اشفاق احمد نے ٹی وی ٹاک میں ایک بار بتا یا کہ طالب علمی
کے زمانے میں ہم ہندوستان میں گھر، گھر جا کر پاکستان کے لیے رائے عامہ
ہموار کرتے تھے۔ ایک بزرگ نے پوچھا کہ الگ ملک بنانے کا کیا فائدہ ہوگا تو
میں نے عرض کیا بابا جی پاکستان آپ کا اپنا ملک ہوگا۔ وہاں کی فوج آپ کی
ہوگی، وہاں حکمران آپ خود منتخب کریں گے، تھانہ آپ کا ہوگا، کچہری آپ کی
ہوگی۔ تعلیم عام ہو گی، اسلام کے مطابق زندگی بسرہوگی۔ جب آپ تھانے جائیں
گے تو تھانیدار کھڑا ہوکر آپ کا استقبال کرے گا، آپ کو کرسی پیش کرے گا اور
آپ کا مسئلہ حل کرے گا۔ عدالتوں میں انصاف ہوگا۔ اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ
یہ باتیں سن کر دیہاتی کا چہرہ روشن ہوگیا اور اس نے کہا ماریں گے مر جائیں
گے، پاکستان بنائیں گے۔ اشفاق احمدنے یہ بھی بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد
میں ہمیشہ مشرقی پنجاب کے بزرگوں سے خوف کھاتا تھا کہ کہیں کسی سے آمنا
سامنا ہوگیا تو اس نے میر ی ایسی تیسی کر دینی ہے۔ کچھ یہی معاملہ ہم
کشمیریوں کا بھی ہے۔ کشمیریوں کو 1947 ء میں ایک طرح سے آزادی ملی، مقبوضہ
کشمیر سے بھی ہزاروں خاندان ہجرت کرکے آزادکشمیر چلے آئے۔ ڈوگرہ راج کے پسے
ہوئے لوگوں نے آزادی سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔
میرے نانا محترم مولانا عبدالرحمن رحمتہ اﷲ علیہ پونچھ سے باغ تک ہجرت کے
سفر کی روداد سناتے تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے۔ مقبوضہ کشمیر سے ہزارو ں لوگ
اپنا گھر بار چھوڑ کر ایسے ہی خواب آنکھوں میں سجائے سب کچھ قربان کرکے
آزادکشمیر چلے آئے۔ کیا قربانی ہے جو اس آزادی کے لیے پیش نہیں کی گئی لیکن
صلے میں کیا ملا، عصبیتیں، نفرتیں، ظلم، ناانصافی، اقربہ پروری، رشوت،
سفارش ، دھونس ، دھاندلی، برادری ازم، فرقہ واریت، علاقائیت۔ سکول تو ملے
لیکن علم ناپید ہے، اساتذہ مفادات اور سیاست میں مصروف ہیں۔ کہیں دور، دراز
ہسپتال تو ہے لیکن نہ ڈاکٹر نہ دوائیاں، جہاں ڈاکٹر ہے وہ ہسپتال کے بجائے
کلینک پر ملتا ہے۔ دفاعی ضرورت کے لیے سٹرکیں تو بنی لیکن ٹوٹ پھوٹ کر
کھنڈرات بن گئے۔انصاف ایسا کہ عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے بابا قبرستان
پہنچ گیا اور مسل کباڑ خانے میں جا چکی ہے۔ پہلے تو سکولوں میں استاد آتے
ہی نہیں، جب سے خواتین نے استادی شروع کی ہے، انہوں نے تو حد ہی کر دی
ہے۔بااثر قبائل کی خواتین سکول حاضر ہونے میں توہین محسوس کرتی ہیں اور
تنخواہ لینے کو اعزاز سمجھتی ہیں۔ اس طرح کی روزی کھانے سے جو کچھ برآمد
ہوتا ہے، وہ کھلے راز کی طرح عیاں ہے۔ جو بیوقوف اس کے باوجود چند جماعتیں
پڑھ لے تو ملازمت کے لیے دھکے کھانے کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں کے
ہوٹلوں میں برتن دھوتے اور ٹیبل صاف کرتے زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہوتا
ہے۔ سیاسی کارکن نعرے بازی، لابنگ، جنگلات ، ملازمتوں، تبادلوں ، ٹھیکوں ،
الاٹ منٹوں کی فائلوں سے روزی کماتے اور خسرہ جات پر قبضے کا کاروبار کرتے
ہیں۔ جن کو یہ میسر نہ ہو وہ منشیات کی نذر ہو جاتے ہیں۔
پٹواری دھڑلے سے رشوت لیتا ہے، جج گھروں میں ڈیل کرتے ہیں لیکن ریڈر کورٹ
روم میں دراز کھول کر بیٹھا ہوتا ہے، پولیس اہل کار شاہراہوں پر جیب کاٹتے
ہیں۔ محاسب (اے جی آفس ) میں ہر کام کے ریٹ طے ہیں۔ پی ڈبلیو ڈی، لوکل
گورنمنٹ میں بل پاس کروانے کے لیے کمیشن ریٹ لسٹ کر طرح عام ہے۔ سرکاری
خزانے کی لوٹ مار شیر مادر کی طرح جائز قرار پاتی ہے۔ میرٹ کا کہا جائے تو
جواب ملتا ہے ، یہ جانور کہیں کوہالہ پار میں بستا ہے۔ حق اسی کا جو چھین
لے۔ عدل اس کا جو خرید لے۔ ملازمت اس کی جو قیمت چکا سکے۔ تبادلہ اس کا جو
منتھلی دے سکے۔
سیاست کیا ہے، نظریات کے بجائے قبائل کی بالادستی کا قانونی کاروبار، مال
کمانے، دولت بنانے اور سرکاری وسائل (بیت المال) پر عیاشی کرنے سے عبارت
ہے۔ سیاستدان جن کی نہ جائیدادیں تھی نہ کاروبار وہ ریاست کے رئیس بن چکے
ہیں۔ نظام کیا ہے، ایسے حرام خوروں کو تحفظ دینے کا نام قانون اور نظام
حکومت ہے۔ پچاس کے قریب ممبران اسمبلی ، وہ بھی سارے فلیگ ہولڈرز، کیا معنی
ہیں؟ یعنی سب کے سب بلیک میلر ، جس کو فلیگ نہیں ملے گا، وہ ’’ہارس‘‘ بن
جائے گا۔ کسی کو کسی پر اعتماد نہیں، مال و دولت کے علاوہ کوئی نصب العین
نہیں رہا، کئی نظریہ اور کوئی حد باقی نہیں رہی۔ مفاد کے لیے خودمختاری
والا الحاق کے نعرے لگانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا اور الحاق کا
دعویدار چند ٹکوں سے بھری ٹوکری کے لیے خودمختاری پر مرمٹتا ہے۔ اسلام کے
دعویداروں کو چند ٹکے نظر آئیں تو وہ بھی ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ صوبیداروں اور
حوالدروں کی ایما پر پالیسیاں بنانے والے، مری اور اسلام آباد سے اقتدار کی
بھیک مانگنے والے ہمارے مسیحا قرار پاتے ہیں۔ اسلام آباد میں بدلتے حالات
کے مطابق وفاداریاں تبدیل کرنے والے دستور پر حلف لیتے ہیں۔ یہ حلف تو سب
کچھ ڈکار جانے کا پرمٹ لگتا ہے۔ پتہ نہیں ان کا خدا کون سا ہے، جس کے نام
پر حلف اٹھاکر لوٹ مار کرتے شرماتے بھی نہیں۔ اچھے بھلے شریف آدمی کے ہاتھ
میں قلم آجائے تو وہ بھی دیہاڑی لگانے کے لیے جرنلسٹ کہلاتا ہے۔ سیاستدانوں
کا کیا رونا، عوام بھی نوکری اور ٹرانسفر تک پر بک جاتے ہیں، اپنا سب کچھ
گندی نالی میں پھینک دینے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔
پوری ریاست میں اس ظلم کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ کسی مسجد، کسی محراب،
کسی خانقاہ، کسی مدرسے، کسی تربیت گاہ، کسی سیاسی جلسے اور کسی دانش گاہ
میں اس ظلم کے آگے کھڑے ہونے کی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ سب کے سب حصہ دار
ہیں، کچھ براہ راست ہیں اور کچھ بلواسطہ استفادہ کر رہے ہیں۔اس اندھیری رات
میں تبدیلی کے خواہش مند کہیں ڈھونڈے کو نہیں ملتے۔ سیاہ رات کے اندھیرے دن
بدن پھیلتے جارہے ہیں۔ ظلم ، جس کی راہ روکنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔
گفتار کے غازی لا تعداد ہیں، کردار ناپید ہے۔ سب نے اس اندھیری رات کے راج
سے سمجھوتہ کر رکھا ہے۔ سب لوگ اس نظام کو کندھا دے رہے ہیں یعنی اس کی
رکھوالی کر رہے ہیں۔ کہیں سے بغاوت کی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ آپ کو کہیں
سے کچھ سنائی دے تو مجھے بھی بتا دیں، میری قوت سماعت جواب دے گئی ہے یا
رہبر رہزنوں کے جا ملے ہیں، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ بھارت کی چیرہ دستیوں
کے لیے نمائشی احتجاج تو ہوتا ہے لیکن اپنے گھر میں لگی آگ بجھانے کے لیے
کوئی تیار نہیں، کیوں آگ لگانے والے تمہارے چاچے تائے جو ہوئے۔ عوام پر
مہنگائی کے درے برسانے والوں کا ہاتھ کوئی نہیں پکڑتا، رشوت خوروں، کمیشن
خوروں اور عوام کا خون چوسنے والوں کے بارے میں بات کرنے والا کوئی نہیں۔
تعلیمی اداروں کی زبوں حالی اور قوم کے نونہالوں کے مستقبل سے کھیلنے والوں
کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کہاں ہیں تبدیلی کے علمبردار، کہاں ہیں اسلام کا منصفانہ نظام لانے والے،
ان کی زبانیں گنگ کیوں ہوگئی ہیں۔ ان کے قلم کی سیاہی خشک کیوں ہو گئی ہے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رب کی بندگی کا اعلان کرنے والے بھی موجود ہوں اور
معاشرے میں ظلم بھی جاری رہے۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ ظلم کو چیلنج کرنے والے
بھی موجود رہیں اور مظلوم بے سہارا بھی ہو۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ عدل و انصاف
کے علمبردار بھی موجود ہوں اور انصاف کی منڈی لگی رہے۔ باریک بینی سے
دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سب سمجھوتہ کار ہیں یا کوئی انقلابی بھی ہے۔ مجھے
ڈھونڈے نہیں ملا، قارئین کو مل جائے تو خبر دیں۔ آپ متلاشی ہوں نہ ہوں مجھے
کسی مرد مجاہد کی تلاش ہے۔ میں اس ظلم کے نظام سے سمجھوتہ نہیں کرپارہا۔
میں آگ کے ان شعلوں سے الجھنا چاہتا ہوں، جو پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے
چکی ہے۔ کیا آپ ان شعلوں کی لپیٹ میں آنا چاہتے ہیں یا اسے مٹا نے پر تیار
ہیں؟
|