تعلیم کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے
کیوں کہ کسی بھی ملک کے مستقبل کا دارومدار اس کے تعلیم یافتہ نوجوانوں پر
ہی ہوتا ہے۔ جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک کو دیکھا جائے، ان کا معیار تعلیم
بہت بلند ہے جب کہ ان کے مقابلے میں ہمارا تعلیمی معیار صفر ہے۔
2013ء کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان اپنی مجموعی قومی پیداوار کا
محض1.5فیصدتعلیم پر خرچ کرتا ہے جو ایشیاء میں سب سے کم تناسب ہے۔ اس کے
علاوہ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ ایشیا میں اسکول جانے والے بچوں کی چوتھی
بڑی آبادی پاکستان میں ہے جو 54 لاکھ ہے۔ لیکن ایشیا میں خواندگی کی تیسری
بدترین شرح بھی ہمارے پیارے ملک کی ہی ہے۔تاہم، اگر ہمارے ملک کے تعلیمی
نظام کی بات کی جائے تووہ لکیر کا فقیر ہے۔ پاکستان بنے ہوئے آج اتنے برس
بیت چکے ہیں مگر ہمارا وہی فرسودہ نصابِ تعلیم چلا آ رہا ہے۔ سائنس ترقی کر
کے کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم آج بھی وہیں کے وہیں ہی کھڑے ہیں جہاں
66سال پہلے تھے۔ہم ایٹم کے آج تک وہی تین ذرّات الیکٹران، پروٹان،اور
نیوٹران پڑھ رہے ہیں اور بچوں کو پڑھا رہے ہیں جب کہ اب تک ایٹم کے 113ذرات
دریافت ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ہم ترقی یافتہ کیسے بن سکتے ہیں؟؟ تعلیمی
اداروں کاحال دیکھا جائے تواکثر گورنمنٹ اسکولز میں اساتذہ غائب ہوتے ہیں۔
وہاں بچے ’’ا پنی مدد آپ‘‘ کے تحت پڑھتے ہیں۔جہاں ٹیچرز ہوتے ہیں وہ بھی نہ
ہونے کے برابر۔ مشکل سے کوئی دو فیصد ہی اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کرتے
ہیں۔ اسکولوں میں جو پڑھائی ہے وہ صرف ’’رٹّافیکیشن سسٹم‘‘ ہے۔یہاں سے وہاں
تک والا سسٹم جو بدقسمتی سے ہمارے اساتذہ کو follow کروایا گیا تھا، وہ بھی
اسی کو بنیاد بنا کر بچوں کوآگے لے کر چلتے ہیں اور جب یہ بچے آگے کسی کو
پڑھائیں گے تووہ بھی یہی کریں گے۔تو کیا یہ سسٹم ایک مورثی بیماری کی طرح
ہمیشہ ایسے ہی چلتا رہے گا؟
ہمارے بچے بھی آج صرف امتحان میں کامیابی کے لیے پڑھتے ہیں۔وہ صرف ڈگری
حاصل کرتے ہیں تعلیم نہیں۔ ہمارے ملک کے تعلیمی نظام کا حال یہ ہے کہ ایک
تحقیق کے مطابق پانچویں کلاس کے57 فی صد طلباء دوسری کلاس میں پڑھائے جانے
والے انگریزی کے جملے اور سادہ تقسیم کے سوالات حل نہیں کر سکتے اور
پانچویں جماعت ہی کے 50 فی صد طلباء دوسری کلاس میں شامل اردو کی کہانیاں
نہیں پڑھ سکتے۔ یہ تو تحقیق میں انکشافات کیے گئے مگر ہم نے خود میٹرک کے
ایسے بچوں کو بھی دیکھا ہے جوٹھیک سے اردو نہیں پڑھ سکتے مگر پاس A+گریڈ سے
ہوتے ہیں۔
آٹھویں کلاس تک تو ہر اسکول اپنے مطابق اپنے طریقے سے بچوں کو لے کر چلتا
ہے۔مگر نویں جماعت کے بعدوہی نظام امتحانات ہونے کی وجہ سے تقریاًہر اسکول
میں ایک جیسا ہی نظام تعلیم ہوتا ہے۔ وہی five year رٹ لینا۔ کچھ سال پہلے
2009ء میں تھوڑی تبدیلی کے ساتھ نیا پیٹرن آیا۔ پہلے پہل طلباء کو پریشانی
کا سامنا کرنا پڑا مگر اب وہ پریشانی بھی ختم ہو چکی ہے۔کیوں کہ ایک بار
پھر five yearرٹ لیا اور پیپر پاس۔ پیپر بنانے والے بھی شاید کتاب دیکھنے
کی زحمت نہیں کرتے اور اپنی آسانی کے لیے ایک ہی چیز بار بار دے دی جاتی
ہے۔اسی وجہ سے ہمارے بچوں کو چند چیزوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا۔اکثر
طلباء رزلٹ آنے کے بعد کہتے ہیں کہ ’’پرچے تو بہت اچھے دیے تھے مگر رزلٹ
اچھا نہیں آیا۔‘‘ وہ یہ نہیں سوچتے، یہ نہیں دیکھتے کہ ہم لکھ کر کیا آئے
تھے۔ہمارے بچے ایسے لکیر کے فقیر ہوتے ہیں کہ سوال تک ٹھیک سے پڑھنے کی
زحمت نہیں کرتے۔ جو جواب یاد کیا تھا اگر اس کا ایک لفظ بھی سوال میں ہے تو
رٹا ہوا چھاپ آئیں گے یا جس کو یاد نہیں ہو گا اسے جو بھی ملے گا وہ ویسا
ہی چھاپے گا اگرچہ پرچے میں دیے گئے سوال سے اس کاتعلق ہی نہیں ہوتا تو
ایسے میں ممتحن اچھے نمبر دے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اکثر بچوں کے ذہن میں
یہ بٹھا دیا جاتا ہے کہ جتنا زیادہ لکھو گے نمبر بھی اتنے ہی اچھے ملیں گے
اور بچے ایسا ہی کرتے ہیں۔وہ پرچہ بھرنے کی غرض سے ہر اوٹ پٹانگ بات لکھ
دیتے ہیں۔
امتحانات میں نقل کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کے بارے میں صرف کہا
جاتا ہے۔ مگر اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔ چند طلباء برائے نام پکڑے جاتے
ہیں اور انھیں سزا بھی سنا دی جاتی ہے۔باقی ہزاروں نقل کرتے ہیں مگر پکڑے
بھی نہیں جاتے۔ نقل کر کے نالائق اور محنت نہ کرنے والے اچھے نمبروں سے
کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔اور بے چارے محنتی منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ محنت
ِشاقہ کرنے کے بعد بھی جب نکمے اور نالائق طلباء سے ان کے نمبر کم آتے ہیں
تو وہ دل برداشتہ ہو کر محنت کرنا ہی ترک کر دیتے ہیں۔میٹرک میں نقل کی
بہتات کی وجہ سے ہمارا انٹر کا رزلٹ 50فیصد بھی نہیں آتاکیوں کہ وہاں نقل
کے زیادہ مواقع میسر نہیں ہوتے۔ مگر پچھلے دو سالوں میں وہاں کی حالت بھی
کچھ اچھی نہیں رہی۔ اور اس سال وہاں بھی میٹرک والا حال دیکھنے کو ملے گا۔
اگر امتحانات کے دوران کسی امتحانی مرکز کا نظارہ دیکھنے کو ملے تو وہ ایک
امتحانی مرکز کم اور کلاس روم جہاں کتب پڑھی جاتی ہیں، زیادہ لگتا ہے۔ ایسا
لگتا ہے کہ طلباء کو سارے سال میں آج کا دن ہی پڑھنے لکھنے کو ملا ہے۔جہاں
طلباء اور کتب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ایسے ’’چھپائی‘‘ ہوتی ہے کہ بس۔کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ بورڈیا
کسی میڈیا کی ٹیم کے چھاپے مارنے سے پہلے ’’الہام‘‘ ہونے کے بعد سب clearکر
دیا جاتا ہے ۔ مَیں نے امتحانی مراکز میں نقل پر 2010 ء میں بچوں کے صفحے
کے لیے ایک مختصر سی کہانی لکھی تھی جس پر اکثر لوگوں نے بہت شور شرابا
کیاحالاں کہ اس میں ایسا کچھ نہیں تھا جس پر اعتراض کیا جاتا۔
امتحانات کے بعدرزلٹ کا انتظار ایک کھٹن مرحلہ ہوتا ہے جس میں ہمارا ملک
ماشاء اﷲ بہت fastہے۔ اتنا کہ جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس کی سب سے
اچھی مثال ہماری ایک دوست نے جس نے گریجویشن میں کراچی یونیورسٹی سے 2012ء
میں دوسری پوزیشن حاصل کی، دی کہ ہم نے 2012ء میں ایم۔اے میں داخلہ لیا۔
2013ء میں امتحانات دیے اور2014ء میں ہمارے رزلٹ کا اعلان ہوا۔یہی حال باقی
کلاسسز کا بھی ہوتا ہے۔ ذمہ دار لوگ امتحان لینے کے بعد لمبی تان کے سو
جاتے ہیں۔ گریجویشن فائنل ائیر کا امتحان دینے کے بعد اگلے چھ ماہ تک رزلٹ
کا انتظار کرو اور رزلٹ آنے کے بعد آگے داخلہ لینے کے لیے اگلے چھ ماہ مزید
انتظار۔اسی انتظار میں طلباء کے سال پہ سال ضائع ہوتے ہیں اور کسی کو کوئی
پروا بھی نہیں ہوتی ۔ اکثر طلباء تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب کسی سرکاری
نوکری کے لیے درخواست دیتے ہیں توعمر کی زیادتی کی وجہ سے ان کی درخواست
مسترد ہو جاتی ہے اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ان کا قیمتی وقت
ضائع کیا کس نے؟ اگر ہمارے تعلیمی اور امتحانی نظام کا یہی حال رہا تو ہم
کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے بلکہ ایسے میں ترقی کا خواب بھی دیکھا جانا ممکن
نہیں۔ |