عرصہ دراز سے امریکہ و ایران کے
مابین کشیدگی جاری تھی اور اس کشیدگی کی بنیادی وجہ ایران کا ایٹمی پروگرام
تھا امریکہ پوری دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے کوشاں تھا جبکہ
دوسری جانب ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لیے
پرعزم تھا۔ اس ساری صورتحال نے پورے پورے خطے کی فضا کو متاثر کررکھا تھا
مگر یہ سارا منظر نامہ اس وقت تبدیل ہوگیا جب امریکہ وایران کے درمیان
ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ایک معاہدہ طے پاگیا۔
ان دونوں فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے مطابق ایران 6ماہ کے اندر
اندر اپنی 20فیصد یورنیم افزودہ کرے گا جبکہ آئندہ بھی 5فیصد سے زیادہ
یورینیمافزودگی کا مجاز نہ ہوگا۔ اس معاہدے نے ساری دنیا کو سیاست کو نہ
صرف حیران کردیا بلکہ اسرائیلی وزیراعظم نے تو اس معاہدے کو تاریخی غلطی
کہا تو کسی نے اس معاہدے کو جنگ کی ہار اور امن جیت سے تعبیر کیا۔
لیکن یہاں پر شاید ایران بھول رہا ہے کہ امریکہ نے ماضی میں لیبیا کے ساتھ
بھی ایک ایک ہی معاہدہ کیا تھا اور اس معاہدے کے تحت لیبیا نے اپنے تمام تر
ایٹمی اثاثے امریکہ کے حوالے کردئیے اور اس کے بعد لیبیا کی صورتحال آج تک
ایک سوالیہ نشان ہے۔
درحقیقت اس حوالے سے امریکہ نے 2009مشہورزمانہ Think Tankریڈ کارپوریشن کو
ایک ٹاسک دیا تھا کہ امریکی معیشت کو کیسے مستحکم کیا جائے؟ جس کے جواب میں
Raud Corporationنے ایک مفصل رپورٹ جاری کی جس میں ریڈ کارپوریشن نے کہا
تھا کہ امریکی معیشت اس وقت تک نہیں بچ سکتی جب تک دنیا میں دوبڑی یا کم از
کم ایک بڑی جنگ نہ ہوجائے۔
اس رپورٹ کے اجراء کے بعد امریکہ نے ایک حکمتِ عملی ترتیب دی جس کے اس نے
پوری دنیا درندگی اور جارحیت میں اضافہ کردیا اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے
تحت اور ایک منظم انداز میں پاکستان کو انڈیا اور افغانستان کو ایران کے
خلاف کھڑا کردیا۔
دوسری طرف امریکہ نے شیعہ سنی اختلاف کو بین الاقوامی سطح پر ابھار کرشیعہ
و سنی ممالک کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کردیا تاکہ بوقت ضرورت امریکہ
ان میں سے کسی کو بھی آپس میں لڑا کر اپنے اندرونی مفادات کے حصول اور
امریکی معیشت کے استحکام کو برقرار رکھ سکے۔
اور یہی وجہ ہے کہ اس مذہبی معاملہ امریکہ اپنی سلامتی و بقاء کی خاطر
الجھایا تاکہ انکو آپس میں لڑا کر اس جنگ کی ابتداء کی جائے جس کی ابتداء
سے امریکی سلامتی اور معیشت محفوظ ہوجائے۔
جبکہ دوسری جانب امریکہ کا اس ساری حکمت عملی میں ایران کو اپنے ساتھ ملانے
کا مقصد یہ تھا کہ ایران و عرب دشمنی پرانی چلی آرہی اور یہ عرب وہ لوگ ہیں
جنہوں نے زمانہ جاہلیت کی سپر پاور ایران ایران کی کمر توڑ ی تھی اور اسے
فتح کیا تھا چونکہ امریکہ کو اب عربوں سے کوئی مطلب نہیں اور وہ ان کو مکمل
طور پر استعمال کرچکا ہے تو اس لیے اس نے ایران کو عرب ممالک کے خلاف کھڑا
کردیا تاکہ بوقت ضرورت یہ پتہ بھی کھیلا جاسکے۔
لہذا اس ساری صورتحال میں ایران و امریکہ کا معاہدہ بظاہر تو ایک غیر فطری
عمل نظر آتا ہے مگر درحقیقت یہ اسی امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے جو 2001ء
میں ترتیب دی گئی تھی اور امریکہ کا ہمیشہ یہ طریق رہا ہے کہ اس نے اپنے
مفادات کے حصول کے لیے ایجنٹس کا سہارا لیا ہے اور اب اس خطے میں امریکی
مفادات کے حصول کے ایران کو بطور امریکی ایجنٹ استعمال کیا جائیگا۔
|