امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ

تحریک پاکستان کے عظیم مجاہد اور دنیائے تصوف کے عظیم سپہ سالار امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ

اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر خصوصی شفقت فرماتا ہے ۔ اس لئے اس نے اپنی رحمت کا ملہ اور حکمت بالغہ سے انسان کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے اور اسے اپنے مدارج تک رسائی حاصل کرنے میں رہبری و رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً ایسے برگزیدہ نفوس کو بھیجا جو اس کی بارگاہ میں تقرب کامل رکھنے کی وجہ سے اس ذات سے بلا واسطہ (یا بواسطہ روح القدس )فیوضات و برکات حاصل کرتے تھے ۔اور فرمان الہٰی کی رو سے مسند پر متمکن ہوتے تھے ۔

بعثت رسل:یہ مقدس یعنی انبیاء و مرسلین من جانب اﷲ مامور ہوتے تھے ۔کہ انسان کے اعمال و افعال ،عادات و اخلاق اور معاملات و کردار کو خدائی احکام کا پابند بنائیں ۔ اسے معرفت الہٰی اور تقرب خدا وندی کی راہیں بتائیں ۔جن لوگوں نے ان برگزیدہ شخصیتوں کے پیغام پر عمل کیا ،انعامات الہٰی اور احسانات خدا وندی کے مستحق قرار پائے ۔اور جنہوں نے ان کی تعلیمات سے مجرمانہ غفلت برتی اور سرکشی کی وہ دنیا اور آخرت دونوں میں گھاٹے میں رہے ۔‘‘ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے انبیاء و مرسلین مبعوث ہوئے سب کی نبوت زمان و مکان میں محدود تھی ۔ان کی جو تعلیمات دنیا میں باقی ہیں وہ خود شہادت دیتی ہیں کہ ان کا پیغام صرف ان کے زمانے یا ان کی قوم کے لئے محدود و معین تھا اور ان کے احکام شریعت عالم گیر حیثیت اور آفاقی قدروں کے حامل نہ تھے ۔صرف وقت اور ہنگامی تقاضوں کو پورا کرتے تھے ۔لیکن آخر وقت آیا کہ دربار خدا وندی سے وہ ضابطہ حیات بھیجا جائے ،جو گذشتہ پیغامات کی تکمیل کرے اور مخلوق کی رہنمائی کے لئے ابدالآباد تک روشن رہے ۔مولانا محمد علی جوہر مرحوم نے کیا خوب فرمایا ہے :
جب اپنی پوری جوانی پہ آگئی دنیا
تو زندگی کے لئے آخری نظام آیا

چنانچہ نبی اکرم رسول مکرم ﷺ شانِ رحمۃ اللعالمین کے ساتھ منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوئے ۔جنہوں نے تکمیل دیں فرمائی۔

رسول اکرم ﷺ نے جب اس دنیائے فانی سے پردہ فرمایا تو وصیت فرمائی تھی کہ :’’ میں تمہارے درمیان اپنی عترت اور یہ کتاب ’’قرآن حکیم‘ ‘چھوڑ ے جا رہا ہوں ۔جب تک تم اس پر عمل کرتے رہو گے ۔کبھی راہ راست سے نہیں ہٹو گے ۔نیز آپ کا ارشاد ہے ۔ علماء اُمتی کانبیاء بنی اسرائیل ۔ ’’میری اُمت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں ۔‘‘ رسول اکرم ﷺ کے بعد نبوت ختم ہو گئی ۔وحی الہٰی بند ہو گئی ۔ آخری کتاب اتاری جا چکی اور دین ایزدی کی تکمیل ہو چکی ۔ لیکن رحمت خدا وندی اور سنت الہٰی بدستور جاری ہے ۔ اس لئے فرمانِ نبوی کے مطابق صالحین اُمت اور علمائے ربانی کو ارشاد و ہدایت کے اس منصب پر فائز کیا گیا جو بنی اسرائیل کے انبیاء کو حاصل تھا ۔تاکہ دین حق کی تبلیغ و اشاعت جاری رہے اور بندگان خدا رحمت الہٰی سے محروم نہ ہونے پائیں ۔ قرآن مجید میں صالحین ،متقین ،علماء اور اولیاء وغیرہ کا ذکر واضح طور پر موجود ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت الہٰی اور معرفت خدا وندی کے حاملین ہر دور میں پائے گئے ۔ یہی وہ علمائے امتِ محمدیہ ﷺ ہیں جن کوحضور ﷺ نے بنی اسرائیل کی مانند بتایا ہے جو تبلیغ و ارشاد کے منصب پر قائم رہ کر لوائے محمدیﷺ کو سر بلند رکھیں گے اور محبت و معرفت الہٰی کے دروازے دوسروں کے لئے کھولیں گے ۔تاکہ منشاء ایزدی کے مطابق مومنوں کو ’’نعمت الہٰی ‘‘ سے حصہ وافر نصیب ہو ،اور وہ اپنے اندر اخلاق حسنہ اور صفاتِ بر گزیدہ پیدا کر کے انسانیت کے اعلیٰ مدارج تک پہنچ سکیں ۔

بیعت:انسان کے تمام دنیوی معاملا ت میں قول و اقرار اور عہدو پیمان کو خاص مقام حاصل ہے ۔معاملات ،ا قتصادیات ، کاروبار ، سیاسیات ،صلح و امن جملہ اُمور میں روز معاہدے کئے جاتے ہیں اور حلف اٹھائے جاتے ہیں ۔یہی عمل جن ظاہری و باطنی اعمال ،تزکیہ ٔ نفس ،تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح جیسے اہم اور مقدس مقصد کے لئے انجام دیا جاتا ہے ۔تو ’’بیعت‘‘ کی اصطلاح پاتا ہے ۔عقل سلیم اور فہم مستقیم کی رو سے یہ امر منطقی ، سائنسی اور عقلی حیثیت سے بیحد مستحسن ہے ۔

سلاسل طریقت:واضح رہے کہ تمام سلاسل طریقت حق ہیں اور کسی پر نکتہ چینی روا نہیں ،منزل مقصود سب کی ایک ہے ۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اﷲ علیہ خود مختلف سلسلوں میں بیعت لیا کرتے تھے ۔ البتہ آپ کا پسندیدہ سلسلہ طریقۂ نقشبندیہ ہے ۔ اسی سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے ایک درویش کامل ،مومن صالح ،صوفی باصفا، مرد خدا، غوث زماں ،قطب دوراں کی حالات زندگی پر ایک نظر کیجئے۔حضرت امیر ملت قبلہ عالم پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پور ی قدس سرہٗ العزیز فی الواقع اس عصر کے غوث ،قطب تھے ۔آپ مسند ارشاد و ہدایت پر تقریباً ایک صدی تک رونق افروز رہے اور اس تمام مدت میں احیائے دین ،تبلیغ و ارشاد اور سلسلۂ نقشبندیہ کی خدمت سر انجام دیتے رہے ۔

ولادت:حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ کی ولادت 1830ء اور 1840ء کے درمیان ہے ۔ حضرت سید کریم شاہ رحمۃ اﷲ علیہ کے نورِ نظر امیر ملت قبلۂ عالم حضرت سید جماعت علی شاہ رحمۃ اﷲ علیہ نے ہردۂ عدم سے عالم وجود میں ظہورفرمایا ۔

نام:نام رکھنے کا مرحلہ پیش آیا تو جتنے منہ اتنی باتیں ۔ہر شخص نے اپنی رائے اور خیال کے مطابق نام تجویز کیا ۔لیکن آ پ کے والد ِ ماجد نے ’’جماعت علی ‘‘ نام پسند کیا ۔ ’’خدا کی باتیں خدا ہی جانے‘‘ ایک فرد کا نام جماعت انوکھی سی بات ہے ۔لیکن منشائے ایزدی میں یہ امر مضمر تھا کہ یہ فرد ایک نہیں ،اس کے سات ایک جماعت ہو گی ۔لاکھوں انسانوں کی جماعت ،نام کا یہ انتخاب منجانب اﷲ ارشاہ تھا ۔اس عظیم کام کی جانب جو اس فردِ واحد کے ہاتھوں اعلائے کلمۃ الحق اور احیائے سنت نبوی ﷺ کے لئے انجام پانے والا تھا۔

امتیازی صفات:آپ حالت طفلی ہی سے وہ شاہبازِ ولایت تھے کہ اپنے ہم عمروں میں امتیازی صفات کے مالک تھے۔آپ کا بچپن عام بچوں سے جدا گانہ نوعیت رکھتا تھا ۔آپ ابتدا سے ذکر الہٰی میں مشغول رہتے ۔یہاں تک کہ عمر مبارک چار سال چار ماہ چار دن کی ہو گئی ۔تو آپ کے والدِ ماجد رحمۃ اﷲ علیہ نے ابتدائی تعلیم کے لئے مسجد میں بھیج دیا۔

آپ کے والدِ ماجدِ رحمۃ اﷲ علیہ حضرت حافظ شہاب الدین صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کو خاص طور پر اس کام کے لئے قلعہ سوبھا سنگھ سے علی پور شریف لائے تھے ۔حضرت قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ نے حافظ صاحب کا تلمذ اختیار کیا اور سب سے پہلے قرآن مجیدحفظ کیا ۔ حافظ صاحب مرحوم کو خانوادۂ حضرت قبلۂ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کے تمام نو نہالوں کی استادی کا شرف حاصل رہا ۔

پسندیدہ اطوار:حضرت قبلۂ عالم پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ حالت طفلی ہی سے پاکیزہ اخلاق اور پسندیدہ اطوار کے حامل تھے۔ صفائی اور پاکی کا ابتدا سے خصوصی لحاظ تھا ۔خود دار ،بردبار،متواضع ،صاحب مروت اور مہمان نواز تھے ۔لہو و لعب سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا ۔بلکہ ہر بے فائدہ قول و فعل سے گریز فرماتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی لہو و لعب میں وقت ضائع کرنے سے روکتے ۔ہمہ وقت حفظ قرآن میں مشغول اور پڑھائی میں مصروف رہتے ۔’’حضرت قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کبھی تنہا کھانا نہیں کھاتے تھے ۔یا تو اپنے چھوٹے چھوٹے دوستوں کو حویلی کے اندر ساتھ لے جا کر ان کے ہمراہ کھانا تناول فرماتے ۔یا باہر کھانا لے آتے اور ان سب کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے ۔آپ کے سب ساتھی آپ کا احترام کرتے اور آپ کا حکم ماننے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔‘‘

آپ کا لباس نہایت صاف ستھرا ہوتا ۔کبھی جسم کے کسی حصے کو برہنہ نہ ہونے دیتے ۔یہاں تک کہ بحالت غسل بھی کبھی برہنہ نہ ہوئے ۔اپنے ساتھیوں کو بھی تلقین حیا کرتے اور برہنگی سے باز رکھتے ۔آپ کے استاد آپ کے ساتھ خصوصی شفقت سے پیش آتے تھے ۔ آپ کے ذوق و شوق اور محنت و شغف کے باعث دوسرے شاگردوں کے مقابلے میں آپ پر زیادہ توجہ مبذول کرتے تھے ۔

اتباع شریعت:آپ کو بچپن سے اتباع شریعت کا اہتمام تھا۔ جس وقت بچے پر نماز فرض نہیں ہوتی ،اسی عمر سے آپ پابند صلوٰۃ تھے اور کبھی کوئی نماز قضا نہیں ہونے پائی ۔اسی طرح دیگر اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ آپ میں بچپن سے پائے جاتے تھے ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی بچپن سے التزام تھا ۔ چنانچہ آپ کی رفاقت میں رہنے والے دوسرے نو عمر بھی احکامِ شریعت کے پابند ہو گئے تھے ۔ آپ کا فیض عام آپ کے بچپن ہی سے ہر ایک کی رہنمائی کا ضامن تھا ۔

تحصیل علم میں دشواریاں:انیسویں صدی کے وسط میں ذرائع حمل و نقل بے حد دشوار بلکہ ناپید تھے ۔لیکن حکمِ نبوی ﷺ کی پیروی اور سنت سلف کی اتباع میں حضرت قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ نے تحصیل علم کے لئے ہر قسم کی مشکلات کو آسان سمجھا اور دور دور کے سفر کئے ۔انیسویں صدی کے وسط میں عام طور پر نہ سڑکیں تھیں نہ سواریاں نہ ریلیں ۔گھوڑوں پر ،بیلوں کے تانگوں پر اور پید ل سفر کئے جاتے تھے ۔حضرت قبلۂ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کے لاہور تک کے پیدل سفر کے واقعات معلوم ہیں ۔یہ بھی جاننا چاہئے کہ حضور کے والد ماجد رحمۃ اﷲ علیہ زمیندار تھے ۔اس لئے حضرت قبلہ رحمۃ اﷲ علیہ کو تحصیل علم کے لئے سفر کرنے میں ایسی کچھ دشواریوں کا مقابل نہ کرنا پڑتا ہو گا۔ علی پور سیداں سے لاہور تک کا سفر سو ،سوا سو سال پہلے آسان نہ تھا اور حضور صبح پیدل چلتے تھے اور شام تک لاہور پہنچ جاتے تھے ۔آپ کے اساتذہ کرام کے صرف نام جان لینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ آپ نے سہارنپور ،کانپور، لکھنو اور گنج مراد آباد جیسے دور دراز مقامات پر جا کر تحصیل علم فرمائی تھی اور مشکلات سفر و حضر کو سہل جانا تھا اور یہ تمام سفر پیدل یا گھوڑے پر کئے ۔

علم و فضل میں یگانۂ روزگار: حضور قبلۂ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کو ذہن وقاد ،طبع سلیم اور عقل کامل فطری طور پر عطا ہوئی تھی ۔ اُستاد ان کامل الفن نے خصوصی توجہ سے ان میں اور چمک پیدا کر دی۔ علوم عقلی و نقلی پر عبور کامل حاصل کرنے کے ساتھ ہی آپ باطنی و روحانی ترقیاں حاصل کرتے رہے ۔چنانچہ دنیا پر روشن ہے کہ آپ حفظ میں امام ذہبی رحمۃ اﷲ علیہ اور ضبط میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ کے ہم پلہ ہوئے ۔تو فصاحت میں حسان عصر اور خطبا ت میں یکتائے دہر بنے ۔

حضرت قبلہ و کعبہ بابا جی رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت:انہی ایام میں شاہباز ولایت ،قطب زماں ، حضرت بابا فقیر محمد صاحب چوراہی نقشبندی رحمۃ اﷲ علیہ علی پور سیداں شریف کے قریب ہی ۔موضع چک قریشیاں ضلع سیال کوٹ میں مولوی غلام نبی صاحب کے یہاں تشریف لائے ۔ اطلاع ملتے ہی حضرت قبلۂ عالم رحمۃ اﷲ علیہ حضرت باباجی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضرت بابا جی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے کمال شفقت فرمائی اور سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں داخل فرمایا اور خاص توجہ اور مسرت کا اظہار کیا ۔

اعطائے خلافت:کچھ عرصہ کے بعد قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ حضرت بابا جی صاحب کی خدمت میں چورہ شریف حاضر ہوئے۔یہ آپ کی چورہ شریف میں پہلی حاضری تھی ۔جب واپس ہونے لگے تو حضرت بابا جی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی دستار مبارک اتار کر حضرت قبلۂ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کے سر پر رکھ دی۔ خلافت سے سرفراز فرمایا ۔اور فرمایا کہ ’’یاد الہٰی کیا کرو اور لوگوں کو اﷲ کا نام بتایا کرو۔‘‘

توسیع سلسلۂ عالیہ:آپ نے ارشاد شیخ کے مطابق ساری عمر تبلیغ دین اور ترویج سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں صرف کی ۔ حضرت قبلہ باباجی رحمۃ اﷲ علیہ سیف زبان اور غوث زمان تھے ۔جو فرمادیتے تھے ویسا ہی ظہور میں آتا تھا ۔حضرت قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں بھی ان کے ارشادات لفظ بلفظ پورے ہوئے ۔پشاور اور کشمیر سے مدارس اور میسور تک اور بمبئی سے کلکتہ اور دار جیلنگ تک آپ کے لاکھوں مرید پھیلے ہوئے ہیں ۔بلکہ افغانستان ،برما مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ تک میں حضور کے غلام موجود ہیں ۔

بڑے بڑے علماء اور فضلاء نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی ۔مغربی تعلیم حاصل کرنے والوں میں بھی لاتعداد آپ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوئے ۔جن میں پروفیسر ڈاکٹر،وکیل ،ماسٹر اور افسر شامل ہیں ۔حضور کے فیض و توجہ سے ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی جو باوجود اعلیٰ انگریزی تعلیم کے علومِ دینیہ سے بخوبی واقف ہے ۔ پنجاب ،یوپی ،حیدرآباد ،دکن ،میسور اور دیگر مقامات پر ایسے بہت حضرات تھے ۔جنہوں نے اپنے اپنے حوصلہ کے مطابق حضرت قبلۂ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کی تبلیغ و ارشاد کو آگے بڑھانے میں کارنامے انجام دیے اور فیض و ہدایت کو عام کیا ۔

کبھی چندہ نہیں طلب کیا:حضور قبلۂ عالم پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پور ی رحمۃ اﷲ علیہ نے کسی دینی ، فلاحی یا قومی کام میں دوسروں سے کبھی چندہ طلب نہیں کیا ۔مگر ہوتا یہ کہ آپ کے عطیہ سے از خود سب کو تحریک ہوتی اور روپوں کی ریل پیل ہو جاتی ، مساجد ،مدارس اور دوسرے فلاحی و قومی اداروں میں اس فراخ دلی سے چندہ مرحمت فرماتے کہ لوگ حیران رہ جاتے تھے ۔

ردِ مرزائیت:جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو مسلمان بے حد مضطرب ہوئے ۔سب علماء اور صلحاء نے اس کے دعوے کی تکذیب کی اور دین متین میں اس نئے رخنے کا سدِ باب کرنے کی مساعی میں مصروف ہو گئے ۔حضرت امیر ملت قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ اس جماعت کے سپہ سالار تھے ۔ اور ابتدا سے کامل سر گرمی کے ساتھ مرزا کی مخالفت اور تکذیب فرماتے رہے ۔جہاں ضرورت ہوتی آپ فوراً پہنچ کر انسدادی اور تبلیغی کام شرو ع کر دیتے اور مسلمانوں کے دین ایمان کے تحفظ میں مشغول ہوجاتے ۔مرزا اور مرزائیوں سے ان مخالفتوں کی داستان بہت طویل ہے ۔

سیالکوٹ میں:نومبر 1904ء میں سیالکوٹ کے مسلمان وفد بنا کر حضور امیر ملت رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس آئے اور اطلا ع دی کہ مرزا غلام احمد اپنے مذہب کی تبلیغ کے لئے سیال کوٹ آنے والا ہے ۔ آپ فوراً سیالکوٹ پہنچ گئے اور مختلف بازاروں ،محلوں اور مسجدوں میں بڑے پیمانے پر جلسے منعقد کئے۔
دوسرے علما ء کو بھی باہر سے دعوت دے کر بلایااور دوسروں کی تقریروں کے بعد آپ خود وعظ کہتے اور ختم نبوت کے مسئلے کو تفصیل سے سمجھاتے۔ دین متین اور عقائد حقہ پر قائم رہنے کی تاکید فرماتے تھے ۔حضور امیر ملت رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے کہ ’’ دوسری نئی چیزوں کے اختیار میں کوئی مضائقہ نہیں ،لیکن دین اپنا وہی پرانا رکھو ۔‘‘ چنانچہ آپ نے کم و بیش ایک ماہ سیالکوٹ میں قیام فرمایا ۔ اس دوران تمام اہتمامات کا بارخود برداشت کیا ۔ اپنے اور رفقا کے لئے گھر سے برابر سامان خورد و نوش منگواتے رہے ۔مسلمانا نِ سیالکوٹ نے ان اجتماعات اور مواعظ حسنہ سے کامل فیض پایا اور خدا کے فضل سے مِرزا کو تمام عمر یہ ہمت نہ ہوئی کہ سیالکوٹ کا رُخ کرتا۔

تحریک قیام پاکستان’’1940ء میں جب قرار داد لاہور پاس ہوئی تو آپ نے اس کی زبر دست حمایت کی اور پاکستان کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ایک سرگرم مبلغ کی حیثیت سے مسلمانان پاک و ہند کو بیدار کیا ۔آپ مسلم لیگ کے زبر دست حامی تھے ۔قائد اعظم کی مقبولیت کے لئے کام کرتے رہے ۔پیر صاحب نے اپنے مریدوں سے کہہ رکھا تھا کہ میں اس شخص کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھاؤں گا جس نے تحریک پاکستان میں کسی نہ کسی رنگ میں حصہ نہ لیا ہو۔‘‘

آپ کا سالانہ عرس مبارک 11,10مئی کو وارث علوم حضرت امیر ملت جانشین و سجادہ نشین امیر ملت حضرت پیر سید منور حسین شاہ جماعتی سجادہ نشین دربار عالیہ حضرت امیر ملت علی پور سیداں شریف کی زیر صدارت منعقد ہوتا ہے ۔جس میں ملک و بیرون ملک سے لاکھوں عقیدت مند شرکت کرکے روحانی فیوض حاصل کر تے ہیں ۔عرس مبارک کی سرپرستی پیر سید خورشید حسین شاہ جماعتی سرپرست آستانہ عالیہ حضرت امیر ملت علی پور سیداں شریف فرماتے ہیں اورپیر سید مظفر حسین شاہ جماعتی ، پیر سید ذاکر حسین شاہ جماعتی اور دیگر مشائخ و سادات مہمانانِ خصوصی ہوتے ہیں۔ پوری دنیا سے آنے والے زائرین اپنی روحانی پیاس بجھاتے ہیں اور علماء و مشائخ حضرت امیر ملت رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں ۔

آپ کا 63واں سالانہ عرس مبارک 11,10مئی کو سجادہ نشین پیر سید منور حسین شاہ جماعتی کی زیر صدارت دربار عالیہ حضرت امیر ملت علی پور سیداں شریف پر منعقد ہو رہا ہے -

Peer Owaisi Tabasum
About the Author: Peer Owaisi Tabasum Read More Articles by Peer Owaisi Tabasum: 85 Articles with 166624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.