کبھی وقت تھا کہ ٹیلی ویژن پر
بریکنگ نیوز آتی تو لوگ سب کام چھوڑ کر متوجہ ہو جاتے کہ خدانخواستہ کیا
حادثہ ہو گیا۔ جو بریکنگ نیوز کا سبب بنا۔ اب صورتحال بہت مختلف ہے۔ بریکنگ
نیوز آئے تو لوگ منہ موڑ لیتے ہیں اس لئے کہ پتہ ہے کہیں دہشت گردی ہوئی ہو
گی کہیں دستی بم پھٹا ہو گا۔ کچھ ہلاک ہوئے ہوں گے کچھ زخمی ہوئے ہوں گے۔
کہیں ریموٹ کنٹرول بم کے پھٹنے سے کئی ہلاک او رکئی زخمی ہوئے ہوں ۔ یا ہو
سکتا ہے کہ کچھ کار سواروں کی فائرنگ سے کسی فرقے کا کوئی اہم رہنما ہلاک
اور اس کے ساتھی ہلاک یا زخمی ہوئے ہوں گے۔ خود کش حملہ آور ہوا تو کئی
معصوم بچے بے بس عورتیں اور بے گناہ لوگ اﷲ کے پاس پہنچ گئے ہوں گے۔ موٹر
سائیکل سوار کسی سیاسی شخص کو موت کے گھاٹ اتار گئے ہوں گے اور یوں بھی
ہوتا ہے کہ اس ملک کی بد امنی اور قتل و غارت سے بچانے والے ہمارے فوجی یا
پولیس کے جوان درندوں کی بربریت کا شکار ہو کر شہید ہو گئے ہوں۔ خبر دیکھنے
کی ہمت نہیں ہوتی اس لئے کہ خبریں انسانیت سوز واقعات سے پُر، قتل و غارت،
خون، نفرت کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ اب گیند طالبان کی کورٹ میں ہے۔
پتہ نہیں کب گیند ان کی کورٹ میں نہیں تھی اور کب وہ گول نہیں کر رہے تھے۔
مذاکرات کی خوش خبریوں کے ساتھ ساتھ بم کے دھماکے بھی زیادہ تیز رفتاری سے
جاری ہیں۔ یہ حکومت کی کورٹ ہے جہاں گیند کبھی آتا ہی نہیں اور اگر آئے بھی
تو حکومت اپنی مجبوریوں کی وجہ سے گیند کی طرف دیکھتی ہی نہیں۔ حکومت کو
نظر نہیں آتا کہ ملک بھر میں مائیں بچوں کو گھروں سے باہر بھیجتے ہوئے کس
قدر پریشان ہوتی ہیں۔ بیویاں دن بھر اپنے خاوندوں کی غیر موجودگی میں ان کی
سلامتی کی دعائیں مانگنے میں مگن رہتی ہیں۔ ذرہ سی دیر بچوں کو باپوں کے
بارے میں بے چین کر دیتی ہے۔ کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ خدا کا گھر مسجد سب سے
زیادہ غیر محفوظ نظر آتا ہے۔ ہر طرف دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی، اہل حدیث،
وہابی وغیرہ کا ہجوم ہے جس میں مسلمان کا ملنا بڑا مشکل ہو گیا۔ پنجابی،
سندھی، بلوچی، پٹھان اور کشمیری تو بہت نظر آتے ہیں۔ پاکستانیت کا پرچار
کرنے والے کہیں دکھائی نہیں دیتے۔
دہشت گردی نے ہر طرف اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں۔ دہشت گردی ہو یا نہ ہو اس کے
ہونے کا ڈر ہر ذہن میں سما چکا ہے۔ دہشت گردوں کے بھی کئی رنگ روپ ہیں اور
طالبان کے بھی جو دہشت گردی کی علامت ہیں۔ پنجابی طالبان، سرائیکی طالبان،
سندھی طالبان، غیر سندھی طالبان، پٹھان طالبان، قبائلی طالبان، بلوچی
طالبان اور پتہ نہیں کون کون سے طالبان۔ ہر شخص طالبان سے خوف زدہ۔ اگر
نہیں ڈرتے تو میرے محلے کے مولوی صاحب۔ ایک دن میں نے پوچھا مولوی صاحب آپ
کو دہشت گردی اور طالبان سے ڈر نہیں لگتا؟ بولے میری تین بیویاں ہیں میں ان
سے نہیں ڈرتا، طالبان کیا شے ہیں؟
حکومت نے طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے اور جناب عرفان صدیقی، جناب
رحیم اﷲ یوسفزئی، میجر عامر اور رستم شاہ مہمند کو حکومتی مذاکراتی ٹیم کے
طور پر نامزد کیا ہے۔ میں سبھی کو تو نہیں جانتا مگر جن کو جانتا ہوں ان کی
زبان اور بیان کے چکنے پن کا بے حد معترف ہوں۔ نواز شریف نے بھی اسی چکنے
پن سے پھسلنے کے بعد ان کے فن کو تسلیم کر کے یہ نامزدگی کی ہے او رپورے
پروٹوکول کے ساتھ طالبان کو بہلانے اور پھسلانے بھیجا ہے۔ اﷲ کرے طالبان
بھی جلدی پھسل جائیں۔ قوم کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔
ویسے جناب نواز شریف کا کمال ہے کہ بعض کاموں کے لئے وہ بہت کام کے بندے
چنتے ہیں۔ زبان اور بیان سے پھسلانے اور بہلانے کے ماہر جناب عرفان صدیقی
سے پہلے جناب پرویز رشید بھی اپنے فن میں یکتا ہیں۔ الطاف حسین ایک بات
کہتے ہیں تو پوری ایم کیو ایم کو اس بات کو عوام میں اپنی مرضی کے مطابق
ڈھالنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ساری کی ساری جو باتیں کہتی
ہے۔ اکیلے پرویز رشید اسے عوامی مزاج میں ڈھال لیتے ہیں۔ لوگوں کو پتہ ہوتا
ہے کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں مگر ان کے چہرے کی معصومیت اور ہونٹوں پر دبی دبی
مونالیزا نما مسکراہٹ مجبور کرتی ہے کہ ان کی ہر بات کو سچ سمجھا جائے۔
جادو تھا یا کوئی ظلم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہہ رہے تھے اور مجھے اعتبار تھا
طالبان نے مذاکرات کے لئے اپنے جن لیڈروں کو نامزد کیا ہے ان میں عمران خان،
مولانا سمیع الحق، مفتی کفایت، پروفیسر ابراہیم اور مولوی عبد العزیز شامل
ہیں۔ سوچتا ہوں کہ یہ لوگ میرے لیڈر ہیں یا طالبان کے۔ بہر حال یہ تو ہوتا
ہے۔ بلھے شاہؒ نے کہا ہے ’’تیری بُکل دے وچ چور نیں‘‘ مگر یہ لیڈر بہت
معتبر ہیں۔ اﷲ کرے کچھ کر پائیں۔ مگر مجھے یقین ہے کچھ نہیں کر پائیں گے۔
طالبان کی یہ A ٹیم ہے۔ پھر B ٹیم آئے گی۔ پھر C ٹیم اور چلتے چلتے Z ٹیم
بھی۔ مگر طالبان تو ہر وقت منہ پر نقاب رکھتے ہیں اور پہاڑوں کی اوٹ میں
رہتے ہیں۔ وہ کیسے سامنے آئیں گے۔ حکومت جن چیزوں سے گریز کر رہی ہے وہی
چیزیں اصل علاج ہیں۔ اور بالآخر حکومت کو وہی کچھ کرنا ہے جو فوج کو کرنا
چاہئے۔ فیصلہ سیاستدانوں نے کرنا ہے مگر فوج اس ملک میں آخری امید ہے۔
طالبان کو روکنے کی دوسری تدبیر اس ملک میں ہر شخص کو سستا اور آسان انصاف
فراہم کرنا ہے۔ اس ملک میں انصاف کا حصول اس قدر مہنگا اور مشکل ہے کہ عام
آدمی کے لئے اس کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ حکومت آج بھی یہ بات اگر جان لے
اور انصاف کی حقیقی فراہمی کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا شروع کر دے تو دہشت
گردی سمیت بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ |