اگر ہم اِس عظیم مملکتِ پاکستان
کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں بلخصوص
غریب طبقے کی فلاح وبہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی۔
(قا ئدِ اعظم محمد علی جناح ۔ خطبہ صدارت دستور ساز اسمبلی ۱۹۴۷)
اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کِس سِمت لے
کر جا رہے ہیں؟ ہمارے حکمران اس مُلک کی عوام کو کون سا درس دے رہے ہیں؟
کیا کوئی ایسی دوا نہیں جس سے اِس مُلک کے ہر فرد کے ضمیر پر لگے کرپشن کے
دیمک کو مِٹا سکے؟ کیا بہت جلد اِس مُلک میں غربت کی شرح 60.3%فی صد سے بڑھ
کر 70% فی صد تک پہنچ جائے گی؟
جی ہاں یہ سوالیہ نشان ہمارے حکمران ہمیں بطورِ تحفہ بہت پہلے دے چکے ہیں،
اور دیکھیے نا! ہم عوام اور ہمارے مُنتخب کردہ نُمائندے اس تحفے کو کتنی
ایمانداری سے سمبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔
ہم لوگوں نے کرپشن اور دھوکے بازی کو ایک کاروبار بنا لیا ہیں۔ سیاستدان
اپنی ساخت بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو فوراً تیار ہو جاتے ہیں۔
جلسے جلوسوں کے ذریعے نا جانے اِس قوم کے پیسوں سے کروڑوں روپوں کی کرپشن
کرتے ہیں، ان کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ صرف چند سیٹیں جیت کر ہم اپنا
خرچ کیا ہوا تمام پیسہ کچھ ہی عرصے میں دُگنا کر لینگے۔ جناب لیڈران صاحبان
اگر آپ لوگ دھاندلی اور کرپشن کے ذریعے ہی جیت کی آرزو لگائے بیٹھے ہوتے
ہیں تو خُدارا اِس مُلک کیساتھ یہ ایمانداری کا ڈھونگ بند کیجیے ۔ میں یہ
نہیں کہہ رہا کہ کوئی ایک پارٹی دھاندلی کے ذریعے جیت کر آگے بڑھتی ہے ،
بلکہ یہاں تو ہر پارٹی نے دھاندلی کی گُھٹی گھول گھول کر پی ہوئی ہے۔ فرق
صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ نظر آ جاتے ہیں اور کچھ نے شرافت کا نقاب اوڑھ پہنا
ہے۔ اور اگر بلاناخواستہ ان میں سے کوئی حکومت کا حصہ بن گئے ، تو چند ایک
جگہ ترقیاتی کام کر کے پانچ سالوں تک اُس کے گُن گاتے رہتے ہیں۔ ترقیاتی
کام اچھے ہیں اور یہ ان کا فرض بھی ہوتا ہے لیکن حال تو یہ ہے کہ یہاں غریب
کی کون سُنتا ہے؟ جلسے جلوسوں میں تو ہر ایک سیاستدان اِنہیں غریبوں کے رحم
و کرم پر ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ فلاح غریب کے لیے ہمارا یہ
منصوبہ ہے فلاح کے کیلئے یہ منصوبہ۔۔۔ لیکن اقتدار میں آتے ہی اِن کے تمام
منصوبے امیروں کیلئے سود مند کیوں ثابت ہو جاتے ہیں؟ کیا غریب کی قسمت میں
صرف وعدے اور وہ بھی جھوٹے ؟ کیا یہ جھوٹے وعدے غریب کا پیٹ بھر سکتے ہیں؟
پیڑولیم مصنوعات ہو یا بجلی کے نرخوں میں اضافہ ! یہ خوشخبری ہر ماہ عوام
کو سُنائی جاتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف اگر کوئی احتجاج کرتا بھی
ہے تو ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی کسی سے کم نہیں ، اپنا رُعب
اور دبدبہ دیکھانے کیلئے فوراً لاٹھی چارج اور شیلِنگ شروع کروا دیا جاتا
ہے۔ اور اگر کسی پارٹی کی طرف سے عام آدمی احتجاج کا حصہ بنتا ہے تو یہی
قانون نافذ کرنے والے ادارے احتجاج میں شریک ہر فرد کیلئے فُل پروف
سیکیورٹی فراہم کرتے ہیں۔ کیا عام آدمی کی کوئی حیثیت نہیں؟ کیا اپنا حق
مانگنے کیلئے ہر فرد کو کسی نا کسی پارٹی کا غلام بننا پڑے گا؟
اِس مُلک کی عوام غُربت اور بے بسی کے شکنجے میں قید ہیں۔ اور ہمارے حکمران
اس مُلک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹ کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔
شریف برادران سے عوام کو بہت اُمیدیں تھیں۔ لیکن موجودہ حالات کو دیکھا
جائے تو یہی لگتا ہے کہ اُن کے کیے گئے وعدے جھوٹ کا پلندہ تھے ۔ مُلک سے
مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کا
وعدہ ہو یا امیروں سے ٹیکس لینے کی وصولی کا وعدہ، بجلی چوری روکنے کا
منصوبہ ہو یا کرپشن ختم کرنے کا وعدہ ، بیرونِ مُلک سے سارا پیسہ قومی
خزانے میں لانے کا انتظام ہو یا ڈرون حملے بند کروانے کا وعدہ سب کے سب
جھوٹ پر مبنی تھے۔ جس مُلک اور قوم کے حکمران ہی جھوٹ اور کرپشن کی بُنیاد
رکھ کر اقتدار پر قابض ہو جائیں، وہ مُلک کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ معاف
کرنا اگر یہی حال رہا تو آنے والے وقتوں میں یہ مُلک اور اِس مُلک کی عوام
کا حال بنگلادیش اور افغانستان سے بھی بدتر ہوگا۔ |