پاکستان کی تاریخ کے غیر معمولی مقدمے ”غداری کیس“ میں
پیر کے روز اس وقت بامعنی پیش رفت سامنے آئی، جب سابق آمر پرویز مشرف نے
پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش ہونے کی بجائے خود پیش ہونے کو ترجیح
دی۔14مارچ کو غداری کیس کی سماعت میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابل
ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں 31 مارچ کو عدالت میں پیش ہونے
کا حکم دیا تھا۔ لہٰذا پیر کے روز غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی
عدالت کے احکامات کی تعمیل کے لیے پولیس کی خصوصی ٹیم آرمڈ فورسز انسٹی
ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچی، جہاں سے انہوں نے سابق صدر کو سیکورٹی کے سخت
ترین انتظامات کے تحت عدالت پہنچایا۔ سیکورٹی کے لیے اے ایف آئی سی سے
خصوصی عدالت تک کے راستے میں رینجرز، پولیس کمانڈوز اور حساس اداروں کے2
ہزار سے زاید اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ عدالت کے اطراف
رینجرز کی بھاری نفری نے بھی سیکورٹی کے فرائض سر انجام دیے، جبکہ ریڈ زون
میں غیرمتعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی عاید کی گئی۔ سابق جنرل ریٹائرڈ
پرویز مشرف غداری کے مقدمے کی سماعت کے دوران صبح خصوصی عدالت میں پہنچے تو
بینچ میں شامل جج صاحبان کمرہ عدالت میں موجود نہ تھے۔ کچھ دیر بعد ججوں کی
آمد ہوئی۔ ججوں کی آمد پر عدالت میں موجود دیگر افراد کے ساتھ ساتھ پرویز
مشرف بھی کھڑے ہوئے، لیکن انھوں نے عدالت کو سلیوٹ نہیں کیا۔ سنگین غداری
کیس کی سماعت جسٹس فیصل عرب کی صدارت میں تین رکنی بنچ نے کی۔ سابق صدر کی
جانب سے بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنا وکالت نامہ جمع کرایا۔ فروغ نسیم نے اپنے
طور پر بہت کوشش کی کہ پرویز مشرف پر فرد جرم عاید نہ ہو، لیکن جب عدالت نے
اسے تسلیم نہیں کیا تو پھر سابق فوجی صدر کے وکیل نے موقف پیش کیا کہ بے شک
عدالت ان کے موکل پر فرد جرم عاید کر دے، لیکن چونکہ پرویز مشرف کی والدہ
بیمار ہیں، اسے لیے ان کی تیمار داری کے لیے انھیں باہر جانے دیا جائے۔
علاج کے بعد وہ رضاکارانہ طور پر وطن واپس آجائیں گے۔
خصوصی عدالت جب پرویز مشرف پر اس مقدمے میں فرد ج ±رم عاید کرنے لگی تو
عدالت نے براہِ راست پرویز مشرف سے نہیں کہا کہ وہ اپنی سیٹ پر کھڑے ہو
جائیں، بلکہ بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے ملزم کے وکیل سے کہا کہ چونکہ
قانونی تقاضا ہے کہ فرد جرم عاید کرتے وقت ملزم کو اپنی نشست سے کھڑا ہونا
پڑتا ہے، اس لیے وہ پرویز مشرف سے کہیں کہ وہ کھڑے ہو جائیں۔ سابق فوجی صدر
اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے، جس کے بعد بینچ میں موجود جسٹس طاہرہ صفدر نے 5
نکاتی فرد جرم پڑھ کر سنائی، جس میں کیا گیا کہ پرویز مشرف نے بطور آرمی
چیف 3 نومبر 2007ءکو ایمرجنسی نافذ کی، بنیادی حقوق معطل کیے،غیر آئینی اور
غیر قانونی طور پر پی سی او جاری کیا اور سنگین غداری کے مرتکب ہوئے۔ غیر
آئینی اور غیر قانونی طور پر پاکستان کے آئین کو معطل کیا۔ غیرآئینی اور
غیر قانونی حکم جاری کیا۔ آئین میں 270 ٹرپل A کو شامل کیا گیا۔ آرڈر کے
تحت آرٹیکل 175، 186 A،198، 218، 270 B، 270 C میں ترمیم کی گئی۔ 20
نومبر2007ءکو بطور صدر غیر آئینی و غیر قانونی طور پر آئینی ترمیمی آرڈر
جاری کیا۔ پی سی او کے تحت چیف جسٹس پاکستان سمیت اعلیٰ عدلیہ کے کئی ججز
کو برطرف کیا۔ بطور صدر ججوں کے حلف کا غیر آئینی اور غیر قانونی حکم جاری
کیا۔ عدالت نے پرویز مشرف سے اس فرد جرم پر ان کے دستخط بھی لیے اور انھیں
اپنے دفاع میں بولنے کی اجازت بھی دی۔پرویز مشرف نے صحت جرم سے انکار کرتے
ہوئے کہا کہ انھوں نے جو کچھ بھی کیا ملک اور قوم کی بہتری کے لیے کیا اور
ان پر عاید تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے ملک کو زراعت سے لے کر آئی
ٹی کے شعبے تک ترقی دی، ملک کو آئی ایم ایف سے نجات دلائی، ڈالر کے مقابلے
میں روپے کو مستحکم کیا۔ وہ قانون کی حکمرانی پر پختہ یقین رکھتے ہیں ،اب
تک 16 مرتبہ مختلف عدالتوں میں پیش ہو چکے ہیں۔ ملک کے لیے اپنا خون بہایا
ہے، وطن کے دفاع کے لیے دو جنگیں لڑی ہیں، اپنی زندگی کے 44 سال انہوں نے
پاک فوج کو دیے۔ 1999ءمیں جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو ملک دیوالیہ ہونے
کے قریب تھا، لیکن انہوں نے ملک کا وقار بلند کیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود
انہیں غدار کہا جا رہا ہے، جس پر انہیں دکھ ہے۔ان کے خلاف جو مقدمہ ہے وہ
انگریزی میں ’ہائی ٹریزن‘ تو کسی حد تک ٹھیک لگتا ہے، لیکن اس کا اردو
ترجمہ یعنی ”غداری“ کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ ان کے اقتدار چھوڑنے کے
بعد جن لوگوں نے ملک کو بے دریغ لوٹا ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
سابق صدر نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں پیش نہ ہونا ان کی
انا کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ سیکورٹی خدشات کے ساتھ ساتھ ان کے صحت کا بھی
مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے وہ عدالت نہیں آ سکے۔ سابق فوجی صدر تمام نکات
کاغذ پر لکھ کر عدالت لائے تھے اور عدالت ان کے بیان کو انتہائی انہماک سے
سن رہی تھی۔ عدالت نے پرویز مشرف کے بیان کو عدالتی ریکارڈ کا بھی حصہ
بنایا۔ اس موقع پر وکیلِ استغاثہ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ مقدمہ یہ نہیں کہ
پرویز مشرف نے ملک یا قوم سے غداری کی ہے، بلکہ معاملہ آئین شکنی کا ہے اور
ہم پرویز مشرف کی ملک و قوم سے وفاداری پر کیس نہیں کر رہے۔ فردِ جرم عاید
کرنے اور فردِ جرم پڑھ کر سنانے میں فرق ہے اور پرویز مشرف کو بیرونِ ملک
جانے کی اجازت دینے کا اختیار خصوصی عدالت کے پاس نہیں ہے۔ سابق فوجی صدر
کو نومبر2007ءمیں ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین کو پامال کرنے کے الزام
میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے مقدمے کا سامنا ہے اور اس
مقدمے کی سماعت جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت کا تین رکنی بینچ
کر رہا ہے۔ انہیں 31 مارچ کو ہر صورت عدالت کے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا
تھا تاکہ ان پر فردِ جرم عاید کی جا سکے۔عدالت نے فیصلہ دے رکھا تھا کہ اگر
پرویز مشرف عدالتی احکامات ماننے سے انکار کرتے ہیں تو پولیس انہیں گرفتار
کر کے عدالت میں پیش کرے اور اس سلسلے میں اسلام آباد پولیس کے افسران کی
ٹیم بھی تشکیل دی گئی تھی۔دوسری جانب اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق
صدر پرویز مشرف کی بیرون ملک جانے کی درخواست نمٹا دی ہے۔ خصوصی عدالت کے
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی
ایل میں ڈالا تھا۔ ای سی ایل سے نام خارج کرنے کا کام عدالت کا نہیں بلکہ
حکومت کا ہے۔
اطلاعات کے مطابق عدالت پیشی سے واپسی پر سابق صدر پرویز مشرف کی طبیعت
دوبارہ خراب ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے سابق صدر کو دوبارہ آئی سی یو میں دوبارہ
منتقل کر دیا۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو ہسپتال میں داخل ہوئے0 9 دن
ہوچکے ہیں، مرض تو دل کا ہے لیکن ابھی تک کسی میڈیکل رپورٹ میں یہ نہیں
بتایا گیا کہ ان کا کیا علاج کیا جا رہا ہے۔ سنگین غداری کیس کے ساتھ” دل
کا عارضہ“ بھی طویل ہو کر رہ گیا ہے۔ آرمڈ فورسزز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
عدالت میں ان کی 7 جنوری کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں 9 بیماریاں گنوائی گئی
تھیں۔ ان میں سر فہرست تھی دل کی بائیں مرکزی شریان سے خون کی فراہمی کا
غیر مستحکم ہونا۔ 24 جنوری کو پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ
انہیں مستقل نگہداشت کی ضرورت ہے، لیکن پرویز مشرف محسوس کرتے ہیں کہ
انجیوگرافی ہوئی تو غیر معمولی صورت حال پر قابو پانے کے لیے ملک میں جدید
اسپورٹ سسٹم موجود نہیں، تاہم ماہر امراض قلب تو کچھ اور ہی کہتے ہیں کہ
ہمارے پاس یہ دونوں سسٹم موجود ہیں۔ سی ٹی انجیوگرافی تو بیسک سریکنگ ہے،
اس کے بعد تو انجیوگرافی ہوتی ہے، جو اے ایف آئی سے میں روزانہ 50 تک ہوتی
ہوں گی۔پرویز مشرف 2 جنوری سے اے ایف آئی سی میں داخل ہیں ، ان کا یہاں
علاج معالجہ کیا ہو رہا ہے ، لوگ نہیں جانتے۔ تاہم ماہرین نفسیات کہتے ہیں
کہ کسی مریض کے اتنا لمبا عرصہ ہسپتال میں رہنے سے ڈیپریشن سمیت نفسیاتی
مسائل ہو سکتے ہیں، لیکن جو خود اپنی مرضی سے رہے ، اسے کوئی مسئلہ نہیں
ہوتا۔ بیمار شخص کے لیے ہسپتال میں رہنا پڑے تو مجبوری ہے ،لیکن اگر خود کی
مرضی بھی شامل ہوتو نفسیاتی اثرات نہیں پڑتے۔پرویز مشرف اتنے طویل عرصے سے
ہسپتال میں کیوں رہ رہے ہیں یہ تو وہ خود ہی جانتے ہیں۔ وہ فوجی ہسپتال اے
ایف آئی سی میں علاج کا سرکاری حق رکھتے ہیں اور وہ روم چارجز ، ڈاکٹرز کی
فیس ،ٹیسٹ اور ادویات کے خرچے سے مبرا ہیں۔
واضح رہے کہ پرویز مشرف کا معاملہ گزشتہ سال سے زیر التوا ہے۔ گزشتہ سال
24جون کو وفاقی حکومت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ
چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہاتھا کہ حکومت اس ضمن میں سپریم کورٹ کے فیصلے
پر عمل درآمد کرے گی، جس کے تحت تین نومبر 2007ءکو اس وقت کے صدر اور آرمی
چیف جنرل پرویز آئین کو معطل کر کے غداری کے مرتکب ہوئے تھے ،27جون کو
حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق ایک چار رکنی
تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ نومبر میں وفاقی حکومت نے سابق فوجی صدر
پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل6 کے تحت غداری کے مقدمے کی سماعت کے لیے
جسٹس فیصل عرب، جسٹس یاور علی اور جسٹس طاہرہ صفدرپر مشتمل تین رکنی خصوصی
عدالت تشکیل دی تھی۔ خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے پرویز مشرف کے
خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں 24 دسمبر
کو طلب کیا تھا۔ سال رواں 2 جنوری کو خصوصی عدالت میں پیشی کے لیے جاتے
ہوئے دورانِ سفر اچانک پرویز مشرف کو راولپنڈی میں فوج کے ادارہ برائے
امراض قلب( آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی) میں داخل کروا دیا
گیاتھا۔ پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے حکم
دیاتھا کہ انھیں دل کی تکلیف نہیں اور وہ 16 جنوری کو عدالت حاضر ہوں۔
جنوری کے آخر میں خصوصی عدالت نے ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر
دیے۔ خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو 18 فروری کو عدالت میں پیش
ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہاتھا کہ عدم تعمیل کی صورت میں ناقابلِ ضمانت
وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں گے۔لہٰذاسابق فوجی صدر پرویز مشرف پہلی مرتبہ
18فروری کو اپنے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت میں
پیش ہوئے۔14 مارچ کو خصوصی عدالت نے ملزم پرویز مشرف کے پیش نہ ہونے پر ان
کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے اور انہیں 31 مارچ کو عدالت میں
پیش ہونے کا حکم دیا۔31 مارچ کو اسلام آباد میں خصوصی عدالت میں پرویز مشرف
حاضر ہوئے تو ان پر فردِ جرم عاید کر دی گئی ہے۔ پرویز مشرف پر فرد جرم
عاید ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ غداری
کیس میں وفاقی حکومت خود فریق ہے، جسے اس کیس کو انجام تک پہنچانا ہو گا۔
پرویز مشرف کا معاملہ وفاقی حکومت کے لیے کڑا امتحان ہو گا، دیکھنا یہ ہے
کہ مشرف کو منطقی انجام تک پہنچایا جاتا ہے یا یہ سب کچھ عوام کے دکھاوے کے
لیے ہے۔ جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آئین اور قانون کو توڑنا
گھناؤنا جرم ہے اوعر پرویز مشرف کو اس کی سزا ضرور ملے گی۔پرویز مشرف کے
معاملے پرحکومت پر کوئی دباؤ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دباؤ قبول کریں گے،
فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ پرویز مشرف غدار ہیں انہیں آئین توڑنے کی
سزا ضرور ملے گی، عدلیہ نے پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کرکے ایک نئی تاریخ
رقم کردی، فرد جرم جمہوریت کی مضبوطی کے لئے اہم سنگ میل ہے، غداری کیس میں
عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی حکومت اس پر عملد رآمد کرے گی جب کہ ایمرجنسی کے
نفاذ کی حمایت کرنے والوں کو بھی کٹہرے میں لانا چاہیے۔ ایسے افراد سے
جیلیں بھری پڑی ہیں جن کے رشتے دار بیمار ہیں، آئین انسانی ہمدردی کی
بنیادپر پرویزمشرف کو باہر اجازت نہیں دیتا ہم عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم
کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کی والدہ بیمار ہیں تو انہیں ایئرایمبولینس کے ذریعے
پاکستان لانے کی پیش کش کرتے ہیں۔
پرویز مشرف پر فردِ جرم کی تفصیل
پہلا جرم: فوجی سربراہ کی حیثیت سے 3نومبر 2007ءکو 1973 کے آئین کو معطل کر
کے ملک میں غیر آئینی اور غیر قانونی ایمرجنسی کا نفاذ جو آئین میں غداری
سے متعلق آرٹیکل 6 کی شق 2 کے تحت قابلِ سزا جرم ہے۔
دوسرا جرم: تین نومبر 2007ءکو عبوری آئینی حکم نامہ پی سی او 1 جاری کیا
اور اعلی عدالتوں کے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر فرائض ادا کرنے
کا پابند کیا اور ایسا نہ کرنے پر چیف جسٹس سمیت اعلی عدالتوں کے دیگر جج
برطرف ہوئے۔
تیسرا جرم: تین نومبر 2007ءکو ملک کے صدر کو وقتاً فوقتاً 1973ءکے آئین میں
ترمیم کا اختیار دیا۔ آئین کے آرٹیکل 9، 10، 15، 17، 19 اور25 میں درج
بنیادی شہری حقوق کو بھی معطل کر دیا۔
چوتھا جرم: 20 نومبر 2007ءکو بطور صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک آئینی
ترمیمی حکم نامہ نمبر 5 جاری کیا، شق 270 ٹرپل A کوآئین میں شامل کیا اور
مختلف آئینی آرٹیکلز میں ترامیم کیں جو آرٹیکل 6 کے تحت قابلِ سزا جرم ہے۔
پانچواں جرم: 14 دسمبر 2007 کو انہوں نے بطور صدر آئینی حکم نامہ نمبر 6
جاری کیا، جس کے تحت آئین میں مزید ترمیم کی گئی جو کہ غیر آئینی اقدام
تھا۔ |