فتنہ طراز کائرلوٹاگال کی نئی شرانگیزی

امریکی میڈیا میں تھوڑے سے وقفے کے بعد فتنہ طراز کائرلوٹاگال کی نئی شرانگیزی سامنے آ چکی ہے۔ مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی کی عینک پہن کر لکھنی والی برطانوی صحافی کائرلوٹاگال جو نیویارک ٹائمز کے لئے لکھتی ہے کا انتہائی متعصبانہ اور شرانگیز مضمون بعنوان ’’پاکستان اسامہ بن لادن کے بارے میں کیا جانتا ہے؟‘‘ صحافتی بدیانتی کی بدترین مثال ہے۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں برطانوی خاتون صحافی کائرلوٹاگال کے شائع ہونے والے مضمون میں پاک فوج حکومت اور آئی ایس آئی پر لگائے جانے والے شرانگیز الزامات کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں افغانستان اور پاکستان کے لئے مذکورہ اخبار کی اس نمائندہ نے ہمیشہ پاکستانی اداروں جوہری پروگرام اور بعض دیگر ایشوز کے حوالے سے صحافتی آداب کو پامال کیا اسی باعث اسے ماضی میں پاکستان سے نکال دیا گیا تھا اپنے مضمون میں اس نے لکھا ہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اسامہ بن لادن کے تحفظ کے لئے ایک خصوصی ڈیسک قائم کیاتھا ڈیسک بنانے والا شخص کسی دوسرے کو جوابدہ نہ تھا حکومت پاکستان سابق صدر پرویز مشرف اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیا نی کی ماتحتی میں طالبان کے معاملات کی دیکھ بھال اور تحفظ کر رہی تھی۔ مضمون میں دعوی کیا گیا ہے کہ طالبان کو کنٹرول کرنے کا مقصد نہ صرف ان کے ذریعے دیگر شدت پسند گروپوں کو ہاتھ میں رکھنا تھا بلکہ افغانستان کے معاملات پر بھی کنٹرول کرنا تھا مضمون میں یہ شرانگیزی بھی کی گئی ہے کہ پاکستان بظاہر امریکہ سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تعاون کر رہا تھا لیکن طالبان القاعدہ اور کشمیری گروپوں سے بھی رابطے میں تھا آئی ایس آئی میں کچھ شخصیات ایسی تھیں جو شدت پسندوں اور طالبان کے خلاف کام کررہے تھے جبکہ کچھ طالبان کی مدد میں مصروف تھے کائرلوٹاگال کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد موجودگی سے آگاہ تھے امریکی حکام نے ایبٹ آباد آپریشن کے ایک دن بعد جنرل شجاع پاشا کی کال ریکارڈ کی تھی جس میں وہ کسی سے اسامہ کی موجودگی کا علم ہونے کی بات کر رہے تھے یہ فون کال سن کر امریکی حکام حیران رہ گئے کیونکہ جنرل شجاع پاشا طالبان کے خلاف تھے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اہم ساتھی تھے مضمون کے ذریعے یہ شرانگیزی بھی کی گئی کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کو ہمیشہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو کو بھی انہی کے ہاتھوں سے مروا دیا 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد ملاعمر پاکستان میں اپنے محافظوں کے ساتھ رہائش پذیر رہے جس کا پاکستانی انٹیلی جنس ادارے کے حکام کو علم تھا۔ اخبار نے لکھا ہے کہ اسامہ کے گھر سے ملنے والی دستاویزات سے پتہ چلتاہے کہ حافظ سعید اور ملا عمر سمیت کئی طالبان رہنما اسامہ سے رابطے میں تھے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دہشتگردی کے خاتمے اور قیام امن کے لئے راستہ تلاش کررہی ہے نیو یارک ٹائمز کا یہ مضمون مخصوص مذموم عزائم اور شرانگیزی کے مقاصد کے تحت شائع کیا گیاہے جس طرح جھوٹ کی بنیاد پر مضمون کو تراشا گیا حیرت ہے کہ اس کے بعد ایڈیٹوریل بورڈ نے بھی اس کے بہت سے خلاف حقیقت واقعات کے باوجود اسے شائع کردیا جس وقت ایبٹ آباد آپریشن ہوا اس وقت وہی شجاع پاشا آئی ایس آئی کے سربراہ نہ تھے ایک عام صحافی بھی جس حقیقت سے باخبر ہے امریکی اخبار کی صحافی کیونکر اس سے لاعلم ہے اور پھر اس سے بڑی مضحکہ خیز بات اور نہیں ہو سکتی کہ جو طالبان جی ایچ کیو اور ایئر بیس پر حملے کر رہے ہیں پاک فوج اور آئی ایس آئی پر حملے کر رہے ہیں پاک فوج کے میجر جنرل اور جنرل تک کے افسروں کو شہید کررہے ہیں ان کے بارے میں یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی تھی۔ یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ امریکی اداروں نے بھی تحقیقات کے بعد یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم نہ تھا انٹیلی جنس اداروں نے نیو یارک ٹائمز کی مذکورہ رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے جبکہ حافظ سعید نے امریکہ کو چیلنج کیا ہے کہ اگر اس کے پاس اسامہ کے ساتھ ان کے رابطوں کا ثبوت ہے تو وہ اسے پیش کر دے مذکورہ شر انگیز رپورٹ پاک فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی مذموم سازشوں کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے واضح طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ برطانوی خاتون صحافی امریکی سی آئی اے اور بھارتی ''را،، کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوئی ہے ۔
Shaheen Kusar Dar
About the Author: Shaheen Kusar Dar Read More Articles by Shaheen Kusar Dar: 7 Articles with 5026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.