گزشتہ عام انتخابات سے دو روز قبل سیکٹر جی ٹین، اسلام
آباد میں واقع چیف الیکشن کمشنر آفس میں جانا ہوا تو اتفاق سے چیف الیکشن
کمشنر خواجہ سعید صاحب وہاں موجود تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی، ازرائے تذکرہ
میں نے کہا کہ آزادکشمیر میں ون وے پولنگ، پولنگ سٹیشنوں پر قبضے اور فوت
شدگان سمیت سوفیصد ووٹ ڈالنے کی روش کیسے ختم ہو سکتی ہے۔انہوں نے میری
گفتگو کو انکشاف قرار دیتے ہوئے سیکرٹری الیکشن کمیشن کو بھی شریک گفتگو
کرلیا اور کہنے لگے دیکھو یہ صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ دونوں ذمہ دار ترین
افسران نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ایسا تو نہیں ہوسکتا۔ میں حیرت زدہ
تھا کہ یہ مخلوق کہاں سے لا کر بٹھائی گئی ہے جو اپنی ریاست کے بارے میں
اور اپنے بنیادی فرائض سے نابلد ہیں یا پھر حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔
میں نے ان حضرات سے پوچھا کہ آپ کہیں فرانس یا انگلستان سے تو نہیں درآمد
کیے گئے، اسی ریاست کے باسی ہیں، آپ نے شاید زندگی بھی اسی سماج میں بسر کی
ہو، ان حقائق سے آپ واقف کیوں نہیں ہیں؟ اس دوران کچھ اور دفتری اہل کار
بھی چیف صاحب کے دفتر میں آدمکے تھے۔ ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
میں نے اپنی بات دھرائی تو سب نے انگلیاں منہ میں ڈال لیں اور کہنے لگے ـ’’
یہ کیسے ہوسکتا ہے‘‘۔
میں نے مہاجرین کی نشستوں پر ہونے والی سینہ زوری کا ذکر کیا تو وہ کہنے
لگے کہ ہم بے بس ہیں، یہ ہماری دسترس میں نہیں۔ میں عرض کیا کہ آپ ایسے
انتخابی نتائج کو روک تو سکتے ہیں۔ وہ حیرت سے کہنے لگے مشکل ہوتا ہے۔ مجھے
ان کے بے بسی پر ترس آنے لگا اور ریاستی تشخص کا بھوت سرچڑھنے لگا۔
پاکستانی حکومتیں اپنے انتخابات میں اتنی کھلی بے شرمی کا مظاہرہ نہیں
کرتیں لیکن ریاستی انتخاب کے موقع پر ایسا کیوں کرتی ہیں۔ شاید یہ کشمیری
سیاست بازوں کی ڈیمانڈ ہو گی؟ اس طرح کے خیالات نے مجھے لا جواب کردیا۔
بات آگے بڑھی تو خواجہ سعید صاحب نے پورے اعتماد سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں،
اس بار کمپیوٹرائزڈ انتخابی فہرستیں تیار کی گئی ہیں، شناختی کارڈ کی
پابندی عائد کی گئی ہے اور پولنگ سٹیشنوں پر رینجرز کی نفری لگا دی گئی ہے۔
کوئی جعلی ووٹ نہیں بھگتے گا اور کہیں سینہ زوری نہیں کی جائے گی۔ مجھے چیف
صاحب کی باتوں میں چوہدری ریاض اختر کے کردار کی بو آرہی تھی۔ مجھ سے نہ
رہا گیا ، میں کہہ ہی دیا کہ فل حال ہمارے معاشرے میں قانون کی بالادستی
ممکن نہیں، سب کچھ ویسے ہی چلے گا۔ اس پر چیف صاحب نے انتہائی ناگواری سے
جواب دیا کہ ہم نے سارے انتظامات مکمل کر لیے ہیں، کسی کو قانون ہاتھ میں
لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ میرے لیے یہ الفاظ روائتی تھے، سو سن لیے تاہم
اپنا احتجاج ایڈوانس میں ریکارڈ کروا آیا۔
جب پولنگ سٹیشن پر گیا تو حالات پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر تھے۔ پولنگ
بوتھوں پر کھلنڈرے جوانوں کا قبضہ تھا، انگوٹھا لگوانے کے بعد ووٹ کی خالی
پرچی ہر ووٹر سے باادب طریقے سے جوان لیتے، اپنی مرضی کی مہر لگاتے اور
پولنگ باکس کی نذر کرتے چلے جاتے۔ پولنگ کا عملہ غلام بن کر سب دستخط کرتا
جا رہا تھا۔ پولنگ سٹیشن کے مناظر اور چیف الیکشن کمشنر کے الفاظ بار، بار
میرے دماغ میں اٹکے ہوئے تھے۔ رینجر کے جوان پولنگ سٹیشن سے دور سستا رہے
تھے۔ مہمانوں کے لیے خاطر تواضع کا معقول بندوبست تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کچھ
بلے مانسوں نے قطار میں کھڑے لوگوں سے کہا کہ مہمان آئے ہیں، عملہ بھی کچھ
الرٹ سا ہوگیا، مجھے ووٹ کی پرچی جاری ہوئی اور پولنگ بوتھ بھی خالی کروایا
گیا اور ایک عدد ووٹ بدست خود سپرد باکس کیا اور بوجھل دل کے ساتھ واپس
لوٹا تو ہزاروں سوالات نے مجھے گھیر لیا۔
ارادہ یہی تھا کہ اسلام آبا پہنچ کر چیف الیکشن کمشنر صاحب کو متوجہ کروں،
اگلے دن اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب کے تین جگہ ووٹ
ڈالے گئے۔ فارورڈ کہوٹہ، مظفرآباد اور اسلام آباد تین جگہ حضرت کے ووٹ درج
تھے اور تینوں مقامات پر پول بھی کیے گئے۔ میرا خیال تھا کہ چیف صاحب اس
خبر کی تردید کریں گے اور اگر خبر درست ہوئی تو اپنی پوزیشن سے مستعفی ہو
جائیں گے۔ معاملات میری توقعات کے خلاف ہوئے تو مجھے پھر ایسے فرد سے ملنا
بے سود ہی لگا۔ حکومت تشکیل ہوتے ہی ان کے بیٹے کو وزیر حکومت کے برابر
منصب چیئرمین زکواۃ پر تعیناتی نے چوہدری ریاض اختر کے نقوش قدم نظر آنے
لگے۔ یہ ہے ہمارے سماج میں پائی جانے والی برائیوں کی جڑ۔جہاں نہ ضمیر کہیں
دکھائی دیتا ہے اور نہ قانون۔ کیا ان سے پوچھنے والا کوئی ہے جو لاکھوں
انسانوں کے بنیادی حق رائے دہی کو اپنی گھٹیا اغراض کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔
جو سیاسی جماعتیں ایسے انتخابات کے نتیجے میں ایوانوں میں طاقت پاتی ہیں
اور جو سیاسی جماعتیں ہارنے کے باوجود اس سسٹم کو قبول کرتی ہیں، ان کی
جمہوریت پسندی اور عوامی ترجمانی کے دعوؤں کو کون پاگل تسلیم کرے گا؟ |