آہ ؛محمد قطب مرحوم - عالم اسلام کاایک روشن ستارہ

بسم اﷲالرحمن الرحیم

محمدقطب مرحوم عالم اسلام کے مایہ ناز دانشور تھے،گزشتہ جمعۃ المبارک 4اپریل 2014کومکہ مکرمہ،سعودی عرب میں انتقال فرماگئے اور عالم اسلام ایک فکری خلا چھوڑ گئے۔مرحوم کی ایک وجہ شہرت ان کاعلمی خانوادہ مصر بھی تھا،وہ بیسویں صدی کے مشہور سائنسدان اور مفسر قرآن سید قطب شہید کے چھوٹے بھائی بھی تھے۔اﷲتعالی اب دونوں بزرگوں کو غریق رحمت کرے ،ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور ان کے بعد امت مسلمہ کی فکری تنہائی کو دور کرے،آمین۔مرحوم محمد قطب کاسن پیدائش1919ہے،انہوں نے مصر کے ایک گاؤں ’’موشا‘‘جو ایک بڑے شہر’’اسیوط‘‘کے ساتھ واقع ہے میں آنکھ کھولی۔وہ پانچ بہن بھائیوں میں سے چوتھے تھے۔1940میں قاہرہ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں اعلی تعلیم کی سند حاصل کی اور اس کے بعد تعلیمیات اور نفسیات میں بھی تعلیمی اسناد حاصل کیں۔وہ آغاز عمری ہی سے اپنے بڑے بھائی سیدقطب شہید کی زیرسرپرستی رہے ،وہی نہیں ان کی دو چھوٹی بہنیں بھی اپنے بڑے بھائی سے بہت متاثر رہیں اور اپنے انقلابی افکار دینی کے باعث یہ سب بہن بھائی کئی بار سنت یوسفی میں پابندسلاسل بھی رہے اور مصر کے روایتی طاغوت نے ان بطلان حریت کوآہنی زیور پہنائے رکھا۔خاص طورپر محمد قطب نے دو بار تو طویل دورانیے کی مصائب قیدوبند جھیلے ،ایک بار 1954میں جب جمال عبدالناصرکے کوڑے اہل ایمان پر برس رہے تھے اور دوسری بار 1965سے1972تک بھی محمدقطب مرحوم پس دیوار زنداں رہے اوراسی دوران 1966میں ان کے بڑے بھائی سید قطب شہید کو تختہ دار پر لٹکادیاگیا، یوں اخوان المسلمون کے اہل ایمان نے صبرواستقامت اورعزم و ہمت کی داستانیں رقم کیں۔

محمد قطب مرحوم کو1972میں قیدوبند سے آزادی کے بعد مصر کے تاریخی استعمار نے اپنے ملک میں برداشت کرنے سے انکار کردیااور یوں آپ کل انبیاء علیھم السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے سعودی عرب میں تاحیات مقیم ہو گئے اور اپنی باقی ماندہ مہلت عمل دعوہ و ارشاد اور تعلیم و تعلم کے لیے وقف کر دی۔اپنے تعلیمی وپیشہ ورانہ زندگی میں پہلے آپ شاہ عبدالعزیزیونیورسٹی اور پھر بعد میں جامعہ ام القری مکۃ المکرمہ میں بطور پروفیسر شعبہ علوم اسلامیہ کے تعینات رہے۔اس دوران آپ نے بے شمار تحقیقی مقالات کی نگرانی کی اور کئی نسلوں نے یکے بعد دیگرے آپ سے کسب فیض کیا۔ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈیزکے کتنے ہی بڑے بڑے مایہ ناز طالب علم جنہوں نے بعد میں ایک زمانے کے اندر اپنا لوہا منوایااور نام کمایا اپنے عہد طالب علمی میں محمدقطب مرحوم کے سامنے زانوئے تلذتہ کرکے بیٹھے رہے اورپھر ان کے نام سے منسوب ہونا فخر سمجھتے رہے۔مرحوم نے اپنے کل افکار کواس نقطہ پر مرکوز رکھاکہ کس طرح سے اسلامی تعلیمات کو دورغلامی کے اثرات بدسے پاک صاف کیاجا سکتاہے اور کس طرح دینی فکروعقیدہ ایک شخص کی انفرادی زندگی سے ہوتاہوا کس طرح کل معاشرے کے رگ و پے میں سما سکتاہے۔1924ء میں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد سے مسلمانوں میں امت کی شوکت گزشتہ کی تجدید کے لیے کئی افکاروخیالات پیش کیے جاتے رہے جن میں سے اکثریت کاجھکاؤمغربی تہذیبی سیکولرازم کی طرف تھایا پھر کسی نے بڑا زور مارا تو عرب نیشنل ازم کا نعرہ لگادیااور کوئی اٹھا تو اس نے سرنگوں ترقی و کمال کے نظریات پیش کر دیے لیکن جو انقلابی نظریات سید قطب شہید اور ان کے بعد محمد قطب مرحوم نے دیے انہیں کل امت میں قبول عام نصیب ہوااور آج اکیسویں صدی کی دہلیز پر شرق و غرب سے بیداری امت کی ٹھنڈی ہوائیں انہیں نظریات کا ثمرہ ہیں ۔

محمدقطب مرحوم نے سعودی عرب میں دعوہ و ارشاد اور تبلیغ و ارشاد کامیدان ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اپنے شہید بھائی کی کئی کتب کی اشاعت کی اور خودبھی مغرب کے مقابلے میں نظریاتی محاذپر عالم اسلام کے مدافعاتی نہیں بلکہ پیش دستی سپاہی بن کر ابھرے۔آپ مرحوم نے یورپ کے سیکولرنظریات کوآڑے ہاتھوں لیا،یورپی فکر کے بخیے ادھیڑے اور سیکولرخیالات کے خلاف ایسے ایسے دلائیل دیے کہ جن کا جواب آج تک یورپی مفکرین سے نہیں بن پارہا،مرحوم محمدقطب نے سیکولرازم کا سخت ترین علمی محاصرہ کیا۔وہ خود مصر کے پروردہ تھے اور سیکولرازم کے نام پر انصاف کا اورانسانیت کا قتل عام نہ صرف اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکے تھے بلکہ خود اس کا شکار ہو چکے تھے اور اپنی بہنوں سمیت جہاں دارورسن بری طرح اپنی جانوں پر سہ چکے تھے وہاں اپنے عزیزترین بھائی کی قربانی بھی پیش کر چکے تھے ،تب ان سے بہتر سیکولزازم کے کذب و نفاق کواور کون جان سکتاتھا۔آفرین ہے اس مرحوم بزرگ پر کہ سعودی عرب جیسے ملک میں جبرواستبدادکے نظام کے اندر رہتے ہوئے بھی ان کا قلم حق بیانی سے باز نہ آیااور انہوں نے مسلمان نوجوانوں کی کئی نسلوں کو مغربی تہذیب کی ذہنی غلامی سے آزاد کرکے تو اعتمادنفسی عطا کیا۔وہ میدان قرطاس کے سپاہی تھے اور قلم ان کا ہتھیارتھااورمتعدد کتب ان کے مفتوحات ہیں جن کا دنیابھرکی کئی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور ابھی بھی جاری ہے،اب تو عرب دنیاسے باہر بھی ان کے معتقدین کثرت سے موجود ہیں ۔ان کی جن کتب کو عرب وعجم میں قبول عام حاصل ہواان میں کچھ کے نام یہ ہیں:
۱۔بیسویں صدی کی جہالت۔
۲۔ہماری اصل ،حقیقت کے آئینے میں۔
۳۔اسلامی تاریخ نویسی کے اصول ومبادی۔
۴۔توحید،ایک عقیدہ ایک قانون اور ایک طرزحیات۔
۵۔سیکولرافراداور ا سلام۔
۶۔اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کاازالہ۔
۷۔معاشرتی علوم کے گرد دائرہ اسلام۔
۸۔انسانی نفسیات کا مطالعہ۔
۹۔انسان،مادیت اور اسلام کے درمیان۔
۱۰۔اسلامی نشاۃ ثانیہ۔

مرحوم محمد قطب کی بھرپور کوشش رہی کہ فکرکااسلام اور عقیدے کااسلام عمل میں بھی ڈھل جائے اور مسلمان ریاستوں کے قوانین اور مسلمان معاشروں کی روایات مغربی طرزغلامی سے آزاد ہوجائیں۔وہ ایک آفاقی فکر کے حامل تھے اور انہوں نے کبھی اپنے آپ کو بین الاقوامی سرحدوں یا قومی و لسانی تعصبات کے دائروں میں محدود نہیں کیاتھا۔دعوہ وارشاداور سیکولرازم کے خلاف ان کی علمی و برہانی جدوجہد کی کامیابی کے باعث سیکولرازم کو شکست فاش دینے والے ترکی کے حکمران طیب اردغان نے کچھ سال قبل اپنے دورہ مکہ مکرمہ کے دوران شیخ مرحوم سے ملاقات کی اور انہیں مستقل طور پر ترکی میں سکونت اختیار کرنے کی دعوت دی ،لیکن انہوں نے وہی جواب دیا جو امام مالک ؒنے اندلسی حکمران امیر ہشام ثانی کو دیا تھا،شیخ مرحوم نے فرمایا کہ وہ اس عمر میں جوار حرم سے بعد کے متحمل نہیں ہو سکتے اور شکریہ کے ساتھ طیب اردگان کی پیشکش واپس کر دی ۔جبکہ اس سے قبل مرحوم شیخ کئی مرتبہ ترکی کا دورہ کر چکے تھے اور انہیں ترکی سے ایک الفت سی تھی جس کا وہ بار بار اظہار بھی کرتے تھے اور جب کبھی ترکی جاتے تو ہفتوں تک قیام کرتے تھے ۔اب کی بار ترکی کاقصد نہ کرنے کی وجہ شاید خدائی فیصلہ تھا کہ حرم مکہ سے آپ کی محترم روح نے عالم بالا کی طرف پرواز کرنا تھا۔

دورغلامی ہویا دورجبرواستبدادیاپھر جمہوری تماشا،امت مسلمہ کی کوکھ ہمیشہ سرسبزوشاداب رہی ہے۔یہ فیض قرآن اور تربیت محمدیﷺہے کہ امت کا دامن علمی کبھی بھی اور کسی دور میں بھی تنگ دست نہیں رہا۔وہ صحرائے عرب ہو یا ریگزار عجم یا پھر افریقہ و ایشیائے کوچک کے میدان و سلسلہ ہائے کو ہ و دمن ہوں یا پھر دنیاکے کسی بھی خطے کی سرزمین ہو،فرزندان توحید نے دہکتے ہوئے انگارے کی طرح اپنے وجود کو دنیا سے تسلیم کروایاہے ۔مشاہیر اسلام کا سلسلہ صحابہ کرام سے شروع ہوا اور تاقیامت جاری و ساری رہے گا کہ یہ امت اﷲتعالی کے آخری پیغام کی امین ہے۔شیخ محمد قطب اس قافلہ سخت جاں کے پہلے مسافر ہیں اور نہ ہی آخری لیکن بہرحال اس ایک ہی گلستان کے ہرہرپھول کا رنگ اور خوشبو جداجداہے ۔بدرواحدسے میدان کربلا تک اورپھر صدیوں کی مسافت کے بعد فلسطین و کابل، شیشان، اریٹیریا، کشمیر، برما، بنگلہ دیش اور نہ جانے تاریخ کے کن گم شدہ گوشوں میں کہاں سے کہاں تک شہداکی امین یہ امت اپنے خون سے عالم انسانیت کی آبیاری کرتی آئی ہے اور کرتی رہے گی کہ یہی اسی کے شایان شان ہے۔اﷲتعالی شیخ محمد قطب مرحوم کی مرقد کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادے اور انہیں اپنے خاص جوار رحمت میں جگہ عطا کرے اور ہم جب ان سے ملیں تو انہیں اس زمین پر غلبہ اسلام کی دستاویزخوش اسلوب پیش کرسکیں ،آمین۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571897 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.