پروفیسر مظہر ۔۔۔۔۔ سرگوشیاں
حکمت کی عظیم الشان کتاب میں درج کر دیا گیا ہے ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے
ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی اور مغفرت کے بدلے عذاب‘‘۔ کون بَد بخت
مسلمان ایساہو گا جووطنِ عزیز میں اسلامی نظام کا نفاذ نہ چاہتا ہو۔پاکستان
توقائم ہی لا الہ اﷲ کی بنیاد پر ہوا تھا اور سیکولر دانشور جتنی جی چاہے
قلمی مو شگافیاں کریں یا الیکٹرانک میڈیا کو اپنے خیالات کے پرچار کے لیے
استعمال کریں لیکن صاحبانِ بصارت و بصیرت خوب جانتے ہیں کہ ا س دھرتی کی
بنیادیں اٹھانے والے معمار کے ذہن میں معمولی سی کجی بھی نہیں تھی ۔معمارِ
پاکستان حضرتِ قا ئد ؒنے اِس دھرتی کواسلام کا قلعہ قرار دیا اور فروری
1948ء میں امریکی عوام کے نام پیغام میں پاکستان کو پریمیئر اسلامی ریاست
کہا ۔سیکولر دانشور قائد کی جس 11 اگست 1947ء کی تقریر کا بار بار حوالہ
دیتے ہیں اُس میں بھی اسلام کے وہی روشن اصول بیان کیے گئے ہیں جو میرے آقا
ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں بیان کیے تھے ۔56 کا آئین ہو ، 62 کا یا 73 کا ،
سبھی کی بنیاد اسلام اورنام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے ۔اِس لیے یہ تو
طے ہے کہ آج نہیں تو کل بہرحال تمام قوانین کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالا ہی
جانا ہے ، سوال مگر یہ ہے کہ کیا اِس دھرتی کا مقدر کون سی شریعت ہو
گی؟۔شیعہ کی ، سُنّی کی ، دیو بندی کی یا اہل حدیث کی؟۔دین کو فرقوں اور
گروہوں میں بانٹنے والے عوام نہیں ، علمائے اکرام ہیں اور طالبان جو بندوق
کے زور پر اپنی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں ، وہ بھی اُنہی کے مدرسوں سے پڑھ
کر نکلے ہیں۔
حیرت ہوتی ہے کہ وزیرِ داخلہ جناب چوہدری نثار احمد اور محترم عرفان صدیقی
نے طالبان کی طرف سے کیے گئے ’’بھونڈے‘‘ مذاق کو بھی خوش آمدید کہا ۔مفاہمت
کے جنوں میں مبتلاء حاکمانِ وقت جس ’’طالبانی ناسورــ ‘‘ پر مفاہمت کی مرہم
رکھنے کی تگ و دَو میں ہیں ، اُس کی ناکامی اظہر مِن الشمس ہے کیونکہ ناسور
کے اندر بھرے موادِ بَدکو عملِ جراحی کی ضرورت ہوتی ہے ۔وثوق سے کہا جا
سکتا ہے کہ حاکمانِ وقت کو بعد از خرابیٔ بسیار ’’جراحی‘‘ کی طرف لوٹنا ہو
گا کیونکہ یہ طالبانی ٹولہ وہ ہے ’’جس نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی اور
مغفرت کے بدلے عذاب‘‘ ۔کوئی ذی شعور کبھی نہیں چاہے گا کہ وطنِ عزیز میں آگ
اور خون کا کھیل کھیلا جاتا رہے ۔ہر کسی کی اولین خواہش اور دعا یہی ہے کہ
مذاکرات ہوں اور کامیاب ہوں لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ طالبان کی غالب
اکثریت نہ پہلے کبھی مذاکرات کی حامی تھی اور نہ اب ہے ۔کچھ عرصہ پہلے تک
تو طالبان کا ترجمان شاہد اﷲ شاہد ببانگِ دہل کہتا تھا کہ ’’جنگ جاری رہے
گی اور فوج پر حملے بھی‘‘ ۔شاہد اﷲ شاہد کے اِس بیان کے بعد طالبان نے ارضِ
پاک کو بے گناہوں کے خون سے رنگین کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اِس میں کسی
حد تک کامیاب بھی رہے لیکن جب افواجِ پاکستان نے پلٹ کر بھرپور جواب دیا
اور پاکستان کے کونے کونے سے طالبان کے خلاف صدائیں بلند ہونے لگیں ، تب
طالبانی حلقوں کی جانب سے مذاکرات کی رَٹ لگا ئی جانے لگی اور حاکمانِ وقت
جواپنے آپ کو ذہنی طور پر ایکشن کے لیے تیار کر چکے تھے ایک دفعہ پھر امن
اور شانتی کی فاختائیں اڑانے لگے ۔وزیرِ اعظم میاں نواز شریف صاحب کے قومی
اسمبلی میں پالیسی بیان سے پہلے ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ وزیرِ اعظم
طالبان کے خلاف ایکشن کے لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے لیکن اُنہوں نے
چار افراد پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کرکے دھماکہ کر دیا ۔اب طالبان
نے جس پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا ہے اُس کا طالبان سے براہِ
راست تو کوئی تعلق نہیں لیکن وہ طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے اور مذاکرات
کے حامی ضرور خیال کیے جاتے ہیں ۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ طالبان کے مقرر کردہ
کمیٹی پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتی ہے اور آئینی حدود کے اندر ہی مذاکرات
کی حامی ہے جبکہ طالبان پاکستانی آئین کو کسی بھی صورت میں ماننے کو تیار
نہیں ۔ طالبانی کمیٹی کے ارکان جمہوریت پر یقین ر کھتے ہیں اور اسی کے تحت
الیکشن لڑتے اور اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں جبکہ طالبان جمہوریت کو ’’کفریہ
نظام‘‘ کہتے ہیں ۔وہی طالبان جنہوں نے محترم عمران خاں کو اپنا مذاکراتی
نمائندہ مقرر کیا ، کچھ عرصہ پہلے اُنہی کے ترجمان شاہد اﷲ شاہ نے کہا تھا
کہ ’’اگر عمران خاں کو مذاکرات کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے وہ کفریہ نظام کو
چھوڑ کر باہر آئیں ‘‘۔عمران خاں صاحب اور مولانا فضل الرحمٰن نے مذاکراتی
کمیٹی کا حصّہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ مولانا سمیع الحق صاحب نے کہا کہ
عمران خاں صاحب کو ضرور مذاکراتی عمل میں شریک ہونا چاہیے اور اگر اُنہوں
نے ایسا نہ کیا تو اُن کی ساکھ بُری طرح مجروح ہو گی لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ
اگر خاں صاحب نے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں شمولیت کی حامی بھر لی ہوتی
تو یہ اُن کی سیاسی موت ہو تی اور قوم اُنہیں ہمیشہ ’’ طالبان خاں‘‘ ہی کہا
کرتی ۔طالبان کے استاد مولانا سمیع الحق کہتے ہیں کہ مذاکرات سے پہلے تمام
طالبان قیدیوں کی رہائی ضروری ہے ۔مولانا صاحب کا ہر وقت طالبان سے رابطہ
رہتا ہے اور وہ طالبان کے راز داں بھی ہیں اِس لیے وثوق سے کہا جا سکتا ہے
کہ یہ مولانا صاحب کی تجویز نہیں بلکہ طالبان کا مطالبہ ہے ۔ کیا آئینِ
پاکستان اُن دہشت گردوں کو رہا کرنے کی اجازت دے گا جن کے ہاتھ ہزاروں بے
گناہ پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہیں ؟۔اگرآئین و قانون میں ایسی گنجائش
پیدا کی جا سکتی ہے تو پھر اُن سبھی قیدیوں کو بھی رہا کرکے عام معافی کا
اعلان کرنا ہو گا جن کے کیسز دہشت گردی کورٹ میں جاری ہیں یا جنہیں سزا دی
جا چکی ہے ۔حاکمانِ وقت خود ہی سوچ لیں کہ کیا وہ تمام قاتلوں ، ڈاکوؤں ،
دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کو رہا کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے ؟۔میرے آقا ﷺ
کا فرمان تو یہی ہے کہ وہ قومیں برباد ہو جاتی ہیں جو زور آوروں کو چھوڑ
دیتی اور کمزوروں کو سزا دیتی ہیں ۔ اسلامی شریعت کے علم بردار کہلانے والے
طالبان کو چاہیے کہ آقا ﷺ کے اِس فرمان پر عمل کرتے ہوئے صرف طالبان قیدیوں
کو نہیں بلکہ تمام قاتلوں کی رہائی کا مطالبہ کریں ۔
لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز نے حکومتِ وقت سے اسلامی شریعت کے نفاذ
کا مطالبہ کیا ہے ۔ مولانا صاحب کا فرمان بجا اور تحقیق کہ یہ ہر مسلمان کی
آرزو ہے لیکن یہ مولانا بھی جانتے ہیں کہ یہ کام اتنا آسان نہیں کیونکہ
ہمارے علماء اکرام مسالک کے مباحث میں اتنا الجھ چکے ہیں کہ ایک عامی
مسلمان کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ دین کی اصل روح کیا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ
حکومتِ وقت بھی اِس معاملے میں خاموشی کی ’’بُکل‘‘ مارے ہوئے ہے کیونکہ
شیعہ، سُنّی ، دیو بندی ، بریلوی اور اہلِ حدیث فرقوں میں دینِ مبیں کے
پچانوے فیصداحکامات پر اتفاق کے باوجود صرف پانچ فیصد فقہی مسائل ایسے ہیں
جنہوں نے اتحادِ اُمت کو پارہ پارہ کر دیا ہے ۔یہ کام صرف آئین کے تحت
تشکیل دی گئی اسلامی نظریاتی کونسل ہی کر سکتی ہے جو عرصۂ دراز سے فعال
نہیں ۔
مذاکراتی کمیٹی کے علاوہ طالبان نے مذاکرات کی نگرانی کے لیے دَس رکنی
طالبان کمیٹی بھی قائم کر دی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ طالبان کی تین
رکنی کمیٹی ، حکومت کی چار رُکنی کمیٹی سے مذاکرات کرے گی اور پھر یہ کمیٹی
طالبان کے امیر، مُلّافضل اﷲ کی قیادت میں تحریکِ طالبان کی سیاسی اور
مرکزی شوریٰ کے ارکان سے ملاقاتیں کرے گی ۔طالبان کے اِس انتظام و انصرام
کا تو تبھی فائدہ ہو گا جب مذاکرات کے ایجنڈے پر اتفاق ہو گا ۔ خُدا کرے کہ
کوئی متفقہ ایجنڈا سامنے آ جائے لیکن فی الحال تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ۔
|