حضرت مولانا أحمد ہتھورانی کا وصال

ساؤتھ افریقہ کے نامور بزرگ

ساؤتھ افریقہ جانے کا اتفاق میرے لئے، میرے شیخ سماحۃ العلامۃ الامام المحدث الشیخ سلیم اﷲ خان دامت برکاتہم کی ذرہ نوازی اور کودک پروری کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے:
بودے مورے ہوسے داشت کہ کعبہ رود
دست برپائے کبوتر زد، وناگاہ رسید

جب بھی حضرت شیخ کے ساتھ خادمانہ وہاں جانا ہوا، بے پناہ محبت، عقیدت اور کیف وسرور کے مناظر دیکھنے کو ملے، حضرت کے تلامذہ ، مریدین ومسترشدین، عام وخاص متعلقین اور حضراتِ علماء کرام ومشایخ عظام شبانہ روز حضرت کی خدمت میں ، جیسے بہار آئی ہو، یا جیسے کوئی گمشدہ متاع دستیاب ہوئی ہو، گویا کہ:
نازم بچشم خویش کہ جمالِ تُرا دیدہ است
اُفتم بپائے خویش کہ بکویت رسیدہ است
ہردم ہزار بوسہ زنم دست خویش را
کو دامنت گرفتہ بسویم کشیدہ است
کا سماں، بطور خاص حضرت مولانا احمد ہتھورانی مرحوم، حضرت مولانا بایزید شہید، حضرت مولانا عباس جینا، جناب بابا ابراہیم دھورات، حضرت مولانا محمد رفیق ہتھورانی، حضرت مولانا محمد یوسف مونیا، حضرت مولانا عبدالحمید آزاد وِل، مفتی اسماعیل اسپرنگ والے، مولانا شبیر صالوجی، مفتی رضاء الحق، مولاناحیدر علی ابراہیم دھورات، مولانا احمد رفیق ہتھورانی، مفتی اے کے حسین میمن، جناب فیصل صالوجی، مولانا کاکا، جناب عمران صالوجی، قاری برکۃ اﷲ، مولانا مبین ، قاری نعیم چونیا، جناب عبدالرحمن مایت، مولانا محمد علی مایت، مولانا ابراہیم ماکدا، مفتی حسین بھیات، مولانا خالد شہید، مولانا ایوب جناب سلیمان متارا اور دیگر بہت سے، جن کے نام ہمارے دل ودماغ میں نقش ہیں۔

امسال ہمارے اس سفر پر یہاں کے نہایت قابلِ قدر بزرگ حضرت مولانا احمد ہتھورانی صاحب -رحمۃ اﷲ علیہ- کے وصال کی وجہ سے غم واندوہ کے بادل سایہ فگن رہے، اسی لئے حضرت شیخ سب سے پہلے مرحوم کے صاحبزادگان کے یہاں تعزیت کے لئے تشریف لے گئے، بعد میں ان کے مرقد مبارک پر حاضری ہوئی، جو ایک عام قبرستان میں برلبِ سڑک ہے، وہاں مرحوم اور دیگر تمام مدفونین کے لئے دعائیں ہوئیں۔

آفرین ہو مرحوم کے ارب پتی پسماندگان پر، جنہوں نے ان کے قبر مبارک کو عام قبرستان میں اور پھر بالکل سنت کے مطابق سیدھا سادا رکھنے کااہتمام کیا، گویا کہ :
بر مزارِ ما غریباں، نے چراغے، نے گلے
نے پرِ پروانہ سوزد، نے صدائے بلبلے
کی حقیقی تصویر، حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا کا وجود مسعود جمعیت علماء افریقہ ہی کے لئے نہیں، بلکہ ساؤتھ کے عام مسلمانوں اور برصغیر کے دینی اداروں کے لئے ایک نعمت عظمیٰ سے ہرگز کم نہ تھا۔

ہندوستان کے صوبہ گجرات میں ۱۹۱۷ء کو تولد ہوا، والدین کا سایہ طفولیت کے زمانے ہی میں اٹھ گیا تھا۔ ہمشیرہ نے تمام تر تعلیم دلائی، یہاں تک کہ ڈابھیل میں حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی، حضرت محدث العصر محمد یوسف بنوری جیسے اساطین علم سے کسبِ فیض کیا۔

۱۹۴۰ء میں ساؤتھ افریقہ ہجرت فرمائی اور یہیں کے ہوکر رہے، یہاں جہاں جہاں ، جس جس شہر میں آپ نے دینی خدمات انجام دیں، بے نظیر وبے مثال دیں، عوام وخواص کے علاوہ تلامذہ واطفال کے ہر دلعزیز ومحبوب رہے، آج بھی اگر کوئی اُن براہِ راست استفادہ کرنے والوں سے حضرت کے متعلق پوچھے، یا ان کا تذکرہ ہوجائے تو جذبات واحساسات اور کلمات تحسین وتبریک کا گویا ایک تلاطم خیز سیلاب امڈ آتا ہے۔

مرحوم نے پوری حیاتِ مستعار کے لیل ونہار خدمتِ دین کے لئے وقف کررکھے تھے، جبل علم وعرفاں تھے اور زہد وتقویٰ کے کوہِ گراں، اپنے تمام بچوں بچیوں کو مدرسے کی تعلیم دلائی، خود بھی امامت، مؤذنی، مسجد کی خدمت، حفظ و ناظرہ کی پڑھائی جیسے بظاہر معمولی کاموں پر کبھی بھی جمعیت علماء کی قیادت وسرپرستی، تصنیف وتالیف وودیگر بظاہر عالی شان خدمات کو ترجیح نہیں دی، آخر دم تک وہ یکساں طور پر مذکورہ بالا امور بلاترجیح وتفضیل نہایت تندہی سے انجام دیتے رہے، کبھی دنیوی شان وشوکت کو اپنے لئے یا اپنی اولاد کے لئے اختیار نہیں کیا، نہ ہی دنیا پروری کی کبھی کوشش کی، اسی لئے اوپر والے نے بھی خوب چھپڑ پھاڑ کے دیا تھا۔
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے
قبض کی روح تیری، دے کے تجھے فکر معاش

مرحوم بہت نحیف، مختصر سے قد کاٹھ کے مالک تھے، مگر اﷲ جل شانہ نے ان کی ذات میں وہ محبوبیت رکھی تھی، کہ جو دیکھے فریفتہ ہوجائے، مولانا محمد بھامجی صاحب سابق مدیر السکن جامعہ بنوری ٹاؤن نے مرحوم کے متعلق اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ: ’’جو بھی حضرت سے ایک بار ملاقات کرتا، حضرت کے اخلاق عالیہ دیکھ کر متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا اور یہی میرے ساتھ ہوا، حضرت کے ساتھ میری پہلی ملاقات ۱۹۶۷ء میں ہوئی، دیکھتے ہی حضرت پر دل وجان سے فدا ہوچکا تھا……‘‘

﴿سیجعل لہم الرحمن وُدًّا﴾ کے تحت علامہ ابن کثیر نے ایک روایت نقل کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے جس بندے سے محبت فرمادیتے ہیں اس کے لئے آسمانوں اور زمینوں میں منادی کرادیتے ہیں، کہ میں نے فلاں بندے سے محبت کرلی ہے، لہٰذا تم ان سے محبت رکھو، ’’إنی أحببت فلاناً فأحبوہ‘‘…… راقم کو بھی شاید اسی لئے مرحوم سے اور مولانا رفیق سے عشق کی حد تک محبت ہے۔

مسلم اقلیات کے حالات مسافرانِ شرق وغرب اچھی طرح جانتے ہیں، تفصیل کی ضرورت بھی نہیں اور موقع بھی نہیں، لیکن ان اقلیات میں جہاں گجراتی مسلمان ہیں، وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے عقیدے وایمان کی حفاظت بہت خوب کی ہے، اورکررہے ہیں۔ (اس حوالے سے ان کی خدمات پر آئندہ کبھی تفصیل سے قلم اٹھانے کی کوشش کروں گا، انشاء اﷲ تعالیٰ)۔

مرحوم نے ان ہی گجراتی مسلمانوں کو اپنی خدمات اور تالیفات وتصنیفات کا ہدف بنایا، چنانچہ اس کا حق ہی ادا کردیا۔ ۵۰ سے زائد چھوٹی بڑی کتابیں اُن کی ان کے کام پر شاہد عدل ہیں۔ساؤتھ کے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ گجراتی زبان میں تالیف وتصنیف میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ نیز کئی کتابیں حضرت نے جمعیت کے لئے بطور نصاب تحریر فرمائیں، جو کہ شاملِ نصاب ہوبھی گئیں۔

۴۰ سال جمعیت کے مرکزی شوریٰ کے رکن رکین رہے، ان کے انتقال سے جمعیت علماء ایک کہنہ مشق عبقری شخصیت کی سرپرستی واشراف سے محروم ہوگئی ہے۔

۲۹ جولائی ۲۰۰۷ء کو ان کا انتقال ہوا، ﴿إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون﴾ حضرت شیخ صاحب نے ان کے انتقال پر پاکستان کے اخبارات اور ساؤتھ کے ریڈیو اسلام وچینل اسلام میں اپنے تعزیتی بیانات جاری فرمائے۔ جن میں ان کی خدمات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ ان کے پس ماندگان خصوصاً مولانا محمد رفیق ہتھورانی، مولانا محمد اقبال ہتھورانی ، جناب ادریس ہتھورانی، جناب یونس ہتھورانی، اور مولوی احمد رفیق ہتھورانی کے لئے تعزیتی پیغام بھی تھا۔
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہیں کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہیں کا کام ہے، دینی مراسم کی نگہبانی
”اﷲم اغفرلہ، وارحمہ، وجاورہ، وارفع درجاتہ، وزوجہ بحورعین، یارب العالمین․
(ماہنامہ الفاروق کراچی، محرم ۱۴۲۹ھ، و روزنامہ اسلام)

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877991 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More