کیا پاکستان امریکہ کی بیوی ہے؟

ہلیری کو پاکستان کی حالت زار وقطار دیکھ کر ہلکی پھلکی باتیں کرنے کا موقع نہیں ملا۔ پاکستانی حکام جسے حالت جنگ کہہ رہے ہیں وہ یہی حالت زار و قطار ہے۔ یہ حالت زار سے بھی اگلی حالت ہے رونا اچھی کیفیت بھی ہے رونا دھونا بدنصیبی، بزدلی اور کمزوری ہے۔ شاید یہ پہلی امریکی اہلکار ہے جس نے محسوس کیا کہ حکام کے علاوہ عوام سے بات کی جائے۔ وہ سینئر صحافیوں سے اسلام آباد اور لاہور میں ملیں اور اسے پاکستان کے امریکہ کے لئے اصل جذبات کا پتہ چلا جن میں نفرت بھی ہے لیکن نجانے کیوں ہلیری اور صدر اوباما سے ابھی پاکستانیوں کو نفرت نہیں ہوئی مگر لگتا ہے کہ کالا صدر گورے صدر سے اور گوری وزیر خارجہ کالی وزیر خارجہ سے مختلف نہیں ہلیری نے سیاستدانوں میں تفریق کی۔ چودھری پرویز الٰہی نے امریکی سفارت خانے جا کے ہلیری کو ملنے سے انکار کر دیا اگر کچھ سیاستدان یہ نہ کر سکیں تو کم از کم ہلیری کے سامنے لجاجت نہ کریں نمائندگی کریں۔ نوازشریف نے ہلیری سے کیری لوگر بل، ڈرون حملوں اور بلیک واٹر پر بات کی۔ اچھی بات ہے مگر انہوں نے یہ بات صدر زرداری سے کیوں نہیں کی۔ ہلیری نے نواز
شریف سے کہا کہ مختلف سیاسی معاملات میں آپ کی پالیسی میں تضاد ہے۔

ہلیری اس دفعہ صحافیوں اور سٹوڈنٹس کے ہتھے چڑھ گئیں تو وہ چڑھائی نہیں کر سکیں، ورنہ امریکہ سے لوگ صرف چڑھ دوڑنے کو آتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں سٹوڈنٹس نے ہلیری کی مسکراہٹ کو گھبراہٹ میں بدل دیا۔ ڈرون حملے روکنے کے سوال پر ہلیری شرمندہ ہوئی مگر شرمانے کی اداکاری کی۔ شرمندہ ہونے اور شرمانے میں فرق ہے اور ایک عورت اسے خوب سمجھتی ہے۔ بھارت کو پاکستان پر ترجیح دینے کی بات پر ہلیری پھنس گئی مگر بے وفا محبوب ہی اچھا لگتا ہے۔ ہمارے حکمران تو امریکہ کے لئے ذلیل و خوار ہو گئے ہیں۔ غیرت اور حمیت بھی بھلا دی، اپنے وطن کے معصوم لوگوں کو مظلوم اور محروم لوگوں کی صف میں خاکستر کر دیا، مگر امریکہ کا دل نہ پسیجا۔ جب پاکستان امریکہ کے ساتھ تھا تو بھارت اس کے دشمن روس کے ساتھ تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت کہیں نہیں ہے اور ہم آگے آگے ہیں۔ امریکہ پر بُرا وقت آیا تو بھارت اس کے ساتھ نہیں ہو گا امریکہ کسی بھروسے کے قابل نہیں اور پاکستان کے بغیر وہ یہاں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ تندو تیز سوال کرنے والوں میں ابرار الحق کی یوتھ پارلیمنٹ کے نوجوان نمایاں تھے۔ ڈاکٹر خالد آفتاب کے لئے بھی میرے دل میں قدر پیدا ہوئی کہ انہوں نے چاہا تو یہ سچی باتیں ہو سکیں۔ ان کے ابتدائی کلمات میں اس عظیم ادارے کے لئے پیش خیالات اچھے لگے اسلام آباد میں معید پیرزادہ، طلعت حسین، حامد میر، نسیم زہرا کے ساتھ گفتگو میں ہلیری نے کہا کہ مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ امریکہ کے لئے پاکستانیوں کا ردعمل کتنا شدید ہے ورنہ جو ردعمل (خوشامدانہ اور غلامانہ) پاکستانی حکمرانوں کا ہوتا ہے وہ تو ازلی عمل ہوتا ہے اسی لئے وہ امریکی ردی کی ٹوکری میں چلا جاتا ہے اب یہ ردی کا ٹوکرہ بن چکا ہے۔ میڈیا کے ان بہادر لوگوں کے علاوہ کچھ ایسے بھی میڈیا میں ہیں جن کا رویہ پاکستانی حکمرانوں سے مختلف نہیں۔ پہلے وہ روس کی جھولی میں تھے جب اس نے افغانستان پر حملہ کیا تھا اور اب امریکہ کے قدموں میں پڑے ہیں انہوں نے پہلے انہیں پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھوں کی گندگی چاٹنا ہوتی ہے۔ امریکی تلوے چاٹنے کی باری اس کے بعد بلکہ اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ لاہور میں سینئر صحافیوں نے ہلیری سے ملاقات کے لئے دو گھنٹے انتظار کرایا مگر یہ ملاقات بے ساختہ تھی اس میں اشعار سنائے گئے کسی نے ان کا ترجمہ کیا۔ پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی مرزا غالب نے سو سال پہلے کر دی تھی۔ دوستی اور غلامی میں فرق کرنا چاہئے....
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا

ہلیری نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے روابط میاں بیوی کے تعلقات کی طرح ہیں مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ امریکہ اور پاکستان میں بیوی کون ہے۔ اگر بیوی ہے تو اس کا مظلوم ہونا ساری دنیا میں مشہور ہے وہ بے چاری عمر بھر اپنے خاوند کی محتاج رہتی ہے اس کی سختیاں اور زیادتیاں برداشت کرتی ہے۔ بیویاں بھی اپنے خاوندوں کے لئے مصیبت بنتی ہیں مگر شوہر یہ مخول بنائے رکھتا ہے کہ اس کی بیوی بہت ڈاہڈی ہے وہ کبھی اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیتا یہ بھی اس کا ہتھیار ہے۔ ہلیری کہتی ہے کہ امریکہ پاکستان کو طلاق نہیں دے گا ہمارے بزدل اور بے غیرت حکمران سوچیں کہ ریاست کسی کی بیوی نہیں ہوتی اور اس کے کئی خاوند نہیں ہوتے۔ عورت اچھی ہوتی ہے جب بیوی بنتی ہے تو بلا بن جاتی ہے صرف اپنے شوہر کے لئے۔ مگر رہتی محکوم ہے۔ دنیا میں 90 فیصد سے زیادہ ازدواجی معاملات بگڑے ہوئے ہیں جو بگڑے ہوئے نظر نہیں آتے وہ بھی بگڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس میں حقوق اور مطالبات کا بہت دخل ہے کوئی مرد گھر سے باہر کسی عورت کو اوئے نہیں کہہ سکتا وہ بالعموم گھر سے باہر اپنی بیوی کو بھی کچھ نہیں کہتا مگر گھر کے اندر اس کی حکومت ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ کو مالک اور ڈکٹیٹر سمجھتا ہے اسے نکاح کی صورت میں لائسنس ملا ہوتا ہے اور وہ ظلم کرنے اور توہین کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ جو فعل عورت کے لئے ناقابل معافی ہے وہ فعل مرد اپنا حق سمجھتا ہے۔ ہمیں تو امریکہ ڈکٹیٹ کرتا ہے مگر بھارت کو کچھ نہیں کہتا تو کیا بھارت کے ساتھ امریکہ کے ناجائز سیاسی تعلقات ہیں یا وہ اس کی برصغیر میں دوسری بیوی ہے اگر افغانستان بھی بیوی ہے تو وہ تیسری بیوی ہوگی روس کے ساتھ پاکستان کا کوئی تعلق نہ تھا اور بھارت کی روس سے دوستی تھی اب امریکہ کے ساتھ اس کی دوستی ہے کہیں وہ امریکہ کو بھی فلرٹ تو نہیں کر رہا بلکہ کر رہی ہے۔ اس وقت بھی ہم امریکہ کے لئے قربان ہو رہے ہیں اور بھارت پر وہ قربان ہو رہا ہے۔ چنانچہ بھارت امریکہ کی بیوی نہیں اور کچھ ہے جو کچھ وہ ہے قارئین سمجھ گئے ہونگے۔!

ہلیری نے بھی کہا کہ القاعدہ پاکستان میں ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اب پاکستان کی جنگ ہے۔ ہماری جنگ ہے تو ہم خود نبڑ لیں گے تم روز روز کیوں پاکستان بھاگے آتے ہو؟ ہمارے جنرل کیانی نے کہہ دیا ہے کہ وزیرستان میں ملٹری آپریشن کے لئے ہمیں کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔ یہ امریکہ اور پاکستانی حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ امریکہ کو پتہ ہے کہ یہاں پاک فوج کی مدد کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اب بھی سب سے پہلی ملاقات ہلیری اور کیانی کی ہوئی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک اس خطے سے امریکہ جائے گا نہیں امن نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ آخر میں ہلیری کے لئے ایک لطیفہ کہ وہ خود ایک بیوی ہے : اپنے شوہر کے مرنے پر بیوی بین کر رہی تھی کہ مجھے آج پہلی بار پتہ چلا ہے کہ تم کہاں جا رہے ہو۔؟
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 19039 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.