعتراف کرلیناچاہیے کہ ہم دین کی حقائق کوسمجھ نہیں پارہے
ہیں اورعوام کوبھی دین کے محدودتصورکی تلقین کررہے ہیں۔ہمارے اس مفروضہ
محدودتصورکے چوکھٹے میں جوفٹ بیٹھتاہے ہم اسی کوصحیح سمجھتے ہیں اورجو اس
دائرے سے باہرنظرآتاہے اسے دین سے باہرکاراستہ دکھاتے ہیں ۔ہم مہم
چلاکراپنی بڑوں،عظیم شخصیتوں ،ہیروؤں،فن کاروں،دانشوروں کو متنازع بنانے ،غلط
فہمیوں کی دھندمیں لپیٹنے اوران کے لیے نازبیا الفاظ کہنے ،کہلوانے
اورلکھنے ،لکھوانے سے بھی نہیں چوکتے ۔ہم ناقدروں کویہ بات اچھی طرح ذہن
نشیں کرلیناچاہیے کہ بڑی شخصیتیں کسی کی جاگیرنہیں ہوتیں،ان پرکسی
سلسلے،کسی خانقاہ اورکسی مشرب کی مہرنہیں لگی ہوتی۔ یہ بوئے گل کی طرح
مہکتی ہیں اورلوگوں کومہکاتی چلی جاتی ہیں۔اگران شخصیات پراہل خاندان،اہل
محلہ،اہل شہر،اہل عقیدت اور اہل سلسلہ اپنا حق جتائیں اوران کے اردگردبڑے
بڑے حصارقائم کردیں توگویاوہ ان کی شخصیت کودبانے کی کوشش کررہے ہیں۔اہل
عقیدت اسے محبت وعقیدت کانام دیتے ہیں مگرواقعہ یہ ہے کہ یہ محبت نہیں
عداوت ہے ،غیرمحسوس عداوت۔ اورآگے چل کریہی ’’محبت ‘‘ شخصیت کو پھلنے
پھولنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے ۔ہماری کم نصیبی یہ ہے کہ بڑی
شخصیتوں کے ساتھ ہم اسی طرح کی ’’محبت و عقیدت ‘‘ رکھتے ہیں۔ہمارے عوام ہی
نہیں خواص کہے جانے والوں لوگوں کی ایک بڑی اکثریت کچھ ایسی ہی ’’محبت‘‘کی
شکارہے ۔
اتنی لمبی چوڑی تمہیدکی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہمارے ممدوح سیدملت حضرت
سیدحسنین میاں نظمی مارہروی علیہ الرحمہ بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سے
دوچارہوئے ۔حضرت سیدملت اپنے فکروفن کی بنیادپرجماعت اہل سنت کی ایک عظیم
شخصیت تھے ۔نعتیہ شاعری کی دنیامیں امام احمدرضاقادری بریلوی قدس سرہ
العزیزکے بعدان جیسامشہورومقبول شاعر آج تک پیدانہیں ہوا ۔عظیم شخصیتوں کی
ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ان کی باتیں ،مقولے ،اشعاراورکہاوتیں لوگوں کی
زبانوں پراس طرح چڑھ جاتی ہیں کہ پھربمشکل ہی وہاں سے اترتی ہیں ۔ اصل
شاعراوراصل بانی کانام کسی کوبھی نہیں معلوم ہوتامگران کے ملفوظ ہماری
گفتگوؤں اورمجلسوں میں غیرمحسوس طورپرداخل ہوجاتی ہیں اورہم ان کے
اسیرہوکررہ جاتے ہیں۔اس پس منظرمیں دیکھیں توحضرت نظمی غیرمعمولی عظمت
وانفرادیت کے حامل نظرآئیں گے۔ان کے درجنوں اشعارزبان درزبان سفرکرکے غیریت
کی سرحدوں کو عبور کر چکے ہیں اورزبانوں پراس طرح سجتے ،مہکتے اور مہکاتے
ہیں کہ لگتاہے نظمی نے ان ہی کے باطن کی ترجمانی کردی ہو۔یہ اشعاران کی
شخصیت کااہم ترین حوالہ اورشناخت قرارپاچکے ہیں ۔
حضرت نظمیؔ ان حضرات میں سے ہیں جواعلیٰ عصری تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ
ساتھ اعلیٰ دینی تعلیم سے بھی بہرہ ورتھے اورکیوں نہ ہووہ علمی اورروحانی
طورپرمستندترین شخصیت کی حیثیت سے جانے اورپہچانے جانے والے عظیم عبقری
شخصیت سیدالعلماء حضرت علامہ مفتی سیدشاہ آل مصطفی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
صاحب زادے تھے۔حضرت سیدملت کی پرورش جب ایسے باکمال اورفیض بزرگ کی
زیرنگرانی ہوئی ہو تو انہیں باکمال، بافیض اورلازوال بنناہی چاہیے تھا
۔۱۹۴۶ء میں پیداہونے والا یہ عظیم وجلیل مردمجاہد۶نومبربروزبدھ ممبئی میں
حیات کی سرحدوں کو عبور کرکے ایک ایسی دنیامیں پہنچ گیاجہاں سے کوئی واپس
نہیں آتالیکن ان کے کہے ہوئے کلمات اوران کی نوک قلم سے نکلے ہوئے الفاظ
انہیں دنیابھرکے لاکھوں لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے ۔
حضرت سیدملت کاتخلص نظمیؔبچپن سے ہی میری شعورکی تہوں میں پیوست ہے ۔اﷲ
عزوجل کافیض اورمیرے والدمحترم کی تربیت کانتیجہ کہ مجھے بچپن سے ہی نعت
نبی سننے کاشوق رہاہے ۔میرے وطن مالوف پورن پور( پیلی بھیت) میں جہاں کہیں
بھی کوئی چھوٹابڑاجلسہ ہوتاتوناممکن تھا کہ میں وہاں شریک نہ ہوتا۔اس زمانے
میں ملک کے بڑے مشہورنعت خواں جناب مناظرحسین بدایونی کی سحرطرازآواز پورے
ہندوستان میں گونج رہی تھی اوران کی موجودگی کسی بھی جلسے کی کامیابی کی
ضمانت سمجھی جاتی تھی ۔ مناظر حسین صاحب زیادہ تر حضرت نظمی میاں کاہی کلام
پڑھتے ۔حضرت نظمی سے پہلاتعارف مناظرحسین بدایونی کی آوازکے ذریعے ہی ہوا۔
میرے گھرمیں کئی کیسٹیں تھیں جن میں زیادہ ترمناظرحسین کی آوازمیں حضرت
نظمی کاکلام تھا ۔مجھے یادہے کہ ان میں سے کسی کیسٹ میں حضرت نظمی کی زبانی
بھی ایک نعت محفوظ تھی ۔حضرت نظمی کی آوازسے نعت رسول کی سماعت کی سعادت
پہلی باراسی کیسٹ کے ذریعے حاصل ہوئی ۔یہ بہت مشہورو مقبول نعت سنسکرت میں
ہے جس کاایک شعر ہے:
کوٹی کوٹی پرنام نت مستک سکل پرجا جنم
ہے دین بندھو دَیا ندھی ابھی نندنم سو سواگتم
شاہ امم،شاہ امم
یہ حضرت نظمی کے کلام کااثرتھا یامناظرحسین بدایونی کی سحرطرازآوازکاکمال
کہ حضرت نظمی کی کئی نعتیں میرے حافظے میں تھیں اورمیں انہیں مجمع عام میں
سناکرعوام کومحظوظ کرتااورخودبھی محظوظ ہوتاتھا۔ان کاکلام سنتے سنتے
اورپڑھتے پڑھتے مجھے ان کی زیارت کا شوق پیداہوااوریہی شوق مجھے میرے
والدصاحب کے ہمراہ سب سے پہلی بارمارہرہ شریف لے گیا۔اس وقت عرس قاسمی
خانقاہ شریف کے اندرہوتاتھا ۔مجھے اچھی طرح یادہے کہ اس موقع پرحضرت نظمی
نے اپنی مخصوص آوازمیں نعت شریف یاغالباًکوئی منقبت شریف سنائی تھی ۔ اس
کاایک شعرنہ جانے کیسے میرے حافظے میں رہ گیا:
میم مدینہ مارہرہ کی عظمت ہے
اس گنبدکواس گنبدسے نسبت ہے
۲۰۰۰ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ اشرفیہ مبارک پورحاضرہوا۔اس سال یااس
سے آنے والے سال یعنی ۲۰۰۱ء کے عرس حافظ ملت میں حضرت نظمی کے صاحب زادے
حضرت مولاناسیدسبطین حیدرقادری برکاتی کی دستارفضیلت ہوئی تواس موقع پرحضرت
نظمی میاں علیہ الرحمہ مبارک پور تشریف لائے تھے اورحافظ ملت اوراشرفیہ
نیزمصباحیوں کے بارے میں اپنے گراں قدرتاثرات بھی ارشادفرمائے تھے ۔ حضرت
موصوف کی یہ دوسری زیار ت تھی ۔
اکتوبر۲۰۰۷ء میں ممبئی آیاتوایک دن چنداحباب کے درمیان حضرت نظمی کاتذکرۂ
جمیل چھڑگیا۔میری آرزوے شوق حضرت کی دست بوسی اورقریب سے زیارت کے لیے
انگڑائیاں لینی لگی۔ چنانچہ سہ ما ہی افکاررضاکے مدیرعالی جناب زبیرقادری
صاحب نیزدیگرلوگوں کے ساتھ حضرت کے مکان برکاتی منزل غالباًچوتھے مالے
پرحاضری ہوئی ۔یہ حضرات بیعت ہوے اورمیں نے بھی حضرت کے دست اقدس پر
اپناہاتھ رکھ دیااوربرکاتی نسبتوں کی بہاریں لوٹنے لگا۔یوں ۱۹۹۲ء میں تاج
الشریعہ حضرت علامہ اختررضاخاں ازہری میاں مدظلہ العالی والنورانی کے
نورانی ہاتھوں میں اپناہاتھ دے کرآج برسوں بعد نسبت برکاتیت کی غیرمعمولی
سعادتیں بھی اپنے دونوں ہاتھوں سے بٹوررہاتھا۔میں رضوی نسبت کاحامل توتھاہی
برکاتی نسبت کابھی اہل ہوگیااورویسے بھی میرے فہم ناقص میں برکاتی اوررضوی
میں کوئی فرق نہیں ہے ۔دونوں نہریں ایک ہی دریامیں جاگرتی ہیں۔جوبرکاتی ہے
وہ رضوی بھی ہے اورجورضوی بھی ہے وہ برکاتی بھی ہے ۔چنانچہ جولوگ رضوی ہونے
کے باوجودخانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے شاہ زادگان کے خلاف بدتمیزیاں
کرتے ہیں وہ رضوی ہیں ہی نہیں چاہے وہ اپنی تمام توانائیوں کویک جاکرکے
دعوی رضویت کیوں نہ بلندکریں ۔اسی طرح جوبرکاتی خانقاہ رضویہ کے حوالے سے
اپنی ناک بھنوں چڑھاتے ہیں وہ بھی حقیقتاًبرکاتی نہیں ہیں۔ایک دوسرے سلسلوں
کے خلاف صف آراہونے والے لوگوں کااندازہ نہیں ہے کہ وہ کس قدربھیانک غلطی
کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ شاہ زادگان مارہرہ مطہرہ کی شان میں توہین کرکے وہ
امام احمدرضااورحضورمفتی اعظم ہندعلیہماالرحمۃ والرضوان کی روح کو ایذا
پہنچا رہے ہیں اورخانقاہ رضویہ کے لیے نازیباالفاظ کہنے والے مشائخ برکات
علیہم الرحمۃ والرضوان کوناخوش کررہے ہیں۔
بہرحال بیعت کے بعدایک رجسٹرمیں ہم سب لوگوں کے نام درج کیے گئے۔مجھے
یادآتاہے کہ اس موقع پر حضرت علیہ الرحمہ نے ہم سب کی چائے سے ضیافت بھی کی
تھی ۔اس ملاقات میں مجھے بہت قریب سے حضرت کی زیارت کاموقع ملا۔
خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ پراﷲ عزوجل کاایسافضل اورحضورسیدۂ کائنات حضرت
فاطمۃ الزہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہاکاایسافیض ہے کہ اس کاہرہرفرداپنی مثال آپ
ہے ۔مجھے حضرت نظمی بھی اپنی مثال آپ نظرآئے ۔ان کی حیات کابہت مخصوص
اورخوب صورت عنوان تو نعتیہ شاعری ہے مگران کی تصنیفات ،تالیفات اورتراجم
کااچھا خاصا اوروقیع ذخیرہ بھی ہمیں حضرت کی ہمیشہ یاددلاتارہے گا۔ا ن کی
شاعری عشق رسول میں گندھی ہوئی ہے اوریہ شاعری محض برائے شاعری نہیں ہے
بلکہ مقصدیت سے بھرپورہے ۔اس میں عشق رسالت کی جلوہ طرازیاں بھی ہیں
اورعقائداہل سنت کی جلوہ افروزیاں بھی ۔انہوں نے اپنی نعتیہ شاعری کے ذریعے
محبت نبی کے توگن گائے ہی ہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات کوفروغ بھی دیاہے ۔
اگران کی ساری تصانیف اوردیگرکارنامے ایک طرف رکھ دیے جائیں تب بھی یہ
نعتیہ شاعری ان کی اعلیٰ ترین علمی وادبی حیثیت متعین کرنے کے لیے کافی ہے
۔ان کے اشعارمیں جوکشش ہے وہ دوردورتک نظرنہیں آتی ۔ اکثر ایساہوتاہے کہ
کسی شاعرکے تمام اشعاراس پائے کے نہیں ہوتے کہ ان سب کومقبولیت کادرجہ مل
سکے۔ صرف چنداشعاریاچندہی نعتیں یامنقبتیں ہوتی ہیں جوا س کی شناخت کاحوالہ
قرارپاتی ہیں مگرحضرت نظمی کامعاملہ دوسروں سے ذرامختلف ہے ۔ان کے زیادہ
تراشعارمقبول عوام وخواص ہیں۔یہاں یہ بات تحریرکرناضروری معلوم ہوتاہے کہ
حضرت نظمی کوعوامی سطح پرمتعارف کرانے میں جناب مناظرحسین بدایونی نے کلیدی
رول اداکیا ہے ۔ انہوں نے ہندوستان کے چپے چپے میں گھوم کرچھوٹے بڑے جلسوں
میں شرکت کرکے عوام میں حضرت نظمی کومتعارف کرایااورحضرت نظمی کے کلام سے
ہی مناظرحسین بدایونی کوشہرت ملی ۔نعتیں لکھیں حضرت نظمی نے، انہوں نے
لکھنے اورکہنے کاحق اداکیااور انہیں پڑ ھا مناظرحسین بدایونی نے، انہوں نے
پڑھنے اوردوسروں سے پڑھوانے کاحق اداکیا۔
حضرت کی شخصیت بہت سوں کے لیے ایک عظیم مثال کی حیثیت رکھتی ہے ۔انہوں نے
صرف عصری تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ دینی ومذہبی تعلیم بھی حاصل کرکے اپنے
عقیدت مندوں اوروابستگان سلسلہ کویہ پیغام دیاکہ عصری تعلیم میں درک حاصل
کیے بغیردنیا میں اچھی طرح زندگی نہیں گزاری جاسکتی اوردینی تعلیم میں
مہارت حاصل کیے بغیردین کی صحیح تفہیم نہیں ہوسکتی ۔عصری تعلیم دنیا میں
کامیابی کی ضمانت ہے اوردینی تعلیم آخرت میں کامیابی کی ضمانت ۔بچپن میں ان
کے والدین نے ان کی تربیت دینی منہج پرکی تھی۔ ان کے خاندان میں درجنوں
آفتاب وماہتاب تھے اس لیے گھرپرہی ابتدائی تعلیم حاصل کی پھرعصری تعلیم کے
لیے کالج کا رخ کیااور۳۳سال تک حکومت کی اعلیٰ ترین ملازمت کی ۔اس دوران
دینی مطالعہ بھی کرتے رہے ،نعتوں کے گلدستے بھی سجاتے رہے اوراپناحاصل
مطالعہ بھی کتابی صورت میں پیش کرتے رہے اورجب تک آپ کی زندگی کاسرمایہ ختم
نہیں ہوگیا انہوں نے اپنے آپ کوکام کے حوالے کیے رکھااورکام نے بھی اپنے آپ
کوپورے طورپران کے حوالے کردیا۔حضرت نظمی بظاہر دیکھنے بھالنے میں ایک عام
سے انسان معلوم ہوتے مگروہ علم وروحانیت کے سنگم تھے اورعمل کے پیکر۔
ان کی نظرمیں شایدیہ دعاتھی: اللھم ربنا آتنا فی الدنیاحسنۃ وفی الآخرۃ
حسنۃ وقناعذاب الناراس لیے دین کی بنیادی تعلیمات کے حصول کے بعدانہوں نے
سب سے پہلے عصری تعلیم کی طرف قد م بڑھائے اوراعلیٰ ترین ملازمت تک پہنچے
اوراس کی بنیادپرجب خوش حالی میسرآئی تووہ خاموشی کے ساتھ دینی کاموں میں
لگ گئے ۔دوران ملازمت ان کادینی مطالعتی سفر جاری رہااوررٹائرمینٹ کے بعداس
سفرمیں مزیدتیزی آگئی۔انہوں نے یہ نہیں کیاکہ پہلے عصری تعلیم میں منہمک
ہوگئے ہوں اورپھرجب وقت ملاہوتودین کی طرف مائل ہوئے ہوں۔ حضرت نظمی کی
تربیت جس نہج پرہوئی تھی اس منہج پرانہوں نے اپنے بیٹے حضرت مولاناسیدسبطین
حیدربرکاتی مصباحی مارہروی کوبھی پروان چڑھایا۔سب سے پہلے انہیں دین کی
بنیادی تعلیم سے آشناکرانے کے بعداعلیٰ عصری تعلیم دلائی تاکہ وہ دنیا میں
اچھی اورخوش حال زندگی گزارنے کے لائق بن سکیں ۔پھراس کے بعددین کی اعلیٰ
تعلیم کی طرف متوجہ کرایااورانہیں عالم دین بنادیا۔اس سے ایک بات سمجھ میں
آئی کسی بھی بچے کوسچااورحقیقی مسلمان بنانے کے لیے پہلے دین کی بنیادی
تعلیمات سے آشناکراناانتہائی ضروری ہے اوردینی تربیت لازمی۔اس کے بعدآپ
چاہے تو اسے دین کی اعلیٰ تعلیم دلائیں یاعصری تعلیم ،وہ بچہ کہیں بھی بہک
نہیں سکتا۔ہمارے آج کے نوجوان فکری طور پرآوارگی اور گمراہیت کی طرف اس لیے
بڑھ گئے ہیں کہ ان کے والدین نے بچپن میں انہیں دینی تعلیم وتربیت سے
آشناہی نہیں کرایا۔
حضرت نظمی کی پوری حیات خدمت لوح وقلم میں گزری اوروہ پوری زندگی اپنے
اباجان حضورسیدالعلماء حضرت علامہ مولاناسیدآل مصطفی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
عکس جمیل اورجانشین بنے رہے ۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک عظیم نعت
گوشاعرہونے کے ساتھ ساتھ ایک محقق، صحافی،دانشوراورکئی زبانوں پرحددرجہ
عبوررکھنے کے ساتھ ساتھ ۳۹مطبوعہ وغیرمطبوعہ کتابوں کے مصنف ،مؤلف اورمترجم
تھے ۔ یہاں ایک سوال یہ ہے کہ پھرہم نے اتنی بڑی شخصیت کے ساتھ انصاف کیوں
نہیں کیا؟یہاں بھی ہم ناقدروں کی کمینگی آڑے آئی ،ہمارے مزاج کے منفی
رجحانات سامنے آئے اوراپنے پیرسے بے انتہاعقیدت مندی اوردوسرے سے لاتعلق
ہونے والی کیفیت رکاوٹ بن کرکھڑی ہوگئی ۔ہمارامزاج یہ ہے کہ ہم اگتے سورج
کوسلام کرتے ہیں اورہرچمکتی ہوئی چیزکوسوناسمجھ لیتے ہیں اورپھردیوانہ
واراس کی طرف دوڑپڑتے ہیں چاہے وہ دورسے چمکتی ہوئی چیزسراب ہی کیوں نہ
ہو۔ہم مسلمانوں کاایک بہت بڑاالمیہ یہ ہے کہ ایک ہی خانقاہ کاایک آدمی
ہماراہیروہوتاہے اوراسی خانقاہ کادوسرا فردزیرو۔ ہم ایک ہی سلسلے یاایک ہی
خانقاہ کے ایک فردکے اردگرد اپنی عقیدت ومحبت کاہالہ قائم کرلیتے ہیں
اوراسی سلسلے یاخانقاہ کے دوسرے فردکے ساتھ ایسامعاملہ رکھتے ہیں جیسے ہم
اسے پہچانتے تک نہ ہوں۔میری نظرمیں ایک نہیں متعدد ایسی مثالیں ہیں کہ ایک
خانقاہ کاایک فردہمارے سرکاتاج ہوتاہے ،ہم اس کی چوکھٹ پراپنی ساری عقیدتیں
قربان کردیتے ہیں اور اسی کے بھائی کی شایان شان تعظیم وتوقیرسے بھی
خودکوروکے رکھتے ہیں۔
آج چاپلوسی ،خوشامدکوکامیابی کامعیارسمجھاجارہاہے ۔لوگ چاپلوسی کرنے والوں
کو پسندکرتے ہیں اور جو صحیح بات کرے ،حق بات سنائے اوراچھے کواچھااوربرے
کوبراکہے اوراسی کے مطابق عمل کرے اسے اپنے گھرکی چوکھٹ سے ہی باہرکاراستہ
دکھادیتے ہیں ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ ہمارے مذہبی اشرافیہ
کے اردگردچاپلوس ٹولے کا گھیرا اتنا سخت ہے کہ اسے توڑناناممکن سالگتاہے ۔
یہ چاپلوس،خوشامدی لوگ ہمارے بڑوں سے جوچاہتے ہیں کروالیتے ہیں اورجوچاہتے
ہیں کہلوالیتے ہیں۔یقین مان لیجیے کہ آج ہمارے درمیان نزاعات ،غلط فہمیوں
اوردوسروں کے ساتھ لاتعلقی کاجوسلسلہ ہے اس کا ذمے داریہی چاپلوس ٹولہ ہے
۔یہ بڑوں کے ساتھ پانچ کو پچاس بنانے کے چکرمیں لگارہتاہے ،اسے نہ دین کی
فکرہے اورنہ عوام کی۔
حضرت نظمی میاں بھی ایک بڑی خانقاہ کے پیرتھے ان کے بھی ہزاروں مریدین
دنیابھرمیں پھیلے ہوئے ہیں مگراس کے باوجودان کاحلقہ اتناوسیع نہیں ہوسکا،
کیوں؟اولاًتوانہوں نے اپنی عمرکاتقریباًنصف حصہ ملازمت میں گزارااوربیعت
وارادت سے دورہی رہے ۔دوسرے یہ کہ وہ چاپلوس لوگوں کواپنے آس پاس پھٹکنے
بھی نہیں دیتے تھے ،جسے حق سمجھتے اسی کوحق کہتے اوراسی کی تلقین کرتے اور
جو چیز ان کے نزدیک بری ہوتی ان کی فکر اوران کے عمل سے وہ اسی اندازسے
ظاہرہوتی تھی ۔وہ حق گو تھے ،کسی بڑے منصب اوربڑی حیثیت کالحاظ کیے
بغیراپنانظریہ پیش کردیتے تھے اس لیے ان کے پاس چاپلوسوں کی دال نہیں گلتی
تھی ۔اسی لیے نہ وہ پیرانہ ٹھاٹ باٹ تھے جوآج کل کے پیروں کے مقدرمیں ہیں
اورنہ وہ پیرانہ طمطراق تھا جوپیران عظام عموماً اپنے لیے رو ا رکھتے ہیں
۔انہوں نے ملک بھرسے محرم الحرام کے مہینے میں ممبئی آنے والے پیشہ ور خطبا
کو ایک جگہ ’’محرم الحرامی مولوی‘‘لکھ دیاتوخطباکاایک بڑاطبقہ ان کے خلاف
ہوگیا۔ایک بارکسی کے متعلق کوئی بات کہہ دی توان کے پورے حلقے نے حضرت نظمی
میاں سے اپنے تمام رشتے ناطے منقطع کرلیے ۔
اصل میں ہماری قوم میں شعورکاقحط ہے اورقحط جب پڑتاہے تووہ پوری آبادی
کونگل جاتاہے۔ اس شعورکے قحط نے ہماری ذہنی توانائیوں کونگل لیاہے اورمثبت
اورتعمیرکی جگہ منفی اورتخریب نے لے لی ہے۔ہمارے حضرت حسنین میاں علیہ
الرحمہ بھی اس کی زدمیں آگئے تھے ۔ گزشتہ چندسالوں سے ہمارے کچھ بھائیوں نے
ان کے خلاف جوطوفان کھڑاکیاتھا وہ اس کی گرفت سے بچ نہ سکے۔ موبائل پرحضرت
نظمی میاں اوران کے صاحب زادے حضرت مولاناسیدسبطین حیدرقادری برکاتی
کونازیباباتیں سنائی جاتیں ،نجی مجلسوں اور بعض جلسۂ عام میں بھی ان کی شان
کے خلاف نامناسب باتیں کہی جاتیں اسی وجہ سے اگرکبھی کبھاران حضرات کی زبان
سے تنگ آکرغصے میں کوئی بات نکل جاتی تو لوگ اسے سندبنالیتے اورجگہ جگہ اس
کی تشہیر کرنا دین کی سب سے بڑی خدمت تصورکرتے۔
خدارااہل سنت کے لیے عظیم ترین سرمائے کی حیثیت رکھنے والی ان جیسی عظیم
ترین شخصیات کے ساتھ اس طرح کابھونڈامذاق بند کیا جائے ۔ہمیں اپنامزاج اس
طرح تشکیل دیناچاہیے کہ ساری خانقاہوں کے سارے مشائخ عظام ہمارے سرکے تاج
ہیں اورہم اپنے بڑوں کی کسی بھی طرح کی مخالفت اور نازیبا گفتگو کرنا اور
سننابرداشت نہیں کرسکتے ۔ہمیں اپنے بچوں ، شاگردوں اورچھوٹوں کی تربیت بھی
اسی نہج پرکرنی چاہیے کہ ان کے دلوں میں بڑوں کی عظمت ورفعت کے نقوش قائم
ہوں اوروہ ان کے بنائے ہوئے خطوط پرہی اپناسفرحیات مکمل کریں۔
کیااس طوفان کی کسی کوخبرہے کہ اسکولوں ،کالجوں اورہمارے بعض مدارس ومکاتب
کے سطحی نظام ونصاب سے ہمارے بچے اپنی قدروں سے غافل ہوتے جارہے ہیں
اوراپنے ہی اسلاف کے کارناموں بلکہ ناموں تک سے ناآشنا؟آج کی ۹۰فی
صدجدیدنسل کومعلوم ہی نہیں کہ ہمارے اسلاف اورہمارے آباواجدادنے اپنے
مذہب،اپنی ملت اوراپنے ملک کے لیے کس قدرگراں مایہ کارنامے انجام دیے ہیں۔
جانتے ہواس کاسبب کیاہے ؟اس کی اہم ترین وجہ یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے
متحارب ہیں۔اگرہم کسی ایک شخصیت کی چوکھٹ پراپنی ساری عقیدتوں
اورنیازمندیوں کی زنبیل لاکررکھ دیتے ہیں تواسی کے ہم پلہ دوسری شخصیت کے
ساتھ ہمارامعاملہ اس سے یکسرمختلف ہوتا ہے۔ظاہرہے جب ہمارے دل میں
چورہوگاتوہم اپنے بچوں،شاگردوں اورچھوٹوں کے سامنے ان شخصیات کا فراخ دلی
اوراحترام و عقیدت کے ساتھ ذکرہی نہیں کریں گے ۔ایسی صورت میں نئی نسل
کوکیسے معلوم ہوگاکہ ہمارے بڑے کس قدراہمیت کے حامل ہیں۔ ہمیں اپنی نسلوں
کوبتاناچاہیے کہ مرتبۂ علمی اوررتبۂ شاعری میں حضرت نظمی میاں علیہ الرحمہ
کاعزووقارکس پائے کاہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے زمانے میں پیدا ہونے والی یہ نسل
اورٹی وی،وی ڈی اواورانٹرنیٹ کے رسیایہ بچے اپنے محسنوں کوبڑی تیزی سے
بھولتے جارہے ہیں۔ ان کواپنے بزرگوں اوراپنے ہیرؤں کے فن ،صلاحیت اوراہمیت
کاقدردان بناناہم سب کامشترکہ ملی فریضہ ہے۔اس ضمن میں ارباب مکاتب اورذمے
داران مدارس کی ذمے داری دوہری ہوجاتی ہے کہ اپنے اپنے اداروں کے نصاب میں
حضرت نظمی کی حمدیہ ،نعتیہ ،منقبتیہ اورنظمیہ شاعری کوقدرواقعی جگہ
دیں۔ہمارے حریف توہماری شخصیتوں کومتعارف کرانے سے رہے ہمیں ہی اس کے لیے
آگے بڑھنا ہوگا۔ صرف مضامین لکھنے اورتقریریں کرکے خراج عقیدت پیش کرنے سے
کام نہیں چلے گا۔بچوں کواگرحضرت نظمی سے متعارف کراناہے کہ نصاب میں شامل
کرنے کے سوااورکوئی بہترذریعہ ہوہی نہیں سکتا۔
اﷲ عزوجل ہمیں اپنے فن کاروں کاقدرداں بنائے ،ان کی حیثیتوں اورعظمتوں
کاعملی اعتراف کرناسکھائے،صاحب زادہ ٔ والاتبارحضرت مولاناسیدسبطین
حیدرقادری برکاتی مصباحی کوحضرت نظمی کاعکس جمیل اورنقش ثانی بنائے اور
حضرت سید ملت علیہ الرحمہ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس کی بہاریں نصیب فرمائے
۔آمین بجاہ النبی الکریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم |