مولانا قاضی نثاراحمد ایک
جید عالم دین ہیں۔ قاضی نثااحمد٢٧ جون ١٩٦٤ء میں گلگت کشروٹ کے ایک مذہبی
اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد ماجد قاضی عبدالرزاق نوراللہ
مرقدہ فاضل دارالعلوم دیوبند تھے۔اور آپ کے ناناجان بھی دارالعلوم دیوبندکے
فاضل تھے ۔ ان کا نام مولانا عبدالرحیم تھا۔اور آپ کے سسر مولانا
عزیزالرحمان صاحب بھی دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ ابتدائی پرائمری کی
تعلیم کشروٹ کے پرائمر ی سکول میں حاصل کی۔ اپنے والد ماجد حضرت مولانا
قاضی عبدالرزاق صاحب سے ناظرہ قرآن، ابتدائی فارسی ، صرف و نحو اور فقہ کی
کتابیں پڑھی۔ مولانا قاضی عبدالرزاق صاحب 1939 ء کو دارالعلوم دیوبند سے
فارغ ہوکر گلگت تشریف لائے تھے۔ قاضی عبدالرزاق صاحب نے ایک طویل عرصہ
دارالعلوم میں کبار علماء سے کسب فیض کیا۔شیخ العرب والعجم حضرت مولانا
حسین احمد مدنی سے دورہ حدیث پڑھا۔گلگت بلتستان میں قاضی عبدالرزاق اور ان
کے تلامذہ کی شاندار دینی خدمات ہیں۔تاحیات گلگت بلتستان کی مرکزی جامع
مسجد گلگت کے خطیب رہے۔ باطل قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار تھے۔اور قاضی
بھی رہے۔ قاضی عبدالرزاق صاحب نے گلگت بلتستان کی اولین دینی درسگاہ جامعہ
اسلامیہ نصرة الاسلام کی بنیاد ڈالی۔ جامعہ کے ساتھ ہی اہلسنت کے لیے مرکزی
عیدگاہ اور قبرستان کی جگہ بھی حاصل کی۔تبلیغی مرکز گلگت کو بھی ایک وسیع
اراضی قاضی مرحوم نے جامعہ کی وسیع اراضی سے ھدیةً دے دی جہاں آج جامعہ
نصرة الاسلام کے ساتھ تبلیغی مرکز موجود ہے۔
قاضی نثااحمد نے 1980ء میں گلگت ہائی سکول نمبر ایک سے سائنس میں میٹرک کا
امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔چونکہ اس وقت گلگت بلتستان کے تعلیمی ادارے
فیڈرل بورڈ کے ساتھ منسلک تھے۔تو آپ نے وفاقی بورڈ سے میٹرک امتیازی نمبروں
سے پاس کیا۔مزید تعلیم جاری رکھا۔1984ء کو پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن
کی۔آپ کے والد گرامی نے1985ء میں تحصیل علوم دینیہ کے لیے آپ کوجامعہ علوم
الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی بھیجا۔ وہاں سخت جائزے کے بعد درجہ ثانیہ
میں داخل ہوئے۔ درجہ رابعہ تک جامعہ میں ہی کبار استاتذہ کرام سے تعلیم
حاصل کی۔ درجہ خامسہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں پڑھا۔دارالعلوم
حقانیہ میںکبار علماء کرام سے فیض حاصل کیا۔درجہ سادسہ مدرسہ انوارلعلوم
گوجرانوالہ میں قاضی حمیداللہ جان رحمہ اللہ کے پاس پڑھا۔قاضی حمیداللہ
صاحب سے درجہ سادسہ کے علاوہ منطق و فلسفہ میں اقلیدس، مطول،صدرا،قاضی،
حمداللہ خلاصہ شرح خیالی اور توضیح تلویح وغیرہ دیگر کتابیں بھی
پڑھیں۔مولانا زاہدالرشدی صاحب سے کتاب الاثار اور حماسہ پڑھی۔ امام اہلسنت
مولانا سرفراز خان صفدر صاحب سے دورہ تفسیر پڑھا۔بقول قاضی صاحب کے'' اُس
سال چھ سو طلبہ دورہ تفسیر میں شریک تھے۔دورہ کے بعد امتحان لیا جاتا تھا،
مولانا عیسیٰ صاحب نے مجھ سے تفصیلی امتحان لیا اور چھ سو میں مجھے شرف اول
سے نوازا، الحمدللہ ،میرے پاس ان کی دی ہوئی پوزیشن کی سند ابھی تک موجود
ہے''
قاضی نثاراحمد نے موقوف علیہ (درجہ سابعہ) جامعہ امدادیہ فیصل آباد میں
پڑھا۔1991ء میں دورہ حدیث شریف جامع علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے
کیا۔بخاری اول مولانا مصباح اللہ شاہ صاحب، بخاری ثانی مولانا ڈاکٹر حبیب
اللہ مختار صاحب،مسلم اول مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب، مسلم دوم
مولانا عبدالسلام چاٹگامی صاحب، ابوداؤ حضرت مولانا یوسف لدھیانوی صاحب،
ترمذی اول و ثانی شہید اسلام مولانا ڈاکٹر نظام الدین شامزئی صاحب سے پڑھی
، موطائین بھی ان سے پڑھی۔قاضی نثاراحمدکی پانچ بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔
حضرت مولانا یوسف لدھیانوی صاحب سے اکثر ملاقاتیں رہتی۔ میرے استفسار پر
بتایا کہ'' جنگ دفتر میں حضرت اکثر تشریف فرما ہوتے تھے، میںوہاں جاکر
ملاقات کیا کرتا تھا''۔جنگ دفتر سے مراد یہ ہے کہ '' جب روزنامہ جنگ نے
''اقراء ''کا اسلامی کالم شروع کیا تو اس کی ابتدا ء علامہ لدھیانوی سے
ہوئی۔ حضرت جنگ میں اسلامی طرز کے کالم لکھا کرتے تھے۔حضرت جس دفتر میں
بیٹھ کر دوسرے امور کے ساتھ روزنامہ جنگ کے امور بھی نمٹاتے تھے اس لیے وہ
جنگ دفتر سے معروف تھا۔حضرت مولانا نذیراللہ خان صاحب نے بھی کئی دفعہ قاضی
نثارا حمد کی ملاقات حضرت لدھیانوی صاحب سے کرائی تھی۔ مولانا نذیراللہ خان
صاحب چونکہ حضرت بنوری کے اولین دس تلامذہ میں سے تھے اس لیے علامہ بنوری
ٹاؤن میں ان کی بڑی عزت کی جاتی تھی۔
بیعت کے حوالے سے قاضی نثاراحمد صاحب نے بتایا کہ''میں سال بھر حضرت کی عصر
کے بعد کی مجلسیں سنتارہا، کلاس میں بھی حضرت کادرس اور وعظ نصیحت غور سے
سنتا، حضرت سے انس اور محبت پیداہوگیا تھا ، تاہم بیعت کے حوالے سے میں حسا
س تھا، اس لیے سال بھر حضرت کے معمولات وغیر ہ کو غور سے دیکھتارہا کہ کوئی
کام شریعت کے مخالف تو نہیں ہورہا، تاہم اختتام سال میں مجھے شرح صدر ہوا۔
اور حضرت سے ہر طرح مطمئن ہوا۔فراغت کے فوراً بعد رمضان المبارک کے اخیرتک
حضرت کی مسجد الفلاح میں معتکف ہوا۔ اس تمام عرصہ حضرت سے خوب استفادہ کیا
اور خوب خدمت بھی کی۔ حضرت سے رمضان المبارک میں ہی بیعت کی، ساتھ ہی حضرت
نے خلافت سے بھی نوازا۔الحمدللہ میں اس حوالے سے بڑا خوش قسمت واقعہ ہوا
ہوں،حضرت مجھ ناچیز پر شروع ہی سے بے حد اعتماد کرتے تھے''۔
قاضی نثاراحمد نے تخصص نہیں کیا اس کی وجہ بھی حضرت لدھیانوی او رمولانا
عبدالسمیع صاحب رحمہمااللہ بنے۔جب انہوں نے حضرت لدھیانوی کے سامنے اپنے
تمام حالات بالخصوص گلگت بلتستان کے حالات سامنے رکھے تو حضرت نے فیصلہ
صادر فرمایا کہ فوراً گلگت جاکر دینی خدمت شروع کرو، آپ کو تخصص کی ضرورت
نہیں۔اپنے استادمولانا عبدالسمیع صاحب سے مشورہ لینا چاہا تو انہوں فرمایا
کہ مولانا آپ کی استعداد بہتر ہے لہذا تخصص کے بجائے تدریس کا مشغلہ
اپناؤ،زیادہ مفیدرہے گا۔بقول قاضی نثاراحمد کے'' حضر ت شامزئی صاحب نے تو
بالکل منع فرمایا اور کہا کہ کتب کا مطالعہ جاری رکھوبالخصو ص بدائع
الصنائع کا۔ تخصص کی تمہیںکوئی ضرورت نہیں''۔
جامع مسجد گلگت میں حضرت لدھیانوی سے بیعت:...حضرت لدھیانوی شہیدرحمہ اللہ
1999ء کو اپنے رفقاء سمیت گلگت تشریف لائے تھے۔یہاں حضرت لدھیانوی نے اقراء
روضة الاطفال کے چند اسلامی اسکولوں کا افتتاح کرنا تھا۔ قاضی نثاراحمد اس
تمام سفر میں حضرت لدھیانوی اور دیگر اکابرین کے ساتھ ساتھ رہے۔ ان کی خدمت
کی۔ گلگت شہر اور اس کے مضافات میں حضرت نے کئی اداروں کا بنیاد رکھا۔ کئی
مساجد میں بیانات کیے۔ بروز جمعہ مرکزی جامع مسجد گلگت میں نماز جمع ادا
کی۔نماز کے بعد حضرت نے مجمع عام میں لوگوںسے فرمایا کہ'' آپ کے گلگت میں
قاضی نثار احمد میرا نمائندہ ہے۔میں نے انہیں بہت پہلے خلافت سے سرفراز
کیاہے، مجھے ان پر اعتماد ہے لہذا آپ بھی اعتماد کرو اور ان سے بھرپور
اصلاحی فائدہ اٹھاؤ۔ آج ایک بار پھر میں انہیں آپ سب کے سامنے خلافت و
نیابت سے نواز رہا ہوں''۔اس مجمع میں ہزاروں لوگ تھے۔مسجد کے دروازے تک
چادروں کے ذریعے ایک لائن لگائی گئی اور یوں لوگوں نے ان چادروں کے سروں کو
پکڑا اور ہزاروں لوگوں نے حضرت لدھیانوی سے بیعت کی۔الحمدللہ اکابرین
دیوبند کا فیض پوری دنیا کی طرح گلگت میں بھی پہنچا اور خوب پہنچا۔
قاضی نثار احمد نے یہ واقعہ مجھے کئی بار سنایا کہ'' ایک دفعہ میں نے حضرت
لدھیانوی رحمہ اللہ سے عرض کی کہ '' گلگت اور ہمارے حالات تو آپ کے سامنے
ہیں لہذا آپ ہمیں خصوصی دعاء کریں، تو حضرت نے فرمایا ''بھائی تمہیں تو
تھوک کے حساب سے دعائیں کرتا ہوں''۔ یہ اعتماد کا مظہر تھا۔بقول قاضی
نثاراحمد کے کہ'' گلگت میں مرزائیوںکا جو معبد خانہ ہے اس کو 1974ء میں
اباجان(حضرت قاضی عبدالرزاق فاضل دارالعلوم دیوبند ) نے توڑا تھا، تاہم
بھٹو صاحب کی حکومت تھی اس پر قبضہ نہ ہوسکا۔ حکومت نے ان کی طرف داری کی
اور انہیں تحفظ دیا۔ جب میں نے اس پرقبضہ کے حوالے سے حضرت لدھیانوی سے
بذریعہ خط مشاورت اور اجازت چاہی تو حضرت نے مشروط اجازت دی تھی کہ اگر
فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو ضرور قبضہ کیجئے گا۔ شاید حضرت کے خطوط سنسر ہوتے
تھے۔حضرت نے مجھے جو خط لکھا تو وہ وزارت داخلہ میں پہنچ گیا۔ وزیر داخلہ
نے وہ خط وزیرامور کشمیر کوبھیجا، اس نے آئی جی گلگت کو، آئی جی نے ایس پی
اور ایس پی نے ڈی ایس پی کو بھیجا۔ڈی ایس پی رجی رحمت اور ایس ایچ او
امتیاز وہ خط لے کرمیرے پاس آئے۔ اب وہ صرف خط نہیں رہا تھا بلکہ ایک ضخیم
سی فائل بن گئی تھی۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ قبضہ ضرور کریں مگر ابھی
نہیں۔ آج بھی پولیس ریکارڈ میں یہ فائل موجود ہے''۔جب بات وظائف و اذکار کی
چلی تو قاضی نثاراحمد نے بتایا کہ حضرت نے مجھے جو وظائف و اذکار دیے تھے
وہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیے تھے ،وہ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہیں''۔ حضرت
لدھیانوی نے قاضی نثاراحمد کو تصدیق نامہ بھی مرحمت فرمایا تھا،حضرت سے
رابطے کا سلسلہ بذریعہ خطوط ہوا کرتا اور مفتی سیف الدین استوری کے ذریعے
بھی رابطہ جاری رہتا۔مفتی سیف الدین اس وقت کراچی میں طالب علم تھے ۔ وہ
حضرت لدھیانوی اور قاضی نثاراحمد کے درمیان رابطے کے فرائض انجام دیتے۔
شہید اسلام حضرت لدھیانوی کی وفات کے بعد قاضی نثاراحمد نے اور دو بزرگوں
سے اصلاحی رشتہ قائم کیا۔جن دو حضرات سے اصلاحی رشتہ قائم ہوا ، وہ علمائے
دیوبند کے چمکتے ہوئے تارے اور سرخیل تھے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں علم و عمل
سے خوب نوازا تھا۔ چہار دانگ عالم ان کی شہرت پھیلی ہوئی تھی۔ان میں پہلے
بزرگ وکیل صحابہ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب چکوال والے تھے جبکہ
دوسرے بزرگ اور ولی اللہ، ختم نبوت کے امیرحضرت پیران پیر خواجہ خان محمد
صاحب نوراللہ مرقدہ تھے۔قاضی نثاراحمد نے ان دونوں بزرگوں سے بھی خوب
استفادہ کیا۔ان کی خدمت میں حاضری دی۔ان کے بتائے ہوئے وظائف واعمال پابندی
سے کیے۔میرے استفسار پر بتایا کہ''حضرت شہید اسلام علامہ لدھیانوی کی وفات
حسرت آیات کے کافی عرصہ بعد میں نے محسوس کیا کہ کسی بزرگ سے رشتہ قائم کیا
جائے۔اگرچہ حضرت کے بتائے ہوئے معمولات پر پابندی کے ساتھ کاربند تھا تاہم
پھربھی ضرورت محسوس ہوئی تو نظریں جا کر حضرت قاضی مظہر حسین صاحب پر
ٹکی۔حضرت قاضی صاحب نوراللہ مرقدہ سے تعلق تو والد گرامی (قاضی عبدالرزاق)
کے دور سے تھا، تاہم اب باقاعدہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت کی اور
اصلاحی تعلق قائم ہوا۔حضرت قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ کی وفات کے چار سال
بعد پھر دوبارہ ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی بزرگ سے اصلاحی تعلق قائم ہو، اب
کی بار دل و دماغ نے فیصلہ دیا کہ امیر ختم نبوت حضرت مولانا خواجہ خان
محمد نوراللہ مرقدہ سے تعلق قائم کیا جائے۔پھر حضرت سے بھی باقاعدہ اصلاحی
تعلق قائم ہوا۔ حضرت کی محفلوں میں شرکت کرتا رہا، اب حضرت کی وفات کے بعد
فی الحال کسی سے اصلاحی تعلق قائم نہیں کیا۔حضرت لدھیانوی کے بتائے ہوئے
وظائف و اذکار اور معمولات کا خوب پابند ہوں۔حضرت کا جو دوازدہ وظیفہ ہے
جسے حضرت سہ ازدہ کہتے تھے کا معمول باقاعدہ ہے۔ باقی میں نے نفس کشی اور
باطنی طاقت حضرت لدھیانوی سے زیادہ حاصل کی۔ حضرت کی طرف سے مجھے باقاعدہ
خلافت بہت پہلے ملی ہے ۔ الحمدللہ علی ذالک''۔
قاضی نثاراحمد نے اپنے پیر و مرشد حضرت لدھیانوی شہید کے حوالے سے کئی
تفصیلی واقعات مختلف اوقات میں مجھے سنائے، حضرت لدھیانوی کے لکھے ہوئے کئی
خطوط، تحریریں اور تصدیق نامہ قاضی نثاراحمد کے پاس محفوظ ہیں ، عجلت میں
میسر نہ آسکے۔ انہوں نے اپنے پیر و مرشد اور مربی و استاداور محسن اعظم پر
ان کی وفات کے بعد ایک طویل مضمون لکھا ہے۔ جو بینات شہید اسلام خصوصی نمبر
میں شائع ہوا ہے۔ ان کی زبانی ان کے مرشد کی کہانی سنتے ہیں۔
''گمراہوں،فتنہ پروروںاورمنکروں کو ''بینات'' کے ذریعہ للکارنے والے،شرعی
سوالات اور دینی اشکالات کا مختصر ترین جملوں میں جامع و مانع اور مسکت
جواب دینے والے،چارسلسلوں میں کمال رکھنے والے،سلف کے مسلک و مشرب، فکر و
نظرکے عملی نمونہ،ہرمسئلہ و ہر معاملے میں نہایت اعتدال و توازن رکھنے
والے، ''انزلوا الناس علی منازلہم'' اور '' کلمو االناس علی قدر عقولہم''
کے ایسے عامل و ماہر کہ ہر ملنے والے، ہردیکھنے والے، ہرسننے والے آپ
کافریفتہ و گرویدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ ہرگونہ زخمی اور ہر گونہ
بیمار کو مرہم شفاء رکھنے اور مجرب نسخہ دینے والا، ہردُکھے دل کا ملجا و
ماویٰ، رخسار پر ہاتھ پھیر کریا پیار کی چپت لگا کر داڑھیاں بڑھانے کی
کرامت رکھنے والا، حکیم العصر، فہیم الدہر، دین حق پھیلانے ، رضا الہی کی
طلب میں دشوار گزار، طویل ترین اور دوردراز اسفار کرنے والا، بطل حریت،سلوک
و احسان کے میدان میں اعتماد وہمت کے مالک، افراط وتفریط سے دور، نہایت
محتاط ، متواضع،متوازن اور معتدل، فیض و توجہ اور دعاؤں میں ایسے فیاض،
خصوصاً رمضان المبارک میں ''کالریح المرسلہ'' کے مصداق، مردم شناس،
معبر،قیافہ دان،جلال و جمال کے حسین امتزاج،سفرمیں خدام اور عزیزوں کے ساتھ
نہایت ہنس مکھ رہنے والے، الہامی، شگفتہ اور دل ربا انشاپرداز، دشمن کے
مقابلے میں تیغ براں، کسی کو دیکھاکہ یہ شہباز ہیں تو قابو میں رکھنے کا
وظیفہ دیا، کسی کو دیکھا کہ جوان تیزاُڑان کا مالک ہے تو پر کاٹ کر قابو
میں رکھا، کسی کو دیکھا کہ نالائق و ناکارہ ہے ہے اور ضرورت ہے کہ کچھ کام
کا بنے، دونوں کان پکڑ کر سید ھا کیا،کچھ کو بچا ہوا کھانا، پانی اور آئس
کریم دے کر اپنا گرویدہ بنا کرسلیقہ اور ادب سے نوازا۔غرض چن چن کر ، دیکھ
دیکھ کر، پرکھ پرکھ کر نہایت جود و فراخدلی سے افرادسازی او راصلاح فرماتے،
اسلاف کے قافلے کے ساتھ جوڑتے،اپنا اعتماد عنایت فرما کر حوصلہ و ہمت سے
نوازتے،دعاؤں کی درخواست کی جاتی تو فرماتے تھوک سے دعائیں دوں گا۔واہ کیا
عجیب دعا گو اپنے متعلقین کے لیے خصوصا جملہ مسلمانوں کے لیے دعا کے
مرکزتھے۔نرم مزاجی کے سمندر،خلاف شرع وسنت کوئی عمل دیکھتے، ناموس رسالت و
ناموس صحابہ پر کسی کو حملہ آور دیکھتے توفوراً جلال کے پہاڑ بن کر مدافعت
و تعاقب کرکے ٹھکانے لگاتے:
مشفق لکھوں شفیق لکھوں یا لکھوں صنم
جناب کے القاب میں حیراں ہے قلم
اِن اَن گنت و بے شمار صفات وکمالات کا حامل یہ بطل حریت،صاحب صفا بھی اپنی
تمنا و دعا مستجاب سے اس سعادت عظمیٰ سے ہمکنار ہوکر اپنے خالق حقیقی سے
جاملا اور ہمیں داغ مفارقت دے گیا:
موت صاحب دل جہاں رادلیل کلفت است
شمع چوں خاموش گردد داغ محفل میشود''۔ (ماخوز از بینات شہید اسلام
نمبر،ص١٤٢)
قاضی نثاراحمد صاحب کے دینی خدمات کا سلسلہ کافی وسیع ہے۔تنظیم اہل سنت
والجماعت گلگت بلتستان و کوہستان کے مسلمانوں کی نمائندہ مذہبی جماعت ہے۔اس
کی بنیاد فاضلین دارالعلوم دیوبند نے رکھی ہے ۔ اس کے بانی و امیر اول قاضی
نثاراحمد کے والد ماجد حضرت قاضی عبدالرزاق صاحب ہیں۔1994ء سے لے کر تاحال
تنظیم کی امارت قاضی نثاراحمد کے پاس ہے۔گلگت بلتستان کے 313جید اور
نامورعلماء کرام نے طویل غور و خوض اور مشاورت کے بعد متفقہ طور پر تنظیم
اہل سنت کی امارت اومرکزی جامع مسجد کی خطابت کی ذمہ داریاں قاضی
نثاراحمدکے سپرد کی۔سقوط طالبان کے دوران پاکستان بھر میں امریکہ کے خلاف
احتجاج ہورہا تھا۔ گلگت بلتستان اور کوہستان کے علماء و عوام نے بھی طالبان
افغانستان کے ساتھ یکجہتی کے طور پر شاہراہ قراقرام بلاک کیا۔دیامر میں
گلگت بلتستان کے تمام علماء جمع ہوئے۔ ایک اتحاد قائم ہوا۔اور ایک تنظیم کی
شکل دی گئی،جس میں کوہستان کے مولانا عبدالحلیم امیرا ور قاضی نثاراحمد
نائب امیر مقررہوئے۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس شوریٰ و مجلس
عاملہ کے لیے گلگت بلتستان سے ایک رکن منتخب کیا گیا۔وہ سعادت بھی قاضی
نثاراحمد کے ہاتھ آئی۔پورے گلگت بلتستان کی نمائندگی کررہے ہیں۔مولانا
نذیراللہ خان رحمہ اللہ کی وفات کے بعد جامعہ نصرة الاسلام کاانصرام
وانتظام اور اہتمام قاضی نثاراحمد کے پاس ہے۔2008ء میں گلگت شہر میں جامعہ
عائشہ صدیقہ کے نام سے بنات کا ایک مدرسہ قائم کیا جہاں درجہ حفظ سے لے کر
دورہ حدیث اور ابتدائی سکول کی تعلیم وسیع پیمانے پر دی جاتی ہے۔اب یہ
ادارہ گلگت بلتستان میںبنات کا سب سے بڑا مدرسہ بن چکا ہے۔2011ء کوگلگت
بلتستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی بھی دینی مدرسے سے باقاعدہ دینی،
اخلاقی، اصلاحی، ادبی اور صحافتی مجلے کا اجراء کیا اور یوںقاضی نثار احمد
'' سہ ماہی نصرة الاسلام '' کا دمدیراعلیٰ اور ئیس التحریرٹھہرے۔اور راقم
الحروف کو مدیری کی ذمہ داریاں ملی۔
1992ء سے 2005ء تک جامعہ نصرة الاسلام میںمسلسل تدریس کی۔درجہ اولی سے لے
کر دورہ حدیث تک کتب پڑھائی۔ کئی سال جامعہ نصرة الاسلام میں دورہ تفسیر
کرایا۔2005ء کے بعد جزوقتی تدریس کرتے ہیں۔قاضی نثاراحمد نے بتایا کہ''
میرے تمام اساتذہ بہت محنتی اور مشفق تھے مگر میں سب سے زیادہ اپنے استاد
محترم قاضی حمیداللہ جان سے سے متاثر ہوں۔اللہ تعالی نے انہیں بے شمار صفات
کے ساتھ فنِ تدریس سے خوب نوازا تھا۔بڑے بڑے علمی مسائل چٹکیوں میں سمجھا
دیتے تھے۔ان کا انداز تدریس مجھے بے حد پسندتھا''
قاضی نثاراحمد تین دفعہ گرفتارا ور ایک دفعہ ہوم اریسٹ ہوا۔1993کو ابھی
انہیں کوئی بڑی ذمہ داری نہیں ملی تھی مگر اس کے باوجود انہیں گرفتار کیا
گیا۔اس وقت قاضی نثارکے ساتھ مولانا لقمان حکیم، مولانا نذیراللہ
خان،مولانا عنایت اللہ،رسول میر، اورراجہ نثار ولی بھی گرفتار ہوئے۔ 2005ء
کے فسادات کے بعد انہیں گرفتار کرکے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا،جہاں 6ماہ قید
رہے۔2012ء میں تین ماہ گھر میں مقید رہے،حکومت کی طرف سے ناکہ بندی کرکے
گھر سے باہرجانے پر پابندی لگادی گئی اور ان کے تمام رفقاء اور احباب کو 16
MPOکے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیے گئے تھے جو تین ماہ بعد رہا ہوئے۔ قاضی
نثاراحمد نے باتوں باتوں میں ایک تلخ واقعہ سنایاکہ''2007میں ، میں سخت
بیمار تھا، بسترعلالت پر تھا، میرا سخت مطالبہ تھا حکومت سے کہ امن معاہدے
پر عمل درآمد کروایا جائے۔میں نے بیماری کے باوجود گرفتاری دی۔پھربھی میرے
گھر پر گولیاں چلائی گئی،میرے محافظ کو شدید زخمی کیا۔پورا محلے کو خوف زدہ
کیا گیا۔میں حیران تھا کہ انتظامیہ سے مکمل تعاون کے باوجود ہمارے ساتھ
ناروا سلوک کیاجارہاتھا''۔اپنی زندگی کا سب سے خوشگوار واقعہ یوں سنایا ۔''
گلگت میں ایک فتنہ اٹھایا گیا کہ نصاب تعلیم سے صحابہ کرام کے نام نکالے
جائے۔چونکہ اہل سنت کو یہ مطالبہ کسی بھی قیمت پر منظور نہیں تھا،ہم نے ہر
سطح پر محنت شروع کی، ہم نے ڈائیلاگ کے ذریعے سمجھایا کہ یہ ناممکن ہے مگر
ایک فریق نہ صرف مصر تھا بلکہ قومی سلیبس سے حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت
عمرفاروق رضی اللہ عنہمااوردیگراصحاب رسول ۖ کے ناموں کو خارج کرنے کے لیے
عملی اقدامات کرنے لگا۔چونکہ مشرف کا دور تھا،مشکلات کے باوجود ہم نے سخت
مخالفت کی ، جس کی وجہ سے مجھے23جون 2001ء کوگرفتار کیا،فوجیوں نے اپنے پاس
رکھا، میرے آنکھوں میں پٹیاں باندھی گئی تھی، اور طرح طرح کی سزائیں دی
گئی، ایک ایسے دُرے سے پٹائی کی گئی جس کے مارنے سے جسم کا گوشت اُدھڑ جاتا
تھا، میرے جسم کے مختلف حصوں سے گوشت اُدھڑگیا تھا۔یہ سب کچھ میں نے ججوں
اور پولیس والوں کو بھی دکھایا تھا جب وہ میرے پاس جیل میں آئے تھے تفتیش
اور جسمانی معائنہ کرنے کے لیے۔ایک دن میری آنکھوں میں کالی پٹیاں باندھی
گئی، چھ فوجی کمانڈو میرے کمرے میں آئے اور انہوں نے لاتوں ، مکوں اور
ڈنڈوں سے مارنا شروع کیا۔بہت زیادہ مارا۔میں نڈھال ہوکر لیٹ گیا۔ آنکھوں سے
پٹی سرک گئی تھی۔جب وہ جانے لگے تو کمرے سے باہر ایک دوسروں کو دھکے دیتے
ہوئے پہلے نکلنے کی کوشش کررہے تھی کہ کہیں میں انہیں دیکھ کر پہچان نہ
جاؤں۔مجھے ان کی بزدلی اور خوف پر بے حد مزہ آیااور میں خوب محظوظ ہوا۔ اس
دن میں ظہر کی نماز بھی نہ پڑھ سکا۔کیونکہ اُٹھ نہیں سکتا تھا۔ یہ میری
زندگی کا سب سے خوشگوار واقع ہے، اب تک و ہ منظر دیکھتا ہوں تو دل مسرور
ہوتا ہے۔قرآن کریم میں ہے نا کہ ''وجعلنا فی قلوبہم الرعب''۔اللہ نے بھی ان
فوجی بھائیوں کے دلوں میں میرا رعب ڈالا ہوا تھا تو اس لیے وہ اتنے ڈر کر
بھاگ رہے تھے، ورنہ میں تو باندھا ہوا ان کی قید میں تھا۔میری گرفتاری پر
عوام نے حکومت کاجیناحرام کردیا اور پورے گلگت کو جام کرلیا تھا۔27جون کو
عوام کے شدید دباؤ پر مجھے غیر مشرو ط طور پر رہا کیا''۔
قاضی نثاراحمد نے اپنے مطالعے کے اوقات بتاتے ہوئے کہا کہ'' میں اکثرمطالعہ
نمازِ فجر سے پہلے اور رات کے آخری پہر میں کرتاہوں''وہ اب تک کئی ممالک
اسلامیہ بالخصوص افغانستان، عرب امارات، ترکی اورسعودی عرب کا سفر کرچکے
ہیں۔ کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں علمی تقاریر کی ہیں۔چار دفع حج کی
سعادت میں حاصل ہوئی ہے۔مولانایوسف لدھیانوی کے دیے ہوئے وظائف ابھی بھی
پابندی سے کرتے ہیں۔قارئین! مجھے یہ بتانے میں کوئی باک نہیں کہ قاضی نثار
احمد کے دیگر دینی سلسلے توباقاعدگی کے ساتھ چل رہے ہیں مگر اتنی مضبوط
نسبت ہونے کے باوجود بھی ابھی تک انہوں نے باقاعدہ تصوف وطریقت یعنی پیر
مریدی کا سلسلہ شروع نہیں کیا ہے۔اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر میرے ذہن
میں جو آرہا ہے وہ ہے کہ اس حوالے سے گلگت بلتستان کی زمین بانجھ ہے۔گلگت
کے مسلمان قاضی نثاراحمد سے بڑے پیمانے پرکوئی روحانی (تصوف و طریقت)
استفادہ نہیں کرپارہے ہیں، شاید خود قاضی صاحب بھی نہیں چاہ رہے ہیں کہ
بڑھاپے سے پہلے خانقاہی سلسلہ جاری کیا جائے۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔تاہم
تزکیہ نفس اور سلوک و طریقت کے حوالے سے گلگت بلتستان کی زمین بانجھ
ہے۔قاضی نثاراحمد کو اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے۔
سفر اور حضرمیں مجھے قاضی نثاراحمد کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔وہ
ایک انسان ہیں وہ بھی اکیسویںصدی کے۔خداکے حبیب ۖ نے ارشاد کیا کہ انسان
خطاء کاپتلا ہے۔اگر انسان سے خطا نہ ہوتی تو پھر وہ کوئی خلائی مخلوق
ہوسکتی ہے مگر انسان نہیں۔قاضی نثاراحمد کے اندر مجھے جو نظرآیا وہ یہ ہے
کہ''سفر وحضرمیںوہ تہجد کی نماز قضاء نہیں کرتے۔دوران سفر اپنے وظائف کا
خوب پابند ہیں۔ ڈر اورخوف نام کی کوئی چیز اللہ نے ان کے دل میں رکھاہی
نہیں ہے۔جس کے دل میں اللہ کا ڈراور خوف ہو تو باقی سارے خوف اور ڈر نکل
جاتے ہیں۔لالچ نام کی کوئی چیز نہیں،بے حد مہمان نواز ہیں، بارہابڑے بڑے
حکومتی عہدوں کی پیش کش ہوئی مگر قریب سے بھی نہیں گزرے۔گلگت بلتستان کی
پوری اہل سنت عوام ان پر جان نچھاور کرتی ہے۔علماء کرام ان کی آواز پر
کوہستان سے یاسین تک لبیک کہہ کرباہر نکلتے ہیں۔مجاہدین انہیں اپنا رہنما
سمجھتے ہیںاورتبلیغی اپنا سرمایہ۔مساجد و مدارس والے اپنے اداروں کی افتتاح
کے لیے ان کے علاوہ کسی کو دعوت دیناپسند نہیںکرتے۔سرکاری ملازمین بھی مشکل
کی گھڑی میں آپ کے در پر آدھمکتے ہیں۔کالج یونیورسٹی کے طلبا ء کا تانتا
باندھتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی آمد تو روزانہ کا معمول ہے۔یقین
جانیں! ان کا گھر ودفترمرجع خلائق ہے وہ گلگت بلتستان کے بے تاج بادشاہ
ہیں۔
قاضی نثاراحمد کئی امتیازی خصوصیات کے مالک ہیں۔جذبہ خدمت خلق، دین متین کی
خدمت کا نیک جذبہ اور بالخصوص اہلسنت عوام کے حقوق ،ان کی محرومیوں اور ان
کے ساتھ ہونی والی سماجی ناانصافیوں کے حوالے سے ان کا دل کڑھتا رہتا ہے
اور ان کے لیے نیک جذبات سے مملوء ہے۔وہ اہل سنت کے لئے کسی بھی حد تک جانے
کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔میں نے خود کئی غریب اہل سنت کے لیے وزیروں،
مشیروں اور بیورو کریسی کے ساتھ لڑتے جھگڑتے اور تلخ کلامی کرتے دیکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قاضی نثاراحمد بے پناہ جرأت،عزم،حوصلہ اور جذبہ کے ساتھ
نہایت تندہی اور جفاکشی کے ساتھ اہل سنت عوام کے لیے اہم کارنامے انجام
دیتے آرہے ہیںجو عموما دوسروںکے لیے محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس جہد خیر
میں اس کے معاصرین میں کوئی اس کا ہم پلہ نہیں ہے۔''من تواضع للہ رفع
اللہ'' یعنی جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے
سربلند ی اور عظمت سے بہرور کرتا ہے۔
قاضی نثارا حمد کی ایک اچھی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر کس و ناکس سے انتہائی خندہ
پیشانی اور خوش دلی سے ملتے ہیں۔دوران کھانے وہ خود ہر ایک کی پلیٹ میں
بوٹیاں اُٹھا اُٹھا کر ڈالتے ہیں،خوب کھلاتے پلاتے ہیں۔ اپنے رفقاء اور
ساتھیوں کی تلخ باتوں کو خوش دلی سے سنتے ہیں۔برداشت کرجاتے ہیں۔ہنس کر بڑے
بڑے کام کرواتے ہیں۔فون سنتے ہیں اور وقت بے وقت اپنے ساتھیوں کو فون بھی
کرتے ہیں۔مدرسے کے طلبہ کے بھی فون سنتے ہیں اور فوراً ان کی شکایات کا
نوٹس لیتے ہیں۔ مجھے چونکہ ان کے ساتھ تعلیمی اور تحریری کام زیادہ کرنے
پڑتے ہیں تاہم ان کے تحریکی کاموں سے میں نے اپنے آپ کو بالکل الگ رکھا ہوا
ہے، بعض دفعہ میں انہیں سخت سناتا ہوں، تلخی اور ترشی کے ساتھ مختلف امور
میں اپنی بساط کے مطابق مشورے دیتا ہوں،تو وہ ہنستے ہیں،قہقہ سے بات کہی
اور موڑ دیتے ہیں۔کبھی فون بند کرتے ہیں۔کبھی کبھار غصے تک کی بھی نوبت
آجاتی ہے۔اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میرا غصہ کافور نہیں ہوا ہے،تو وہ ایک
مزاحیہ smsسینڈکرتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی سوٹ دے کر اور کبھی باہر سے کوئی
قیمتی قلم تحفے میں لاکر ،اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔میں اکثر ان کے ساتھ
اختلاف کرتا ہوں،اور یہ اختلاف ان کے سامنے بلکہ تمام احباب کارو اساتذہ کے
سامنے کرتا ہوں مگر وہ ناراض ہونے کے بجائے مجھ پر کوئی پھبتی کَستے ہیں
اور بات ٹال دیتے ہیں۔اکثر ہنس کر سارے کام نکلوادیتے ہیں۔میں منہ پھٹ آدمی
ہوں جو منہ میں آیاکہہ دیتا ہوں مگر وہ اپنا کام کروا کے ہی دَم لیتے
ہیں۔ایک دفعہ جامعہ میں طلبہ کی تعلیم و تربیت پر جامعہ کے دو اساتذہ حدیث
، قاضی صاحب اور میری ایک اہم میٹنگ ہوئی۔ دوسرے اساتذہ کو نہیں بلایا گیا
تھا۔کافی بحث کے بعد میں نے دو ٹوک اور سخت لہجے میں آئندہ سال تعلیمی
ترتیب کے حوالے سے اپنی معروضات بیان کی۔ایک استاد نے نفی میں سرہلایا اور
دوسرے نے کہا کہ گلگت کے پہاڑوں میں یہ ممکن نہیں، حالانکہ میں بالکل سادہ
سی بات کررہا تھا۔ جب ان کے منہ سے میں نے یہ سنا تو میں غصے میں اُٹھ گیا
اورکہا کہ میں آپ حضرات کے ساتھ نشست نہیں کرسکتا۔ قاضی صاحب نے کہا ''یار
اتنی جلدی غصہ کرنے والی کون سی بات ہے، کچھ باتیں اپنی منواؤ اور کچھ
ہماری مانو، ہم پرانے ذہن کے مالک لوگ ہیں۔ یہ کہہ کر میرا ہاتھ پکڑا اور
دوبارہ بٹھایا۔ سچی بات یہ ہے کہ جولوگ رضا الہی کے لیے مخلصانہ طور پردینی
،تعلیمی وسماجی خدمات انجام دیتے ہیں اللہ رب العزت انہیں دارین میں فلاح
سے نوازتے ہیں۔
اکابر علماء دیوبند ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔مولاناعبداللہ شہید،مولانا
مفتی احمدالرحمان شہید سے گہرے مراسم تھے۔ مولانا شیخ الحدیث مولانا سلیم
اللہ خان صاحب،مفتی رفیع عثمانی صاحب،ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب، مولانا سمیع
الحق صاحب،مولانا زاہدا لراشدی صاحب،مولانا عبدالرحیم صاحب،ڈاکٹر عبدالرزاق
اسکندر صاحب،قاری حنیف جالندھری صاحب، مولانا عبدالعزیز صاحب اور دیگر کبار
علماء سے قریبی تعلقات ہیں ۔ وہ حضرات بھی قاضی نثاراحمد کوبے حد عزت دیتے
ہیں۔عالم اسلام کا عظیم مجاہد اسامہ بن لادن سے افغانستان جا کر ملاقات کی۔
کشمیر کے سردار عتیق تو بے حد عزت دیتے ہیں۔دیگر سیاسی زعماء بھی قاضی صاحب
کی بات غور سے سنتے ہیں۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان صاحب
قاضی نثاراحمد کی بے حد توقیر کرتے ہیں۔ مجھے خود دو مجلسوں میں اس کا
مشاہدہ ہوا ہے۔ قاضی نثاراحمد بڑے خوش قسمت نکلے ہیں کہ انہیں تبلیغی جماعت
کے مرکزی مبلغ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب،جہادکے معروف رہنما مولانا مسعود
اظہر صاحب، دفاع صحابہ کے مجاہد اعظم مولانااعظم طارق صاحب شہید اورمیدانِ
سیاست کے امین مولانا فضل الرحمان صاحب کے'' پیر بھائی'' ہونے کا شرف حاصل
ہے۔قاضی نثاراحمد نے ملک کی چار عظیم دینی درسگاہوں سے علمی اور تین عظیم
شخصیات سے روحانی فیض کیا۔صاحب علم ودل جانتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی نسبتیں
ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ علوم نبوت و نسبت نبوت بہت بڑی چیز ہے۔جن کی علم
اور اصلاح کی نسبت رسول اکرم ۖ سے ہو،بڑی سعادت کی بات ہوتی ہے۔انہیں رب
کریم کے بے حد مشکور ہونا چاہیے۔انہیں آج کی مادیت پرست دنیاکی بے رغبتی
اور ناقدری دیکھ کر مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔کیونکہ یہ لوگ اصحاب
علم و دل کی قدر ومنزلت اور مقام ومرتبہ اورشان جلالی سے نابلد ہیں۔بہرصورت
شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ان اشعارسے اجازت چاہونگا:
رضینا قسمت الجبار فینا
لنا علم وللجہال مال
فان المال یفنی عنقریب
وان العلم باق لایزال
٭٭٭٭٭
ولسلام مع الاکرام: حافظ امیرجان حقانی
|