حکمران کس کے حقدار ہیں۔۔۔؟

تھرپارکر جہاں پر بھوک وافلاس کے ڈیرے ہیں جہاں پرزندگی سسک اور بلک رہی ہے جانوروں کے ساتھ ساتھ نسل انسانی بھی موت و حیات کی کش مکش میں ہے انسان و حیوان سب اپنی پیاس ایک ہی جوہڑ سے بجھاتے ہیں یہاں منرل واٹر یا صاف پانی کو درکنار پینے تک کو پانی میسر نہیں۔ روٹی موت سے مہنگی ہے۔ زندگی ارزاں ہے جبکہ روٹی کا لقمہ گرانی پر محمول ہے۔ بیماریوں نے نوع انسانی کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ ہمارے حکمران فیسٹیول کے نام پر کروڑوں روپے بے مقصد لوٹا رہے ہیں۔ اپنے دورے کے موقع پر مرغن غذائیں۔ کباب ، تکے بوٹی سے اپنے پیٹ کے جہنم کو پال رہے ہیں جبکہ ہمیشہ کی دھتکاری اور سسکتی عوام کو روٹی کا ایک لقمہ تک میسر نہیں۔200 سے زائد پاکستانی لقمہ اجل بن چکے ہیں اس کالم کو مزید لکھنے سے پہلے میں ایک واقعہ کوڈ کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ میرے خیالات و جذبات کی عکاسی ہوجائیگی اور فیصلہ آپ لوگوں پر ہوگا کہ ہمارے حکمران کس قابل ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی ملک میں ایک بادشاہ دربار سجائے بیٹھا تھا ۔امرا اور درباری اس کے گردا گرد جمع تھے۔حالات و واقعات کے حوالے سے بادشاہ وقت کوآگاہی دی جا رہی تھی اور جہاں ضروری ہوتا بادشاہ اس کے بارے میں ہدایات صادر فرمادیتا تھا۔ اسی دوران ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور اپنا ٹیلنٹ پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ بادشاہ نے اسے اجازت مرحمت فرمادی۔ اس شخص نے دربار کے بیچوں بیچ ایک سوئی زمین میں گاڑ دی اور پھر کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔ سب نے غور سے دیکھا کہ سوئی زمین میں گڑی ہوئی۔ اب اس نے دوسری سوئی اپنے ہاتھ میں پکڑی اور اپنے خاص انداز سے اسے زمین میں گڑی ہوئی سوئی کی طرف پھینکا۔ پھینکی جانیوالی سوئی گڑی ہوئی سوئی کے سوراخ میں جا کر پھنس گئی سارا دربار بادشاہ سمیت اس کی کارکردگی پرعش عش کر اٹھا۔اب بادشاہ نے اپنے مزاج اور حکمت کے مطابق فیصلہ سنادیا کہ اسے ایک سو اشرفی انعام دیا جائے اور 50جوتے بھی لگائیں جائیں بادشاہ کے اس عجیب وغریب فیصلے پر لوگ حیران وپریشان ہوگئے بہر حال حکم حاکم مرگ مفاجات کے مصداق احکامات پر عمل ہوا۔اسے انعام میں 100اشرفی دی گئی اور50جوتوں سے اس کی تواضع بھی کی گئی۔تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر امرا خاص نے دریافت کیا تو بادشاہ نے کہا کہ اس کارکردگی یقینا اس لائق ہے کہ اسے انعام سے نوازاجائے لیکن اس کا م کو سیکھنے میں اس نے اپنی زندگی کے قیمتی سال ضائع کردیئے۔جس سے ملک وقوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اس لیئے اسے جوتے لگوائے گئے۔

بعینہ صورت حال ہمارے حکمرانوں کی ہے پنجاب ہو کہ سندھ، یوتھ فیسٹیول کے نام پر اربوں روپے فضول لغویات میں جھونگ دیئے گئے۔جس کا ملک وعوام کو کوئی فائدہ نہیں سوائے عوام کو ذلیل وخوار کرنے کے یا پھر چند چہیتوں کو نوازنے کے۔گینز بک آف ورڈ ریکارڈ میں اپنا نام لکھوانے کا جنون اس قدر حاوی ہوا کہ احساس انسانیت جاتا رہا۔انسانی جھنڈا بنا لینے یا جھنڈا لہرانے سے وطن عزیز کا علم سر بلند نہیں ہوگا۔دنیا کا کونسا ایسا ملک ہے جوکہ یہ کام نہیں کرسکتا ہے کہ 40ہزار یاایک لاکھ لوگوں کو طلباء طالبات کو ایک جگہ اکٹھا کرکے قومی پرچم بنادے یا پرچم کی جھنڈیاں لہرادے۔مگر وہ لوگ اس کو فضول کام گردانتے ہیں اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں وہ منظم لوگ چاہیں تو دو لاکھ لوگوں کا ریکارڈ بنا لیں لیکن وہ ایسے فضول بے کار اور بے فائدہ کاموں میں اپنا وقت اور روپیہ ضائع نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اس طرح سے جانتے بوجھتے لوگ بھوک و پیاس کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہیں مرتے بچے بھوک اور پیاس کی شدت سے بلک بلک کر اپنی جان جاں آفرین کے سپرد نہیں کرتے ان کے وزرا اعلی وزٹ کرنے کے نام پر تکے بوٹیاں اور کباب کی دعوتیں نہیں اڑاتے ۔فیسٹیول کے نام پر اربوں روپے اڑانے کی بجائے اسے بامقصد کاموں پر خرچ کیا جاسکتا۔انہی 200سے زائد مرنے والے افراد کو روٹی دے کر ان کو میڈیکل کی سہولیات باہم پہنچا کر بچایا جاسکتا تھا۔ یہی اربوں روپے کئی ہزار جانوں کو با عزت روزگار دینے پر خرچ کیے جاسکتے تھے لیکن نہیں ۔ہم نے تو اپنا ٹیلنٹ دکھانا ہے۔اب یہ فیصلہ قارئین نے کرنا ہے کہ مندرجہ بالا واقعہ اور موجودہ حالات کے پیش نظر ہمارے حکمران چاہے سندھ سے ہو یا پنجاب سے ،بلوچستا ن سے ہوں کہ پختونخواہ سے ۔وہ انعام کے حق دار ہیں یا جوتوں کے؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211984 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More