2014 کا لوک سبھا الیکشن اور اہم ایجنڈے سے سیاسی پارٹیوں کی پہلو تہی

2014 کے لوک سبھا انتخابات کا بگل بج چکا ہے طویل انتظار کے بعد الیکشن کمیشن نے تاریخوں کا اعلان کردیا ہے کون امیدوار کہاں سے الیکشن لڑے گا اس کی تیاری تقریبا مکمل ہوچکی ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی ہو، کانگریس پارٹی ہو، لیفٹسٹ ہوں، علاقائی پارٹیاں ہوں یا پھر عام آدمی پارٹی، سب نے ذات پر مبنی اور ہندو مسلم ووٹوں کے جوڑ توڑ کو ذھن میں رکھتے ہوئے اپنی فہرست تیار کر لی ہے۔ کئی امیدواروں کا اعلان ہو چکا ہے اور کئی لوگوں کے نام آنا باقی ہیں۔ ہر طرف مقابلہ آرائی جاری ہے۔ ریلی، اعلانات، پیسوں کا لین دین، پوسٹر، ہورڈنگ، پرچے اور سوشل میڈیا، ہر طرف انتخابی ماحول ہے. اس الیکشن میں اربوں روپے پھونک دیے جائیں گے۔ لیکن الیکشن کی اس گہما گہمی میں سب سے بڑا سوال ابھی بھی صیغۂ راز میںپڑا ہے۔ یہ سوال لوگوں کی زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ سوال غریبوں کے استحصال اور محروموں کی ترقی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ سوال نوجوانوں کے روزگار سے جڑا ہے۔ یہ سوال ملک کی عوامی جمہوریت کے وجود پر مشتمل ہے ۔ شرمناک بات یہ ہے کہ اس سب سے بڑے سوال پر ہر پارٹی نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

جن اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے اس ملک میں غریب اور زیادہ غریب ہوتے جا رہے ہیں اور امیر بے تحاشہ امیر، جن پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے قدرتی وسائل کی لوٹ ہو رہی ہے، جن پالیسیوں کی وجہ سے ترقی صرف اعداد و شمار میں نظر آتی ہے، جن پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے نوجوان بے روزگار گھوم رہے ہیں، جن پالیسیوں کی وجہ سے کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، جن پالیسیوں کی وجہ سے مزدوروں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے، انہیں نیو لبرل پالیسیوں کو ملک کی زیادہ تر پارٹیوں نے واحد متبادل مان لیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہو یا کانگریس یا پھر نئی نئی بنی عام آدمی پارٹی، ان سب کی اقتصادی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں ہے، کیوں کہ یہ سب ایک آواز میں کہتی ہیں کہ روزگار یا نوکری دینا سرکار کا کام نہیں ہے۔ سرکار کا کام تجارت کرنا نہیں ہوتا ہے۔ یہ کام صنعتی دنیا کا ہے۔
یہ لوگ ملک کی اقتصادیات کو بازار کے ہاتھوں گروی رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ بازار واد کے نظام کا حشر دنیا کے کئی ملکوں میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ تو ہندوستان ہے، جہاں کے کسان اپنی محنت سے اتنا اناج پیدا کر دیتے ہیں کہ ملک میں کھانے پینے کی قلت نہیں ہے، ورنہ ان 20 برسوں میں ہندوستان کی حالت بھوک سے مر رہے افریقی ملکوں کی طرح ہوگئی ہوتی۔

یو پی اے سرکار نے مضبوط بازار وادی نظام لاگو کرنے کی پالیسی پر دس سال گزاردیے ہیں لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔ لوگ پریشان ہیں۔ میڈیا بھی بازار وادی نظام کا حصہ بن چکا ہے، اس لیے وہ اصلیت سامنے لانے میں نااہل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ بازار اور سرمایہ داری کے اشارے پر ناچنے والے نظام سے نجات پانا چاہتے ہیں، لیکن ملک کے سامنے کوئی متبادل نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کا بھی اس پر کوئی واضح موقف سامنے نہیں آسکا ہے.باقی پارٹیوں کا ذکر کرنا بھی بے معنی ہے، کیوں کہ ان کی نہ تو کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی ملک کے تئیں کوئی ذمہ داری۔

جس اقتصادی پالیسی کی پیروی کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کر رہی ہے، وہی پالیسی ملک میں مہنگائی کی بنیادی وجہ ہے۔ سرکار تمام اہم چیزوں کو اپنے دائرۂ اختیار سے باہر کر رہی ہے۔ جب سرکار کا اختیار ہی نہیں رہے گا، تو مہنگائی پر کنٹرول کون اور کیسے کرے گا؟ منموہن سنگھ لگاتار مہنگائی پر روک لگانے کی بات کہتے رہے، لیکن سرکار کبھی بھی اسے روک نہیں سکی. اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ جب سب کچھ بازار کے حوالے ہو جاتا ہے، تو صرف ٹی وی چینلوں کی بحث میں مہنگائی پر لگام لگائی جا سکتی ہے، لیکن بازار میں قیمتیں صرف اوپر کی طرف جاتی ہیں۔ اگر پالیسی ہی عوام مخالف ہو، تو یہ فرق نہیں پڑتا ہے کہ اسے لاگو کرنے والا کون ہے۔ راہل ہوں یا مودی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اِن اہم مدعوں کو لے کر انا ہزارے نے تمام سیاسی پارٹیوں کو خط لکھا، تو کسی نے جواب نہیں دیا تھا
ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے نکسل واد کی تحریک مضبوط ہوتی جارہی ہے.یہ لوگ 40اضلاع سے بڑھ کر 250اضلاع تک پہنچ چکے ہے .ملک میں نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اقلیتیں خاص طور سے مسلمان ملک کی مین اسٹریم سے بہت پہلے ہی الگ تھلگ ہوچکے ہیں، اب وہ اقتصادی طور پر بھی کمزور ہو رہے ہیں سیاست میں بھی بہت پیچھے جاچکے ہیں کسی بھی شعبے میں مسلمانوں کی ترقی نہیں ہوسکی ہے، خواتین کے خلاف مظالم بڑھ رہے ہیں، تشدد بڑھ رہا ہے، سرکاری مشینری ناکام ہور ہی ہے، سیاسی رہنماؤں کی ساکھ ختم ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک چلانے والے عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہوتے جارہے ہیں، ہر سرکارایک ہی پالیسی چلا رہی ہے۔ مسائل کو ختم کرنے کی کوئی نئی سوچ پیدانہیں ہو رہی ہے.

اس لیے ملک کی عوام کو 2014کے پارلیمانی انتخابات میں فرقہ پرستی کے ساتھ میں اقتصادی پالیسیوںکو بہی اپنے فیصلے میں شامل کرنا ہوگا اور ملک کو انارکی اور خانہ جنگی سے بچانے کا یہ ایک مؤثر طریقہ ثابت ہوگا.

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 164313 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More