بھارت میں انقلاب ، پاکستان میں انتظار

بھارت میں سیاست دانوں کی بڑی تعداد پریشان ہے، اس انقلاب سے جو ان کے سر پر کھڑا ہے۔ یہ انقلاب اب خواب نیں رہا، بلکہ اس نے سچ مچ ایک حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔ عام آدمی کی معاشرے میں وقعت ہی کیا ہے، اسے پوچھتا کون ہے، لیکن جب اس عام آدمی نے ایک پارٹی کا روپ دھارا تو یہ بھارت کی سب سے طاقتور پارٹی کی حیثیت میں سامنے آئی ہے۔عام آدمی پارٹی ایک بھارتی سیاسی پارٹی ھے۔ اس کی تخلیق اروند کیجری وال نے دوہزار بارہ میں کی تھی۔ حالیہ دلی کے انتخابات میں یہ دوسری سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔اس نے اٹھائیس نشستیں حاصل کیں’عام آدمی‘ نامی جماعت کی قیادت اروند کیجریوال کر رہے ہیں جو سابق سرکاری ملازم ہیں۔دہلی کے مقامی انتخابات میں حصہ لینے والی یہ جماعت انسداد بدعنوانی کی اس مہم کے بعد وجود میں آئی جو دو برس پہلے بھارت میں شروع ہوئی۔برصغیر کے سیاسی حلقوں میں یہ خبر حیرت سے سنی گئی کہ بھارت کے حالیہ ریاستی انتخابات میں (جو راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، دہلی اور میزورام کی ریاستوں میں ہوئے) گزشتہ تین انتخابات میں تسلسل سے جیتنے والی خاتون شیلا ڈکشٹ کو جو پندرہ سال سے وزیراعلیٰ چلی آرہی تھیں، ایک نئی پارٹی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے سربراہ اروند گجری وال نے 25 ہزار ووٹوں سے شکست دے دی اور شریمتی شیلا ڈکشٹ نے اپنی ہزیمت تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اروند گجری وال بھارتی ریاست کی کبھی معروف شخصیت نہیں تھے۔ وہ بھارت کی بیورو کریسی کے ہجوم میں ایک ایسے عہدے دار تھے جو ملک کے زوال پذیر تہذیبی کلچر سے نالاں تھے اور معاشرے کو کرپشن کے کینسر سے نجات دلا کر دیانت اور امانت کے کلچر کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ اپنی اس آرزو کی تکمیل کیلئے انہوں نے شری اناہزارے کا ساتھ اس وقت دیا جب انہوں نے کرپشن کے خلاف تحریک چلائی اور عوام میں بیداری کی ایک موثر لہر دوڑا دی۔ اس تحریک میں گجری وال……انا ہزارے کے ترجمان تھے۔ اس تحریک میں ہی انہیں بھارت کے کرپشن سے ڈسے ہوئے اور گرانی اور بے روزگاری کی زد میں آئے ہوئے عوام سے براہ راست رابطے کا موقعہ ملا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ سیاسی عمل میں شامل ہو کر سماجی برائیوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کے حامی ایک شخص کا کہنا تھا ’ہم نے بہت سے سیاستدانوں کو دیکھ لیا جنہوں نے ہم سے وعدے تو بہت کیے لیکن عمل بہت کم کیا۔ اب میں انہیں ایک موقع دینا چاہتا ہوں۔‘ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ (اے، اے،پی) کا قیام 26نومبر 2012ء کو عمل میں آیا تھا۔

الیکشن سے پہلے ان کا ایک پیغام اکثر سننے میں آتا۔’میں اروند کیجریوال ہوں۔۔۔ جھاڑو کو ووٹ دیں۔‘ یہ سادہ سا پیغام ہر روز دہلی کے ریڈیو سٹیشن سے نشر کیا جاتا ہے۔الیکشن میں ان کی پارٹی کامیاب رہی اور’عام آدمی پارٹی‘ دہلی کے انتخابات میں ایک اہم جماعت کے طور پر سامنے آگئی۔ یہ ہر ماہ اپنی کارکردگی رپورٹ بھی عوام کے سمانے پیش کرتے ہیں۔ ابھی دوسرا ماہ ہوا ہے۔ انھوں نے نئی دہلی میں مسلسل دوسرے روز ماہانہ کارکردگی پر رپورٹ پیش دی ہے۔ اور اس میں بھی اروند کیجری وال نے حسب روایت ایک نیا محاذ کھول دیا۔کیجری وال نے راہول گاندھی کو کھلے عام کرپٹ قرار دیتے ہوئے کرپٹ سیاست دانوں کی فہرست بھی جاری کردی، مایاوتی، چدم برم، شردپور، ملائم سنگھ یادو کے نام اس لسٹ میں شامل ہیں۔ اروند کیجری والی نے کانگریس، بی جے پی، سماج وادی پارٹی سمیت سب کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اروند کیجری وال اک کہنا ہے کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف مضبوط ترین امیدوار کھڑے کریں گے اور انہیں پارلیمنٹ میں نہیں جانے دیں گے۔ اس پہلے کیجری وال نے لوک سبھا کی300 سے زائد نشستوں پر امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا تھا۔عام آدمی پارٹی کی ایک اور خوبی جسیے عوام میں سراہا جا رہا ہے وہ اس کے وعدے ہیں جن پر عمل بھی کیا جارہا ہے۔ دہلی کے نو منتخب وزیراعلیٰ اروند کیجروال منصب سنبھالتے ہی عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں لگ گئے۔ انھوں نے سب سے پہلے تو یہ اعلان کیا کہ ہر خاندان کو ہرماہ 700لیٹر مفت پانی فراہم کیاجائے گا، پھر 400یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی کی قیمت بھی آدھی کر دی۔ اروند کیجروال نے انتخابی منشور میں عوام کو مفت پانی، بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ ایسی بھی مثال قائم کرنے لگے ہیں جو اسو سے پہلے نا پید تھی۔ 103بخار ہونے کے باوجود اروند کیجروال نے اجلاس اپنے گھر بلالیا اور گھر پر اجلاس کے دوران یہ فیصلے کیے ۔ انھوں نے پولیس کی ایسی امداد کرنا شروع کی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت پر ایک کروڑ امداد کا اعلان کر کے سب کو حیران کردیا۔ بھارت کی سیاست میں ابھرنے والی نئی سیاسی قوت عام آدمی پارٹی کے سربراہ کی حلف برداری کی تقریب بھی ایک تاریخی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ اروند کیجریوال کے کہنے پر ان کی حلف برداری دہلی کے مرکزی میدان میں ایک بڑی عوامی تقریب میں ہوئی اور وہ وی آئی پی کلچر کو رد کرتے ہوئے بغیر پروٹوکول اس تقریب کے لیے میٹرو کے ذریعے وہاں پہنچے تھے۔ ۔ عام آدمی پارٹی کے اروند کیجروال سے بھارتی عوم کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ بھارت کے سیاسی کلچر میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کا صدر دفتر دارالحکومت کے وسط میں ایک پرانی سے عمارت میں واقع ہے۔ یہاں رضا کار چندہ جمع کرنے، جماعت کی مہم کا لائحہ عمل تیار کرنے اور محدود وسائل کے استعمال کا طریق کار طے کرنے میں لگے رہتے ہیں۔یہ لوگ باقاعدہ اور پیشہ ور سیاستدان نہیں ہیں۔یہ لوگ متوسط طبقے سے تعلق رکھنیوالے وکلا، طلبا، صحافی اور گھریلوں خواتین ہیں جو ملک کے سیاستدانوں سے مایوس ہیں۔ انہیں سیاست میں آنے کے لیے دو سال قبل ملک میں انسدادِ بدعنوانی کے لیے چلنے والے مہم سے تحریک ملی۔بدعنوانی کے خلاف مظاہروں کی قیادت کیجریوال اور ان کے رہنما ’انا ہزارے‘ نے کی تھی۔ نہ صرف ملک بھر سے بلکہ بیرونِ ملک سے بھی ان کے حامی مظاہروں میں شرکت کے لیے آئے تھے۔اس مہم میں شرکت کے لیے چھٹی لے کر آنے والے ہانک کانگ کے ایک بینکار امت اگروال کا کہنا ہے ’یہ لوگ جو کر رہے ہیں وہ سچ میں متاثر کن ہے۔‘امت اگروال نے ہانگ کانگ میں مقیم دوسرے بھارتی باشندوں کے ساتھ مل کر اس مہم کے لیے دو لاکھ ڈالر چندہ کیے۔اس جماعت نے شفافیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام افراد کے نام ظاہر کیے ہیں جنہوں نے انہیں چندہ دیا۔ اگروال کہتے ہیں ’وہاں بہت سے بھارتی ہیں جو رقم عطیہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ حکومت کی جانب سے ہراساں کیے جانے سے خوفزدہ ہیں۔دیگر کا خیال ہے کہ یہ بھارت میں ایک بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلی کی ابتدا ہے۔سنگا پور میں مینیجمنٹ کنسلٹنٹ راجن مکھنجا کہتے ہیں کہ یہ بھارتی جمہوریت کی ابتدائی فیس بک یا گوگل ہے۔ ’میں اسے کسی چیز کے عوض چھوڑ نہیں سکتا۔‘۔لیکن جماعت کے اندر تنازعات کی بھی کمی نہیں۔ انا ہزارے نے بھی خود کو سیاست سے دور ہی رکھا تھا کیونکہ وہ بظاہر جماعتی سیاست میں حصہ لینے کے فیصلے سے ناخوش تھے۔

اس کے علاوہ جماعت کی اہلیت پر بھی سوال اٹھتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے تصورات کو ٹھوس پالیسیوں کی شکل دے پائے گی۔

ایک سیاسی تجزیہ نگار نیرجہ چوہدری کا کہنا ہے ان کے لیے کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ایک بڑا امتحان ہو گا۔ ’وہ سیاسی طور پر ناتجربہ کار ہیں۔‘انتخابات کے اگلے مرحلے میں سب کی نگاہیں نئے سیاسی حریف کی طرف ہیں۔اگر ’عام آدمی‘ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ ایک قابلِ تقلید مثال بن جائے گی ۔کانگریس پارٹی اور حزب مخالف کی بڑی جماعت بی جے پی کے اندازوں کو غلط ثابت کر سکتی ہے۔ ان جماعتوں کے لیے آئندہ برس کے عام انتخابات میں جیت کے لیے دہلی کے انتخابات جیتنا بہت اہم تھا۔ اپنی کامیابی پر اروند کیجریوال کہتے ہیں ’ہم کانگریس یا بی جے پی کے ساتھ مقابلہ نہیں کر رہے۔ یہ عام آدمی ہے جو ان کے مقابل آیا ہے۔ ان کا دل ان دونوں جماعتوں سے بھر چکا ہے اور اب آخر کار انہیں ایک دیانت دار جماعت کو منتخب کرنے کا موقع ملا ہے۔‘ اس جماعت کی انتخابی مہم انتہائی کم بجٹ پر چلا ئی گئی تھی۔ دہلی کے قرب و جوار کے پسماندہ علاقوں میں ایک کھلی جیپ پر سوار کیجریوال کے ساتھ ٹْک ٹْک اور سکْوٹروں کا قافلہ چلتا تھا۔ جس میں پارٹی کے کارکنوں نے اپنے رہنما کی تقلید کرتے ہوئے سفید ٹوپیاں پہن رکھی ہیں جس پر تحریر تھا ’میں ایک عام آدمی ہوں‘۔ کئی افراد پارٹی کا انتخابی نشان جھاڑو اٹھائے چلتے تھے۔ لوگوں کا مشاہدہ تھا کہ کانگرس اپنے متعدد حکومتی ادوارمیں اور بی جے پی اپنے چھ سال پر محیط دور حکومت میں عوام الناس کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنے اور انہیں آسودگی فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے۔ کیجروال کا انا ہزارے سے ان کا اختلاف اس بات پر ہوا کہ ’’معاشرتی اصلاح کے خصوصی مقاصد کیلئے کیا سیاست میں حصہ لینا چاہئے یا نہیں؟‘‘ گجری وال کے نزدیک کسی بڑے مقصد کے حصول کیلئے عوامی بیداری ضروری ہے، لیکن کامیابی کیلئے اختیار اور اقدار تک رسائی بھی ضروری ہے۔ آزادی کے ساٹھ سے زیادہ سال گزر جانے کے بعد سماجی حالات میں تغیر و تبدل پیدا ہورہا ہے۔ ۔ الیکٹرانک میڈیا کے فروغ نے عوام کے سیاسی اور سماجی شعور کو بانداز دگر بیدار کردیا تھا۔ کرپشن کے خلاف اناہزارے کی ملک گیر تحریک انکے سامنے ایک مثال کے طور پر موجود تھی۔ چنانچہ اروند گجری وال نے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ بنائی تو سب سے پہلے بااختیار حلقوں تک اپنی آواز پہنچانے کیلئے عوامی احتجاج کا طریق ہی اختیار کیا۔

انہوں نے دہلی میں بجلی اور پانی کی قیمتوں میں اضافے کی خلاف مہم چلائی تو عوام نے ان کا پورا ساتھ دیا۔ انہی دنوں عورتوں پرتشدد کے متعدد واقعات کے علاوہ جبری زیادتیوں کی وارداتیں بھی میڈیا میں ’’ہائی الرٹ‘‘ کی گئیں، گجری وال پر امن معاشرے کیلئے انسانیت سوز جرائم کے خلاف سخت قوانین بنائے جانے کا تقاضا بھی کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کو سیاسی رنگ دے دیا اور مارچ 2013 میں اسے الیکشن کمیشن آف انڈیا میں ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت میں رجسٹر کروا لیا اور اسکے ساتھ ہی اس برس کے ریاستی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ بھی کرلیا تھا۔ اس پارٹی کو الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ’’جھاڑو‘‘ کا انتخابی نشان دیا۔ ’’جھاڑو‘‘ صفائی کا بنیادی ’’ہتھیار‘‘ ہے اور یہ نچلے پست طبقے کا علامتی نمائندہ بھی ہے۔ کانگرس اور بی جے پی کے انتخابی نشانات کے برعکس ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے نشان (جھاڑو) نے انتخابی عمل میں زیادہ دلچسپی پیدا کی۔ چنانچہ اس نشان کا تذکرہ زبان زد خاص عام ہونے لگا تو اسے تضحیک کی نظر سے بھی دیکھا گیا۔عوامی مسائل کی احتجاجی تحریکوں سے گجری وال نے جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے اپنی پارٹی کا منشور بنانے اور انتخابی عمل کیلئے امیدوار چننے میں ہوش مندی سے استعمال کیا اور ایسے امیدوار منتخب کئے جن کی دیانت پر کوئی انگلی نہیں رکھ سکتا تھا اور جن کی قناعت پسندی سے حلقے کے لوگ شناسا تھے۔ انکے مخالفین نے منفی حربے استعمال کرکے گجری وال کے کارکنوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور ایسے ویڈیو جاری کئے گئے جن میں انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار سرمایہ داروں سے عطیات وصول کرتے نظر آتے تھے۔ اس قسم کا الزام جب اے، اے، پی کی ایک امیدوار شازیہ علی پر لگا تو انہوں نے انتخاب سے دستبردار ہو جانے کی پیشکش کردی لیکن انہیں ٹکٹ دے دیا گیا۔ کیونکہ ان کے خلاف جو ویڈیو جاری کیا گئی تھی وہ جعلی تھی۔’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے دہلی اسمبلی کی 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں اور کانگرس اسی طرح زمیں بوس ہوگئی جس طرح پاکستان کے عام انتخابات میں پی پی پی پنجاب میں عبرتناک شکست سے دوچار ہوئی تھی۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی کا میابی میں مستقبل روشن اشارے موجود ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گجری وال اس پارٹی کو آل انڈیا سطح پر پھیلائیں گے اور 2014 کے انتخابات میں مختلف مقامات سے اپنے امیدوار کھڑے کرکے انہیں خاص تعداد میں کامیاب بھی کرائیں گے اور اس طرح لوک سبھا میں ایک نئی جماعت اپنی فعال حیثیت میں شامل ہو جائیگی۔ انھوں نے دہلی حکومت سنبھالی تو وعدے کے مطابق فوری طور پر پانی فری اور بجلی کا بل نصف کر دیا۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی یہ ابتدائی کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ جب بڑی سیاسی پارٹیاں عوام کے بہبود کو پس پشت ڈال کر اپنی ذات اور خاندان کو مضبوط کرنے لگیں اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا جائے تو پھر عوام اپنے حقوق کیلئے متحرک ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے اس قسم کا تغیر 1970 کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے پیدا کیا تھا۔دوسری مثال عمران خان کی ہے جس کے پرہجوم جلسوں نے پاکستانی سیاست کی کایا پلٹ دی لیکن دونوں صورتوں میں ان کے لیڈروں کو کامیابی ملی ہیں۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی جیت پاکستانی سیاست دانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں مزید تاخیر نہ کریں اور بہبودی عوام کے کاموں کو فوری طور پر زیر عمل لائیں۔ان دونوں پارٹیوں یعنی پاکستان میں 'تحریک انصاف' اور ہندوستان میں 'عام آدمی پارٹی' کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ حکومت اور سیاست میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا وجود ہے- بدعنوان سیاست دان الیکشن جیت کر حکومتیں بناتے ہیں جو ان کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور بدعنوانی کو بڑھانے میں مددگار ہوتی ہیں- ان دونوں پارٹیوں نے آگے کی جانب سفر کیلئے اس "گندگی کی صفائی" کی ہی نشاندہی کی ---یہی راستہ درمیانی طبقہ کی زندگیوں کو آسان بنا سکتا ہے اور نچلے، پچھڑے طبقے کو فائدہ، یہ ایک نکتہ ہے- لیکن پاکستان میں ان عناصر کو جزوی کامیابی ہوئی ہے۔ عوام پارٹی کو انتخاب میں جتاتے ہیں لیکن ان کے حکمرانی کے طریقے، معاشی پالیسیوں اور دیگر چیزوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا اس لئے انتخابات سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ شائد اسی وجہ سے ہمارے عوام "سیاست" سے بیزار ہوگئے ہیں۔سیاسی وعدے کے ساتھ عوام نیا سیاسی کلچر چاہتے ہیں۔ پاکستان میں سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اور عوام ان سیاسی جماعتوں سے مایوس نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں عام آدمی پارٹی نے اپنے پہلے ہی انتخابی عمل میں بڑی کامیابی حاصل کرکے ہر ایک کو حیرت میں ڈال دیا اور انتخابات سے پہلے، جو اپریل اور مئی میں ہونے والے ہیں، دوسری مستحکم سیاسی جماعتوں کا دن کا چین اور رات کی نیند حرام کردی ہے۔کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے اے پی کو کامیابی وقت سے بہت پہلے مل گئی ہے جس کی وجہ سے اس پارٹی کی نشونما پر اثر پڑ سکتا ہے- سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں ووٹرز پاکستان کے مقابلے میں 'تبدیلی' سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں؟ اور وہاں کے عوام دو ٹوک فیصلہ دیتے ہیں۔ شائد اس کی وجہ ہمارے اور ان کے انتخابی عمل کی شفافیت ہے۔ پاکستان کے سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کے لئے یہ ایک نوشتہ دیوار ہے۔ جو صحیح معنوں میں سیاسی تبدیلیاں دیکھنے کے خواہشمند ہیں- کیا ہمارے سیاست دان حقیقت پسند ہیں۔ کیا وہ وہی کرنتے ہیں جس کا وہ عوام سے وعدہ کرتے ہیں۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہامرے عوام اور سیاست دان بہت جلد اپنے وعدوں کو بھول جاتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کاہوم ورک بہت اچھا ہے۔ انھوں نے چیزوں کی باقاعدہ دستاویز بندی کی ہے۔ ان کا دہلی الیکشن منشور دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی این جی او کا تیار کیا ہوا باقاعدہ منصوبہ- قابل تصدیق حوالے اور تصدیق کرنے کے ذرائع کے ساتھ مکمل، مختصر، واضح اور بالکل قابل عمل-مثال کے طور پانی، ایک ایجنڈا آئیٹم، انہوں نے ایک دن میں 700 لٹر تک استعمال کرنے والے گھرانوں کو مفت پانی دینے کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی دہلی واٹر بورڈ کے کام کرنے میں شفافیت، اور مستقبل میں بارش کے پانی کو پورے شہر میں قابل استعمال بنانے کا منصوبہ بھی پیش کیا۔ پھر بدعنوانی پر قابو پانے کیلئے ایک نیا قانون جو تمام سرکاری افسروں پر لاگو ہوگا؛ محدود مدت میں تحقیقات اور بدعنوانی کے مقدموں کا فوری فیصلہ؛ وزیروں، ایم ایل اے اور سیکریٹریوں کے خلاف فیصلے چھ مہینے سے ایک سال کے اندر ایسا انقلابی اقدام ہے۔ جو واقعی لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہوگا- بھارت میں اس تبدیلی پر میڈیا نے بھی تبصرے کئے ہیں اروِند کیجری وال کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اْن کی حیرت انگیز انتخابی کار کردگی نے ملک کے روائتی سیاسی طبقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اروند کیجری وال کی عام آدمی پارٹی، جو صرف ایک سال قبل وجود میں آئی تھی، بدعنوانی کے خلاف اْس ملک گیر تحریک کا نتیجہ ہے، جس میں متّوسّط طبقے کے دسیوں ہزاروں لوگ سرکاری اداروں میں رشوت کی علّت کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔رام لیلیٰ گراؤنڈ میں ایک عظیم مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کیجری وال نے کہا، ’دو سال قبل کسی کے وہم و گْمان میں بھی نہیں تھا کہ اس ملک میں اس قسم کا انقلاب آئے گا۔‘ اخبار کہتا ہے کہ ہندستان کے دارالحکومت میں مسٹر کیجری وال کا بر سر اقتدار آنا اْس وسیع تر تحریک کی طرف ایک اشارہ ہے جو دْنیا کے اس سب سے بڑے جمہوری ملک کے اندر اگلے سال کے عام انتخابات میں لوگوں، پارٹیوں اور پالیسیوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔ مسٹر کیجری وال نے کانگریس پارٹی کی حمائت سے اقتدار سنبھالا ہے، اْنہوں نے وزیر اعلیٰ کے لئے مخصوص شاندار کوٹھی میں رہائش اختیار کرنے اور اپنے لئے سیکیورٹی گارڈز رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور اْن سرکاری گاڑیوں میں سفر کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے، جو صاحب اقتدار طبقے کا طرّہ امتیاز بن چْکا ہے۔اْنہوں نے عام آدمیوں کے ساتھ میٹرو ٹرین سے سفر کرنے کو ترجیح دی۔ ان کے ساتھ جن چھ وزیروں نے حلف اْٹھایا ہے وہ سابق انجنئیر، وکیل اور صحافی ہیں، جو پہلے کبھی وزیر نہیں تھے۔ سویٹر اور گاندھی ٹوپی میں ملبوس کیجری وال نے اپنی پہلی تقریر میں زور دے کر کہا کہ رشوت ستانی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر حکومت کا کوئی فرد آپ سے رشوت مانگے۔ تو انکار مت کریں اور ہم آپ کو جو نمبر دیں گے اْس پر آپ ہمیں فون کریں، تاکہ ہم رشوت خور کو رنگے ہاتھوں پکڑ سکیں۔اخبار کہتا ہے کہ اگلے سال مئی کے اواخر میں جو عام انتخابات ہونگے، اْن میں عام آدمی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے خاصے ووٹ کاٹ سکے گی۔ اس وقت رائے عامّہ کے جائزوں کے مطابق، جنتا پارٹی، حکمراں کانگریس پارٹی سے آگے نکل چْکی ہے اور اْس نے شہروں میں رہنے والے متوسّط طبقے پر بْہت زیادہ تکیہ کر رکھا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں عام آدمی کب داخل ہوگا؟

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419478 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More