نظریہ پاکستان ،لا الہ الا اﷲ کے
عظیم سپاہی ، ایم ایم عالم کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا ۔لیکن افسوس کہ
اسلام اور پاکستان کے اس عظیم بیٹے جس نے 1971کے سانحہ مشرقی پاکستان کے
بعدوہاں رہنا پسند نہ کیا تھا ۔ اس نے باقی ساری زندگی ہماریلئے گزار دی
لیکن ہم نے اسے مکمل بھلا دیا۔سال بھر ایم ایم عالم کو کسی نے یاد نہ
کیا۔ایم ایم عالم کون تھا؟ہماری تاریخ کا وہ ستارہ تھا جوایک سال قبل بجھ
گیا۔محمدمحمودعالم……جوہماری بھارت کے خلاف واحدجیتی گئی جنگ 1965ء کے ہیرو
اور مملکت خدادادکے ماتھے کا جھومر تھے،گزشتہ سال 18ماچ کو اس جہان فانی سے
78برس کی عمرمیں رخصت ہو گئے اوررخصت بھی کس حال میں کہ……وفاتسے پہلے طویل
عرصہ سے ان کاٹھکانہ پاک فضائیہ کے کراچی کے آفیسرز میس کا کمرہ نمبرایک
تھا…… وہ یہیں تن تنہامقیم رہے…… انہیں اپنے ملک سے محبت اس قدرتھی کہ اسے
کبھی چھوڑنا گوارا نہ کیا۔
ایم ایم عالم 6جولائی1935ء کو کلکتہ میں پیداہوئے۔تقسیم ہند کے بعدوہ اپنے
خاندان سمیت پاکستان آگئے۔وہ گیارہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ انہیں
بچپن سے ہی پائلٹ بنے کاشوق تھا جبکہ ان کے والدانہیں سی ایس پی
آفیسربناناچاہتے تھے۔ ان کے بچپن کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان کے چچانے
اپنی کھلونارائفل انہیں تحفے میں دی جبکہ والد نے سائیکل خرید کر دی۔ وہ
سائیکل کے ساتھ اس کھلونا رائفل کولٹکائے اور ہرطرف ایک مجاہد انہ روپ
بناکر گھوما کرتے تھے۔ انہوں نے اس سائیکل کو جنگی جہازکانام دے رکھاتھا۔
تقسیم ہند کے وقت جب ہندؤوں اور سکھوں کے مسلمانوں پرظلم کی خبریں آرہی
تھیں توایم ایم عالم اپنی حفاظت اوردشمن کو نقصان پہنچانے کی خاطر اپنے پاس
تیز دھار چاقو رکھتے کیونکہ دوسرا کوئی ہتھیارتواس زمانے میں دستیاب ہی نہ
تھا۔ خاندان کے ہمراہ پاکستان آنے کے بعد1960ء میں انہوں نے پاک فضائیہ کو
جوائن کیااور پھراپنی صلاحیتوں کالوہا منواتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرتے
چلے گئے۔
1965ء کی جنگ جو بھارت نے ہم پر مسلط کی تھی اور چوروں کی طرح رات کی
تاریکی میں حملہ کر کے پروگرام یہ بنایا تھا کہ ان کی فوج ناشتہ لاہور فتح
کر کے وہاں کرے گی،ہمارے انہی دلیر بیٹوں نے اسے ناکام بنایا تھا۔بھارت اور
پاکستان کارقبے ،آبادی،معیشت،جنگی طاقت،ایمونیشن،فوجی نفری یا فوجی طاقت
سمیت ہر میدان میں بھارت سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔بھارت تو تقسیم کے وقت سے
ہی اس قدر بے خوف تھا کہ اس نے پاکستان کے حصے میں آنے والے بجٹ،ایمونیشن
اور دیگراملاک پر ہی قبضہ نہیں کر لیا تھا بلکہ پاکستان کا حصہ بننے والے
کشمیر،پاکستان سے الحاق کا اعلان کرنے والے حصوں جونا گڑھ ،مناودر اور حید
ر آباد دکن پر بھی بالجبر قبضہ کر لیا تھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ساری دنیا
بھارت کی حامی جب کہ پاکستان کے وجود کی ہی مخالف تھی۔ان حالات میں پاکستان
کا باقی رہ کر آگے بڑھنا کسی کرامت سے کم نہیں تھا ۔پھر پاکستان کو مٹانے
کی غرض سے بھارت کا جنگ مسلط کرنا لیکن اس میں منہ کی کھانا بھی خاص تائید
ایزی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔اس جنگ میں بھارت کی فضائیہ بھی پاکستان پر ہر
لحاظ سے حاوی تھی۔یوں ایم ایم عالم کی جانب سے ایک تاریخ مرتب کرتے ہوئے
بھارت کے5 ہنٹرطیاروں کو تباہ کرناکوئی حادثاتی واقعہ نہیں تھا۔6ستمبر جنگ
کے پہلے ہی روز ایم ایم عالم نے بھارتی فضاؤں میں داخل ہوکر 2بھارتی طیارے
تباہ کردئیے تھے۔ بھارت کو میدانی جنگ میں منہ کی کھاناپڑی تو انہوں نے
ہمارے اس سرگودھا ائیربیس کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا کہ جہاں سے اڑان بھر
کر ایم ایم عالم نے پہلے روز بھارت کو زک پہنچائی تھی۔اس واقعہ کے چشم
دیدگواہ ریٹائرڈ کمانڈرمحمد عارف اقبال کہتے ہیں کہ بھارت کابڑا ہدف
سرگودھا ائیربیس ہیتھا۔ ہم توتیارتھے کہ کب حکم ملے۔ ہماری نگاہیں مغربی
سرحدکی جانب تھیں جبکہ ایم ایم عالم کی نگاہیں مشرقی سرحد کی جانب۔اسی
دوران پتہ چلاکہ بھارتی طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہورہے ہیں۔ ایم ایم
عالم اپنے سیبر 86 طیارے کولے کرفضامیں بلندہوئے اور مشرقی سرحد پر ان
بھارتی طیاروں کو جالیا۔ بھارت کے ہنٹر طیارے ہمارے سیبرسے کہیں زیادہ
جدیداور تیزرفتار تھے لیکن ایم ایم عالم نے انتہائی پھرتی اور مہارت سے
30سیکنڈ میں4جبکہ بعدمیں 5واں طیارہ تباہ کردیا اور یوں انہوں نے وہ ریکارڈ
قائم کیا کہ جسے آج تک دنیا میں کوئی توڑنہیں سکا۔اس جنگ میں ایم ایم عالم
نے مزید 4بھارتی طیارے بھی تباہ کیے تھے۔اس کارنامے پرانہیں2مرتبہ ستارہ
جرأت سے نوازا گیا لیکن انہیں نشان حیدر اس لیے نہ دیاگیا کہ وہ زندہ تھے
اور نشان حیدر کی صورت میں انہیں سارے صاحب اقتداراور اختیارسلیوٹ پہ مجبور
رہتے۔
جنگ ختم ہوئی‘ قوم نے ہرسال6ستمبر کو یوم دفاع کے طورپر مناناشروع کیا
تو7ستمبریوم فضائیہ قرار پایا۔ یوم فضائیہ صرف اس جری وبہادربیٹے کے
کارنامے کی وجہ سے وجود میں آیا۔1965ء کی جنگ نے توانہیں ہیرو کادرجہ
دلوایا ہی تھالیکن جہاد سے محبت ان کے رگ و پے میں بسی ہوئی تھی۔ 1979ء میں
جب روس نے افغانستان پرحملہ کیا تو یہ بات ریکارڈ پرموجودہے کہ وہ پاک
فضائیہ سے چھٹی لے کر افغانستان پہنچ گئے اوراپنی جنگی صلاحیتوں اور
مہارتوں سے روزاول سے ہی افغان مجاہدین کو روشناس کروانااور خود اس میں حصہ
لینا شروع کردیا۔ 1982ء میں پاک فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی
زندگی کا بڑاحصہ افغان جہاد کے میدانوں میں گزارا اور جس وقت تک روس اور
روس کی باقیات مکمل طورپر شکست کھاکر پسپا نہیں ہوگئیں ‘وہ اس میدان سے جڑے
رہے۔ اس کے بعد جب کشمیرمیں جہاد کاآغاز ہوا تو وہ اپنی شاہین صفت طبیعت کی
وجہ سے اس جہاد سے بھی دور نہ رہ سکے اوروہاں بھی دادشجاعت دینے پہنچ گئے
لیکن کشمیرکے بلندوبالا پہاڑوں اوربرفیلی چوٹیوں کو بھاری وزن اٹھاکر
عبورکرناان کے لیے اب ممکن نہ تھا‘ اس لیے وہ واپس آگئے لیکن ان کا دل
ہمیشہ اسلام اور غلبہ اسلام کے لیے تڑپتا رہا۔ انہیں پاکستان کے دولخت ہونے
کا بہت زیادہ صدمہ تھا۔ وہ ایک بہاری تھے اور ان کاخاندان 1971ء کے سانحہ
کے بعد مشرقی پاکستان منتقل ہوگیا لیکن انہوں نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح
دی اورپھراپناسب کچھ پاکستان کے نام کردیا۔
ایم ایم عالم کو اس بات کابہت دکھ رہتا تھا کہ قوم انہیں 6ستمبر کے موقع پر
ہی یاد کرتی ہے اور وہ جوحق بات کہنا چاہتے ہیں‘وہ آج کا میڈیا چلانے کو
تیارنہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی اولادوں کو عربی اور فارسی لازمی
پڑھانا چاہیے کیونکہ ہماراسارا ثقافتی ومذہبی ورثہ یہیں پر ہے لیکن
ایساہونہیں رہا۔ امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا تھا‘انہوں نے اس روز
سے ہی کہنا شروع کردیا تھاکہ روس کی طرح افغانستان کی دہلیزپرامریکی غرور
کا سربھی نیچا ہو جائے گا۔آغازپرتولوگ نہ مانتے تھے لیکن اچھاہوا کہ وہ
اپنی آنکھوں سے روس کے بعدامریکہ کو یہاں ذلت سے دوچار ہوتا اور داغ رسوائی
سمیٹتا واپس جاتے دیکھ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
وہ 18مارچ 2013ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔گزشتہ سال کے ماہ دسمبرمیں
انہیں سانس کی تکلیف شروع ہوئی تھی جو بڑھتی چلی گئی اور پھر انہیں آخری
روز تک لے گئی۔ وہ اس دنیاسے دوسرے انسان کی طرح چلے گئے لیکن جو وہ کرگئے
وہ انہیں دنیا میں ہمیشہ ان کی پرواز کی طرح اونچا وسربلندرکھے گا۔
ان کی وفات کے بعدانہیں خراج تحسین پیش کرنے والوں میں چندنام توضرور سامنے
آئے لیکن جنازے میں سوائے سندھ و کراچی سے کوئی اہم ملکی شخصیت شریک نظر نہ
آئی تھی۔ شایدکہ آج ان کے کارناموں کا ہمارے ہاں اب رواج نہیں ۔بھارت
کاایساہیروآنجہانی ہوتو بھارتی میڈیا پوراہفتہ اس کی خبریں گرم رکھتا لیکن
ہمارے میڈیا میں توایک دن بھی اپنے ہیرو کی وفات سب سے بڑی خبرنہ بنی
اوراسے اس وقت بھی محض چھوٹی خبروں میں پیش کیا گیا لیکن دشمن کو ان کی
اہمیت کاپورا احساس تھا۔اسیلیے توایک بھارتی صحافی نے لکھا تھا کہ آج جب
ایم ایم عالم اس دنیاسے رخصت ہوا ہے ‘ بھارت کے لوگ چین کی نیند سوئے ہوں
گئے۔ ایک سال قبل جب وہ اپنے اﷲ سے جا ملے تھے تو اس وقت بھی پاکستان میں
یوفون موبائل کمپنی کے علاوہ کسی کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ انہیں سلام عقیدت
پیش کرتا۔ آج جب ان کی وفات کا ایک سال مکمل ہو ا تو اخبارات نہ یہ سرخی
جمائی کہ ’’ایم ایم عالم کو ہم سے بچھڑے سال بیت گیا اور ہر طرف خاموشی
رہی‘‘آخرکیوں……؟ کیا قومیں اپنے ہیروزکے ساتھ یہی سلوک کرتی ہیں……؟ انہیں
یوں بھلا دیا جاتا ہے؟ یہ سوال اتنابڑا ہے کہ جواب شاید آسانی سے نہ مل سکے۔ |