لاہور ایک طلسمی شہر ہے ۔اسکی کشش لوگوں کوُ دورُ دور سے
کھینچ کر یہاں لے آ تی ہے جو ایک دفعہ لاہور آیا پھر اسکی واپس مشکل ہی
ہوجاتی ہے ۔یہ شہر علم و ادب ،تہذیب و ثقافت و سیاست کا مرکز رہا ہے ۔یہاں
کی تہذیبی زندگی اور رومان پرور فضا انسان کو تخلیق و تحقیق پر ابھارتی ہے
اسکے ماحول میں رہنے والوں میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔جنہوں نے اس سر زمین
پر رہ کر بڑے بڑے کارنامے سر انجام دئیے ہیں۔لاہور شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے
کہ یہاں بڑے بڑے عظیم لوگوں نے اپنا کیرئیر کا آغاز کیا اور کمالِ عروج
کوپہنچے لاہور شہر شروع سے ہی عظیم لوگوں کا مرکز و محور رہا ہے ۔انہی بڑی
شخصیات میں حضرت علامہ اقبال ؒ بھی ہیں۔جو ایک بار لاہور آئے پھر لاہور سے
جدا نہ ہوئے یہاں تک کہ انکی آخری آرامگاہ بھی یہاں بادشاہی مسجد کے باہر
بنی جہاں کسی زمانے میں درختوں کے نیچے چارپائی ڈال کر گرمیوں میں آرام کیا
کرتے تھے جب وہ اورینٹئل کالج کے ہاسٹل میں بطور ہاسٹل وارڈن کی نوکری پر
تھے ۔ان دنوں ہاسٹل کی تعمیر کی وجہ سے ہاسٹل کی رہائش کو بادشاہی مسجد کے
باہربنے حجروں میں منتقل کیا گیا تھا ۔
شہر لاہور میں رہائش حاصل کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ رہاہے ۔اسی طرح علامہ
اقبال کی زندگی کا بیشتر حصہ کرائے کے مکانوں میں گذرا انکی خواہش تھی کہ
اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو چھت مہیا کر جائیں جنوری1934 ء میں جن دنوں وہ
میکلوڈ روڈ کی کوٹھی میں مقیم تھے انکو معلوم ہوا کہ میو روڈ (موضع گڑھی
شاہو ) میں ریلوے کی اراضی نیلام ہو رہی ہے جگہ موزینت دیکھتے ہوئے علامہ
صاحب نے جگہ کی خرید میں دلچسپی کا اظہار کیا 23 جنوری 1934 ء کو نزول لینڈ
آفیسر پنڈت کرتا کشن کی موجودگی میں ہونے والی نیلامی میں سب سے بڑ ی بولی
علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اقبال کے نام سے لگائی گئی جسے ضابطے کی کاروائی
کے بعد منظور کر لیا گیا اس جگہ کی کل قیمت 25025 روپے بنتی تھی جو علامہ
نے ادا کی 18 دسمبر 1934 ء کو لاہور میونسپلٹی کی جانب سے علامہ اقبال کو
اس بات کی اجازت دی گئی کہ اس پلاٹ پر وہ اپنا گھر تعمیر کر سکیں۔علامہ کے
اپنے ہاتھ سے لکھے گئے وثیقے کے مطابق اس پلاٹ کا رقبہ متوازی سات کنال ہے
۔ضروری خط و کتابت کی تکمیل کے بعد جب زمین کا داخل خارج علامہ کے بیٹے
جاوید اقبال کے نام ہو گیا تو یہاں مکان کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہو ا جسے
جلد مکمل کیا گیا ۔کوٹھی کی تعمیر کے لئے علامہ کی اہلیہ سردار بیگم نے
4000ہزار روپے اور علامہ نے 1700 روپے خرچ کئے اس طرح علامہ کے ذاتی گھر کی
تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا ۔اس مکان کی تعمیر میں علامہ کی بیگم کی پس انداز
کی ہوئی رقم اور زیوارات کام آگئے ورنہ درویش صفت علامہ کماتے کیا تھے یا
بچاتے کیا جس سے گھر تعمیر ہو پاتا ۔کوٹھی کی تعمیر پر کُل 16000 ہزار روپے
خرچ ہوئے اس طرح ٹوٹل 42025 روپے کی لاگت سے جاوید منزل تیار ہوئی علامہ کی
اہلیہ نے یہ جائداد اپنے بیٹے جاوید اقبال کے نام ہبہ کر دی اور علامہ
اقبال کو جاوید اقبال کے بالغ ہونے تک بحیثیت ولی اور کرایہ دار مقرر رکھا
۔علامہ اقبال نے اپنے پہلے ذاتی گھر کا نام اپنے بیٹے کے نام سے جاوید منزل
رکھا ۔اور مئی 1935 ء میں اس گھر میں منتقل ہو گئے دس سالہ جاوید اقبال،
سات سالہ منیرہ اقبال اپنے والدین اور اپنے قدیمی خادم علی بخش کے ہمراہ
یہاں قیام پذ یر ہوئے ۔علامہ کی اہلیہ جنکا خواب تھا کہ اپنا ذاتی گھر ہو
مگر وہ جب یہاں آئی تو شدید بیمار تھیں یہاں تک انھوں نے اپنا گھر بھی چل
پھر کر نہیں دیکھا تھا ۔پھر چند ہی دن بعد انکی وفات ہو گئی ۔ یوں اس گھر
میں قدم رکھتے ہی علامہ پر ایک ایسا صدمہ آیا جس سے انکی کمر ہی ٹوٹ گئی
۔دو معصوم بچوں کی پرورش بہت بڑا مسئلہ تھا علامہ وکالت ترک کر کے زیادہ
وقت گھر رہنے لگے ۔ایک جرمن خاتون مسز ڈورس کی خدمات حاصل کرنے کے بعد
علامہ کی باقی ماندہ زندگی اپنی ایک راہ پر متوازن ہوئی ۔جاوید منزل سے
اقبال کی یہ رفاقت آخری وقت تک قائم رہی ۔اس عرصے میں علامہ کے پاس جتنے
بھی سیاسی اور غیر سیاسی لوگ ملنے کو آتے وہ علامہ صاحب سے یہیں پر ملاقات
کرتے تھے ۔شعراء و ادباء کا مرکز بنا ہوا تھا ۔علامہ صاحب نے اسی گھر میں
21 اپریل 1938 ء کو صبح فجر کے وقت وفات پائی ۔اور نماز جنازہ پہلے اسلامیہ
کالج ریلوے روڈ پھر بعد میں بادشاہی مسجد میں پڑھانے کے بعد اسکے دروازے کے
باہر دفن کیا گیا ۔
علامہ اقبال کی وفات کے بعد بھی انکا کنبہ 38 سال اس گھر میں مقیم رہا
۔اقبال کے بچوں کی اتالیق مسز ڈورس منیرہ اقبال کی شادی ہو جانے کے بعد
واپس جرمنی چلی گئیں البتہ ہر سال ان سے ملنے پاکستان آتی تھیں ۔پاکستان بن
جانے کے بعد پاکستان کے تحریک اور انکے مجاہدوں کی یادگاروں کو محفوظ بنانے
کا خیال آیا ۔منٹو پارک کو اقبال پارک کا نام دیا گیا ۔اسی طرح اقبال
میوزیم بنانے کا منصوبہ زیر غور تھا ۔اس مقصد کے لئے اگست 1961 ء میں علامہ
صاحب کے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کو حاصل کر اسکو میوزیم میں تبد یل کرنے
کاآغاز محکمہ آثار قدیمہ نے کیا جب کام کا آغاز کا گیا تو معلوم ہوا کہ
عمارت کی تمام دیواریں ہی بوسیدہ اور خستہ حال ہیں۔یہ دو کنال کے رقبے پر
محیط عمارت جو کہ میکلوڈ روڈ پر رتن سینمے کے ساتھ ہی واقع ہے ۔اس یادگار
کی بوسیدہ چھتوں کو نکال کر دوبارہ لگایا گیا ۔عمارت تو تیار ہو گئی لیکن
میوزیم نہ بن سکا ۔یہاں ایک چھوٹی سی لائبریری قائم کر دی ۔یوں علامہ اقبال
کے میوزیم کی ضرورت پھر بھی باقی رہی ۔
1977 ء میں ملک پاکستان میں جب علامہ اقبال کی سو سالہ جشن ولادت منایا جا
رہا تھا ۔اقبال منزل سیالکوٹ اور جاوید منزل لاہور کو محفوظ کرنے کی ٖغرض
اسکو اپنی تحویل میں لے لیا ۔صدر ضیاء الحق نے 9 نومبر 1977 میں مزار اقبال
پر پھولوں کی چادر چڑھا کر جشن کی تقریبات کا آغاز کیا اس موقع پر جاوید
منزل کو علامہ اقبال کی آخری یادگار کے طور پر اقبال میوزیم میں تبدیل کرنے
کا اعلان کیا گیا ۔
چنانچہ عمارت کی قیمت ادا کر کے اسے مکینوں سے خالی کرا دیا گیا ۔اسکے بعد
یہاں میوزیم کی تعمیر کا آغاز کیا ۔اس کام کے لئے کراچی میوزیم کے تکنیکی
ماہر قمر الدین اور شاہی قلعے کے کسٹوڈین کی نگرانی میں عمارت کی ضروری
مرمت کروا کہ اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ۔
نو کمروں کے اس میوزیم میں نمائش میں رکھنے کے لئے علامہ کی یادگاری اشیاء
جمع کی گئیں جو خاندان کے مختلف افراد اور احباب کے پاس تھیں۔ان لوگوں نے
میوزیم کے لئے عطیہ کر دیں۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس میوزیم کے لئے علامہ کی
تین سو یادگاری اشیاء ہدیہ کیں جوکہ علامہ کے استعمال میں رہنے والی اور
دیگر اشیاء تھیں جسکا انہوں نے کوئی معاوضہ نہیں لیا ۔ جس میں علامہ کی
جانب سے والدہ جاوید اقبال کی قبر کے لئے خریدی جانے والی زمین کی رجسٹری
بھی شامل تھی ۔
جاوید منزل کی خریداری کے دستاویزات منیرہ اقبال کے بیٹے یوسف صلاح الدین
کے پاس تھے جو انھوں نے اقبال میوزیم کو ہدیہ کئے ۔اس میوزیم کے قیام کے
سلسلے میں جاپان کے ثقافتی فنڈ نے 54 لاکھ روپے کی رقم امداد میں دی جس سے
یہ سارا کام انجام کو پہنچا ۔
اقبال میوزیم کا افتتاح اسکی تیاری کے کافی عرصہ بعد 26 ستمبر 1977 ء کو
صدر جنرل ضیاء الحق نے کیا جبکہ دسمبر میں چیف جسٹس پاکستان انوار الحق نے
اسکی رسم بسم اللہ ادا کرکے اسکو عوام کے لئے کھول دیا ۔
علامہ اقبال کی یہ آخری یادگار لاہور میں ریلوے اسٹیشن سے آتے ہوئے میوروڈ
موجودہ علامہ اقبال روڈ پر ریلوے ہیڈ کورٹر کے سامنے واقع ہے ۔ہر روز اس
سڑک سے گذرنے والے ہزاروں لوگوں میں سے بہت کم لوگ اس مقام اور اسکی اہمیت
کے بارے میں جانتے ہیں۔
یہ گھر جہاں علامہ اقبال کی زندگی کے لمحات گذرے ہمیں علامہ کی تاریخ اور
انکی شخصیت سے روشناس کروانے کا بہترین جگہ ہے ۔نو گیلریوں پر مشتمل اقبال
میوزیم حیات اقبال کا امین ہے ۔اقبال میوزیم میں یا جاوید منزل میں داخلے
کے لئے بغلی راستہ ہے یہیں سے پہلی گیلری شروع ہوتی ہے ۔اندر داخل ہو ں توں
سب سے پہلے علامہ کے استعمال میں رہنے والے قالین نظر آتے ہیں علامہ اقبال
خود بھی قالینوں کا بہت شوقین تھے مگر خود کم ہی کوئی قالین خریدا اس وقت
گیارہ قالین محفوظ کئے گئے ہیں۔ان میں سے دو قالین افغان بادشاہ نادر شاہ
نے بطور تحفہ دئیے ایک قالین ترکی اور ایک ایران سے تحفے میں آیا تھا ۔ جسے
دیواروں پر آویزاں کیا گیا ہے ۔دوسری گیلری میں علامہ صاحب کا تعلیمی
ریکارڈ رکھا گیا ہے ۔علامہ اقبال کا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھا تھا ۔انکی یہ
تمام ڈگریاں اور اسناد دیکھی جا سکتی ہے ۔تیسری گیلری میں علامہ اقبال کے
خطو ط محفوظ کئے گئے ہیں۔یہ خطوط قومی عجائب گھر کراچی اور اقبال اکیڈمی سے
حاصل کئے گئے ہیں یہ وہ خطوط ہیں جوکہ علامہ صاحب نے مولوی محمد دین فوق
،نواب یار جنگ ،مولانا غلام رسول مہر ،صوفی تبسم ،مولانا ظفر علی خان
،مولوی عبد الحق کو لکھے تھے ۔چوتھی گیلری میں علامہ اقبال کی کتب کے اصل
مسودے اور بعض کتابوں کے اولین ایڈیشن رکھے گئے ہیں۔ان میں بالِ جبریل
،پیام مشرق ،جاوید نامہ ،ارمغان حجاز ،پس چے باید کرد ،اسرارِ خودی کے اصل
مسودات رکھے ہیں۔اس مسودات میں علامہ کا وہ کلام بھی شامل ہے جوکہ مطبوعہ
حالت میں دستیاب نہیں ہے ۔اس کلام کو علامہ نے خود اپنے قلم سے حذف کر دیا
تھا ۔کلام اقبال کے محقیقین کے لئے یہ گیلری خصوصی اہمیت کی حامل ہے
۔پانچویں گیلری میں پلاسٹر آف پیرس کے بنے تین ماڈل (اقبال منزل سیالکوٹ
،مشن کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور ) رکھے ہوئے ہیں جسے کراچی کے ایک آرٹسٹ
صغیر احمد نے تیار کئے ہیں ۔چھٹی گیلری میں علامہ صاحب کے ملبوسات اور
استعمال کی اشیاء بڑے سلیقے سے رکھی ہیں۔یہاں تمام اشیاء کی تریب ویسے ہی
رکھی گئی ہے جیسے کہ علامہ کی زندگی میں تھی ۔انکی تر تیب ذرا بھی نہیں
بدلی گئی ۔علامہ اقبال مختلف مواقعوں کی مناسبت سے لباس پہنا کرتے تھے گھر
میں عموما بنیان اور تہہبند میں ہوتے تھے تھری پیس سوٹ بھی پہن لیتے تھے
مگر تقریبات میں انہیں شیروانی اور ترکی ٹوپی میں جانا پسند تھا ۔یہ سب
ملبوسات اس میوزیم میں محفوظ ہیں۔جو کہ حضر ت اقبال کی سادہ زندگی پر دلالت
کرتے ہیں۔میوزیم کی ساتویں گیلری سے نویں گیلری اقبال منزل کے رہائشی کمروں
پر مشتمل ہے ۔ کار پورچ کے سامنے ہی تینوں کمرے اقبال کے استعمال میں تھے
ان میں سب سے اہم خواب گاہ ہے جہاں اقبال کا زیادہ وقت گذرتا تھا ۔ایک
دلچسپ بات یہ کہ علامہ نے جہاں ساری زندگی کرایے کے مکانوں میں گذاری یہاں
تک کہ جاوید منزل میں آنے کے بعد بھی یہاں اپنے زیر استعمال کمروں کا کرایہ
بنام جاوید اقبال دیتے تھے ۔کرایہ دینے کی تاریخ 20 مقرر تھی ۔اپنی وفات سے
ایک روز پہلے ہی گھر کا کرایہ ادا کر چکے تھے یعنی دنیا سے جاتے ہوئے بھی
کسی کے مقروض نہ تھے ۔علامہ کے خواب گاہ کو ویسا ہی رکھا گیا ہے جیسا وہ
انکی زندگی میں تھا خواب گاہ میں جائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ابھی
علامہ صاحب اس کمرے سے اٹھ کر باہر آجائیں گے یہاں علامہ کے استعمال کی
چیزیں ادویات ،کتابیں ،لیمپ ،حقہ ،تکیہ ،شونگ کا سامان ،قلمدان ،جوتے اور
روزمرہ کی دوسری چیزیں بھی رکھی ہیں۔
علامہ کے سرہانے آبنوسی الماری رکھی ہوئی تھی جو اب بھی اسی جگہ موجود ہے
۔الماری میں علامہ کے زیر مطالعہ رہنے والی کتابیں ہیں جن میں قرآن کا وہ
نسخہ بھی شامل ہے جو اکثر انکے زیر مطالعہ رہتا تھا ۔
یہیں کھانے کا کمرہ ہے جسکے پہلو میں باورچی خانہ ہے ۔اس جگہ پر اب میوزیم
کا دفتر قائم ہے ۔کمرے کے درمیان میں بیضوی شکل کی کھانے کی میز رکھی ہے
۔ڈرائینگ روم بھی سادگی کے باوجود نفاست کا نمونہ ہے ۔
علامہ کے زیر تصرف رہنے والا یہ گھر نہ صرف ایک میوزیم ہے بلکہ جاوید منزل
میں حیات اقبال کے کئی نایاب راز پوشیدہ ہیں۔اس عمارت کی ایک ایک اینٹ کے
حافظے میں تاریخ کے کئی نادر واقعات چھپے ہوئے ہیں۔یہی وہ تاریخی گھر ہے
جہاں پنجاب میں مسلم لیگ کی تشکیلِ نو ہوئی تھی ۔مسلمانو ں کے عظیم قائد
محمد علی جناح اور فاطمہ جناح بھی علامہ کی ملاقات کو یہاں تشریف لاتے تھے
علامہ اور قائد کے درمیان خط وکتابت بھی اسی گھر سے ہوتی تھی ۔اس گھر میں
برصغیر کی اہم سیای شخصیات کے علاوہ سیاست ،فلسفے ،ادب اور زندگی کے ہر
شعبے کے افراد اقبال سے ملنے بے دھڑک آتے تھے ۔کمرے میں اپنی کتابیں اپنی
مرضی سے رکھتے تھے اگر گھر کا کوئی فرد ترتیب بدل دیتا تو سخت ناراض ہوتے
تھے ۔پلنگ کے قریب ہی نوٹ بک اور پنسل ہوتی تھی جب طبیعت شعر کہنے کو مائل
ہوتی تو شعر لکھ کر ڈائری وہیں رکھ دیتے تھے ۔
علامہ صاحب اپنے گھر میں عموما دھوتی اور بنیان پہنا کرتے تھے اور کوٹھی کے
لان میں درخت کے نیچے تشریف فرما ہوتے تھے فارغ وقت میں بچوں کے ساتھ
گزارتے تھے یا علی بخش کے ساتھ گپ شپ کیا کرتے تھے ۔
20 اپریل کی شام خاصی خنک تھی ۔ہو ا میں سردی کی شدت ابھی باقی تھی ۔علامہ
صاحب کی طبیعت چند ہفتوں سے کافی گر رہی تھی ۔وہ دالان میں بیٹھے تھے جب
شام کو سردی محسوس ہوئی تو اندر جانے کی خواہش ظاہر کی ۔تو انھیں انکی خواب
گاہ میں لیجایا گیا ۔اس شام تمام ڈاکٹروں کا ایک بورڈ جاوید منزل میں جمع
ہوا تاکہ علامہ کی خراب طبیعت پر کوئی دوا تجویز کریں ۔علامہ کی خراب حالت
کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹروں نے اس رات کو علامہ کے لئے نہایت مشکل قرار دیا ۔اس
بورڈ میں ڈاکٹر کرنل امیر چند ،ڈاکٹر الہی بخش ،ڈاکٹر محمد یار ،ڈاکٹر
جمیعت سنگھ جیسے قابل ڈاکٹر شامل تھے ۔لیکن خدا کی مشیت کے سامنے کس کی
چلتی ہے ۔ادھر 21 اپریل کی صبح نمودار ہوئی موذنوں نے اذان فجر کہی ادھر
علامہ اقبال نے جاوید منزل میں اپنا آخری سانس لیا اور انکی روح قفس عنصری
سے پرواز کر گئی ۔اقبال کی موت مسلمانوں کے لئے تو نقصان تھا ہی لیکن انکے
کمسن بچے ایک بار پھر یتیم ہو گئے تھے ۔
اقبال کا جسد خاکی انکی خواب گاہ میں پڑا تھا انکی ایک جھلک دیکھنے کو پورا
شہر امڈ آیا لوگ باری باری لائن میں کمرے کے ایک جانب سے داخل ہوتے اور
دوسری جانب سے علامہ کا دیدار کر کے باہر نکل جاتے تھے ۔پورے لاہور میں سوگ
کی کیفیت تھی ہر کوئی اپنے عظیم مفکر کی جدائی کے غم میں رو رہا تھا ۔علامہ
کا جنازہ دھوم دھام سے جلوس کی صورت میں جاوید منزل سے روانہ ہو ا اور
اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی گراونڈ میں نماز جنازہ ہوئی اسکے بعد بادشاہی
مسجد کے باہر دفن کر دیا گیا ۔
اقبال میوزیم سڑک سے ذرا اونچا ہے اسکے گرد جنگلہ لگا ہوا ہے جبکہ میوزیم
کا ایک سبز بورڈ نصب ہے سڑک سے ہر آتے جاتے کو جاوید منزل کی خوبصورت عمارت
نظر آجاتی ہے ۔ اس کے صحن میں نیم کا وہ درخت بھی موجود ہے جسکے سائے میں
علامہ اقبال استراحت فرماتے تھے درخت کے پہلو میں انکے خدمت گار علی بخش کا
کوارٹر تھا جہاں اب میوزیم انچارج کی رہائش ہے ۔میوزیم کے لان میں اقبال
مرحوم کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض مئی 1982 ء میں ایک مینار کی مانند
یادگار تعمیر کی کئی جسے این سی اے کے استاد احمد خا ن نے ڈیزائن کیا تھا
اسکے چھ پہلو ہیں۔اس یادگاری مینار کی اونچائی 22 فٹ ہے ۔اسکی تعمیر پر چار
لاکھ روپے لاگت آئی تھی ۔اس کے ہر پہلو پر ایک کانسی کی تختی نصب ہے جس پر
علامہ کی سوانح عمری ،خطب الہ آباد اور نظمیں لکھیں گئیں ہیں۔اقبال میوزیم
سے متصل جامع مسجد علامہ اقبال ہے ۔برصغیر کے مسلمانوں اور اسلام کے لئے بے
پناہ خدمات انجام دینے والے اقبال کو زندگی میں بھی خدا کے گھر کی ہمسائیگی
نصیب رہی اور دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ بادشاہی مسجد سے متصل دفن ہوئے
۔ہمیں اپنے اسلاف کی زندگی اور انکے کارناموں اور انکی یادگاروں کو محفوظ
بنا کر ان سے عملی سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔بلا شبہ ہم علامہ اقبال کی
تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم پاکستان کی صیح معنوں میں خدمت کر سکتے
ہیں۔ |