ملک میں لاپتہ افراد کے
معاملے کا سپریم کورٹ کی طرف سے سخت نوٹس لینے کے مقدمات اور سابق آمر
پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ سے پہلی بار عوام کو احساس ہوا کہ ملک
میں حقیقی طور پر آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے کا عمل شروع کیا گیا
ہے،یعنی ملک میں تمام شخصیات،گروپوں،اداروں پر آئین و قانون کی بالادستی کو
یقینی بنانا ہی آئین و قانون کی ایسی با لادستی ہے جو عوام کا اعتماد ملکی
نظام پر مضبوط بناتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں مارشل لاء کی آمریت کا دور
جنرل ایوب سے لیکر جنرل پرویز مشرف تک عشروں قائم رہا اور اس دوران ایسے
مفاداتی عناصر بھی پیدا کئے گئے جو ملکی حاکمیت میں فوج کے برتر و ناقابل
جوابدہ کردار کے خواہاں رہتے ہیں۔افسوس صد افسوس کہ ہمارے ارباب اختیار نے
مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا اور اسی سوچ و '' اپروچ''
کے مطابق پالیسیاں جاری رہیں جس وجہ سے مملکت پاکستان کے دوٹکڑے ہو گئے۔
سرکاری حلقوں کی طرف سے اس حقیقت کا اعتراف کہ'' فوج اور حکومت کے درمیان
تنائو موجود ہے''، ملک کو درپیش اس بدقسمتی کی مثال ہے کہ ہمارے قومی
اداروں،ارباب اختیار نے طویل مارشل لاء اور اس سے پاکستان کو پہنچنے والے
ناقابل تلافی نقصانات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہے۔آئین میں پاکستان کے ہر
ادارے اور عوام کے کردار و وقار کا احاطہ کر دیا گیا ہے۔ہماری رائے میں ادب
و احترام عہدے سے نہیں بلکہ کردار سے ہوتا ہے ۔یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ
ملک میں جھوٹ ، جہالت اور مفاد پرستی کے چلن میںایسے لوگوں کی کمی نہیں جو
اب بھی ملک کے چند اداروں کو جوابدہی سے مبرا سمجھتے ہوئے ان کی حیثیت و
حاکمیت کومقدم قرار دیتے ہیں۔آج باقی ماندہ پاکستان سنگین ترین خطرات سے
دوچار ہے،عوام مہنگائی،ظلم ،زیادتی،ناانصافی سے کچلے جا رہے ہیں اور ہمارے
جج صاحبان بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ عوام کو مرنے کے لئے زہر ہی فراہم
کر دو۔ملک و عوام کو درپیش اس سنگین صورتحال میں بھی اگر کسی کا وقار باقی
رہ گیا ہے تو یہ ایک انوکھی بات ہے۔
بلاشبہ عوام کو فوج کے روائتی دفاعی کردار پر فخر ہے،آج بھی نشان حیدر پانے
والے شہداء عوام کے ہیرو ہیں،لیکن فوج کا حاکمانہ کردار قبول کرنے کا مطلب
اپنے ملک کی مسلح افواج کو کمزور بنا نا ہے جسے عوام ہر گز پسند نہیں کرتے
۔یہ بدقسمتی بھی ہمارا نصیب نہیں بلکہ بد اعمالیاں ہیں کہ فوجی آمریت کے
ادوار میں ہی ملک میں طبقاتی نظام مضبوط ہوا،مفادات کی سیاست کی ترویج بھی
آمرانہ حکومتوں میں ہی کی گئی۔مختصر یہ کہ آج ہم صاف طور پر کہہ سکتے ہیں
کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت اور عوام کے فیصلے کو آمریت کی
بھینٹ چڑہاتے ہوئے پاکستان کو ''صحیح ٹریک'' پر رکھنے کا موقع کھو دیا
گیااور آج بھی حکومت،عدلیہ ،عوام اور پاکستان کو اسی انداز کا سامنا ہے۔
پاکستان کے کسی بھی ادارے اور عوام کے وقار میں کوئی فرق نہیں ہے،خصوصا
مسلح افواج اور عوام کی عزت و وقار کو الگ الگ کر کے نہیں دیکھا جا
سکتا۔کسی بھی ملک کی فوج کے محافظ اس ملک کے عوام ہوتے ہیں۔قومیں وہی ترقی
کرتی ہیں جو اصولوں کو شخصیات و اداروں پر مقدم رکھتی ہیں اور دنیا میں وہی
قومیں باوقار ثابت ہوتی ہیں۔اس وقت پاکستان جن سنگین ترین مسائل سے نبرد
آزما ہے،اس صورتحال میں پاکستان کو اس خطرناک صورتحال سے نکالتے ہوئے
استحکام اور مضبوطی کی جانب راغب کرنا ہے،ایسے وقت بالخصوص عوام،سیاسی
لیڈروں اور اداروں کو متحد و یکجان ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔عقل و دانش
اور نظرئیہ پاکستان بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہتے کہ پاکستان میں آئین و
قانون کی بالادستی کا قیام ناگزیر ہے۔ارباب اختیار کو اس کا احساس کرنا
چاہئے کہ ان کی گزشتہ67سال کی ناکام پالیسیوں نے اس پاکستان کو کہاں لا
کھڑا کیا ہے جو جنوبی ایشیا ہی نہیں کئی دیگر علاقوں کے مظلوم عوام کی
امیدوں کا مرکز تھا۔کیا ہم انفرادی ،طبقاتی عزت و وقارکے خواہاں ہیں یا
قومی عزت و وقار کامقام حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
حقیقت یہی ہے کہ ملک و عوام کو بچانے کا واحد راستہ آئین و قانون کی
بالادستی کو یقینی بنانا ہے۔ ملکی نظام و آئین کو قانون کے مطابق بہتری کی
جانب گامزن کرنا ضروری ہے ،ماضی کی غلطیوں کو جاری رکھنے کے بجائے ہمیں
ماضی کی غلطیوں کے تدارک کی جانب توجہ دینا ہو گی۔اس کے بجائے
شخصیات،گروپوں،اداروں،عہدیداروں کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے کیا ملک کو
درپیش سنگین ترین خطرات سے نکالا جا سکتا ہے؟طبقاتی نظام،عوامی مفاد کو نظر
انداز کرنے کے چلن کا خاتمہ ناگزیر ہے کہ اگر ہم اس ملک کو بچانا چاہتے
ہیں،اس ملک کو استحکام و ترقی کی راہ پہ چلانا چاہتے ہیں۔ملکی نظام پر عوام
کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے،سب ہی مفاد پرست اور جاہل نہیں ہوتے جو
شخصیت اور ادارہ پرستی کی مفاداتی دھن پر جھومتے ہوئے زندہ باد کے نعرے
لگاتے جائیں۔ملک میں طویل مارشل لاء کے دوران مملکت پاکستان کو اپنے قیام
کے مقاصد کی راہوں سے بھٹکا کر حال بد میں پہنچانے والے، ملک و عوام کے لئے
اپنی ناقص،غلط،نقصاندہ پالیسیوں کو جاری رکھنے پر کیوں مصر ہیں؟سب سے مقدم
پاکستان اور اس کے عوام ہیں،اور ان کے وقار پر کسی اور کے وقار کو حاوی
نہیں کیا جا سکتا۔خدارا ،اب تو ہمیں پیش رفت کے لئے ایک'' سٹیپ'' چڑہنا آ
جانا چاہئے،اس بات کو تقویت نہ پہنچائی جائے کہ ہم لوگ ریاست کا نظام ملک و
عوام کے مفاد میں چلانے کے قابل نہیں ہیں۔ |