حضرت ابراہیم ادھم ایک بادشاہ تھے۔ان کی زندگی میں
صوفیانہ انقلاب اس طرح آیا کہ وہ چاہتے تھے کہ وہ اسی طرح شان وشوکت سے بھی
رہیں اوراﷲ کا قرب بھی حاصل ہوجائے۔ایک رات انہوں نے دیکھا کہ ان کے محل کی
چھت پرکوئی چڑھا ہواہے۔انہوں نے پوچھا کہ کون ہے اوراس وقت کیاکرہا ہے۔ چھت
والے شخص نے کہا کہ میرااونٹ گم ہوگیا ہے اس کو تلاش کررہا ہوں۔ابراہیم
ادھم نے کہا کتنی عجیب بات ہے کہ اونٹ کوچھت پرتلاش کرررہے ہو۔بھلا اونٹ
چھت میں سے کیسے ملے گا۔چھت والے نے کہا کہ اس سے عجیب بات تویہ ہے کہ آپ
شاہانہ زندگی بھی گزارنا چاہتے ہیں اوراﷲ کاقرب بھی حاصل کرناچاہتے
ہیں۔آرام دہ بستروں پراﷲ پاک نہیں ملاکرتا۔پھرایک دن اپنا شاہی
دربارلگاکربیٹھے تھے کہ ایک بزرگ آگیااورآگے بڑھنے لگا۔ اس کوروکا گیا
اورپوچھا گیا کہ کہاں کاجانے کا ارادہ ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے یہ سرائے لگ
رہی ہے ۔ میں اس میں کچھ دیرآرام کرنا چاہتاہوں۔ ابراہیم ادہم نے کہا کہ یہ
شاہی دربارہے۔ اورآپ اس کوسرائے کہہ رہے ہیں۔ اس بزرگ نے کہا کہ آپ سے پہلے
یہاں کون تھا ۔ جواب ملا میراباپ تھا۔ پھرپوچھا کہ اس سے پہلے کون تھا
۔جواب آیا کہ اس کاباپ میرادادا۔ پھرپوچھا کہ اس سے پہلے کون تھا۔ جواب دیا
کہ اس کا والد۔پھرپوچھا کہ آپ کے فوت ہوجانے کے بعد کون ہوگا ۔ جواب ملا کہ
میرابیٹا۔ پھرپوچھا کہ اس کے بعدکون ہوگا۔ جواب دیا کہ میراپوتا۔ اس پراس
بزرگ نے کہا کہ ایک جارہا ہے اوردوسرا آرہا ہے ۔ یہ سرائے نہیں تواورکیا
ہے۔دنیا ایک مسافرخانہ ہے۔ کوئی آرہا ہے توکوئی جارہا ہے ۔ موت ایک اٹل
حقیقت ہے۔ ہرذی روح نے موت کاچکھنا ہے۔یہاں کسی کوبقاء نہیں۔ بقا ء صرف اس
کوہے جوہمیشہ سے ہے اورہمیشہ کے لیے ہے۔تاہم نہ توہرانسان کی زندگی ایک
جیسی ہے اورنہ ہی سب کی موت ایک جیسی ہے۔زندگی کوئی امیرانہ زندگی
بسرکرتاہے اورکوئی بھیک مانگ کراپنا پیٹ بھرنے کی کوشش میں لگارہتاہے۔کوئی
ملک کاحاکم ہوجاتاہے اورکوئی کوڑی کوڑی کومحتاج رہتاہے۔کوئی اپنی زندگی اﷲ
پاک اوراس کے رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی اطاعت میں گزاردیتاہے توکوئی
کفرکی حالت میں مرجاتاہے۔کچھ مسلمان ایسے بھی ہوتے ہیں جواپنی زندگی میں
ایسے کام کرجاتے ہیں جوان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ان کوزندہ
رکھتے ہیں۔ایسی شخصیات زندگی کے ہرشعبہ میں پائی جاتی ہیں۔اﷲ پاک نے ایسی
شخصیات کواپنی کسی نہ کسی نعمت سے نوازاہوتاہے۔ جس کی وجہ سے وہ دنیا میں
منفردکام کرجاتے ہیں۔کسی کواﷲ پاک نے بہترین ذہن دیا کہ وہ ایجادات کی دنیا
میں اپنانام مشہورکرجاتے ہیں۔ کسی کے ہاتھ لکھائی بہترین ہوتی ہے کہ دنیا
ان کے فن کی معترف ہوتی ہے۔کسی کی زبان میں وہ دلکشی ہوتی ہے کہ سننے والوں
کواپنے حصارمیں لے لیتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی نعمتیں ہیں جوانسانوں
کوعطاء کی جاتی ہیں۔ یہ نعمتیں جس انسان کودی جاتی ہیں۔ اس کے لیے اعزازکے
ساتھ ساتھ آزمائش بھی ہوتی ہیں۔ کہ وہ اﷲ پاک کی طرف سے عطاء کی گئی ان
نعمتوں کو کس طرح استعمال کرتاہے۔وہ ان نعمتوں کو مثبت اندازمیں استعمال
کرتاہے یا منفی انداز میں۔ جس کواﷲ پاک نے بہترین صلاحیتوں کا حامل دماغ
عطاکیا ہے۔ وہ اپنے اس دماغ کوبروئے کارلاتے ہوئے مخلوق خداکی بھلائی کے
کام کرنے کی کوشش کرتا ہے یاپھر اس دماغ کو تخریب کاری کی طرف مائل کرنے کی
کوشش میں محوہوجاتاہے۔جس کواﷲ پاک نے لکھنے کا فن عطا ء کیا ہے ۔ یہ بھی اس
کی آزمائش ہے کہ وہ اس فن کو کس طرح استعمال کرتاہے۔ اس سے وہ بادشاہوں،
حکمرانوں اورسیاستدانوں کی خوشامدیں لکھ کرکرنسی اورمراعات وصول کرتاہے ۔
وہ اس کا استعمال کرتے ہوئے فلمی گانے اورڈرامے لکھتا ہے یا وہ اس کو مثبت
اندازمیں استعمال میں لاتے ہوئے قرآن پاک کی تفسیر یا دینی کتب اورنعتیں
لکھتاہے۔ جس مسلمان کواﷲ پاک نے دل کش زبان کی نعمت عطاء کی ہے۔ یہ بھی اس
کے لیے امتحان ہے کہ وہ اس زبان سے بادشاہوں، حکمرانوں اورسیاستدانوں
اورامراء کی خوشامدیں کرکے ان سے مراعات وصول کرتا ہے یا اس سے وہ فلمی
گانے اورڈائیلاگ گاتاہے یا اس کو مثبت استعمال میں لاتے ہوئے قرآن پاک کی
تلاوت اورنعت رسول مقبول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم سناتاہے۔قاری غلام رسول
رحمۃ اﷲ علیہ ان شخصیات میں شامل ہیں جن کواﷲ تعالیٰ نے بہترین دماغ
اوردلنشین آوازسے نوازا۔محفل میلادمیں شرکت کی وجہ سے ایک رات
نیوزچینلزپرخبریں نہیں سن سکا۔ ورنہ یہ قاری غلام رسول کی وفات کی خبرسن
کراطلاع ہوجاتی۔اخبارات میں ان کی وفات کی خبریں پڑھ کردلی صدمہ پہنچا۔اسی
وقت گھرفون کرکے بتایا کیونکہ میرے والدمحترم قاری غلام رسول رحمۃ اﷲ علیہ
کے ان شاگردوں میں سے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ان سے قرآت کافن
سیکھاتھا۔اطلاع ملتے ہی وہ لاہوروانہ ہوگئے۔قاری غلام رسول کے انتقال کی
خبراخبارات میں کچھ اس طرح شائع ہوئی ہے کہ دنیا ئے اسلام کے عظیم قاری
ہزاروں حفاظ اورقراء کے استاد زینت القراء محترم قاری غلام رسول 9مارچ
کوصبح تہجدکے وقت انتقال کرگئے۔ان کی عمراسی سال تھی۔وہ1935ء کولاہورمیں
پیداہوئے۔اورپاکستان کی معروف درس گاہ حزب الاحناف سے سندفضیلت حاصل
کی۔اوراس وقت کے معروف قاری عبدالمالک سے تجویدوقرات کا علم حاصل کیا۔اپنی
خدادادصلاحیت کی بدولت میدان قرات میں پوری دنیا میں شہرت حاصل
کی۔اورصدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ریڈیوپاکستان اورٹیلی ویژن پرمسلسل پچاس سال
تک قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہے۔اوربے شمارایوارڈحاصل کیے۔جامع نعیمیہ میں
تدریس کے بعد اپنے پانچ مدارس قائم کیے۔انہوں نے مختلف ممالک میں حسن قرات
کی محافل میں پاکستان کی نمائندگی کی۔لاہور، اسلام آباد، کینیڈا،برطانیہ
میں ان کی زیرنگرانی تجویدوقرات کے مدارس دین اسلام کی ترویج واشاعت میں
مصروف عمل ہیں۔انہوں نے 1974ء کے قومی اسمبلی کے تاریخ سازاجلاس میں
مولاناشاہ احمدنورانی کی قراردادپراس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹونے
جب قادیانیوں کے غیرمسلم اقلیت قراردینے کااعلان کیا۔اس اجلاس میں تلاوت
قرآن پاک کاشرف قاری غلام رسول کے حصے میں آیا۔عظیم الشان سنی کانفرسوں
1970ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، 78ء میں ملتان سنی کانفرنس، 79ء میں رائیونڈ میں
میلادمصطفی کانفرنسوں کاآغاز قاری صاحب کی تلاوت سے ہوا۔تقریباً ساٹھ سال
سے حضورداتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ کے سالانہ عرس مبارک کی تمام تقریبات
کاآغازقاری صاحب کی تلاوت سے ہوا۔بیرون ممالک میں ان کی تلاوت سن کربہت سے
غیرمسلم مسلمان ہوئے۔انہوں نے متعددمرتبہ مختلف چینلوں اورریکارڈنگ کمپنیوں
کوحدراورترتیل میں قرآن پاک بمعہ ترجمہ اوربغیرترجمہ ریکارڈکرائے۔قاری غلام
رسول مولانا شاہ احمدنورانی رحمۃ اﷲ علیہ اورمولانا عبدالستار نیازی رحمۃ
اﷲ علیہ کے بااعتماددوستوں میں سے تھے۔انہوں نے تین بیٹے، قاری مبشررسول،
قاری مدثررسول، اورقاری مزمل رسول چاربیٹیاں اورہزاروں شاگردسوگوارچھوڑے
ہیں۔ان کے انتقال پرجمیعت علماء پاکستان کے رہنماؤں پیراعجازہاشمی،
صاحبزادہ شاہ محمداویس نورانی، قاری محمدزواربہادر، مفتی منیب الرحمن ،
پیرمیاں عبدالخالق آف بھرجونڈی شریف، مفتی جمیل احمدنعیمی اوردیگررہنماؤں
نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے ان کی خدمات کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی
بلندی درجات کی دعاکی ہے۔ایک اوراخبارمیں ان کے نمازجنازہ کی خبرکچھ یوں
شائع ہوئی کہ دنیائے اسلام کی عظیم شخصیت عالمگیرشہرت کے حامل اورصدارتی
ایوارڈ یافتہ ممتازعالم دین زینت القراء قاری غلام رسول کی نمازجنازہ برکت
مارکیٹ گراؤنڈ گاردن ٹاؤن میں اداکی گئی۔جس کے بعدہزاروں سوگواروں کی
موجودگی میں انہیں ان کے قائم کردہ ادارے دارالقرآن کے صحن میں سپرد خاک
کردیاگیا۔نمازجنازہ میں ملک کے ممتازعلماء کرام ،مشائخ عظام ، سجادہ نشین،
دینی اورمذہبی جماعتوں اورتنظیموں کے سرکردہ افرادسمیت مرحوم کے شاگردوں
رفقائے کار،دانشوروں اورہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی۔نمازجنازہ معروف
عالم دین خواجہ معصوم حسین نے پڑھائی جبکہ علامہ عبدالستارسعیدی نے دعائے
مغفرت کرائی۔وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔اس خبرکاکچھ حصہ پہلی خبرمیں شامل ہے
اس لیے اس حصہ کوحذف کرتے ہوئے آگے لکھا ہے کہ پنجاب اسمبلی سے ایوان صدرتک
جمہوری ایوانوں میں ان کی آوازمیں تلاوت قرآن پاک کی آوازگونجتی رہی۔وہ
پنجاب اسمبلی کے مستقل قاری کے طورپربھی خدمات انجام دیتے رہے۔نمازجنازہ
میں علامہ شاہ احمدنورانی کے صاحبزادے شاہ محمداویس نورانی، مجیب الرحمن
شامی، صاحبزادہ مبشررسول،پیراعجازہاشمی، مفتی محمدخان قادری، قاری
محمدزواربہادر، حافظ عبدالستارسعیدی،میاں عطاء محمدمانیکاوزیراواف،
ڈاکٹرمحمداشرف آصف جلالی، مفتی عبدالعلیم سیالوی، مفتی گل احمدعتیقی،
مولانا غلام نصیرالدین سعیدی، علامہ خادم حسین رضوی، مولانا
نصیراحمدشرقپوری، ڈاکٹرراغب حسین نعیمی، پیرمیاں محمدحنفی سیفی، ڈاکٹرسلمان
قادری، جسٹس(ر) نذیرغازی، مولانا قاسم علوی،قاری اﷲ بخش ورک، مولانا رمضان
سیالوی، پیرقاری مشتاق احمد، پروفیسرراؤ ارتضیٰ حسین اشرفی، قاضی محمدطیب
فاروقی، قاری محمداکرم فیضی، دعوت اسلامی کے حاجی یعفورعطاری، مولانا حافظ
محمداکبر، حافظ نصیراحمدنورانی، مولانا احمدعلی قصوری، مفتی تصدق حسین،
مولانا شبیرحسین فریدی، مولانا سعیداحمدنعیم،مولانا سیّدمنورحسین شاہ،
مولانا افتخارسیالوی، مولانا اصغرشاکر، علامہ جاویداکبرساقی، مفتی تقی
عثمانی، ابراہیم سیالوی، اﷲ بخش ورک ، محمدناصر، محمداکرم راہی،
عبادمحمودقریشی، رشیدرضوی اوریونس قادری کے علاوہ دیگرعلماء ومشائخ نے شرکت
کی۔ایک اورخبراس طرح ہے کہ صدرمملکت ممنون حسین، وزیراعظم میاں
محمدنوازشریف، گورنر، وفاقی وصوبائی وزراء سابق صدرآصف علی زرداری، منہاج
القرآن کے سربراہ ڈاکٹرعلامہ طاہرالقادری، سمیت دیگرممتازشخصیات نے قاری
غلام رسول کے انتقال پرگہرے غم وافسوس کااظہارکیا ہے۔اوران کی وفات کودین
اسلام کابہت بڑانقصان قراردیا ہے۔اورکہا ہے کہ یہ خلاء تادیرپرنہیں
کیاجاسکے گا۔جمیعت علماء پاکستان کے مرکزی صدرپیراعجازاحمدہاشمی ، شاہ
محمداویس نورانی، اورعلامہ قاری محمدزواربہادرنے کہا ہے کہ زینت القراء
قاری غلام رسول کے انتقال سے عالم اسلام ایک عظیم مبلغ،بے لوث قاری قرآن
اورعاشق رسول سے محروم ہوگیا ہے۔انہوں نے قائداہلسنت علامہ شاہ احمدنورانی
اورمجاہدملت مولانا عبدالستارنیازی کے ساتھ تحریک ختم نبوت اورتحریک نظام
مصطفی میں شانہ بشانہ جدوجہدکی۔ناظم اعلیٰ جامعہ نعیمیہ اورنائب ناظم اعلیٰ
تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان علامہ محمدراغب حسین نعیمی ،الفکررائٹرفورم
کے صدرمحمد ضیاء الحق نقشبندی، نیشنل مشائخ کونسل پاکستان کے صدرپیر خواجہ
قطب الدین فریدی سجادہ نشین خواجہ محمدیارفریدی، خیرالامم پاکستان فاؤنڈیشن
کے صدرپیرسیّدکرامت علی حسین شاہ سجادہ نشین علی پورسیداں شریف، کلیۃ
الازہراکے ناظم اعلیٰ علامہ محمدقاسم علوی ،پیرصاحبزادہ معاذالمصطفیٰ
قادری، تحفظ ناموس رسالت محاظ کے صدراورناظم اعلیٰ جامعہ رسولیہ شیرازیہ
علامہ رضائے مصطفی نقشبندی اوردیگر علماء ومشائخ اہلسنت نے زینت القراء
قاری غلام رسول کی وفات پراپنے گہرے دکھ اورافسوس کا اظہارکیاہے۔سربراہ
ادارہ صراط مستقیم ڈاکٹرمحمداشرف آصف جلالی نے کہا کہ زینت القراء قاری
غلام رسول انٹرنیشنل قاری اورمستندعالم دین اورمتحرک مذہبی رہنماتھے ۔ان کے
انتقال سے علمی حلقوں میں بہت بڑاخلاء پیداہوگیاہے جوصدیوں پرنہ ہوگا۔
قاری غلام رسول ہمارے دادااستادبھی ہیں۔ اس لیے ان کے لیے لکھنا ہمارے لیے
کسی اعزازسے کم نہیں ہے۔ ہمارے والدمحترم جوکہ قاری صاحب کے شاگردوں میں سے
ہیں۔ وہ ہمیں قاری صاحب کی زندگی بارے بتاتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہی ہمیں
بتایا کہ قاری صاحب ایک دن مسجد میں صفائی کررہے تھے اورساتھ ہی قرات کے
ساتھ قرآن پاک کی تلاوت بھی کررہے تھے۔ اسی دوران ریڈیوپاکستان لاہورکاعملہ
گزرا اورانہوں نے قاری صاحب کو سن لیا۔ ان کواپنے ساتھ سٹوڈیو لے گئے ۔یوں
اس دن سے وہ ریڈیوپاکستان سے تلاوت قرآن پاک کا شرف حاصل کرتے
رہے۔ریڈیوپاکستان سے قومی نشریاتی رابطے پراسلام آبادسٹوڈیوسے روزانہ دینی
مسائل پرمبنی پروگرام حیّ علی الفلاح نشرہوتاہے۔ اس میں سب سے پہلے ترجمہ
کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت نشرہوتی ہے۔ اس میں پاکستان کے معیاری
اورنامورقراء قرات کرتے ہیں۔ہماراگھردیہات میں ہونے کی وجہ سے ریڈیوہی تھا
جو وہاں سناجاسکتاتھا۔ ہم روزانہ وہ پروگرام سنتے اوراس انتظارمیں رہتے کہ
قاری غلام رسول کب تلاوت قرآن پاک کریں گے۔ہمارے والد محترم لاہورمیں ایک
مسجد میں امامت کے فرائض اداکیاکرتے تھے۔ہم ان سے ملنے ایک کاروباری شخصیت
کے ساتھ لاہورگئے۔وہ ہمیں چھوڑکرچلے گئے۔ یہ ہمارے لڑکپن کازمانہ تھا۔وہاں
ایک ماہ کے قیام میں قاری صاحب سے ملاقات کرنے گئے۔ ایک بارقاری صاحب کی
زیارت ہوئی۔والد صاحب نے توادب کے ساتھ ملاقات کرلی لیکن ہم محروم رہے۔ اس
کے بعد ہم اوراس کے چندماہ بعد والد محترم بھی لیہ واپس آگئے۔ پھر
لاہورجانے کاپرگرام بنا۔ لاہورمیں قاری صاحب کے مدرسہ میں گئے توقاری صاحب
کی موجودگی کی اطلاع پاکر سفرکی تھکاوٹ دورہوگئی۔اس وقت ہم اخبارات میں
مضامین بھی لکھنا شروع کرچکے تھے۔ اوریہ بات قاری صاحب کے علم میں تھی۔ان
سے ملاقات ہوئی توانہوں نے ہم سے ہمارامضامین کاریکارڈ طلب کیا جوہم ساتھ
نہ لے جانے کی وجہ سے پیش نہ کرسکے۔انہوں نے ہم سے تلاوت قرآن پاک بھی
سنی۔رات گزارنے کے بعد صبح کے وقت وہاں سے واپس روانہ ہوگئے۔اس کے بعد خط
وکتابت کے ذریعے رابطہ جاری رہا۔ یہ خط وکتابت والد محترم کے ساتھ ہوتی
تھی۔ ایک خط ہم نے بھیجا تواس کاجواب کینیڈا سے آیا۔ قاری صاحب کینیڈا میں
تھے۔ خط ہم نے لاہوربھیجا تھا۔ریڈیوپاکستان کی نشریات جب رات کے وقت اختتام
پذیرہوتی ہیں تواس وقت بھی قومی ترانہ سے پہلے قاری غلام رسول کی آوازمیں
تلاوت قرآن پاک نشرہوتی رہی ہے۔ ریڈیوپاکستان کوچاہیے کہ وہ یہ سلسلہ اب
بھی جاری رکھے۔قرآن پاک کی تلاوت کی وجہ سے دوقاریوں کو شہرت دوام حاصل
ہوئی۔ ان میں سے ایک مصرکے قاری عبدالباسط ہیں اوردوسرے قاری غلام
رسول۔اگرچہ انداز دونوں کا جداجداہے تاہم دونوں ہی دنیا بھرمیں پسندبھی کیے
جاتے ہیں اوراحترام کے ساتھ سنے بھی جاتے ہیں۔لاہورمیں توان کی قل خوانی
ہوچکی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کے قائم کردہ مدارس میں بھی ان کی قل خوانی
کے ختم کرائے جائیں گے اوران کے ہزاروں شاگردبھی اپنی اپنی استطاعت کے
مطابق ان کے ایصال ثواب کے لیے قل خوانی کے ختم کرائیں گے۔اس سلسلہ میں ایک
شکایت میڈیا سے بھی ہے کہ اگر اسی معیارکی کوئی سیاسی یاکاروباری شخصیت کا
انتقال ہوجاتا تو تمام اخبارات اس کوصفحہ اول میں نمایاں شائع
کرتے۔جواخبارات لیہ آتے ہیں ان میں دواخبارات میں ان کے انتقال اورایک میں
ان کے جنازہ کی خبراوران کی وفات پرایڈیشن شائع ہوا۔ ہم نے کچھ اخبارات
انٹرنیٹ پرلاہورسے بھی پڑھے ان میں سے صرف ایک اخبارمیں ان کے انتقال کی
خبرشائع ہوئی۔جس معیارکی ان کی شخصیت اوران کاکام تھا اس تناسب سے ان
کوکوریج نہیں دی گئی۔اگرکوئی فلمی اداکاریا گلوکارہوتاتوپرنٹ میڈیا
اورالیکٹرانک میڈیا بھرپورکوریج دیتا۔کیوں کہ یہ قرآن پاک کے قاری تھے اس
لیے نظراندازکردیاگیا۔اب قاری صاحب تو خاموش ہوگئے ہیں لیکن جدید ٹیکنالوجی
کی بدولت ان کی آوازمیں قرآن پاک کی تلاوت موجودہے جوقیامت تک محبت
اورعقیدت اوراحترام کے ساتھ سنی جاتی رہے گی۔مجھے کامل یقین ہے کہ ان کی
آوازاس دنیا میں خاموش ہوئی ۔ قبرمبارک میں اب بھی وہ تلاوت سنارہے ہوں
گے۔ان سے فرشتوں نے ایک ہی سوال کیاہوگا ۔ اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا
ہوگا کہ قاری صاحب سے کوئی سوال نہ کرو۔قاری غلام رسول نے اپنی زندگی
خوبصورتی کے ساتھ میراقرآن سنانے اورسکھانے میں گزاردی ہے۔ اس لیے ان سے
کہو کہ وہ اسی طرح خوبصورتی کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہیں جس طرح
دنیا میں کیا کرتے تھے۔آخرمیں حکومت پاکستان اوروزارت مذہبی اموراوروزارت
اطلاعات ونشریات سے گزارش ہے کہ قاری غلام رسول رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمات کے
اعتراف میں ان کے نام سے ایک قرآن ریسرچ سنٹربنایا جائے جس میں قرآن پاک کی
قرات ،ترجمہ اورتفسیرکے ساتھ ساتھ قرآنی علوم کی روشنی میں ریسرچ کا کام
کرایاجائے۔ |