اسلام آباد میں منعقد’’افغانستان میں امن و مفاہمت‘‘ کانفرنس کا احوال

امریکی اخبار اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق وہائٹ ہاؤس نے افغانستان سے فوجی انخلاء کو فی الحال ملتوی کر دیا ہے۔ امریکی فوجی حکام کے مطابق جب تک افغان صدر حامد کرزئی اپنی مدت صدرات مکمل ہونے سے قبل مجوزہ امریکی سیکورٹی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے اس وقت تک امریکہ فوجی انخلاء کے منصوبے پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ ایک افسر کے مطابق کرزئی اس سمجھوتہ پر دستخط نہیں کریں گے،کیوں کہ وہ افغانستان کے عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اخبار میں مزید کہا گیا کہ فوجیوں کی واپسی اکا ایک نیا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جو پینٹاگون کے پلان پر مبنی ہے ۔

وہائٹ ہاؤس نے اس سلسلے میں کہا کہ وہ اپنے پچھلے بیان پر قائم ہے وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ باہمی معاہدہ ہے نہ ہونے کی صورت میں تمام امریکی فورسز سال کے آخر میں افغانستان چھوڑ دیں گی اور یہ کہ کرزئی کو چندہفتوں کے اندر اس ضمن میں دھمکی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سیکورٹی معاہدہ اپریل کے الیکشن کے بعد ہی ہو گا۔ قبل ازیں رواں ماہ نیٹو کے سربراہ اینڈ رس فوک راسموس نے کہا تھا کہ کرزئی کے ذریعہ معاہدے پر دستخط کا امکان نہیں ہے وہ یہ فیصلہ اپنے جاں نشین پر چھوڑنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکہ پر ہونے والے 11ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کی تھی اور 12سال تک یہاں فوجی کاروائی بعد 2014کے آخر تک فوج ہٹانے کا منصوبہ تھا تاہم اس کے بعد بھی وہ اپنے 10ہزار فوجی افغانستان میں باقی رکھنا چاہتا ہے جس پر کرزئی راضی نہیں ہو رہے ہیں صدر کرزئی کی جانب سے ٹال مٹول کے بعد امریکی اعلی فوجی اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

ادارہ فکروعمل کے زیراہتمام دو روزہ قاضی حسین احمد میموریل انٹرنیشنل کانفرنس منعقد ہوئی۔کانفرنس کا موضوع افغانستان میں امن و مفاہمت تھا۔دوروزہ کانفرنس کا اہتمام میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں کیا گیا تھا۔ قومی قائدین کے علاوہ پاکستان کے علاوہ ترکی،افغانستان،ایران ،سعودی عرب، قطر سے پالیسی میکرز،سیاسی قائدین اور سنیئر صحافیوں کو مدعو کیا گیا ۔اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے امید ظاہر کی ہے کہ 2014 ء افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد دنیا 1988 ء کی تاریخ نہیں دھرائے گی،امریکہ و نیٹو کی افواج کے انخلا کے بعد کی صورت حال کے حوالے سے مارشل پلان بنانے کی ضرورت ہے ، افغانستان میں مذاکرات کے حوالے سے قاضی حسین احمد نے ہمیشہ فعال کردار ادا کیا ہے اور ہمیشہ یہ موقف اپنایا کہ افغانستان میں امن و مفاہمت کا عمل افغان حکومت کی سرپرستی میں ہی آگے بڑھانا ممکن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی جس سے پیچیدہ صورت حال پیدا ہوئی ۔ افغانستان کی صورت حال سے کوئی ملک اتنا متاثر نہیں ہوا جتنا پاکستان متاثر ہوا ہے ۔ ہم نے 55 ہزار لوگوں کی قربانیاں دی ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے ۔ دونوں ممالک کی قیادت دوطرفہ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی خواہاں ہے ہم اپنے ہمسائے تبدیل نہیں کر سکتے ۔ موجودہ جمہوری حکومت پر عوام نے یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ ملک میں امن قائم کیا جائے ۔
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہمارے وعدوں اور منشور پر عمل درآمد کیلئے افغانستان میں امن ضروری ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام تک پاکستان میں سکون نہیں ہوگا۔ ہم دونوں ممالک آپس میں جڑے ہوئے ہیں ایک دوسرے سے لاتعلق ہونا بھی چاہے تو نہیں ہوسکتے۔ عالمی طاقتیں آتی جاتی رہیں گی لیکن ہم ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوسکتے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حالات جنوبی ایشیاء خلیجی ممالک اور مشرق وسطی سمیت خطے کے تمام ممالک کو متاثر کرتے ہیں ۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد نیٹو کو صرف اس لئے برقرار رکھا گیا کہ ان کا اگلا ہدف اسلام تھا اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف طبقات پیدا کئے گئے اور انتہا پسند ، شدت پسند ، روایت پسند اور روشن خیال کے تصورات اجاگر کئے گئے ۔ افغانستان کے مسئلے کو وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہئے ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ افغان مسئلے کے اثرات مسئلہ کشمیر ، مسئلہ فلسطین سمیت دیگر تحریکوں پر کیا پڑے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں رہنے کے لئے آیا ہے جانے کے لئے نہیں ۔ صورت حال اتنی آسان نہیں جتنی سمجھی جا رہی ہے امریکہ افغانستان سے 2014ء میں نکل رہا ہے غلط ہے ۔ ہماری پارلیمنٹ اور حکومت نے پاکستان اندرونی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کی ہے۔ خطے کے مجموعی صورتحال کو نظرانداز کیاگیا ہے۔ ہم کنفیوژن کا شکار ہیں ابھی تک مشرقی سرحدوں پر الجھے ہوئے ہیں مغربی سرحدوں پرنئی مہم جوئی شروع کردی گئی ہے موجودہ حالات میں جذبات کے بجائے عقل سے فیصلے کرنا ہوں گے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے کہا کہ ظلم اور امن ایک ساتھ نہیں چل سکتے جہاں حق تلفی اور زیادتی ہو گی وہاں بدامنی ہو گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جنہیں فوجی آپریشن کا سب سے زیادہ تجربہ ہے لیکن ہم پیچھے مڑ کر جائزہ لینے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ کسی بھی فوجی آپریشن کا ہمیں فائدہ نہیں ہوا ہم شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں ہمارا یہ مطالبہ دراصل فوج کے حق میں ہے کہ نیلسن منڈیلا اور یاسر عرفات کو بھی بڑا دہشت گرد کہا گیاتھا لیکن بعد میں ان کے ساتھ مذاکرات کیے گئے ۔ سید منور حسن نے کہا ہے کہ امریکہ کا افغانستان سے واپس جانے کا ارادہ نظر نہیں آتا امریکہ نے افغانستان میں اپنی بھرپور قوت استعمال کی دنیا بھر کی افواج افغانوں کو شکست نہ دے سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ پورے خطے کی سیاست اور شواہد کو سمجھے بغیر افغان مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے افغانوں اور ترکوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ کبھی کسی کے غلام نہیں بنے ۔ افغانوں نے ایک کے بعد دوسرے دشمن کا مقابلہ کیا ہے ۔ یہ بات مانے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکا کہ مغرب اور امریکہ کی ٹیکنالوجی اور بصیرت کا قبرستان افغانستان ہے۔ سید منور حسن نے کہا کہ ہمیں آج تک اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکا کہ حکمران کس چیز کے حامی ہیں ۔ لگتا ہے کہ مینڈیٹ زیادہ بھاری ہے اور حکمران ہلکے ہیں مسلم لیگ ( ن ) کے لئے اپنے منشور پر عملدرآمد کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ مسلم لیگ ( ن ) کو چاہئے کہ وہ اپنے منشور پر پابندی لگا دے تاکہ اسے کوئی پڑھ نہ سکے ۔ انہوں نے کہا کہ اے پی سی کے ذریعے حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ ملا اب تو ان کے پاس مولانا فضل الرحمان بھی دستیاب ہیں حکومت مذاکرات کے لئے ان کے جرگے کو ہی گود لے لے ۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ نمبر بڑھانے یا سیاست کا نہیں اگر حکومت مذاکرات کر رہی ہے تو قوم اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کا امن امریکی فوج کے آخری سپاہی کی وہاں موجودگی تک ممکن نہیں ہے ۔

مولانا سمیع الحق نے کہاکہ ہم طالبان کے نہیں ، طالبان ہمارے ساتھ ہیں ۔ افغانستان سے جنگ کا خاتمہ جبکہ پاکستان میں یہ جنگ شروع ہو رہی ہے ۔ امریکہ ہر صورت پاکستان کو اس جنگ میں گھسیٹنا چاہتاہے ۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر ایسی غلطی کی ، جس کا خمیازہ بہت دیر تک بھگتنا پڑے گا ۔

افغانستان کے سابق وزیراعظم انجینئر احمدشاہ احمدزئی نے کہاکہ مسلمانوں کے درمیان اتفاق ویکجہتی کی ضرورت ہے۔ ہم افغانستان میں بین لااقوامی افواج کے اڈوں کے خلاف ہیں جب تک افغانستان میں غیرملکی افواج رہیں گی وہاں امن قائم نہیں ہوگا۔ ہم افغانستان میں غیرملکی قابضین کے خلاف لڑرہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں فوری طورپر صدارتی انتخابات نہ ہوں بلکہ وہاں پر ایک نگران حکومت قائم کی جائے تو دو سے تین سال تک کام کرے۔

دوسرے روز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینٹر فار سٹریٹیجک سٹڈیز کابل کے صفت اﷲ نے کہا کہ تنازعے کا فہم ضروری ہے اور قرآن و سنت کے مطابق اس کے حل کی کوشش کرنی چاہیے افغان عوام کو پاکستانی عوام سے کوئی شکایات نہیں ہیں، صرف ایجنسیوں اور حکومت سے شکایات ہیں طالبان ،حزب اسلامی سمیت تمام جہادی گروپوں کے درمیان روابط ہونے چاہیں امریکی مداخلت نہیں ہونا چاہیے سب کو ایک میز پر آنا افغانوں کے تمام گروپوں میں مصالحت ہونی چاہیے جمعیت علماء اسلام (ف ) کے رہنما حافظ حسین احمد نے کہا کہ افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی انخلاء بعد کی صورتحال الگ الگ مسائل ہیں کردار کا تعین کرناہے پارلیمنٹ، سول حکومت ،صدر ،وزیراعظم ، سیاسی قیادت یا اس سے بالاتر قوت کوئی فیصلہ کرے گی افغان عوام کو اپنی خواہشات کے مطابق مسئلہ حل کرنے دیں ہماری مداخلت سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید الجھتا جائے گا امریکہ و نیٹو کے جانے کے بعد غیر ملکی فوجوں کو نکالا جائے۔
افعان مجاہد رہنما استاد مزمل نے کہا کہ مسائل ادراک کی ضرورت ہے مجاہدین میں اختلافات نہیں ہیں متحدہ افغان حکومت افغانوں کا حق اور اختیار ہے غیروں سے دوستی تو کر سکتے ہیں مگر ان کے طور طریقے اختیار نہیں کر سکتے امریکی موجود رہے تو افغانستان میں مزاحمت جاری رہے گی۔

کانفرنس کے اختتام میں سید منور حسن نے کہا کہ مذاکرات کو نتیجہ خیز ہونا چاہیے احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے ، اس کے پیش نظر مذاکرات کی حامی جماعتوں کو فوری طورپر اجلاس طلب کرنا چاہیے اور وفاق المدارس کو اس کا ا اقدام اٹھانا چاہیے کہ وہ مذاکرات کو مانیٹر کریں حکومت کا اعلان اخلاص پر مبنی ہوسکتا ہے معاملہ سنگین اور اہم ہے ایسا فورم بن جانا چاہیے کہ اگر مذاکراتی عمل میں کوئی رکاؤٹ پیدا ہوتی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش ہوسکے ،ہم امریکہ کے عوام نہیں پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں کے مخالف ہیں امریکہ کے سیاسی فیصلے مسلمانوں کو لقمہ اجل بنانے کیلئے ہوتے ہیں تصادم مسلمان کا شیوہ نہیں اگرہم سے جینے کا حق چھینا گیا منفی پروپیگنڈہ کیا گیا یہ ناقابل قبول اور ناپسندیدہ بھی ہے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہاکہ مغربی سرحدسیاسی لحاظ سے منتازعہ ہے یہ سرحد کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے۔دونوں اطراف کے منظم انتظام سے اسے سیل کرنے کی ضرورت ہے افغان مسئلے کے حل کیلئے جارح فوجیں افغانستان کو چھوڑ دیں افغانستان کے عوام خود مسئلے کے حل کا موقع ملنا چاہیے افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کے قتل و غارت گری کے حوالے سے جنگی جرائم کے مقدمات چلنے چاہیں سری نگر اور غزہ سے بھی فوجوں کا انخلاء ہونا چاہیے اسی پر عالمی امن کا انحصار ہے توپیں بندوقیں جہاز چلا کر مسائل حل نہیں ہو سکتے اس میں اضافہ ہوتا ہے امریکہ نے افغانستان میں فوجی دستے چھوڑے تو وہ ایک اور بڑی غلطی کرے گا ۔کانفرنس میں مجیب الرحمان شامی،الطاف حسن قریشی،فریحہ ادریس،عائشہ وزیر ،سمیحہ راحیل قاضی،عائشہ سید ممبر قوم اسمبلی ،عنائت اﷲ خاں ، سراج الحق، لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، پروفیسر ابراہیم، عبدالمتین اخوندادہ،اظہراقبال حسن سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔کانفرنس میں ابتدائی طور پہ آصف لقمان قاضی اور پھر کے پی کے صوبائی وزیر ڈاکٹر عنائت اﷲ نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دئیے۔


 
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 55001 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More