حضرت مولانا یوسف ؓ کاندھلویؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ
فرماتے ہیں حضرت عمر بن خطاب ؓ ایک مجلس میں تھے اور ان کے ارد گرد حضرا ت
مہاجرین اور انصار بیٹھے ہوئے تھے حضرت عمر ؓ نے فرمایا ذرا یہ بتانا کہ
اگر میں کسی کام میں ڈھیل برتو ں تو تم کیا کرو گے تمام حضرات ادباً خاموش
رہے حضرت عمر ؓ نے اپنی اس بات کو دو تین مرتبہ دہرایا تو حضرت بشیر بن سعد
ؓ نے فرمایا اگر آپ ایسا کریں گے تو ہم آپ کو ایسا سیدھا کردیں گے جیسے تیر
کو سیدھا کیا جاتا ہے اس پر حضرت عمر ؓ نے ( خو ش ہو کر ) فرمایا پھر تو تم
لوگ ہی (امیر کی مجلس میں بیٹھنے کے قابل ہو) پھر تو تم لوگ ہی ( امیر کی
مجلس کے قابل ہو)
حضرت موسیٰ بن ابی عیسی ؒ کہتے ہیں حضرت عمر بن خطاب ؓ قبیلہ بنو حارثہ کی
پانی کی سبیل کے پاس آئے وہاں انہیں محمد بن مسلمہ ؓ ملے حضرت عمر ؓ نے
فرمایا اے محمد ؓ مجھے کیسا پاتے ہو انہوں نے کہا اﷲ کی قسم میں آپ کو ویسا
پاتا ہو جیسا میں چاہتا ہوں اور ہر وہ آدمی چاہتا ہے جو آپ کے لیے بلا
چاہتا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مال جمع کرنے میں خوب زور دار ہیں لیکن آپ
خود مال سے بچتے ہیں اور اسے انصاف سے تقسیم کرتے ہیں اگر آپ ٹیڑھے ہو گئے
تو ہم آپ کو ایسا سیدھا کر دیں گے جیسے اوزار سے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے
حضرت عمر ؓ نے ( خوش ہو کر ) فرمایا اچھا ( تم مجھے کہہ رہے ہو کہ ) اگر آپ
ٹیڑھے ہو گئے تو ہم آپ کو ایسا سیدھا کر دیں گے جیسے اوزار سے تیر کو سیدھا
کیا جاتا ہے پھر فرمایا اﷲ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایسے لوگوں میں ( امیر
) بنایا کہ میں اگر ٹیڑھا ہو جاؤ ں تو وہ مجھے سیدھا کر دیں ۔
قارئین بلوچ آزادکشمیر کا دور افتادہ اور سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے
والے علاقوں میں سے ایک علاقہ ہے بلوچ کے رہنے والے لوگ سیدھے سادے ،محنتی
،جفاکش ،دیانتدار اور دین دار ہیں دینی شغف کا اندازہ آپ بلوچ اور اس کے
ملحقہ قصبات اور دیہات کی مساجد میں نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ کے بڑے بڑے
اجتماعات سے با آسانی لگا سکتے ہیں بلوچ کے باسی روزگار اور رزق کی تلاش
میں مشرق وسطی کے مختلف علاقوں میں بھی موجود ہیں بلوچ کی سیٹ پر ضمنی
الیکشن کروانے کی وجہ اختر حسین ربانی کی وفات ہے اختر حسین ربانی نے اس
حلقے میں ریکارڈ پانچ مرتبہ کامیابی حاصل کی تھی یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے
خالی نہیں ہے کہ اختر ربانی مرحوم نے وزیر ہونے کے باوجود وزیراعظم
آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد میں
بیرسٹر سلطان محمو د چوہدری کا ڈنکے کی چوٹ پر ساتھ دیا تھا اور مختلف
وجوہات کی بناء پر وہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے نالاں تھے اختر حسین
ربانی مرحوم کی وفات کے بعد وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے کمال بصیرت اور
سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے خاندان کے سر پر ہاتھ رکھا اور ان کے
بیٹے فہیم ربانی کو پارٹی ٹکٹ دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا حالانکہ بلوچ
کے اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے دیگر چند سینئر جیالے امید لگائے بیٹھے تھے کہ
پارٹی ٹکٹ انہیں دیا جائے گا وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے نا خود ایسا کیا
اور نہ ہی ایسا کرنے کی کسی دوسرے کو اجازت دی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شروع
میں تو چند اختلافی آوازیں بلند ہوئیں لیکن جب پاکستان پیپلزپارٹی کی
آزادکشمیر کے امور کی سربراہ محترمہ فریال تالپور نے فہیم ربانی کو حتمی
ٹکٹ جاری کر دیا اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے ہمراہ فہیم ربانی سے
ملاقات کی تو تمام اختلافی رائے رکھنے والے جیالے پیچھے ہٹ گئے ۔وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید نے اپنی ’’ ہیوی ویٹ کابینہ ‘‘ کے ہمراہ بلوچ میں ڈیرے
ڈال لیے اور ڈور ٹو ڈور کمپین شروع کر دی دوسری جانب سابق وزیر فاروق طاہر
کے بارے میں بھی دستیاب حقائق انتہائی دلچسپ ہیں مسلم لیگ ن آزادکشمیر کی
دیگر مرکزی قیادت کی طرح فاروق طاہر کا بیک گراؤنڈ بھی مسلم کانفرنس کا ہے
لیکن وہ مسلم لیگ ن قائم کرنے والے اولین لوگوں میں سے نہیں ہیں بلکہ
2011کا الیکشن انہوں نے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے لڑا تھا اور چند سو
ووٹوں کے فرق سے وہ یہ الیکشن اختر حسین ربانی مرحوم سے ہار گئے تھے فاروق
طاہر ایک ماہر اور سرد گرم چشیدہ سیاست دان ہیں اور ان کی انتخابی مہم میں
اس وقت مسلم لیگ ن کی تمام قیادت بشمول سابق وزیراعظم صدر مسلم لیگ ن
آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان ،ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق ،جنرل
سیکرٹری مسلم لیگ ن و سابق سپیکر شاہ غلام قادر سمیت مختلف قائدین صبح شام
جوڑ توڑ اور میل ملاقاتوں میں مصروف ہیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں ایک
اور انتہائی دلچسپ قدر مشترک ہے اور بقول سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد
خان یہ دونوں ’’ غیر ریاستی جماعتیں ‘‘ اس وقت رائے ونڈ لاہور اور نوڈیرو
لاڑکانہ میں ہونے والے فیصلوں کی تابع ہیں اور ان دونوں غیر ریاستی جماعتوں
کی غیر ریاستی پاکستانی قیادت بلوچ میں ہونے والے اس الیکشن میں کشمیری
عوام کو ’’ اپنے اپنے ڈولوں ‘‘ جنہیں انگریزی زبان میں Biceps کہا جاتا ہے
سے مرعوب کرنے میں مصروف ہیں ایک طرف سے وزیرا مور کشمیر و گلگت بلتستان
چوہدری برجیس طاہر تشریف لا رہے ہیں تو جواب آں غزل پیپلزپارٹی کی طرف سے
قمر الزمان کائرہ ،محترمہ فریال تالپور ،راجہ پرویز اشرف اور دیگر مرکزی
قائدین توپ کا گولہ داغ دیتے ہیں ’’ فرینڈلی فائرنگ ‘‘ کے نتیجے میں ان
مرکزی قائدین پر کچھ اثر پڑے یا نہ پڑے لیکن آزادکشمیر کی مروت او ر
رواداری پر مبنی ماضی کی تمام روایات پر اثرات ضرور پڑ رہے ہیں اور دیکھنے
میں آیا ہے کہ اس ضمنی الیکشن میں دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے
کے متعلق نازیبا زبان بھی استعمال کر رہے ہیں اور ایسے ایسے ہتھکنڈے بھی
استعمال ہو رہے ہیں جن کاماضی میں کبھی تصور بھی نہ کیا جاتا تھا ۔سب سے
شرم ناک واقعہ جو میڈیا پر رپورٹ ہو اہے وہ تحریک انصاف کے امیدوار ماجد
رشید کو بقول ان کے سیاسی رشوت پیش کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی طر ف سے انہیں
خریدنے کی کوشش تھی میڈیا پر ہی آج کی اپ ڈیٹس کے مطابق پاکستان تحریک
انصاف آزادکشمیر نے پیپلزپارٹی پر ان کی جماعت کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے
الزام میں دو ارب روپے کا ہرجانہ ادا کرنے کا قانونی نوٹس جاری کر دیا ہے
اب اس معاملے کا فیصلہ عدالت کرے گی کہ پیپلزپارٹی نے یہ جرم کیا ہے کہ
نہیں لیکن آزادکشمیر کے عوام یہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ایک طرف تو
پیپلزپارٹی نے یہ دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف آزادکشمیر کے حلقہ بلوچ کے
امیدوار قانون ساز اسمبلی ماجد رشید پیپلزپارٹی کے امیدوار فہیم ربانی کے
حق میں بیٹھ گئے ہیں دوسری طرف میڈیا پر یہ رپورٹ بھی آئی کہ ماجد رشیدکو
مبینہ طور پر پچاس لاکھ روپے کی سیاسی رشوت بھی دی جا رہی ہے اور ان کے حکم
کے مطابق ان کی پارٹی کے دس کے قریب نوجوانوں کو گزیٹڈ آسامیوں پر تعینات
بھی کیا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں وزیراعظم آزادکشمیر کا خصوصی
مشیر بھی مقرر کیا جا رہا ہے ۔اس موقع پر ایک دن کے لیے ماجد رشید پر اسرار
طو رپر ’’لا پتہ ‘‘ ہو گئے اور تحریک انصا ف آزادکشمیر کے مرکزی رہنما راجہ
مصدق اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر انہیں جگہ جگہ
تلاش کرتے رہے ۔’’ بازیاب ‘‘ ہونے کے بعد ماجد رشید نے راجہ مصد ق کے ہمراہ
پریس کانفرنس کی اور پیپلزپارٹی کی طرف سے اخبارات میں دیئے جانے والے
اشتہارات اور کمپین کو ’’ کھلا جھوٹ ‘‘ قرار دے دیا کہ وہ پیپلزپارٹی کے
امیدوار کے حق میں بیٹھ گئے ہیں ۔یہ تمام معاملہ بلوچ کے عوام کے ساتھ ساتھ
پورے آزادکشمیر ک باسی انتہائی افسوس کے ساتھ دیکھ رہے ہیں تیسری امیدوار
جو اس وقت مسلم کانفرنس کی نمائندگی کر رہے ہیں ان کا نام ملک فاروق
انقلابی ایڈووکیٹ ہے ان کی الیکشن مہم ماضی کی ’’ سواد اعظم‘‘جماعت کے
اکیلے رہ جانے والے قائد سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان ’’ بقلم خود ‘‘
چلا رہے ہیں اور ان کا یہ دعوی ہیکہ وہ غیر ریاستی جماعتوں کو شکست فاش دیں
گے ان تمام جماعتوں کے دعوے اپنی جگہ پر لیکن بلوچ کا موجودہ الیکشن ایک
ٹیسٹ کیس ہے جو آزادکشمیر کے عوام کے آئندہ کے رجحان کو ظاہر کرے گا کہ وہ
اپنا وزن آئندہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے پلڑے میں ڈالیں گے ،مسلم
لیگ ن آزادکشمیر کو ’’شرفِ خدمت ‘‘ بخشیں گے یا مسلم کانفرنس کم بیک
کاکارنامہ انجام دیگی بلوچ کے یہ انتخابات خدا نہ کرے انتہائی سنسنی خیز
اور خونی انتخابات دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن آزادکشمیر
پیپلزپارٹی کی حکومت پر بد عنوانی کے الزامات لگا رہی ہے پیپلزپارٹی
آزادکشمیر کا حکومتی کیمپ وزیر امور کشمیر برجیس طاہر پر برس رہا ہے اور
مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق احمد خان ان دونوں ’’ غیر ریاستی جماعتوں
‘‘ کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اﷲ کشمیر ی عوام کے حال پر رحم کرے اور اﷲ کرے
کہ کسی بھی بے گناہ انسان کی جان ان انتخابات کی نذر نہ ہو ۔ظاہری طور پر
ہمدردی کا ووٹ سابق وزیر اختر ربانی مرحوم کے صاحبزادے فہیم ربانی کو ملتا
ہوا دکھائی دے رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اعوان برادری کا اکثریتی ووٹ
بنک شکیل اعوان سابق ممبر نیشنل اسمبلی اور راجہ فاروق حیدر خان کی مشقت کی
وجہ سے فاروق طاہر کو ملتا ہوا دکھائی دیتا ہے مقابلہ اس وقت برابر کا ہے ۔
قارئین یہاں پر ہم بلوچ کے الیکشن کے اکھاڑے سے اٹھنے والی دھول میں نظر نہ
آنے والے ایک انتہائی سنگین خطرے سے سب لوگوں کو دوبارہ آگاہ کر رہے ہیں
اور وہ خطرہ آزادکشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز کے بلیک لسٹ ہونے کا ہے ہمارے
انتہائی مصدقہ ذرائع نے ہمیں یہ اطلاعات پہنچائی ہیں کہ آج سے چند ہفتے قبل
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے اے جے کے میڈیکل کالج مظفرآباد او ر
ایم بی بی ایس میڈیکل کالج میرپور کا ایک سرپرائز وزٹ کیا تھا اس اچانک
دورے کے دوران پی ایم ڈی سی نے دونوں میڈیکل کالجز کی ٹیچنگ فیکلٹی ،ٹیچنگ
ہاسپیٹلز اور دیگر سہولتوں کا معائنہ کرنے کے بعد جو رپورٹ شائع کی ہے وہ
ابھی تک آزادکشمیر حکومت کو تو موصول نہیں ہوئی ہے لیکن یہ اہم ترین خط ہم
تک پہنچ چکا ہے اس خط کے مطابق پی ایم ڈی سی نے آزادکشمیر حکومت کو وارننگ
دی ہے کہ ان دونوں میڈیکل کالجز میں ٹیچنگ فیکلٹی پوری نہیں ہے ،ان میڈیکل
کالجز سے منسلک ٹیچنگ ہسپتال اس قابل نہیں ہیں کہ میڈیکل کالجز میں تعلیم
حاصل کرنے والے طلباء و طالبات وہاں پر عملی تعلیم حاصل کر سکیں اور اسی
طرح ان دونوں میڈیکل کالجز کی دیگر فنی و طبی سہولیات اپ گریڈ کرنے کی
ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ ان دونوں میڈیکل کالجز کے پروفیسرز اور تمام عملے
کو گزشتہ تین سے پانچ ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں جس سے ظاہر ہو رہا
ہے کہ آزادکشمیر حکومت اس قابل نہیں ہے کہ وہ ان میڈیکل کالجز کی مالی
معاونت کر سکے اس لیے پی ایم ڈی سی آزادکشمیر حکومت کو وارننگ دیتی ہے کہ
صورتحال درست کی جائے بصورت دیگر آزادکشمیر کے میڈیکل کالجز میں آئندہ سال
داخلوں پر پابندی لگا دی جائے گی ہمارے ان انتہائی مصدقہ ذرائع اور خبر
لانے والے ’’ کبوتر ‘‘ نے یہ بھی بتایا ہے کہ پی ایم ڈی سی کے موجودہ
چیئرمین او ر سابق چیئرمین ڈاکٹر عاصم نے بھی وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری
عبدالمجید کو فون کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے
پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کو غیر قانونی انداز میں بر طرف کرنے
کے معاملے پر بھی شدید ترین برہمی کا اظہار کیا ہے اور پی ایم ڈی سی نے ایک
انتہائی سخت زبان پر مبنی مکتوب سرکاری سطح پر حکومت آزادکشمیر کو تحریر کر
دیا ہے جس میں واضح طورپر پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کی بحیثیت پرنسپل
برطرفی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر بحال کرنے کا حکم
دیا گیا ہے اس مکتوب میں پی ایم ڈی سی نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ کسی بھی
پرنسپل یا پروفیسر کو پانچ سال سے پہلے فارغ نہیں کیا جا سکتا اور مڈ سیشن
میں کسی بھی پرنسپل کو فارغ کرنا غیر قانونی ہے قانون کے مطابق صرف اکتوبر
اور دسمبر میں کسی بھی پرنسپل کو برطرف کیا جا سکتا ہے جبکہ پروفیسر ڈاکٹر
عبدالرشید میاں کی برطرفی دوران سیشن فروری کے مہینے میں عمل میں لائی گئی
قانونی بنیادوں پر یہ برطرفی متنازعہ بن چکی ہے ۔
قارئین چونکہ حکومت آزادکشمیر اور اپوزیشن اس وقت الیکشن کی گتھیاں سلجھانے
میں مصروف ہیں اس لیے دونوں ہیوی ویٹ جماعتوں کی ذرا برابر توجہ بھی میڈیکل
کالجز میں اٹھنے والے طوفان کی طرف نہیں ہے یہاں ہم آپ پڑھنے والوں کو
بتاتے چلیں کہ تھرڈ ایئر کی کلاسز جب میڈیکل کالجز میں شروع ہوتی ہیں تو پی
ایم ڈی سی کا واضح قانون ہے کہ فیکلٹی میں پروفیسر ز کی تعداد کم از کم
23ہونی چاہیے جبکہ ایم بی بی ایس میڈیکل کالج میرپور میں پروفیسر کی تعداد
16سے کم ہو کر اب 14ہو گئی ہے اور مظفرآباد میڈیکل کالجز میں صرف 4پروفیسرز
باقی رہ گئے ہیں پانچ پروفیسرز نے مظفرآباد میڈیکل کالج سے استعفیٰ دے کر
میرپور میں قائم ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج محی الدین اسلامک میڈیکل کالج کو
جائن کر لیا ہے کچھ ایسی ہی صورتحال غازی ملت میڈیکل کالج راولاکوٹ کی بھی
ہے یہ میڈیکل کالجز وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے انتہائی جذبے اور محبت سے
قائم کیے تھے اور یوں دکھائی دے رہے کہ ایک خاص لابی وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید کو غلط بریفنگ دیتے ہوئے انہی کے ہاتھوں یہ میڈیکل کالجز بلیک
لسٹ او ر بعد ازاں بند کروانا چاہتی ہے اگر یہ میڈیکل کالجز واقعی بلیک لسٹ
ہو گئے تو یہ آزادکشمیر میں پیپلزپارٹی کی سیاسی خود کشی اور سیاسی موت ہو
گی ہمیں امید ہے کہ انتہائی جہاندیدہ اور دانشمند وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید ایسا نہیں ہونے دیں گے اور وہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کو
فوری طو ر پر پرنسپل کی حیثیت سے بحال کر کے اخلاقی جرات کی ایک بڑی مثال
پیش کریں گے بقول غالب ہم یہاں یہ کہتے چلیں ۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی ء تحریر کا
کاغذی ہے پیر ہن ہر پیکر ِتصویر کا
کا وکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا ،لانا ہے جوئے شیر کا
جذبہ ء بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینہ ء شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہیے بچھائے
مُدعا عنقاہے اپنے عالمِ تقریر کا
بس کہ ہوں غالب ،اسیری میں بھی آتش زیریا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
قارئین ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ اس انتہائی سنگین صورتحال کے حوالے سے اب
کونسا دروازہ اور کونسی ’’ عدل کی زنجیر ‘‘ کھٹکھٹائیں او رہلائیں کہ جہاں
سے ہمیں انصاف ملے ۔حکومت اس وقت حکومت کرنے میں مصروف ہے ،اپوزیشن اپنی
حزب اختلاف کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے ہر کوئی اپنا اپنا ’’ ٹل ‘‘ کھڑ کا
رہا ہے وہاں سمجھ نہیں آتا کہ ہم کیا کریں ۔بحیثیت صحافی ہم اپنے خون کے
آنسو ؤں کے ساتھ لکھتے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک افلاک سے نالوں کا جواب
نہیں آ رہا ۔اﷲ کشمیری قوم کے حال پر رحم فرمائے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک وکیل نے شدید بیماری کے عالم میں وصیت لکھوائی
’’ میرے مرنے کے بعد میری تمام دولت پاگلوں میں تقسیم کر دی جائے ‘‘
دوست وکیل وصیت لکھتے لکھتے اچھل پڑا اور بولا
’’ پاگلوں میں تقسیم کر دی جائے لیکن کیوں ؟‘‘
وکیل نے جواب دیا
’’ اس لیے کہ مجھے یہ ساری دولت پاگلوں ہی سے ملی ہے ‘‘
لگتا ہے کہ سیاسی قیادت بھی عوام کو پاگل سمجھ کر ان کے احساسات ،جذبات اور
تاثرات کا مذاق اڑاتی ہے عوام کے ووٹ سے ہی حکومت بناتی ہے حکومت بنا کر
دولت بناتی ہے اور بعد ازاں وصیت کرتے ہوئے تمام مال و دولت اپنی ہی آل
اولاد کے نام کر جاتی ہے ان پاگلوں کو واپس نہیں دیتی جن پاگلوں نے یہ دولت
انہیں دی ہوتی ہے ۔میڈیکل کالجز کے معاملے کو سنجیدہ انداز میں سمجھا جائے
بصورت دیگر بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے اور ہاتھ ملنے کے علاوہ بعد میں کوئی
بھی آپشن باقی نہیں رہے گا ۔ |