بلور مفتیان کرام کی خدمت میں
وطن عزیز میں ایک سے زائد عیدوں کا منانا کوئی نئی بات نہیں ہے، گزشتہ کچھ
عرصے سے ملک میں ہر سال دو دو اور بسا اوقات تین روز تک عید منانے کے افسوس
ناک واقعات ہمیں ملتے ہیں، جنھیں اسلام دشمن قوتوں نے دنیا بھر میں پاکستان
کی جگ ہنسائی کے ساتھ قومی وحدت ملی اور اتحاد و یگانگت کے آئینہ دار عیدین
جیسے مذہبی تہواروں کو انتشار اور افتراق کا سبب بنا کر مسلکی اور علاقائی
تعصبات کو ہوا دینے کیلئے استعمال کیا، ان واقعات کی وجہ سے سیکولر اور دین
سے بیزار عناصر کو اہل مذہب بالخصوص علماء کرام پر طعنہ زنی اور کیچڑ
اچھالنے کا بھی موقع ملا، حالانکہ پاکستان کے مسلمانوں کی ہمیشہ سے یہ
خواہش رہی ہے کہ عیدین کے اجتماعات قومی وحدت کے مظہر اور مسلمانوں کی عظمت
کے آئینہ دار ہوں، ماضی میں عید کے موقع پر مختلف علاقوں میں الگ الگ عیدیں
منانے کی وجہ سے جو اختلافات سامنے آئے تھے انہیں مدنظر رکھتے ہوئے حکومت
نے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور ارکان پارلیمنٹ کے مشورے کے بعد
”مرکزی رویت ہلال کمیٹی “ قائم کی تھی، جس میں نہ صرف تمام مکاتب فکر کے
علماء کرام کو نمائندگی دی گئی تھی بلکہ جدید تعلیم یافتہ افراداور ماہرین
فلکیات کو بھی اس کمیٹی کا حصہ بنایا گیا تھا۔
اس کمیٹی کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں رویت ہلال کے حوالے سے اختلاف
رائے کو ختم کیا جائے تاکہ پوری قوم ایک ہی دن عید منا سکے، گو کہ اس کمیٹی
کی تشکیل کے بعد بہت کم مواقع پر اختلاف رائے سامنے آیا، لیکن گزشتہ چند
سالوں سے صوبہ سرحد میں ماضی میں ایم ایم اے اور موجودہ اے این پی کی حکومت
نے سیاسی وجوہات اور بعض علماء کرام مسلکی اختلافات کی بناء پر مرکزی رویت
ہلال کمیٹی کے وجود کو تسلیم کرنے اور اس کی طرف سے چاند نظر آنے کے اعلان
کو پورے ملک کیلئے واجب عمل قرار دینے پر تیار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے
گزشتہ چند سالوں سے صوبہ سرحد کے کچھ لوگ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے
سے اختلاف کرتے ہوئے علیحدہ عید مناتے رہے ہیں لیکن اس سال تو حکومت سرحد
نے غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کے مطابق پورے صوبے میں اتوار کے
روز عیدالفطر منانے کا فیصلہ کر کے عملاً باقی تین صوبوں اور صوبہ سرحد کے
بعض اضلاع سے الگ عید منانے کی روایت کا آغاز کردیا ہے اور رویت ہلال کی
شہادتوں کے بجائے سعودی عرب کی طرف سے اعلان عید کو پورے پاکستان بلکہ پوری
دنیا کیلئے قابل تقلید قرار دے کر ملک میں ایک نئی لایعنی اور غیر ضروری
بحث کا دورازہ کھول کر قوم کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔
یہ درست ہے کہ پوری پاکستانی قوم کی یہ خواہش ہے کہ عید ایک ہی روز منائی
جائے لیکن اس مقصد کیلئے دینی اور شرعی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی بہت
ضروری ہے، محض کسی مخصوص علاقے یا گروپ کی خوشنودی کیلئے مسلمانوں کو روزے
جیسی عظیم نعمت سے محروم کردینا سراسر گناہ ہے جبکہ رویت ہلال کے ضمن میں
سعودی عرب کی پیروی کرنا اس لئے بھی ممکن نہیں کہ ایک تو پاکستان اور سعودی
عرب کا مطلع بالکل مختلف ہے، دوسرے دونوں ممالک میں تین گھنٹے کا فرق ہے،
جس وقت سعودی عرب میں افطار اور نماز مغرب کا وقت ہوتا ہے اس وقت پاکستان
میں نماز تراویح پڑھی جا چکی ہوتی ہے، مقام حیرت یہ ہے کہ کیا بلور برادران
کو اس حقیقت کا ادراک نہیں؟ اگر بالفرض سعودی عرب میں شام کے وقت چاند
دکھائی بھی دے جائے تو عین اسی وقت وہ پاکستان میں کیسے دکھائی دے سکتا ہے،
جہاں اس وقت رات کے دس یا گیارہ بج رہے ہوتے ہیں؟ جغرافیائی لحاظ سے
پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن سعودی عرب سے بالکل مختلف ہے، اتنے واضح اور
وسیع جغرافیائی فرق کی بنا پر ہر ہجری ماہ کا یکم کا چاند سعودی عرب میں
پہلے دکھائی دیتا ہے اور پاکستان میں اگلے روزنظر آتا ہے، جبکہ شرعی حکم یہ
ہے کہ جہاں چاند نظر آجائے اور ثقہ شرعی شہادتیں مل جائیں تو وہاں عید منا
لینی چاہیے، جبکہ نئے ابھرتے ہوئے مفتیان کرام بلور برادران کی نرالی منطق
کے مطابق اگر پوری دنیا میں سعودی عرب کے ساتھ عید منانے کی رسم ڈالی جائے
تو امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں نماز عید عشاء کی نماز کے ساتھ ادا
کرنا پڑے گی جو کہ کسی طور بھی ممکن نہیں۔
عالم اسلام سے اتحاد اور یک جہتی کی خواہش اور اس کی کوشش بہت اچھی بات ہے
مگر ملک کی ایک ایسی سیکولر جماعت جو کہ ہمیشہ روس کے سرخ سوشلزم کی
علمبردار رہی ہو، جس کے افکار و نظریات اور منشور کا سرچشمہ ماسکو رہا ہو
اور جس کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خاں نے اپنی سرزمین کے
بجائے جلال آباد میں دفن ہونا پسند کیا ہو، کے سرکردہ رہنماؤں کے دلوں میں
اچانک مکہ، مدینہ اور عالم اسلام کی محبت کے سیلاب کو دیکھ کر قوم حیران
ہے، اس سارے قضیئے میں اس جماعت کے دو نوزائیدہ مفتیان کرام علامہ مفتی
غلام احمد بلور اور حضرت مولانا مفتی بشیر احمد بلور سب سے زیادہ پیش پیش
اور بضد تھے کہ عید الفطر سعودی عرب کے ساتھ ادا کی جائے گی، دونوں بلور
مفتیان کرام کا مؤقف تھا کہ ہمیں عالم اسلام کے ساتھ چلنا چاہیے، ان کی اس
ضد اور فتوے کا اثر یہ ہوا کہ سرکاری طورپر سرحد کے بعض مقامات پر اٹھائیس
روزوں کے بعد عید منائی گئی، اس طرح عالم اسلام کی مذہبی اور شرعی تقاضوں
سے کھلا انحراف کرتے ہوئے عالم اسلام کے داعیوں نے خود ہی ملک کے اندر عید
جیسے مقدس تہوار کو تقسیم کردیا۔
یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ملک میں پہلی بار نماز عید اور رویت ہلال کے
خالص شرعی معاملے میں صوبائی تعصب کو بھی ہوا دینے کی کوشش گئی، جو انتہائی
قابل مذمت اور افسوس ناک امر ہے، بلور برادران کے رویت ہلال کمیٹی کے
چیئرمین مفتی منیب الرحمن کو پنجاب کا چیئرمین قرار دینے، پشتونوں کی گواہی
تسلیم نہ کرنے اور مرکزی کمیٹی کے اعلان کے مطابق عید منانے والوں کو
قادیانیوں کے ساتھی قرار دینے کے عمل نے پورے ملک میں قومی اتحاد اور
یکجہتی پر جو ضرب لگائی ہے وہ انتہائی شرمناک عمل ہے، اس مرحلے پر یوں
اچانک بلور برادران کا اس قسم کا طرز عمل جہاں کئی اشکالات اور سوالات کو
جنم دے رہا ہے وہیں کسی ایسے خفیہ ہاتھ کی بھی نشاندہی کا اشارہ کررہا ہے
جس کا اصل ہدف رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کی ذات ہے، اس
کا ثبوت ان کا چیئرمینی سے ہٹائے جانے کا مطالبہ اور ان پر آمرانہ فیصلے
مسلط کرنے کا الزام ہے، یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ مرکزی رویت ہلال
کمیٹی جس کے فیصلوں پر سرحد کی اکثریت سمیت پورے پنجاب، سندھ اور بلوچستان
کے لوگ اعتماد کرتے ہوں اور جس میں مختلف الخیال مکتبہ فکر کے جید علماء
شامل ہوں کے ہوتے ہوئے مفتی منیب الرحمن صاحب تن تنہا فیصلے کریں اور کمیٹی
کے ارکان خاموش تماشائی بنے رہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ادارے قومی اور ملی ملکیت ہوتے ہیں اور جب ادارے قائم
ہوجاتے ہیں اور وہ مملکت کے متعین کردہ اصول و قاعدے اور آئین کے مطابق کام
کررہے ہوں تو ان کے فیصلوں سے انحراف کا مطلب انتشار، فساد اور بغاوت کے
سوا اور کچھ نہیں ہوتا، رہی بات مشرف کی باقیات ہونے کی، تو یہ بات تو تمام
احباب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سربراہ مملکت آتے جاتے رہتے ہیں، اگر پرویز
مشرف کے مفتی منیب الرحمٰن کو رویت ہلال کمیٹی کا چیئرمین نامزد کردینے سے
انہیں مشرف کی باقیات تصور کرنے کا اصول و قاعدہ مان لیا جائے تو پھر سارے
کا سارا موجودہ نظام اور خود الزام کنندہ بھی مشرف کی باقیات اور وراثت کے
امین قرار پاتے ہیں، اس مقام پر مفتی منیب الرحمن کی جانب سے اٹھایا گیا یہ
سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ صوبہ سرحد کے گورنر اویس غنی بھی پرویز مشرف
کے مقرر کردہ ہیں، آرمی چیف اشفاق کیانی کو بھی آرمی چیف انہوں نے ہی بنایا
تھا، چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کا معاملہ بھی ایسا ہے تو کیا یہ سب مشرف کی
باقیات ہیں تو ان کے فیصلے اور سربراہی ماننے سے انکار کر دیا جائے؟ لہٰذا
مفتی صاحب کا یہ کہنا درست ہے کہ قومی اداروں کی اپنی اپنی حرمت ہوتی ہے
اور ان کے فیصلے ماننا ضروری ہوتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ” رویت کا فیصلہ
کسی پنجابی، پٹھان، سندھی یا بلوچی کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اسلامی
اصولوں اور تقاضوں کے مطابق کیا جاتا ہے اور شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے
جس میں سائنسی اداروں کی معاونت بھی حاصل ہوتی ہے کے بعد اکثریتی طور پر
فیصلے کیے جاتے ہیں۔“
چنانچہ اس تناظر میں سرحد حکومت کا فیصلہ آئینی، قانونی اور شرعی اصولوں کے
سراسر منافی اور اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے، حقیقت یہ ہے کہ
رویت ہلال کمیٹی جس میں تمام مکتبہ فکر کے جید علماء کرام شامل ہیں اور جو
مضبوط اور ثقہ شرعی شہادتوں کی بناء پر رویت کا فیصلہ کرتی ہے کے فیصلوں کی
پابندی ہونی چاہیے، عید گزر چکی ہے اس لئے اب مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے
کہ وہ سرحد حکومت سے باز پرس کرے اور اس سے پوچھے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی
کے ہوتے ہوئے، غیر سرکاری کمیٹی کے غیر شرعی فیصلے کی بنیاد پر اسے دینی
معاملات میں مداخلت کا حق کس نے دیا ہے، صوبہ سرحد کے بیشتر اضلاع ہری پور،
ایبٹ آباد، مانسہرہ سمیت پورے ہزارہ ڈویژن، ڈیرہ اسماعیل خان اس کے قبائلی
علاقے، سوات، دیر، بونیر، شانگلہ، چترال، پارہ چنار میں روزہ رکھنا اور ان
علاقوں کے عوام کی جانب سے اے این پی حکومت کے فیصلے کو مسترد کیا جانا اس
امر کی واضح دلیل ہے کہ صوبہ سرحد کے اکثریتی عوام بھی یہ محسوس کرتے ہیں
کہ حکومت غیر ضروری طور پر دینی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے اس لئے انہوں
نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے پنجاب، سندھ اور
بلوچستان کے عوام کے ساتھ ایک ہی روز عید منائی، اس عوامی فیصلے کے بعد اب
سرحد حکومت اور اس کے مفتیان کرام بلور برادران کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں
اور انہیں آئندہ کےلئے دینی معاملات میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہیے، سرحد
حکومت کے اکابرین کو چاہیے کہ وہ اللہ سے توبہ کریں اور اپنے طرز عمل سے
رجوع کریں۔
یہ درست ہے کہ مفتی منیب الرحمن صاحب ایک صاحب کردار، سلجھے ہوئے اور غیر
متعصب عالم دین ہیں اوران کی شخصیت تمام مکتبہ فکر میں احترام کی نگاہ سے
دیکھی جاتی ہے، اس طرح صرف ان کی کردار کشی کرنا اور صرف انہی کو مورد
الزام قرار دینا کسی طور بھی قابل تعریف عمل نہیں ہے، جبکہ کسی شرعی مسئلے
پر اختلاف رائے کی صورت میں اصول، قاعدے اور ضابطے کا تقاضہ یہ ہے کہ مذہبی
تعصبات اور قومی، لسانی اور علاقائی بدگمانی کا پرچم لہرانے کے بجائے اہل
علم علماء اسے دلائل شائستہ بحث و مباحثہ اور مکالمے کے ذریعے طے کریں ناکہ
بلور برادران جیسے غیر عالم جو کہ خود کہتے ہوں کہ ہم کوئی مفتی اور عالم
نہیں ہیں اس طرح ایک شرعی مسئلے پر اپنی رائے اور قیاس آرائیوں سے انتشار
اور بدگمانی پیدا کریں، یہ بات دینی، دنیاوی اور اخلاقی رویئے کے بھی خلاف
ہے، یاد رہے کہ قومی زندگی میں اس طرح کے روئیے نفاق پیدا کرتے ہیں جس سے
قومی یکجہتی پارہ پارہ ہوجاتی ہے، قوم بکھر جاتی ہے اور ملک نت نئے مسائل
سے دوچار ہوجاتے ہیں، اگر ہمیں پاکستان کی سلامتی اور بقا عزیز ہے تو ہمیں
اس قسم کی شرانگیزی سے گریز کرنا ہوگا، آج پاکستان کی بقاء، استحکام اور
سالمیت کے لئے ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور مذہبی منافرت اور
نفاق سے بچنا ہوگا کیونکہ قومی اتحاد اور ملی یکجہتی کو برقرار رکھنے کا
اول و آخر راستہ یہی ہے کہ ہم قومی، ملی، علاقائی اور مسلکی تعصبات اور
نفاق میں پڑھے بغیر اتحاد اور اتفاق کا دامن تھام کر مرکزی رویت ہلال کمیٹی
کے فیصلے کے تحت ایک ہی دن عید منائیں۔ |