جمعرات کے اخبارات نے نئے سپہ
سالار کی تقرری کی خبر شہ سرخیوں میں دی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے
خیرمقدمی بیانات جاری کیے ہیں۔ میڈیا پر تجزیوں اور تبصروں کی بھرمار ہے۔
ٹی وی چینلوں پر یہ معاملہ کئی ماہ سے گرم تھا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے،
پاکستان جیسے ملک میں فوجی کمانڈ کی تبدیلی ہمیشہ سے ہاٹ ایشو رہا ہے،
حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ زیادہ
دور جانے کی ضرورت نہیں، پڑوسی ملک بھارت کو دیکھ لیجیے، کیا آپ کو بھارتی
آرمی چیف کا نام معلوم ہے؟ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، مجھے بھی ان کا نام
نہیں معلوم ، اور مجھے ہی کیا خود بھارتیوں کی بڑی تعداد اپنے فوجی سربراہ
کے نام سے لاعلم ہے۔ وہاں ایک ریٹائرڈ ہوتا ہے تو دوسرا جنرل جگہ لے لیتا
ہے۔ اﷲ اﷲ خیرصلا!!دنیا کے دیگر ممالک جو کام عام بات سمجھ کر کرتے ہیں، وہ
پاکستان میں ہاٹ ایشو کیوں ہوتا ہے؟ دراصل اس کیوں کے پیچھے ہماری پوری
تاریخ کھڑی ہے۔ ملکی تاریخ میں سول حکومتوں کو باربار فوجی بغاوتوں کا
سامنا کرنا پڑا۔ اسکندرمرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف
کا مجموعی دورِ حکومت سول حکمرانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ درمیان میں جو دو،
چار حکومتیں آئیں، وہ بھی فوج کے اثر سے نہیں نکل سکیں۔یہاں تک کے بعض
ناقدین نے فوج کو طاقت کا مرکز اور سول حکمرانوں کو کٹھ پتلی قرار دیا ہے۔
ان ناقدین کے خیال میں صرف داخلہ ہی نہیں خارجہ پالیسیاں بھی ایوان صدر یا
ایوان وزیراعظم کی بجائے فوجی مراکز میں بنتی رہی ہیں۔ اس تاریخی منظرنامے
کی وجہ سے فوجی سربراہ کی تبدیلی کو محض کمانڈ کی تبدیلی نہیں بلکہ
پالیسیوں اور رجحانات کی تبدیلی سمجھا جاتا ہے۔
جنرل اشفاق پرویزکیانی کا دور فوج اور ملک کے لیے کیسا رہا؟ اس حوالے سے
بہت سی منفی اور مثبت باتیں کی جارہی ہیں، البتہ اس نکتے پر تمام لوگ متفق
ہیں کہ جنرل کیانی نے اپنے پیشرؤں کے برعکس فوج کو سیاست سے دور رکھا،
بلاشبہ سیاسی اور عسکری تاریخ میں ان کے اس کردار کو سنہری حروف سے لکھا
جائے گا۔ پی پی دور حکومت میں کئی ایسے مواقع آئے جب فوج ایک جیپ اور
دوٹرکوں کو اسٹارٹ کرسکتی تھی، عوام بھی ذہنی طور پر ٹیک اور کے لیے تیار
تھے، مگر جنرل کیانی نے ان ’’سنہری‘‘ موقعوں سے فائدہ نہ اٹھاکر یہ پیغام
دیا کہ فوج جمہوریت کا تسلسل چاہتی ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ فوجی مہم
جوئی نہ ہونے میں اصل رکاوٹ سپریم کورٹ تھی۔ فوج کو علم تھا کہ آج کی آزاد
عدلیہ ان کے کسی غیرآئینی اقدام کو سندجواز فراہم نہیں کرے گی۔ یہ دلیل بھی
خاصی مضبوط ہے، البتہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جنرل کیانی نے حکومت
کو اپنے پیچھے دوڑانے کی بجائے اسے اپنے فیصلے خود کرنے کے موقعے دیے۔ اب
اگر سول حکمران خود ہی اپنی نااہلی ثابت کردیں تو پھر کوئی تو ان کی جگہ لے
گا۔
نئے آرمی چیف کی نامزدگی نے قیاس آرائیوں کو ختم کردیا ہے۔ طرح طرح کی
افواہیں پھیلی ہوئی تھیں، یہ خیال بھی بڑی شدّومدّسے بیان کیا جارہا تھا کہ
وزیراعظم نوازشریف بھی یوسف رضاگیلانی کی طرح جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں
توسیع کرنے جارہے ہیں۔ یہ افواہ اتنی تیزی سے پھیلی کہ چند ہفتے قبل خود
جنرل کیانی نے ایک وضاحتی بیان جاری کرنا ضروری سمجھا، جس میں قوم کو بتایا
گیا کہ وہ مقررہ وقت پر ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ اس کے باوجود کاناپھوسیاں جاری
تھیں۔ ایک اور نئی افواہ مارکیٹ میں لائی گئی کہ جنرل کیانی کو تینوں مسلح
افواج کا سربراہ یعنی چیئرمین جوائنٹ آف اسٹاف کمیٹی بنایا جارہا ہے۔ اس
عہدے پر جنرل راشد محمود کی نامزدگی سے یہ افواہ بھی دم توڑ گئی۔
افواہوں کی جگہ اب ایک نئے سوال نے لے لی ہے۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ وزیراعظم
نے آخر راحیل شریف ہی کو کیوں آرمی چیف بنایا ہے؟ حالانکہ ان سے سینئر جنرل
موجود تھے۔ مختلف اندازے لگائے جارہے تھے، کوئی آنکھ دباکر ’’اندر‘‘ کی
کہانی جاننے کا دعوے دار ہے، کوئی اسے سیاسی، تو کوئی میرٹ پر فیصلہ قرار
دے رہا ہے، غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ انہوں نے
فائلوں، ٹریک ریکارڈ اور دیگر امور کا بغور جائزہ لینے کے بعد فوج کی کمان
جنرل راحیل کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں
دعویٰ کیا ہے کہ جنرل راحیل کے والد میجر شریف اور وزیراعظم کے والد میاں
شریف کے درمیان گہرے مراسم تھے۔ ن لیگ کے رہنما لیفٹیننٹ جنرل (ر)
عبدالقادر بلوچ نے بھی اس تقرری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بات خواہ کچھ
بھی ہو، مگر یہ حقیقت ہے کہ جنرل راحیل شریف کا فوجی کیرئیر انتہائی شاندار
ہے، وہ اچھی شہرت کے حامل سپاہی ہیں، کمانڈ، تربیت، مینجمنٹ سمیت تقریباً
تمام اہم شعبوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ بظاہر ان کے سیاسی رجحانات بھی رپورٹ
نہیں ہوئے ہیں۔ ملک سے وفاداری ان کا خاندانی ورثہ ہے۔ بعض حلقے نوازشریف
کے اس فیصلے کو پرویزمشرف کی نامزدگی کے فیصلے سے ملا رہے ہیں، اب معلوم
نہیں یہ ان کی خواہش ہے یا خدشات ہیں، جو بھی ہو، ہمیں اس نازک موقع پر
میٹھی میٹھی باتیں کرنی چاہییں، باقی وقت خود بتادے گا۔
جنرل راحیل شریف ایک ایسے موقع پر فوج کی کمانڈ سنبھال رہے ہیں، جب ملک
وقوم کی کشتی طوفان میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ ملک کو اپنی سلامتی کے حوالے سے
سنجیدہ نوعیت کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف بھارت ہے جو برسوں سے جاری
پراکسی وار اب بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ بلوچستان کو اکھاڑا بناچکا ہے اور
اب کراچی کے بعد اندرون سندھ بھی اس نے ’’باغیوں‘‘ پر دست شفقت رکھ دیا ہے۔
دوسری طرف امریکا ہے، جو پاکستان کو ایک ایسی دلدل میں دھکیلنا چاہتا ہے جس
سے یہ کبھی نہ نکل سکے۔ اس کے عزائم پہلے بھی کوئی خفیہ نہیں تھے ،مگر امن
مذاکرات پر ڈرون حملے کے بعد تو وہ بیچ چوراہے میں ننگا ہوگیا ہے۔ فوج ملکی
سلامتی کی ضامن ہے، اس لیے قوم ہمیشہ اسی ادارے کی طرف دیکھتی ہے۔ مگر
بدقسمتی سے قوم ان دنوں بہت مایوس ہے، شاید وہ اپنی فوج سے کسی اور قسم کا
کردار چاہتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ امریکا اور بھارت سے جنگ چھیڑدی
جائے، سارے تعلقات ختم کرلیے جائیں، پاکستان سب سے کٹ کر رہ جائے مگر جنگ
اور غلامی کے درمیان بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ بس سیاسی اور عسکری قیادت مل
کر ملک وقوم کو ’’یہ چیز‘‘ دلادیں تو ان کا احسان ہوگا۔ |