کچھ لوگ دنیامیں مثال بننے
کے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں اور وہ واقع ہی بے مثال ہوتے ہیں جن کے پاس پیسے
کمانے کے بے شمار مواقع ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ دنیاوی دولت کو
پیروں تلے روند دیتے ہیں اگران کی زندگی کا کوئی مقصد ہوتا ہے تووہ عوام کی
فلاح وبہبود ہوتاہے اپنے اردگرد بسنے والوں کی بھلائی ہوتاہے دنیامیں بسنے
والے لوگوں کے لیے برابری کی سطح پرسہولیات مہیاکروانے کے لیے جدوجہدکاجذبہ
ہوتاہے دنیاوی دولت کوبھول کرآخرت کی دولت کو اکھٹا کرنا انکی زندگی کا
اولین مقـصدہوتاہے ۔انہی میں سے ایک قائداعظم محمدعلی جناح ہیں جی
ہاں!قائداعظم وہ باکمال شخصیت ہیں جنہوں نے برصغیرکے مسلمانوں کے الگ وطن
کے خواب کوعملی جامہ پہنایا۔قائداعظم محمدّعلی جناح 25دسمبر1876کوکراچی میں
ایک مشہور،نیک زمانہ تاجر جیناپونجا کے گھر پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم ایک
مدرسہ سے حاصل کی۔اوراسکے بعد مشن ہائی سکول کراچی سے باقاعدہ تعلیم حاصل
کی۔اورکچھ عرصہ کے بعد اعلی تعلیم کے حصّول کے لیے انگلستان چلے
گئے۔انگلستان جانے سے قبل قائداعظم کی والدہ کی پرزورفرمائش پران کا نکاح
کردیاگیا،1893میں انگلستان جاکر لنکزان لاء کالج میں داخلہ لیا اور وکالت
کی تعلیم حاصل کی۔وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بر صغیرآگئے،اور ممبئی
میں آکروکالت کا پیشہ اپنایا۔وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی حصہّ لینے
لگے۔اورکانگرس کوجوائن کیا۔لیکن جلد ہی قائداعظم کانگرس سے دلبرداشتہ
ہوگئے۔کیونکہ کانگرس کاایک گروہ مسلمانوں کے لیے جدوجہدکرنا پسندنہیں
کرتاتھا،اورہروہ معاملہ جس میں مسلمانوں کے حق میں کوئی منصوبہ پیش
کیاجاتاوہ اس کے مخالفت کرتے۔قائداعظم نے کانگرس کو خیرآبادکہااورآل
انڈیامسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔قائداعظم کاآل انڈیامسلم لیگ میں
شامل ہوناتھا کہ اس میں ایک نئی لہرخاص جذبے کے ساتھ پیدا ہو گئی ۔قائداعظم
آل انڈیامسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تقاریرکرنے لگے اور انکی باہمت تقاریر سے
مسلمانوں کے جذبے بلند ہونے لگے۔وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مسلمانوں کے الگ وطن
حاصل کرنے کی تحریک زور پکڑتی گئی۔
جنوری1929میں قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کااجلاس طلب کیا۔اور اس میں
اپی دانشمندانہ سوچ کو بروقارلاتے ہوئے مسلمانوں کی فلاح وبہبود کیلیے چودہ
نکات پیش کیے۔ان نکات کے پیش ہونے کے بعدیہ تو مکمل طور پر واضح ہوگیا تھا
کہ مسلمانوں اور ہندوں کی ترجیحات مکمل طور پرایک دوسرے سے الگ ہیں دونوں
قوموں کا ایک دوسرے کاساتھ رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ نہ ممکن ہیں۔قائداعظم کے
چودہ نکات کے بعدایک الگ وطن کی تحریک نے زور پکڑا۔اور پورے برصغیر میں الگ
وطن کے حصول کی کاوشیں تیزسے تیزتر ہوتی گیں۔1940میں مسلمانوں کی تحریک
عروج پرتھی۔مسلمانوں کی تحریک نے زور پکڑا ہواتھا۔اور23مارچ1940کو قائداعظم
نے لاہورمیں قرارداد پاکستان پیش کردی۔قرارداد پاکستان کے بعدقائداعظم اپنے
ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان کے حصول کے کیے دن رات ایک کردیئے
اوربالاآخرقائداعظم اورانکے ساتھ موجود عظیم لیڈروں کی دن رات محنت وکاوشوں
اورمسلمانان برصغیرکی قربانیوں کے بعد کانگرسی لیڈر بے بس ہوگئے
اور14اگست1947کو دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک اور ملک وجود میں
آیا۔جی ہاں وہ ہی پاکستان جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا،وہ ہی
پاکستان جس کانام چوہدری رحمت علی نے تجویز کیاتھا،جی ہاں قارئین یہ وہ ہی
پاکستان ہے جس میں آج ہم آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان بننے سے قبل
ہی قائداعظم کو ٹی بی ہو گئی تھی لیکن انہوں نے اس کے بارے میں کسی کو نہیں
بتایا۔اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات انتھک محنت میں مصروف رہے اوراس
دوران ان کی بیماری شدت اختیارکرتی گئی۔اورپاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعدیکم
اکتوبر1948کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔قائداعظم کو ہم سے بچھڑئے66برس بیت
گئے ہیں لیکن لوگ آج بھی قائد کو یاد کرتے ہیں لوگ قائدکے خیالوں میں سوچے
گئے پاکستان کو ڈھونڈتے ہیں جس میں سب کے لیے یکساں قانون یکساں تعلیمی
نظام ہو۔جس میں اسلام قوانین کی پاسداری ہو۔لیکن ہم تو کسی اور ہی راہ پر
چل دیے ہیں ہمارے ہاں نہ تعلیمی نظام ایک جیسا اور نہ ہی قانون ایک
جیسا۔تعلیمی نظام سے قائد کی محبت کے بارے میں بتاتاچلوں کہ قائداعظم نے
اپنی وفات سے قبل ہی اپنی جائیداد تعلیمی اداروں میں بانٹ گئے۔یقینا ہم
قائد کے احسانوں کا بدلہ نہیں چکا سکتے اور نہ ہی ہم ان کو خراج عقیدت پیش
کرسکتے ہیں کیونکہ پاکستان بناکر انہوں نے ہم پر جو احسان کیاہے ا سکا
لفظوں میں تو شکریہ ممکن نہیں۔لیکن کچھ پاکستان کے دشمن عناصر ایسے بھی
موجود ہیں جوپاکستا ن بننے کے باوجوداورقائدکے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے
جاوجود بھی زیارت رئذییڈنسی جیسی تاریخی عمارتوں کو تباہ کرکے انکی یادوں
کو دفن کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی شخصیت کی
تاریخ اسکی استعمال میں موجود اشیاء کے وجود سے
نہیں بلکہ اسکے کارناموں کی وجہ سے زندہ رہتی ہے |