ایک طویل زمانے سے غلامی کے مہیب سائے انسان کے ساتھ ساتھ
چلے آرہے ہیں انسانی تہذیب عروج و زوال کی طرف گامزن ہے اور غلامی ہمیشہ اس
کے متوازی رہی ہے ۔ کیسی ہی تہذیب ہو اور کیسا ہی تمدن ، طوق انسانی گلے کا
زیور،ہتھکڑیاں انسانی کلائیوں کی تقدیر اور بیڑیاں ابن آدم کے قدموں کا
مقدر رہی ہیں یہ منظر آسمان ہمیشہ سے دیکھتا رہا ہے کہ انسان کے گلے میں
بندھی رسی کا دوسرا سرا کسی انسان کے ہاتھ ہی میں ہے اور اس کی بولی لگانے
والے بھی گوشت پوست کے انسان ہی ہیں اور انسانی آقاؤں کی نسلوں کے ساتھ ان
کے غلام بھی غلام ابن غلام رہے ہیں۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ رومی تہذیب
ننگ انسانیت ہے کہ جہاں غلاموں کو کئی کئی دنوں کے بھوکے بھیڑیوں کے سامنے
ڈال دیا جاتا تھا اور شراب و کباب کی محفل سجائی جاتی ۔ یاپھرغلاموں کے
دوگروہوں کوچھریاں بھالے خنجر اور تلوار دے کر آپس میں لڑایا جاتا
تھااوراس’’تفریح‘‘ سے آسودگی حاصل کیجاتی تھی۔غلام کی جان و مال عزت و آبرو
حتی کہ اس کا ایمان بھی آقا کی مرضی کے تحت و تابع ہوتا تھا جبکہ لونڈی کے
ساتھ تو انسانیت کو شرمادینے والے کھیل کھیلے جاتے تھے۔غلاموں کے حصول
کیلئے جنگیں کی جاتی تھیں کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ جتنے زیادہ غلام ہونگے
ان کی فصلیں اتنی ہی سرسبز و شاداب ہونگی۔صنعت کا میدان ہو کہ عمارات کا
ڈیزائن اس کا تعلق مشرق سے ہو کہ مغرب سے امریکہ سے ہو کہ افریقہ سے سب کی
سب غلاموں کے ہاتھوں سے تعمیر شدہ ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت کا منہ
بولتا ثبوت ہیں لیکن ان کی تذلیل میں کمی نہ آسکی۔
یہ اور اس سے ملتی جلتی صورت حال اپنی تب و تاب اور شدت سے جاری تھی کہ
رحمت خداوندی جوش میں آگئی اور رحمت العالمینؐ کی شکل میں اسلام کا سورج
طلوع ہوا توظلمت کے اندھیرے چھٹ گئے۔ غلاموں کو آزاد کرنے اور کروانے کی
قانون سازی کی گئی چنانچہ فرمایا کہ قسم توڑنے پر غلام آزاد کردو۔نتیجہ کہ
جب عثمان بن عفان ؓ محسن انسانیت کو اپنے گھر بلاتے تو آپ کے قدم گنتے تھے
اور ہر ہر قدم کے بدلے میں غلام آزاد کرتے تھے۔اسلامی تاریخ میں ایک طویل
فہرست ان غلاموں کی موجود ہے جنہوں نے علم و ادب اور سیاست میں نام پیدا
کیایہ اسلامی نظام کے انسانی اثرات تھے کہ ہندوستان میں غلاموں کے ایک
خاندان’’ خاندان غلاماں‘‘ او ر مصر میں ’’خاندان مملوک‘‘ حکومت کی۔اسلامی
تاریخ میں مشرق سے مغرب تک حکومت کی اور غلامی کی زنجیروں کو کاٹ ڈالا۔ آقا
اور غلام کے فرق کو مٹادیا۔آقا اور غلام ایک ہی صف میں شانہ بشانہ کھڑے
دکھائی دیئے۔انہی اقدار کو کہیں مسلمانوں نے رواج دیا تو کہیں غیرمسلم نے
بھی اسے اپنایا اور اپنی شناخت،پہچان اور آزادی کی خاطرکئی کئی عشرے قید
وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔گورے اور کالے کے فرق کو مٹانے کیلئے اپنی
جوانی اور زندگی کے قیمتی سال جیل میں گزارنے والا جری بے باک نڈر اور
انسانیت کو برابری پر تولنے والا نیلسن منڈیلا اس بے حس دنیا کو ہمیشہ
ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ گیا لیکن ایک ایسی شمع روشن کرگیا کہ آج وہ گورے جو
کبھی اس کو دہشت گرد، متعصب، غلام اور نجانے کیا کیا کہتے تھے انکی کوششوں
کو ان کے کارناموں کو ان کے کردار کو خراج عقیدت اور خراج تحسین پیش کررہے
ہیں۔ اس شخص کو 250 سے زائد مختلف پرائززسے نوازا گیا۔1993 میں دنیا کا سب
سے بڑا امن کا ایوارڈ ’’نوبل انعام‘‘ ان کے گلے کی زینت بنا۔27 سالہ جیل
میں گزارنے والا یہ آہنی اعصاب کا مالک جب رہا ہوکر اپنے ملک اور اپنی قوم
میں پہنچا تو اہل افریقہ نے اس کی راہ میں اپنی پلکیں بچھادیں اسے اپنے ملک
جنوبی افریقہ کا صدر منتخب کرلیا ۔
آج کی سپر پاور امریکہ جوکہ کبھی کالوں کو اقلیت تصور کرتی تھی آج اس ملک
کا صدر باراک اوبامہ بھی کالی نسل کا نمائندہ ہے۔اس کے مطابق دنیا نے سب سے
زیادہ متاثر کن ،باہمت اورانتہائی اچھا انسان کھودیا۔ نیلسن منڈیلا کا سفر
اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اور ممالک بہتری کیلئے تبدیل ہوسکتے ہیں میں
ذاتی طور پر نیلسن منڈیلا سے متاثر ہوں۔برطانیہ جو کبھی منڈیلا کو عصبیت کو
ہواد ینے والا گردانتا تھا آج اس کے وزیر اعظم نے اپنے ملک کا پرچم اس کی
خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سرنگوں کرنے کا حکم دیا اور ان کی موت
کو روشنی کے چلے جانے سے تشبیہ دی ۔ بان کی مون کے مطابق نیلسن نے انسانیت
کے وقار،برابری اور آزادی کیلئے اپنی جدوجہد سے دنیا بھر میں کئی لوگوں کو
متاپر کیا۔افریقن نیشنل کانگرس نے اپنے جذبات کی ترجمانی اس طرح کی کہ
جنوبی افریقہ اور دنیانے انسانیت ،مساوات ،انصاف اور امن کا پیکر کھودیا
ہے۔نائیجرین صدر جوناتھن کہتے ہیں کہہ ہمارے دور کی سب سے محترم شخصیت
تھے۔وہ بابائے قوم تھے، ایک دانا انسان اور آزادی کیلئے لڑنے والا انسان جس
نے تشدد کو مسترد کردیا۔کئی برس جیل میں گزار کر اپنے لوگوں کیلئے خود اپنی
مثال قائم کی۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہوکے تاثرات کچھ ایسے ہیں کہ
دنیا بھر میں پسے ہوئے لوگوں کیلئے ایک قابل تقلید شخصیت تھے۔ وہ ا یک
پرعزم انسان تھے جس کا اظہار انہوں نے تاحیات کیا اور وہ موجودہ اور آنے
والی نسلوں کو متاثر کرتے رہیں گے۔ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم جان کی کے مطابق
منڈیلا ایک متاثرکن رہنما اور غیر معمولی انسان تھے۔کئی برسوں تک وہ جنوبی
افریقہ میں نسلی امتیاز سے پاک مستقبل کی امید کا نشان بن کر رہے۔وہ نہ صرف
جنوبی افریقہ بلکہ تمام دنیا کیلئے تبدیلی کی قوت تھے۔سابق امریکی صدر بل
کلنٹن نے ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ نیلسن انسانی وقار،آزادی،
امن اورمفاہمت کے فاتح کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ ہم انہیں ایک غیر
معمولی وقار اور ہمدردی کے حامل انسان کے طور پر یاد رکھیں گے جس نے
بدسلوکی کو برداشت اور اپنے مخالفین کو تسلیم کیایہ صری ان کا سیاسی لائحہ
عمل نہیں بلکہ ان کا طرز زندگی تھا۔ انڈیا میں پانچ روزہ سوگ کا اعلان کیا
گیا۔ جبکہ پاکستان میں صرف ایک منٹ کی خاموشی سے ہی کام چلالیا گیا۔ کیونکہ
ہمیں ’’ماڈیبا‘‘ سے کوئی سروکار نہیں۔آزادی و غلامی کا فرق ہمارے لئے کوئی
معنویت نہیں رکھتا۔ ہم ذہنی غلام ہیں۔ہمیں نیلسن منڈیلا یا اس جیسے رہنما
کی موت سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمارے آقا کی خوشی میں ہماری خوشی ہے۔ |