خیال اپنا اپنا……میرے ڈھول سپاہیا تینوں سمجھ نہ آئی

کسی کے خیال ہے کہ ’’حکومت اور عسکری قیادت طالبان سے مذاکرات کے معاملے پر ایک ’’ پیج ‘‘ پر نہیں ہیں۔کیونکہ طالبان کے مطالبے قیدیوں کی رہائی پر عسکری قیادت کے کچھ تحفظات ہیں۔ ‘‘

کسی کے نزدیک’’ مذاکرات کے لیے موجودہ وقت بہترین وقت ہے۔اگر یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر ایسا سازگار وقت دوبارہ ہاتھ نہیں آئیگا۔‘‘کسی کا موقف ہے کہ ’’عسکری قیادت اور سول قیادت کیدرمیان تعلقات میں دڑاڑیں پڑنے کی خبروں میں رتی بھر صداقت نہیں ہے۔ یہ سب میڈیا والوں کا کیا دھرا ہے۔حقیقت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘‘کسی مہربان کے پاس بڑی دور کی کوڑی ہے کہ عسکری قیادت دراصل اپنے سابق چیف کے معاملے پر وفاقی وزرا کے بیانات کی وجہ سے متحرک ہوئی ہے۔ لیکن عسکری قیادت مشرف کیس کو سکینڈلائز کرنے کے خلاف ہے۔عسکری قیادت ہر گز یہ نہیں چاہتی کہ عدالت میں مشرف کے خلاف کارروائی نہ کی جائے-

احسن اقبال جن کا خمیر جماعت اسلامی سے ہے۔ کا کہنا ہے کہ مشرف کیس کو فوج کا کیس بنانے والے ملکی وحدت اور قومی سلامتی کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور انکا مقصد ملک میں بحران پیدا کرنا ہے۔ مشرف کیس کو فوج سے نتھی کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جنرل مشرف ایک سیاسی جماعت’’ آل پاکستان مسلم لیگ ‘‘ کے سربراہ بھی ہیں ۔انکا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کی شخصیت اور انکے عدالت میں پیشی کے حوالے سے لیے گے اقدامات پر تنقید کو فوج پر تنقید نہ سمجھا جائے۔کیونکہ مشرف اور فوج اب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

واقعی یہ بات قابل غور سمجھی جانی چاہیے کہ مشرف کو عدالت میں اپنے اوپر لگے الزامات کا دلیرانہ سامنا کرنا چاہییاور اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کرنا ہے کہ وہ کمانڈو ہے اور کمانڈو کمزور نہیں ہوتے۔ اور مشرف کے وکلاء کو بھی یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اب مشرف آرمی چیف نہیں ہیں۔بس ایک ملزم ہے۔اس کے علاوہ کچھ ہے تو وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ جیسے ریٹا ئرڈ ائر مار شل اصغر خاں تحریک استقلال کے صدر اور ریٹا ئرڈ جنرل سابق آرمی چیف محمد اسلم بیگ ’’عوامی قیادت پارٹی ‘‘ کے قائد ہیں۔ جنرل جب سیاست میں آئیگا اور سیاست کریگا تو ان پر تنقید بھی ہوگی اور خلاف آئین اقدام پر انکا مواخذہ بھی ہوگا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اور سابق وزیر اعلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ ’’ مجھے نہیں لگتا کہ جنرل مشرف کو سزا ہوگی۔کیونکہ وردی وردی ہوتی ہے،وہ نئی ہو یا پرانی ……حکومت اگر ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرنے کی خواہاں ہے تو اسے اعتماد سازی کے اقدامات کرنے ہونگے۔ اور مذاکرات اصل لوگوں سے ہونگے ڈاکیوں سے نہیں ( ڈاکیوں کے الفاظ میرے ہیں اختر مینگل نے اہلیچیوں کے الفاظ استعمال کیے ہیں)اختر مینگل بلوچستان کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں اور انکے والد محترم بھی اسی منصب پر فائز رہے ہیں اس لیے یہ لوگ اقدار کی پچیدگیوں اور الجھنوں سے بخوبی آگاہ ہیں ۔اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں کون با اختیار ہوتا ہے اور کون بے اختیار……اختر جان مینگل جن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ وزیر اعلی ابن وزیر اعلی ہیں۔ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک کی صوبائی حکومت وضاخت کرے کہ وہ بلوچستان میں جاری آپریشن میں حصہ دار ہے یا نہیں …… اخترجان مینگل کے مبالبات تو بہت زیادہ ہیں یہاں میں نے چند ایک کا ذکر کیا ہے۔

جماعتہ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ سعید کی دل آرزو ہے کہ حکومت طالبان مذاکرات کو جاری رہنا چاہیئے اسے تعطل یا ڈیڈ لاک کی نذر نہیں ہونا چاہیئے۔جماعت اسلامی پاکستان کے نو منتخب امیر جناب سراج الحق کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت مذاکرات کے لیے ایک عرصہ درکار ہے۔کیونکہ اتنے پچیدہ معاملات محض چند دنوں میں حل نہیں ہو سکتے۔ طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوچکا ہے، امید ہے کہ چند روز تک یہ ڈیڈ لاک ختم ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

وزیر داخلہ چودہری نثار علی خاں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی فروٹ منڈی میں ہونے والے بم دھماکے میں استعمال ہونے والی امرودوں کی پیٹیاں جنوبی پنجاب سے بس کے ذریعے لائی گئی تھیں۔ انہوں نے اس امر کی بھی تردید کی کہ اسلام آباد بم میں کوئی بلوچستان کی تنظیم ملوث ہے۔ مطلب یہ کہ اسلام آباد کی فروٹ منڈی دھماکہ میں جاں بحق ہونے 25 افراد اور زخمی ہونے والے سوا سو افراد کے ذمہ دار یونائیٹڈ بلوچ آرمی نہیں طالبان ہیں۔اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ طالبان نے جنگ بندی ختم کردی ہے-

چیف جسٹس آف پاکستان سید تصدق حسین جیلانی کے فرمان عالی شان کی بڑی دھوم مچی ہوئی ہے ۔اینکرز حضرات اسکا بھی خوب پوسٹمارٹم کر رہے ہیں۔ چیف آرمی سٹاف کی جانب سے اپنے ادارے کے ’’وقار کے تحفظ ‘‘ کے ذکر کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے اپنے ادارے کے تحفظ کی بات کو بھی بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔دونوں بیانات پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ سب دانشور اورماہرین قانون و سیاست اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق انکے مطالب نکال رہے ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بیان کا مقصود و مطلوب چیف آف آرمی سٹاف نہیں بلکہ تحفظ پاکستان بل کے خالق ہیں۔ اﷲ جانے کس کے بیان کا مقصود و مطلوب کیا ہے۔

مجھے تو بس اپنے پیارے پاکستان کی فکر ہے۔ مجھے حیرت ہورہی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف وزیر اعطم تو پورے پاکستان کے ہیں۔ مگر وہ اپنے بیرونی دوروں میں محض اپنے برادر خورد اور وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو ہی لیکر جاتے ہیں……سمجھ نہیں آرہی کہ کیا وزیر اعظم خود کوصرف پنجاب کا وزیر اعطم تصور کرتے ہیں؟اگرایسا نہیں ہے تو پھرکیا وجہ ہے کہ وہ دوسرے صوبوں کے وزرا ئے اعلی میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ہمراہ بیرونی ممالک کے دوروں میں لیجانے کا شرف نہیں بخشتے……سندھ اور خیبر پختون خواہ کے وزرا ئے اعلی نے تو باقاعدہ اس پر احتجاج بھی کرنا مناسب خیال کیا ہے اور وزیر اعظم میاں نواز شریف سے اسکا سوال بھی داغ دیا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ وزیر اعظم پر ویز خٹک کو کیا جواب دیتے ہیں۔یہ انکی مرضی ہے اور صوبدیدی اختیار کہ کسی کو جواب دیں یا نہ دیں۔وزیر اعظم کے اس طرز عمل سے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے ’’ پنجاب پر لگے داغ کو دھونے کا خواب‘‘ شرمندہ تعبیر ہوتاتو دکھائی نہیں دیتا لبتہاس داغ کو مذید گہرا کرنے کا سبب ضروربن رہا ہے۔ موجودہ حالات میں جب ہمارا پیارا وطن عزیز چاروں طرف سے مسائل اور مشقلات میں گھرا ہوا ہے ۔ہم اس نازک موڑ پر ذرا سی بھی غلطی کوتاہی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اس تمام تناظر میں میری تجویز یہ ہوگی کہ اگر مشرف کو سزا دینے سے ملک کے مسائل حل ہونے میں مدد ملتی ہے تو سو بار انہیں سزا دیں اور اگر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے سے پاکستانم کے مسائل حل ہونے کی بجائے ان میں کئی گناہ اضافہ ہی ہوا ہے تو پھر مشرف کو دفعہ کریں ……جاتا ہے باہر تو جانیں دیں ……سنا نہیں کہ مارنے سے بھگانا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔میری یہ تجویز مخلصانہ ہے اور سراسر پاکستان اور جمہوریت کے بہترین مفاد میں ہے……مشرف کے جیل میں پڑے رہنے سے کیا ہمارا بجٹ ٹیکس فری ہوجائیگا؟کیا پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگ جائیں گی؟ جیسے نواب اکبر بگتی کو قتل کرنے سے بلوچستان کے مسائل کم نہیں ہوئے بڑھے ضرور ہیں اسی طرح مشرف کو نشان عبرت بنانے کے جنوں میں کہیں ہم (پاکستانی اور پاکستان) کو ہی نہ نشان عبرت بنا ڈالیں……ارباب اقتدارکو ذرا سوچنا چاہیے اور ضرور سوچنا چاہیے……کیونکہ ہمیں اپنے مفادات اور خواہشات سے زیادہ یہ ملک اور اسکے مفادات عزیز ہونے چاہئیں -

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161253 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.