بد قسمتی سے ہمارے ملک میں سیاست دانوں اور فوج کے درمیان ہمیشہ سے بد
گمانیاں جنم لیتی رہی ہیں جس کا نتیجہ ملک کے لئے ہمیشہ نقصان دہ رہا
ہے۔سیا ستدان ہمیشہ یہ شکوہ بر ِ لب رہے کہ فوج جمہوریت کو پنپنے نہیں دیتے
جبکہ فو جی جرنیل سیاست دانوں کی نا اہلی ، کرپشن اور اقرباء پروری کو مو
ردِ الزام ٹہراتے رہے ہیں ،کون درست ہے، کون غلط ؟ یہ ایک طویل طلب بحث ہے
۔البتہ ہم اس وقت گذشتہ روز وزیرِ دفاع خواجہ آصف اور وزیرِ ریلوے جناب
عابد شیر علی کی طرف سے پاک فوج پر داغے گئے قولی میزائیل اور اس کے جواب
میں پاک کے سپہ سالار جنرل راحیل کے شکوہ کے متعلق فکر مند ہیں کیونکہ
سیاستدانوں اور فوج کی چپقلش ملک میں قائم نام نہاد جمہو ریت کے لئے زہرِ
قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔
پیر کے دن پاک فوج کے سپہ سالار جناب جنرل راحیل شریف نے غازی بیس میں قائم
پاک فوج کے مایہ ناز گروپ، سپیشل سروس گروپ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے
کمانڈو گروپ کے جوانوں سے خطاب کیا اور ان کی جنگی مہارت اور بہادری کو
خراجِ تحسین پیش کرتے ہو ئے کہا کہ پاک فوج نے مادرِ وطن کے تحفظ اور
سلامتی سے کبھی دریغ کیا اور نہ کبھی کرے گی اور قو می حمایت کے ساتھ
روایتی ہم آ ہنگی اورعزم کے ساتھ قومی سلامتی اور تعمیر و ترقی کا فریضہ
انجام دیتی رہے گی مگر اس کلام، تحسینی کے ساتھ ساتھ انہوں نے بڑے نِپے تلے
انداز میں یہ شکوہ بھی کیا کہ بعض سیا ستدان بے جا طور پر ایسے بیانات دے
رہے ہیں جس پر ہمارے فو جی جو انوں کو بجا طور پر تحفظات ہیں اور تشویش بھی
ہے۔آرمی چیف کایہ بیان یقینا مبنی بر حقیقت ہے اور لائقِ توجہ ہے۔ اس میں
کسی شک کی گنجا ئش نہیں کہ پاک آرمی نہ صرف یہ کہ ملک کی دفاع اور سلامتی
کے لئے ہمیشہ سے جانوں کا نذرانہ پیش کرتی چلی آ رہی ہے بلکہ ملک میں جاری
دہشت گردی کے جنگ میں تا حال پھنسی ہو ئی ہے ان کے ہزاروں جوان اور آ فیسرز
نے اس جنگ میں اپنی جا نیں قربا ن کی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں معذور ہو
چکے ہیں ، اس کے علاوہ سیلاب ہو یا زلزلہ یا کو ئی اور نا گہانی آفت، فوج
کے جوان عوام کی مدد کے لئے ہر دم چو کس اور بر سرِ پیکا ر رہتے ہیں اس کے
با وجود پاک فو ج پر طنز و ملامت کے تیر چلانا یقینا ایک شرمناک حرکت ہے۔
جہاں تک جنرل پر ویز مشرف کے معا ملہ کا تعلق ہے ، قوم اس سلسلہ میں دو
حصوں میں تقسیم ہے ۔ایک کثیر تعداد کی رائے یہ ہے کہ جنرل مشّرف کے خلاف
مقدمہ نواز شریف اور عدلیہ کی انتقامی کا روائی کا شا خسانہ ہے کیونکہ اسے
12اکتوبر 1999سے شروع کرنے کی بجائے 3نو مبر 2007 کے اقدام پر شروع کیا گیا
ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت کسی کو بچانا چاہتی ہے اور کسی کو
پھنسانا چاہتی ہے۔بہت سارے لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ اس وقت ملک
کثیرالجہت مشکلات کا شکار ہے اس لئے حکومت کو پرویز مشرّف کے چکّر سے نکل
جانا چا ہیئے اسے با ہر جانے کی اجازت ملنی چا ہیے۔اگر پرویز مشرف کے خلاف
مقدمہ چلانا ضروری ہے تو اسے عدالت کے سپرد کرکے سیاستدانوں کو خاموش رہنا
چاہیئے ۔وزیر دفاع ہو تے ہو ئے خواجہ محمد آ صف کا پرویز مشرف پر اس انداز
میں تنقید کرنا ، جس سے پاک فوج کے ان جوانون اور افسروں کو دکھ پہنچے جو
اس وقت ہزارہا مشکلات کے باوجود جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک کی جغرا فیائی
اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں ، ان پر تنقید یقینا بِلا جواز اور
نا مناسب ہے۔ فوج نے سابقہ پیپلز پا رٹی کے دورِ حکومت میں بڑے نارو ا قسم
کے زخم سہتے ہو ئے منتخب جمہوری حکومت کا ساتھ دیا ۔اب ایسی صورتِ حال کا
پیش آنا کہ فوج کے تعلقاتِ عامہ کو با قاعدہ ایک پریس ریلیز جاری کرنے کی
ضرورت پیش آ ئی ،جس کے ذریعے حکومتی کر سیوں پر براجماں سیاستدانوں کو
متنّبہ کرنا پڑا کہ ’ہم اپنے ادارے یعنی پاک فوج کی توہین برداشت نہیں کر
سکتے‘ یقینا ایک قابلِ توجہ معاملہ ہے۔ گزشتہ روز منعقد ہو نے والے کو ر
کما نڈر کانفرنس میں بھی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کے بیان پر نا پسندیدگی
کا اظہار کیا گیا ۔
اندریں حالات ہمارا حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ وہ عوام کے مسائل و مشکلات پر
اپنی پوری توجہ دے۔جہاں تک پر ویز مشرف کا تعلق ہے،اس کا معاملہ عدالتوں کے
سپرد ہے ، انہیں اپنا کام کرنے دیا جائے۔وزراء کو ایسے بیانات دینے سے گر
یز کرنا چاہیے جس کا مطلب فوج کو نشانہ سمجھا جائے۔فوج اس ملک کا ایک با
وقار ادارہ ہے ،پرویز مشرف اس کے سربراہ رہے ہیں ،جہاں کئی لوگ اس کے مخالف
ہیں ،وہاں بہت سے لوگ اس کے ہمدرد بھی ہیں با ایں وجہ حدِ اعتدال سے بڑھ کر
ان پر رائے زنی کرنا مناسب نہیں ہوگا ورنہ اسی طرح کا ردِ عمل بھی سامنے
آئے گا ، تلخیاں بڑھیں گی اور معاملہ 1999والی صورتِ حال بھی اختیار کر
سکتا ہے اور سیاستدانوں کو یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنی چا ہیے کہ دودھ
پینے والے اور خون دینے والے کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |