مذاکرات کی مخالفت آخر کیوں؟

حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا سفر کافی بہتر طریقے سے جاری ہے۔ حکومت اور طالبان کی کمیٹیاں امن کے قیام کے حوالے سے اچھی امید کی نوید سنارہی ہیں۔دونوں فریق بھی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔پوری قوم کی نظریں حکومت طالبان مذاکرات پر لگی ہوئی ہیں اور ہاتھ ان مذاکرات کی کامیابی کی دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہیں۔ ملک کی اکثریت ان مذاکرات کے حوالے سے نیک تمنا رکھتی ہے، کیونکہ ایک طویل عرصے بعداغیار کی جنگ سے نکلنے کا شاید ان مذاکرات کے ذریعے ہی کوئی راستہ میسر آجائے۔ پیپلز پارٹی سمیت کچھ قوتیں ان حالات میں بھی مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے آپریشن کا راگ الاپ رہی ہیں۔ ان قوتوں کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ قوتیں اس بات کی خواہاں ہیں کہ کسی طرح یہ مذاکرات ناکام ہوجائیں اور آپریشن کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اورسینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے۔ طالبان حکومت کو مات پہ مات دے رہے ہیں اور لگتا ہے کہ چند ہفتوں میں شہ مات دیں گے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ خانہ جنگی میں ملوث گروپ کے ساتھ حکومت نے برابری کی سطح پر مذاکرات کیے ہوں۔ ہم ایک مسلک کے مطابق سفارشات اور مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کی عورت، مزدور اور عام شہریوں کے حقوق کو پامال نہیں ہونے دیں گے،جبکہ اس سے ایک روز قبل جب پارلیمنٹ کے متعدد ارکان اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے مذاکرات کی حمایت میں تقاریر کیں تو بی بی کی پارٹی دو حصوں میں بٹ گئی۔پی پی کے کچھ ارکان مذاکرات کی مخالفت پر کمربستہ آپریشن کا راگ الاپنے لگے اور اپنے ہی رہنما خورشید شاہ کے مخالفت پر اتر آئے اورپیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی پالیسی واضح ہے۔سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر عبدالرحمن ملک کا کہناتھا کہ وزیراعظم کو سمجھنا چاہیے کہ اس صورتحال میں مذاکرت کا کیا نتیجہ نکلے گا۔

مذاکرات کے حامی رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کرنے والے امن کو موقع نہیں دینا چاہتے۔دنیا میں جنگیں بالآخر بات چیت پر ہی ختم ہو تی ہیں۔ حکومت نے حالات کا ادراک کرکے مذاکرات کی ابتدا کی ہے، جس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ امید ہے ان مذاکرات کے بعد ملک امن کا گہوارہ بن جائے، مذاکرات مخالف قوتیں آپریشن کے ذریعے نجانے کس طرح امن قائم کرنا چاہتی ہیں۔آپریشن کا راگ الاپنے والوں کو یہ بات مدنظر رکھنا چاہیے کہ آپریشن تو طالبان کے خلاف ایک عرصے سے جاری ہے۔خود پیپلز پارٹی بھی اپنے دور حکومت میں آپریشن میں الجھی رہی ہے۔ متعدد بار طالبان کے خلاف چھوٹے بڑے آپریشن کیے جاچکے ہیں، اس کے باوجود نہ تو ابھی تک ملک میں امن قائم ہوا ہے اور نہ ہی طالبان اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹے ہیں،بلکہ امریکا کی اس جنگ کے نتیجے میں اب تک پچاس ہزار کے لگ بھگ افراد اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں بدامنی میں اضافہ ہی ہوا ہے، امن نہیں آیا۔ اگر مزید طاقت استعمال کی گئی تو اس سے بدامنی میں مزید اضافہ ہی ہوگا، کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ بڑے سے بڑے آپریشن کے ذریعے بھی پاکستان سے طالبان کا وجود ختم نہیں کیا جاسکتا، طالبان چند افرادکا کوئی چھوٹاسا گروپ نہیں، جنہیں آسانی سے ختم کردیا جائے۔ جب ان کو ملک سے ختم کرنا ممکن نہیں اور متعدد آپریشن بھی ان کے سامنے ناکام ہوئے ہیں، تو اب ایک بار پھر آپریشن کرکے کیسے ان کو ختم کیا جاسکتا ہے؟اور اس صورت میں ملک کو جو نقصان ہوگا اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

ویسے بھی خون ریزی کبھی بھی کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہوا کرتی۔ لڑائی کے ذریعے کبھی بھی لڑائی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جس ملک میں بھی آج تک لڑائی کو لڑائی کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، وہاں سوائے بربادی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ خانہ جنگی اور طاقت کے استعمال سے کہیں بھی امن قائم نہیں ہوسکا۔ دنیا میں سب سے زیادہ ہیروں اور قیمتی لکڑی کے وسائل سے مالامال ملک لائبیر یانے جب لڑائی کو لڑائی کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی تو ملک برباد ہوگیا تھااور دارالحکومت کے لوگ دو سال تک پانی اور بجلی کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے تھے، یہاں تک کہ دنیا اس ملک کو عالمی قبرستان کا نام دینے پر مجبور ہوئی۔ انگولا سے روزانہ بیس لاکھ بیرل تیل نکلتا تھا، یہ دنیا میں ہیروں کا دوسرا بڑا مرکز بھی تھا، خانہ جنگی اس ملک کے 20 لاکھ لوگوں کو کھاگئی اور ملکی معیشت کو 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یوگنڈا کی فی کس آمدنی 949 ڈالر تھی، بدامنی کی وجہ سے پانچ سال بعد اس کی فی کس آمدنی 31 ڈالر رہ گئی۔ اریٹریا کا اسمارہ دنیا کا واحد مقام تھا کہ امریکا سمیت پوری دنیا ٹیلی کام کے جدید نظام کے لیے اس کی محتاج تھی، مگر یہ ملک بھی اندرونی تنازعات کا شکار ہوا اور کوڑی کوڑی کا محتاج ہوگیا۔ ایسے متعدد ممالک ہیں جہاں لڑائی کو لڑائی کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ برباد ہوگئے۔ آج بھی جن ممالک میں دنگا فساد ہورہا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے آپریشن کی بات کی، اگر آج وہ بھی مذاکرات کی بات کریں تو امن قائم ہوسکتا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ مذاکرات ہی امن قائم کرنے کا پہلا اور آخری حل ہےں۔جنگوں کا انجام مکمل تباہی یا پھر مذاکرات پر ہی ہوتا ہے۔

تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ بہت سے ممالک میں برسوں جاری رہنے والی جنگ و جدل کے بعد بھی مذاکرات ہی کے ذریعے امن کا قیام ممکن ہوا۔ آج تک بہت سے ممالک نے امن کے قیام کے لیے خطرناک دشمنوں سے بھی مذاکرات کیے ہیں۔ الجیریامیں دس سالہ خانہ جنگی میں ایک لاکھ لوگ مارے گئے، پورا ملک برباد ہوگیا،دس سال بعد متحارب گروپوں سے مذاکرات ہوئے، معاہدے ہوئے، معافی تلافی ہوئی اور الجیریا میں ایک بار پھر امن قائم ہوگیا۔ امریکا کو پہلے ویت نام اور اب گیارہ سال جنگ کے بعد اپنے خطرناک دشمنوں طالبان کے ساتھ بالآخر مذاکرات کرنے پڑ رہے ہیں۔ برطانیہ، سری لنکا، فلپائن، بھارت اور بہت سارے ممالک مسلح گروپوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے طویل لڑائی کو ختم کرکے امن سے رہ رہے ہیں۔اب جبکہ پاکستان کی اکثریت اس بات پر متفق ہوچکی ہے کہ ملک میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات انتہائی ضروری ہیں اور مذاکرات کا عمل کامیابی کے ساتھ جاری بھی ہے تو اس کوشش کو کامیاب ہونے دینا چاہیے، آپریشن کی بات ہی نہیں کرنی چاہیے، تاکہ ملک میں امن قائم ہو۔ اصل مقصد تو ملک میں امن کا قیام ہے، دشمن تو کسی حال میں بھی ہمارے ملک میں امن نہیں چاہتا، وہ مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش میں ہے۔ مذاکرات کے مخالفین اغیار کے طرز عمل کو اپنائے ہوئے ہیں تو انہیں یہ رویہ ترک کردینا چاہیے اور ملک کی بہتری کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ان حالات میں مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے آپریشن کا راگ الاپنے سے ملک کا فائدہ نہیں، نقصان ہی ہوگا۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 647343 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.