امریکی سیکورٹی انٹیلی جنس
ایجنسی بلیک واٹر کے متعلق بہت سے قصے مشہور ہیں مگر آج میں آپ کو اپنے ہی
ایک پاکستانی صحافی کا قصہ سنا رہا ہوں۔ جس نے پہلی بار ملک میں بلیک واٹر
کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا،یہ 2007ء کی بات ہے پشاور کے ایک معروف صحافی
نے پہلی بار پاکستان میں بلیک واٹر اور سی آئی اے کی آمد کے متعلق خبریں
فائل کیں، مگر اُس وقت کوئی یقین نہیں کر رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے،
جس پر مذکورہ صحافی کوامریکی سیکورٹی کمپنی بلیک واٹرکی جانب سے جان سے مار
دینے کی دھمکیاں ملیں۔ اس کامختصر قصہ کچھ یو ں ہے کہ مذکورہ صحافی نے2006ء
میں پشاور کے ایک مقامی اخبار میں طالبان اور اُن کو مالی سپورٹ کرنے والے
افراد کی فہرستیں شائع کیں جس کے بعد امریکی بدنام ِ زمانہ بلیک واٹر نے
مذکورہ صحافی کو اپنے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی کہ ہم بھی دہشت گردی کے
خلاف کام کررہے ہیں جس میں آپ ہماری مدد کرو جس پر صحافی نے اُن کے ساتھ
کام کرنے کی حامی بھری مگر اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ بلیک واٹر والے اس سے
کیا معلومات لینا چاہتے ہیں جب صحافی نے بلیک واٹر سے ساتھ کام شروع کیا تو
چند ہی ملاقاتوں میں اسے یہ معلوم ہو گیا کہ یہ لوگ پاکستان کے مفادات کے
خلاف کام کر رہے ہیں اور دینی مدارس و سیکورٹی ادروں سے تعلقات قائم کرنے
اور ان کے بارے میں خفیہ معلومات لینے کے لئے اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں
جس پرصحافی نے بلیک واٹر کو ان کے ساتھ کام کرنے سے ا نکار کر دیا اور اس
کے متعلق پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی کو تمام معلومات دے ڈالیں کہ امریکی
اسے استعمال کرنا چاتے ہیں جس کے بعد مذکورہ صحافی کے علاقے میں بلٹ پروف
لینڈ کروزر گاڑیوں کی آمدورقت دیکھی گئی اور اسے ٹیلی فون پر بلیک واٹر کے
ساتھ کام کرنے پر مجبور کیا گیا مگرصحافی نے اُن کی ایک نہ سنی اور پولیس
حکام اور انٹیلی جنس اداروں کو اپنی سیکورٹی کا انتظام کرنے کی درخواست دی
مگر سیکورٹی ادروں نے بھی اس کی ایک نہ سنی تب صحافی نے ایران کا ویزہ لگوا
کر ایران بھاگ گیا اور وہاں کی حکومت سے درخواست کی کہ اسے سیاسی پناہ دی
جائے مگر ایران میں کسی کو سیاسی پناہ دینے کا قانون نہ ہونے کی وجہ سے وہ
ایک ماہ بعد خفیہ طریقے سے پاکستان آ گیا اور پشاور کے ایک گاؤں میں چھپا
رہا کسی کو معلوم نہ تھا کہ آخر اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے آخر کار مذکورہ
صحافی نے اسلام آباد پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی اور وہ سب کچھ بول
دیا جو اس پر گزری مگر اس پریس کانفرنس کے بعد مذکورہ صحافی کو ایسے مظالم
اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا کہ آخر کار وہ ملک چھوڑ کر برونائی چلا گیا
اور تاحال وہیں پر مقیم ہے، پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی نے اسے اغواء کیا
اور تین ماہ اَٹھاراں دن بعد رہا کیا۔جس کے بعد وہ پشاور میں ایک بم دھماکے
میں بال بال بچ گیا۔ مذکورہ صحافی نے پاکستان بھر میں بدنامِ زمانہ بلیک
واٹر کی موجودگی کے ساتھ ساتھ اُن کے پشاور ، اسلام آباد ، لاہور اور کراچی
میں بنگلوں کی فہرستیں بھی شائع کیں اور لمحہ بہ لمحہ بلیک واٹر کے بارے
میں انکشافات کرتا رہا مگر اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بار بار
اس بات سے انکار کرتی رہی کہ بلیک واٹر پاکستان میں موجود ہے۔
اس وقت بلیک واٹر نے پشاور کے یونیورسٹی ٹاؤن میں ٹوٹل 83بنگلے خرید رکھے
ہیں جبکہ اسلام آباد میں 179اور لاہور میں 47بنگلے خریدے ہوئے ہیں جن میں
وہ اپنی جاسوسی کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں جن کی فہرستیں راقم کے پاس
موجودہیں۔ان بنگلوں میں بلیک واٹر کے سیف ہاؤسسز بھی ہیں جن میں وہ پکڑے
جانے والے جہادیوں سے خود تفتیش کرتے ہیں، اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا
سکتا کہ جہا ں حکومت بلیک واٹر کی موجودگی پر کاروائی کرنے کا اعلان کرتی
ہے تو دوسری طرف چند اعلیٰ پولیس افسران اور سول سروس کی دیگر اہم شخصیات
امریکی انٹیلی جنس اداروں کو معلومات دینے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔
بلیک واٹر کے لوگ آسانی سے جہادیوں کو پکڑ کر پاکستان سے افغانستان اور پھر
وہاں سے امریکہ منتقل کرتے ہیں جس میں فاٹا سیکرٹریٹ کی جانب سے انہیں مکمل
تعاون حاصل ہے ۔ مشرف دور حکومت میں بہت سے امریکیوں کو قانون سے بچنے کے
لئے سفارتکاری کا درجہ دیا گیا تھا۔اور اب تک یہ لوگ سفارتکاری کے کور میں
اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ |