1997 کے عام انتخابات میں مُسلم
لیگ (ن) نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور نوازشریف پاکستان کے
بارھویں وزیراعظم کے طور پر منتخب ہوئے۔سارے عوام نے نوازشریف صاحب کو
مبارک باد دی۔۔ لوگ ایک دوسرے کو بھی مبارکباد دیں رہے تھے۔مہنگائی کا کوئی
نام ونشان نہ تھا۔لوڈشیڈنگ سے لوگ نا آشنا تھے۔پورے ملک میں امن وامان کا
فضاء قائم تھا۔یہ سب اس لئے نہیں کہ نواز شریف پاکستان کا وزیراعظم منتخب
ہوئے بلکہ اس لئے کہ عوام متحدتھے۔ اُس دور میں کوئی بھی شخص اگرصدر یا
وزیراعظم منتخب ہوتا تو عوام اسے مبارک باد دیتے تھے اور بخوشی سے تسلیم
کرتے تھے ۔پارٹی بازی صرف الیکشن کے دنوں تک محدود ہوتا تھا۔ابھی نواز شریف
کی حکومت کاتین سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ مارشل لاء نے اُسے حکومت سے بر
طرف کر دیا ۔پھر پرویز مُشرف صاحب کا دور آتا ہے۔1999 میں پرویز مشرف نے
ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے نواز شریف صاحب کی حکومت کا خاتمہ کیا۔اُس دن
بھی عوام خوشیاں منا رہے تھے۔لوگوں نے پرویز مشرف صاحب کو خوش آمدید کہا ۔جنرل
مشرف نے تقریبا 9 سال حکومت کی اور ملک کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔جس سے ہر کوئی
واقف ہیں۔اس کے بعد زرداری صاحب کا دور آتا ہے۔پرویز مشرف صاحب کے مُسطفی
ہونے اور ملک کو بیج منجدھار میں چھوڑنے کے بعد زرداری صاحب میدان میں قدم
رکھتا ہے۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے لوگوں کی ہمدردیاں بھی پیپلز
پارٹی اور بعد میں آصف علی زرداری کے ساتھ تھی۔اس وقت عوام میں پارٹی بازی
اور منتشر ہونے کی بیماری تقریبا 3 سال سے وائرس کی طرح پھیلنا شروع ہو چکی
تھی۔میں میں اور توتو کا دور شروع ہوچکا تھا۔خیرآمدم برسرمطلب۔۔۔۔۔زرداری
صاحب نے پانچ سال حکومت پوراکیااور پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا
کہ کوئی حکومت اپنا مُدت پورا کر لیا ہو۔
2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی
اور نواز شریف صاحب کو پاکستان کا وزیراعظم منتخب کیاگیا ۔اس بار عوام کا
جزبہ کچھ اور تھا۔نواز شریف صاحب کو وزیر اعظم منتخب ہونے پر ملک میں
ایسانظارہ دیکھنے کو نہیں ملاجیسا کہ پہلے ہوا کرتا تھا۔جب کوئی صدر یا
وزیر اعظم منتخب ہوتا تو عوام خوش ہوجاتے تھے اور اُسے مبارکباد دیتے تھے
لیکن اس بار نہ تو سارے ملک میں خوشیاں تھی اور نہ ہی سارے عوام نے
مبارکباد دی ۔خوشیاں منا رہے تھے تو صرف (ن) لیگ والے، اور کوئی
نہیں۔وزیراعظم صاحب نے خلف بھی نہیں اُٹھایا تھا کہ کچھ لوگوں نے اُن پر
تنقید کے ڈرون حملے شروع کر دیئے تھے۔مجھے نوازشریف صاحب کی اچھائی یا
بُرائی کرنے سے کوئی مطلب نہیں بلکہ میں اس وقت عوام کی منتشر ہونے کا ذکر
کر رہا ہوں۔اس وقت لوگ پارٹیوں میں تقسیم ہو چکے تھے اور جب کسی ملک کے
عوام ایک دوسرے سے منتشر ہوجاتے ہیں تو انکی زوال کادور شروع ہو جاتا
ہے۔امن وامان تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔دشمن کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع
مل جاتا ہے۔
دس سال میں ستر ہزار سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوگئے۔دشمن ہمیں یہ دیکھ کر
نہیں مارتے کہ ہم سُنی ہیں، شیعہ ہیں یا دیوبندی ہیں۔ وہ ہمیں اس لئے بھی
نہیں مارتے کہ ہم مسلم لیگی ہیں، تحریک انصاف والے ہیں یا کسی اور پارٹی
والے، بلکہ وہ ہمیں اس لئے مارتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں لیکن آخر کیا وجہ
ہے کہ ہم آج تک متحد نہ ہوئے ؟؟ اس سوال کا جواب ہم سب کے پاس ہیں لیکن ہم
ماننے کو تیار نہیں۔وجہ ظاہر ہے کہ کوئی عمران خان صاحب کے گیت گاتے ہیں تو
کسی کادل نواز شریف صاحب کے تعریفوں سے نہیں بھرتا۔کوئی سُنی کا لفظ سن کر
خوشی محسوس کر رہا ہے تو کئی شیعہ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔کوئی پنجابی، بلوچی
اور سندھی کی حیثیت سے سوچتا ہے تو کوئی پٹھان کا لفظ سُن کر اپنے آپکو
دوسروں سے الگ تصور کرتا ہے۔اخر ہم کب تک ایسا کرتے رہینگے اور کب تک اس
بیماری میں مبتلا ہوتے رہینگے؟ کیا علامہ اقبال ایسے لوگوں کے لئے ایک الگ
مملکت چاہتا تھا ؟ کیا ہماری بزرگوں نے قربانیاں اپنی پارٹی کو سپورٹ کرنے
کے لئے دی تھی ؟؟ اگر نہیں تو ہم آج تک کیوں متحد نہ ہوئے ؟ کیوں یہ بھول
گئے کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں بہت سے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں؟؟
اگر ہم آج بھی متحد نہ ہوئے تو ہمارا نام مٹ جائے گا۔ دشمن غالب ہوجائے گا
اشائد پھر ہماری سمجھ میں یہ بات آجائیگی کہ آزاد ملک کیا ہوتا ہے اور
آزادی کسے کہتے ہیں۔اس سے پہلے کہ ایساکچھ ہوجائے، ہمیں متحد ہونا ہیں۔اپنا
ملک بچانا ہیں اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم کسی پارٹی کا نہیں اور نہ ہم
منتشرہیں بلکہ ہم ایک ساتھ ہیں۔ ہم سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھان نہیں
۔۔۔۔ صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔۔۔ |